وَاٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًـا وَّاٰخَرَ سَيِّئًا ۗ عَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّتُوْبَ عَلَيْهِمْ ۗ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
کچھ اور لوگ ہیں جنہوں نے اپنے قصوروں کا اعتراف کر لیا ہے ان کا عمل مخلوط ہے، کچھ نیک ہے اور کچھ بد، بعید نہیں کہ اللہ ان پر پھر مہربان ہو جائے کیونکہ وہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے
English Sahih:
And [there are] others who have acknowledged their sins. They had mixed [i.e., polluted] a righteous deed with another that was bad. Perhaps Allah will turn to them in forgiveness. Indeed, Allah is Forgiving and Merciful.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
کچھ اور لوگ ہیں جنہوں نے اپنے قصوروں کا اعتراف کر لیا ہے ان کا عمل مخلوط ہے، کچھ نیک ہے اور کچھ بد، بعید نہیں کہ اللہ ان پر پھر مہربان ہو جائے کیونکہ وہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اور کچھ اور ہیں جو اپنے گناہوں کے مقر ہوئے اور ملایا ایک کام اچھا اور دوسرا بڑا قریب ہے کہ اللہ ان کی توبہ قبول کرے، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے،
احمد علی Ahmed Ali
اور کچھ اور بھی ہیں کہ انھوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا ہے انہوں نے اپنے نیک اور بد کاموں کو ملا دیاہے قریب ہے کہ الله انہیں معاف کر دے بے شک الله بخشنے والا مہربان ہے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
اور کچھ لوگ ہیں جو اپنی خطا کے اقراری ہیں (١) جنہوں نے ملے جلے عمل کئے تھے، کچھ بھلے اور کچھ برے (٢) اللہ سے امید ہے کہ ان کی توبہ قبول فرمائے (٣) بلاشبہ اللہ تعالٰی بڑی مغفرت والا بڑی رحمت والا ہے۔
١٠٢۔١ یہ وہ مخلص مسلمان ہیں جو بغیر عذر کے محض سستی کی وجہ سے تبوک میں نبی کے ساتھ نہیں گئے بلکہ بعد میں انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا، اور اعتراف گناہ کر لیا۔
١٠٢۔٢ بھلے سے مراد وہ اعمال صالحہ ہیں جو جہاد میں پیچھے رہ جانے سے پہلے کرتے رہے ہیں جن میں مختلف جنگوں میں شرکت بھی کی اور ' کچھ برے ' سے مراد یہی تبوک کے موقع پر ان کا پیچھے رہنا۔
١٠٢۔٣ اللہ تعالٰی کی طرف سے امید، یقین کا فائدہ دیتی ہے، یعنی اللہ تعالٰی ان کی طرف رجوع فرما کر ان کے اعتراف گناہ کو توبہ کے قائم مقام قرار دے کر انہیں معاف فرما دیا۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
اور کچھ اور لوگ ہیں کہ اپنے گناہوں کا (صاف) اقرار کرتے ہیں انہوں نے اچھے برے عملوں کو ملا جلا دیا تھا۔ قریب ہے کہ خدا ان پر مہربانی سے توجہ فرمائے۔ بےشک خدا بخشنے والا مہربان ہے
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
اور کچھ اور لوگ ہیں جو اپنی خطا کے اقراری ہیں جنہوں نے ملے جلے عمل کیے تھے، کچھ بھلے اور کچھ برے۔ اللہ سے امید ہے کہ ان کی توبہ قبول فرمائے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت واﻻ بڑی رحمت واﻻ ہے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
دوسرے کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا ہے (مگر) انہوں نے نیک اور بدعمل خلط ملط کر دیے ہیں بہت ممکن ہے کہ اللہ ان کی توبہ قبول کرے۔ (اور ان پر رحمت کی نظر ڈالے) بے شک اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور دوسرے وہ لوگ جنہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا کہ انہوں نے نیک اور بداعمال مخلوط کردئیے ہیں عنقریب خدا ان کی توبہ قبول کرلے گا کہ وہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
اور دوسرے وہ لو گ کہ (جنہوں نے) اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیا ہے انہوں نے کچھ نیک عمل اور دوسرے برے کاموں کو (غلطی سے) ملا جلا دیا ہے، قریب ہے کہ اﷲ ان کی توبہ قبول فرمالے، بیشک اﷲ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
تساہل اور سستی سے بچو
منافقوں کا حال اوپر کی آیتوں میں بیان فرمایا جو اللہ کی راہ میں جہاد سے بےایمانی، شک اور جھٹلانے کے طور پر جی چراتے ہیں اور شامل نہیں ہوتے۔ اس آیت میں ان کا بیان ہو رہا ہے جو ہیں تو ایمان دار اور سچے پکے مسلمان۔ لیکن سستی اور طلب راحت کی وجہ سے جہاد میں شامل نہ ہوئے۔ انہیں اپنے گناہوں کا اقرار ہے، اللہ کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ان کی نیکیاں بھی ہیں۔ پس یہ نیکی بدی والے لوگ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہیں اس کی معافی اور درگذر کے ماتحت ہیں۔ یہ آیت گو معین لوگوں کے بارے میں ہے لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہے، ہر مسلمان جو نیکی کے ساتھ بدی میں بھی ملوث ہو وہ اللہ کے سپرد ہے۔ مجاہد (رح) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو لبابہ (رض) کے بارے میں یہ آیت اتری ہے جب کہ انہوں نے بنو قریظہ سے کہا تھا کہ ذبح ہے اور اپنے ہاتھ سے اپنے حلق کی طرف اشارہ کیا تھا۔ اور روایت میں ہے کہ " ان کے اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں یہ آیت اتری ہے یہ لوگ غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے۔ حضرت ابو لبابہ کے ساتھ اور بھی پانچ یا سات یا نو آدمی تھے۔ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس تشریف لائے تو ان بزرگوں نے اپنے تئیں مسجد نبوی کے ستونوں سے باندھ دیا تھا کہ جب تک خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے دست مبارک سے نہ کھولیں گے ہم اس قید سے آزاد نہ ہوں گے جب یہ آیت اتری حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خودان کے بندھن کھولے اور ان سے درگذر فرما لیا۔ بخاری شریف میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں " میرے پاس آج رات کو دو آنے والے آئے جو مجھے اٹھا کرلے چلے۔ ہم ایک شہر میں پہنچے جو سونے چاندی کی اینٹوں سے بنا ہوا تھا۔ وہاں ہمیں چند ایسے لوگ ملے جنکا آدھا دھڑ تو بہت ہی سڈول، نہایت خوشنما اور خوبصورت تھا اور آدھا نہایت ہی برا اور بدصورت۔ ان دونوں نے ان سے کہا جاؤ اس اس نہر میں غوطہ لگاؤ۔ وہ گئے اور غوطہ لگا کر واپس آئے وہ برائی ان سے دور ہوگئی تھی اور وہ نہایت خوبصورت اور اچھے ہوگئے تھے۔ پھر ان دونوں نے مجھ سے فرمایا کہ یہ جنت عدن ہے۔ یہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی منزل ہے۔ اور جنہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابھی دیکھا یہ وہ لوگ ہیں جو نیکیوں کے ساتھ بدیاں بھی ملائے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے درگذر فرما لیا اور انہیں معاف فرمایا۔ " امام بخاری (رح) نے اس آیت کی تفسیر میں اس حدیث کو اسی طرح مختصراً ہی روایت کیا ہے۔