وَمِمَّنْ حَوْلَــكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ ۗ وَمِنْ اَهْلِ الْمَدِيْنَةِ مَرَدُوْا عَلَى النِّفَاقِ ۗ لَا تَعْلَمُهُمْ ۗ نَحْنُ نَـعْلَمُهُمْ ۗ سَنُعَذِّبُهُمْ مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِيْمٍۚ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
تمہارے گرد و پیش جو بدوی رہتے ہیں ان میں بہت سے منافق ہیں اور اسی طرح خود مدینہ کے باشندوں میں بھی منافق موجود ہیں جو نفاق میں طاق ہو گئے ہیں تم انہیں نہیں جانتے، ہم ان کو جانتے ہیں قریب ہے وہ وقت جب ہم ان کو دوہری سزا دیں گے، پھر وہ زیادہ بڑی سزا کے لیے واپس لائے جائیں گے
English Sahih:
And among those around you of the bedouins are hypocrites, and [also] from the people of Madinah. They have persisted in hypocrisy. You, [O Muhammad], do not know them, [but] We know them. We will punish them twice [in this world]; then they will be returned to a great punishment.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
تمہارے گرد و پیش جو بدوی رہتے ہیں ان میں بہت سے منافق ہیں اور اسی طرح خود مدینہ کے باشندوں میں بھی منافق موجود ہیں جو نفاق میں طاق ہو گئے ہیں تم انہیں نہیں جانتے، ہم ان کو جانتے ہیں قریب ہے وہ وقت جب ہم ان کو دوہری سزا دیں گے، پھر وہ زیادہ بڑی سزا کے لیے واپس لائے جائیں گے
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اور تمہارے آس پاس کے کچھ گنوار منافق ہیں، اور کچھ مدینہ والے، ان کی خو ہوگئی ہے نفاق، تم انہیں نہیں جانتے، ہم انھیں جانتے ہیں جلد ہم انہیں دوبارہ عذاب کریں گے پھر بڑے عذاب کی طرف پھیرے جائیں گے
احمد علی Ahmed Ali
اور تمہارے گرد و نواح کے بعضے گنوار منافق ہیں اور بعض مدینہ والے بھی نفاق پر اڑے ہوئے ہیں تم انہیں نہیں جانتے ہم انہیں جانتے ہیں ہم انہیں دوہری سزا دیں گے پھر وہ بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
اور کچھ تمہارے گردو پیش والوں میں اور کچھ مدینے والوں میں ایسے منافق ہیں کہ نفاق پر اڑے (١) ہوئے ہیں، آپ ان کو نہیں جانتے (٢) ان کو ہم جانتے ہیں ہم ان کو دوہری سزا دیں گے (٣) پھر وہ بڑے بھاری عذاب کی طرف بھیجے جائیں گے۔
١٠١۔١مرد اور تمرد کے معنی ہیں نرمی ملائمت (چکناہٹ) اور تجرد۔ چنانچہ اس شاخ کو جو بغیر پتے کے ہو، وہ گھوڑا جو بغیر بال کے ہو، وہ لڑکا جس کے چہرے پر بال نہ ہوں، ان سب کو اَ مْرَدُ کہا جاتا ہے اور شیشے کو صَرْح مُمَرَّد اَیْ مُجَرَّدً کہا جاتا ہے
(مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِ) گویا انہوں نے نفاق کے لئے اپنے آپ کو خالص اور تنہا کر لیا، یعنی اس پر ان کا اصرار ہمیشہ رہنے والا ہے
١٠١۔٢ کتنے واضح الفاظ میں نبی سے علم غیب کی نفی ہے۔ کاش اہل بدعت کو قرآن سمجھنے کی توفیق نصیب ہو۔
١٠١۔٣ اس سے مراد بعض کے نزدیک دنیا کی ذلت و رسوائی اور پھر آخرت کا عذاب ہے اور بعض کے نزدیک دنیا میں ہی دوہری سزا ہے۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
اور تمہارے گرد و نواح کے بعض دیہاتی منافق ہیں اور بعض مدینے والے بھی نفاق پر اڑے ہوئے ہیں تم انہیں نہیں جانتے۔ ہم جانتے ہیں۔ ہم ان کو دوہرا عذاب دیں گے پھر وہ بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
اور کچھ تمہارے گردوپیش والوں میں اور کچھ مدینے والوں میں ایسے منافق ہیں کہ نفاق پر اڑے ہوئے ہیں، آپ ان کو نہیں جانتے، ان کو ہم جانتے ہیں ہم ان کو دہری سزا دیں گے، پھر وه بڑے بھاری عذاب کی طرف بھیجے جائیں گے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
اور جو تمہارے اردگرد صحرائی عرب بستے ہیں ان میں کچھ منافق ہیں۔ اور خود مدینہ کے باشندوں میں بھی (منافق موجود ہیں) جو نفاق پر اڑ گئے ہیں (اس میں مشاق ہوگئے ہیں) (اے رسول(ص)) آپ انہیں نہیں جانتے لیکن ہم جانتے ہیں۔ ہم ان کو (دنیا میں) دوہری سزا دیں گے۔ پھر وہ بہت بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور تمہارے گرد دیہاتیوں میں بھی منافقین ہیں اور اہل مدینہ میں تو وہ بھی ہیں جو نفاق میں ماہر اور سرکش ہیں تم ان کو نہیں جانتے ہو لیکن ہم خوب جانتے ہیں -عنقریب ہم ان پر دوہرا عذاب کریں گے اس کے بعد یہ عذاب عظیم کی طرف پلٹا دئیے جائیں گے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
اور (مسلمانو!) تمہارے گرد و نواح کے دیہاتی گنواروں میں بعض منافق ہیں اور بعض باشندگانِ مدینہ بھی، یہ لوگ نفاق پر اڑے ہوئے ہیں، آپ انہیں (اب تک) نہیں جانتے، ہم انہیں جانتے ہیں (بعد میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی جملہ منافقین کا علم اور معرفت عطا کر دی گئی)۔ عنقریب ہم انہیں دو مرتبہ (دنیا ہی میں) عذاب دیں گے٭ پھر وہ (قیامت میں) بڑے عذاب کی طرف پلٹائے جائیں گے، ٭ ایک بار جب ان کی پہچان کرا دی گئی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبۂ جمعہ کے دوران ان منافقین کو نام لے لے کر مسجد سے نکال دیا، یہ پہلا عذاب بصورتِ ذلت و رسوائی تھا؛ اور دوسرا عذاب بصورتِ ہلاکت و مُقاتلہ ہوا جس کا حکم بعد میں آیا۔
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
منافقت کے خوگر شہری
اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلوات اللہ وسلامہ علیہ کو بتلاتا ہے کہ " مدینے کے اردگرد رہنے والے گنواروں میں اور خود اہل مدینہ میں بہت سے منافق ہیں۔ جو برابر اپنے نفاق کے خوگر ہوچکے ہیں "۔ تمرد فلان علی اللہ اس وقت کہتے ہیں جب کوئی اللہ تعالیٰ کے سامنے سرکشی اور نافرمانی کرے۔ پھر فرماتا ہے کہ تم تو انہیں جانتے نہیں ہم جانتے ہیں۔ اور آیت میں ہے ـ" اگر ہم چاہیں تو تجھے اور ان کو دکھا دیں اور تو ان کی علامات اور چہروں سے انہیں پہچان لے۔ یقینا تو انہیں انکی باتوں کے لب و لہجے سے جان لے گا۔ " غرض ان دونوں آیتوں میں کوئی فرق نہ سمجھنا چاہیے۔ نشانیوں سے پہچان لینا اور بات ہے اور اللہ کی طرف کا قطعی علم کہ فلاں فلاں منافق ہے اور چیز ہے پس بعض منافق لوگوں کی منافقت حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کھل گئی تھی مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تمام منافقوں کو جاننا ممکن نہیں تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو صرف انتا جانتے تھے کہ مدینے میں بعض منافق ہیں۔ صبح وشام وہ دربار رسالت میں حاضر رہا کرتے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نگاہوں کے سامنے تھے۔ اس قول کی صحت مسند احمد کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ حضرت جبیر بن مطعم (رض) نے ایک مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ مکہ کا ہمارا کوئی اجر نہیں۔ آپ نے فرمایا تمہارے پاس تمہارے اجر آہی جائیں گے گو تم لومڑی کے بھٹ میں ہو۔ پھر آپ نے ان کے کان سے اپنا منہ لگا کر فرمایا کہ میرے ان ساتھیوں میں بھی منافق ہیں۔ پس مطلب یہ ہوا کہ بعض منافق غلط سلط باتیں بک دیا کرتے ہیں، یہ بھی ایسی ہی بات ہے۔ (وَهَمُّوْا بِمَا لَمْ يَنَالُوْا ۚ وَمَا نَقَمُوْٓا اِلَّآ اَنْ اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِهٖ ۚ فَاِنْ يَّتُوْبُوْا يَكُ خَيْرًا لَّهُمْ ۚ وَاِنْ يَّتَوَلَّوْا يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ عَذَابًا اَلِـــيْمًا ۙ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۚ وَمَا لَهُمْ فِي الْاَرْضِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ 74) 9 ۔ التوبہ ;74) کی تفسیر میں ہم کہہ آئے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حذیفہ (رض) کو بارہ یا پندرہ منافقوں کے نام بتائے تھے۔ پس اس سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ایک ایک کر کے تمام منافقوں کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علم تھا۔ نہیں بلکہ چند مخصوص لوگوں کا اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم کرا دیا تھا واللہ اعلم۔ ابن عساکر میں ہے کہ " حرملہ نامی ایک شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہنے لگا ایمان تو یہاں ہے اور اپنی زبان کی طرف اشارہ کیا۔ اور نفاق یہاں ہے اور ہاتھ سے اپنے دل کی طرف اشارہ کیا اور نہیں ذکر کیا اللہ کا مگر تھوڑا۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا کی اے اللہ اسے ذکر کرنے والی زبان، شکر کرنے والا دل دے اور اسے میری اور مجھ سے محبت رکھنے والوں کی محبت عنایت فرما اور اس کے کام کا انجام بخیر کر۔ اب تو وہ کہنے لگا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے ساتھی اور بھی ہیں جن کا میں سردار تھا، وہ سب بھی منافق ہیں اگر اجازت ہو تو انہیں بھی لے آؤں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سنو جو ہمارے پاس آئے گا ہم اسکے لئے استغفار کریں گے اور جو اپنے دین (نفاق) پر اڑا رہے گا اللہ ہی اس کے ساتھ اولیٰ ہے۔ تم کسی کی پردہ دری نہ کروـ"۔ حضرت قتادہ (رح) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ تکلف سے اوروں کا حال بیان کرنے بیٹھ جاتے ہیں کہ فلاں جنتی ہے اور فلاں دوزخی ہے۔ اس سے خود اس کی حالت پوچھو تو یہی کہے گا کہ میں نہیں جانتا۔ حالانکہ انسان اپنی حالت سے بہ نسبت اوروں کی حالت کے زیادہ عالم ہوتا ہے۔ یہ لوگ وہ تکلف کرتے ہیں جو نکلف انبیاء (علیہم السلام) نے بھی نہیں کیا۔ نبی اللہ حضرت نوح (علیہ السلام) کا قول ہے وما علمی بماکانا یعملون ان کے اعمال کا مجھے علم نہیں۔ نبی اللہ حضرت شعیب (علیہ السلام) فرماتے ہیں (وَمَآ اَنَا عَلَيْكُمْ بِحَفِيْظٍ\010\04 ) 6 ۔ الانعام ;104) میں تم پر کوئی نگہبان نہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرماتا ہے (لَا تَعْلَمُھُمْ ۭ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ ۭ سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِيْمٍ\010\01ۚ ) 9 ۔ التوبہ ;101) تو انہیں نہیں جانتا ہم ہی جانتے ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ جمعہ کے خطبے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے فلاں تو نکل جا تو منافق ہے اور اے فلاں تو بھی یہاں سے چلا جا تو منافق ہے۔ پس بہت سے لوگوں کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسجد سے چلے جانے کا حکم فرمایا۔ ان کا نفاق مسلمانوں پر کھل گیا یہ پورے رسوا ہوئے۔ یہ تو مسجد سے نکل کر جا رہے تھے اور حضرت عمر بن خطاب (رض) آ رہے تھے۔ آپ ان سے ذرا کترا گئے یہ سمجھ کر کہ شاید نماز ہوچکی اور یہ لوگ فارغ ہو کر جا رہے ہیں اور میں غیر حاضر رہ گیا۔ اور وہ لوگ بھی آپ سے شرمائے یہ سمجھ کر کہ ان پر بھی ہمارا حال کھل گیا ہوگا۔ اب مسجد میں آکر دیکھا کہ ابھی نماز تو ہوئی نہیں۔ تو ایک شخص نے آپ کو کہا لیجئے خوش ہوجائیے۔ آج اللہ نے منافقوں کو خوب شرمندہ و رسوا کیا۔ یہ تو تھا پہلا عذاب جبکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں مسجد سے نکلوا دیا۔ اور دوسرا عذاب عذاب قبر ہے۔ دو مرتبہ کے عذاب سے مجاہد کی نزدیک مراد قتل و قید ہے۔ اور روایت میں بھوک اور قبر کا عذاب ہے۔ ابن جریج فرماتے ہیں عذاب دنیا اور عذاب قبر مراد ہے۔ عبدالرحمن بن زید فرماتے ہیں دنیا کا عذاب تو مال واولاد ہے۔ جیسے قرآن میں ہے ( فَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَلَآ اَوْلَادُهُمْ ۭ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَهُمْ كٰفِرُوْنَ 55) 9 ۔ التوبہ ;55) یعنی تجھے انکامال اور انکی اولادیں اچھی نہ لگنی چاہیں اللہ کا ارادہ تو ان کی وجہ سے انہیں دنیا میں عذاب دینا ہے "۔ پس یہ مصیبتیں ان کے لئے عذاب ہیں ہاں مومنوں کے لئے اجر وثواب ہیں۔ اور دوسرا عذاب جہنم کا آخرت کے دن ہے۔ محمد بن اسحاق فرماتے ہیں " پہلا عذاب تو یہ کہ اسلام کے احکام بظاہر ماننے پڑے، اسکے مطابق عمل کرنا پڑا جو دلی منشا کے خلاف ہے۔ دوسرا عذاب قبر کا۔ پھر ان دونوں کے سوا دائمی جہنم کا عذاب۔ قتادہ کہتے ہیں کہ عذاب دنیا اور عذاب قبر پر عذاب عظیم کی طرف لوٹایا جانا ہے۔ " مذکور ہے کہ حضرت حذیفہ (رض) کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوشیدہ طور پر بارہ منافقوں کے نام بتائے تھے۔ اور فرمایا تھا کہ ان میں سے چھ کو دبیلہ کافی ہوگا جو جہنم کی آگ کا انگارا ہوگا۔ جو ان کے شانے پر ظاہر ہوگا اور سینے تک پہنچ جائے گا۔ اور چھ بری موت مریں گے۔ یہی وجہ تھی کہ جناب عمر فاروق (رض) جب دیکھتے کہ کوئی ایسا ویسا داغدار شخص مرا ہے تو انتظار کرتے کہ اس کے جنازے کی نماز حضرت حذیفہ (رض) پڑھتے ہیں یا نہیں ؟ اگر وہ پڑھتے تو آپ بھی پڑھتے ورنہ نہ پڑھتے۔ مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق (رض) نے حضرت حذیفہ (رض) سے دریافت کیا کہ کیا میں بھی ان میں ہوں ؟ انہوں نے جواب دیا نہیں آپ ان منافقوں میں نہیں۔ اور آپ کے بعد مجھے اس سے کسی پر بےخوفی نہیں۔