Skip to main content

فَلَاۤ اُقْسِمُ بِالشَّفَقِۙ

But nay!
فَلَآ
پس نہیں
I swear
أُقْسِمُ
میں قسم کھاتا ہوں
by the twilight glow
بِٱلشَّفَقِ
شفق کی

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

پس نہیں، میں قسم کھاتا ہوں شفق کی

English Sahih:

So I swear by the twilight glow

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

پس نہیں، میں قسم کھاتا ہوں شفق کی

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

تو مجھے قسم ہے شام کے اجالے کی

احمد علی Ahmed Ali

پس شام کی سرخی کی قسم ہے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

مجھے شفق کی قسم (١) اور رات کی!

١٦۔ ١ شفق جو سورج غروب ہونے پر ظاہر ہوتی ہے اور عشا کا وقت شروع ہونے تک رہتی ہے۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

ہمیں شام کی سرخی کی قسم

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

مجھے شفق کی قسم! اور رات کی!

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

پس نہیں! میں قَسم کھاتا ہوں شفق کی۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

میں شفق کی قسم کھا کر کہتا ہوں

طاہر القادری Tahir ul Qadri

سو مجھے قَسم ہے شفق (یعنی شام کی سرخی یا اس کے بعد کے اُجالے) کی،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

پیشین گوئی
شفق سے مراد وہ سرخی ہے جو غروب آفتاب کے بعد آسمان کے مغربی کناروں پر ظاہر ہوتی ہے حضرت علی حضرت ابن عباس حضرت عبادہ بن صامت، حضرت ابوہریرہ، حضرت شداد بن اوس، حضرت عبداللہ بن عمر، محمد بن علی بن حسین مکحول، بکر بن عبداللہ مزنی، بکیر بن الشیخ، مالک بن ابی ذئب، عبدالعزیز بن ابو سلمہ، ماجشون یہی فرماتے ہیں کہ شفق اس سرخی کو کہتے ہیں حضرت ابوہریرہ سے یہ بھی مروی ہے کہ مراد سفیدی ہے، پس شفق کناروں کی سرخی کو کہتے ہیں وہ طلوع سے پہلے ہو یا غروب کے بعد اور اہل سنت کے نزدیک مشہور یہی ہے، خلیل کہتے ہیں عشاء کے وقت تک یہ شفق باقی رہتی ہے، جوہری کہتے ہیں سورج کے غروب ہونے کے بعد جو سرخی اور روشنی باقی رہتی ہے اسے شفق کہتے ہیں۔ یہ اول رات سے عشاء کے وقت تک رہتی ہے۔ عکرمہ فرماتے ہیں مغرب سے لے کر عشاء تک، صحیح مسلم کی حدیث میں ہے مغرب کا وقت شفق غائب ہونے تک ہے، مجاہد سے البتہ یہ مروی ہے کہ اس سے مراد سارا دن ہے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ مراد سورج ہے، غالباً اس مطلب کی وجہ اس کے بعد کا جملہ ہے تو گویا روشنی اور اندھیرے کی قسم کھائی، امام ابن جریر فرماتے ہیں دن کے جانے اور رات کے آنے کی قسم ہے۔ اوروں نے کہا ہے سفیدی اور سرخی کا نام " شفق " ہے اور قول ہے کہ یہ لفظ ان دونوں مختلف معنوں میں بولا جاتا ہے۔ وسق کے معنی ہیں جمع کیا یعنی رات کے ستاروں اور رات کے جانوروں کی قسم، اسی طرح رات کے اندھیرے میں تمام چیزوں کا اپنی اپنی جگہ چلے جانا، اور چاند کی قسم جبکہ وہ پورا ہوجائے اور پوری روشنی والا بن جائے، لترکبن الخ کی تفسیر بخاری میں مرفوع حدیث سے مروی ہے۔ کہ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف چڑھتے چلے جاؤ گے، حضرت انس فرماتے ہیں جو سال آئے گا وہ اپنے پہلے سے زیادہ برا ہوگا۔ میں نے اسی طرح تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے اس حدیث سے اور اوپر والی حدیث کے الفاظ بالکل یکساں ہیں۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مرفوع حدیث ہے۔ (اللہ اعلم) اور یہ مطلب بھی اسی حدیث کا بیان کیا گیا ہے کہ اس سے مراد ذات نبی ہے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کی تائید حضرت عمر ابن مسعود ابن عباس اور عام اہل مکہ اور اہل کوفہ کی قرأت سے بھی ہوتی ہے۔ ان کی قرأت ہے لترکبن۔ شعبی کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ اے نبی تم ایک آسمان کے بعد دوسرے آسمان پر چڑھو گے، مراد اس سے معراج ہے، یعنی منزل بمنزل چڑھتے چلے جاؤ گے سدی کہتے ہیں مراد یہ ہے کہ اپنے اپنے اعمال کے مطابق منزلیں طے کرو گے۔ جیسے حدیث میں ہے، کہ تم اپنے سے اگلے لوگوں کے طریقوں پر چڑھو گے بالکل برابر برابر یہاں تک کہ اگر ان میں سے کوئی گوہ کے سوراخ میں داخل ہوا ہو تو تم بھی یہی کرو گے، لوگوں نے کہا اگلوں سے مراد آپ کی کیا یہود و نصرانی ہیں ؟ آپ نے فرمایا پھر اور کون ؟ حضرت مکحول فرماتے ہیں ہر بیس سال کے بعد تم کسی نہ کسی ایسے کام کی ایجاد کرو گے جو اس سے پہلے نہ تھا، عبداللہ فرماتے ہیں، آسمان پھٹے گا پھر سرخ رنگ ہوجائے گا۔ پھر بھی رنگ بدلتے چلے جائیں گے، ابن مسعود فرماتے ہیں کبھی تو آسمان دھواں بن جائے گا پھر پھٹ جائے گا۔ حضرت سعید بن جیبر فرماتے ہیں یعنی بہت سے لوگ جو دنیا میں پست و ذلیل تھے آخرت میں بلندو ذی عزت بن جائیں گے، اور بہت سے لوگ دنیا میں مرتبے اور عزت والے تھے وہ آخرت میں ذلیل و نامراد ہوجائیں گے۔ عکرمہ یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ پہلے دودھ پیتے تھے پھر غذا کھانے لگے، پہلے جوان تھے پھر بڈھے ہوئے۔ حسن بصری فرماتے ہیں نرمی کے بعد سختی سختی کے بعد نرمی، امیری کے بعد فقیری، فقیری کے بعد امیری، صحت کے بعد بیماری، بیماری کے بعد تندروستی، ایک مرفوع حدیث میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں ابن آدم غفلت میں ہے وہ پروا نہیں کرتا کہ کس لیے پیدا کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ جب کسی کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو فرشتے سے کہتا ہے اس کی روزی اس کی اجل، اس کی زندگی، اس کا بدیا نیک ہونا لکھ لے پھر وہ فارغ ہو کر چلا جاتا ہے، اور دوسرا فرشتہ آتا ہے اور اس کی حفاظت کرتا ہے یہاں تک کہ اسے سمجھ آجائے پھر وہ فرشتہ اٹھ جاتا ہے پھر دو فرشتے اس کا نامہ اعمال لکھنے والے آجاتے ہیں۔ موت کے وقت وہ بھی چلے جاتے ہیں اور ملک الموت آجاتے ہیں اس کی روح قبض کرتے ہیں پھر قبر میں اس کی روح لوٹا دی جاتی ہے، ملک الموت چلے جاتے ہیں قیامت کے دن نیکی بدی کے فرشتے آجائیں گے اور اس کی گردن سے اس کا نامہ اعمال کھول لیں گے، پھر اس کے ساتھ ہی رہیں گے، ایک سائق ہے دوسرا شہید ہے پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا آیت ( لَقَدْ كُنْتَ فِيْ غَفْلَةٍ مِّنْ ھٰذَا فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَاۗءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيْدٌ 22؀) 50 ۔ ق ;22) تو اس سے غافل تھا، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیت لترکبن الخ پڑھی یعنی ایک حال سے دوسرا حال پھر فرمایا لوگو تمہارے آگے بڑے بڑے ہم امور آ رہے ہیں جن کی برداشت تمہارے بس کی بات نہیں لہذا اللہ تعالیٰ بلندو برتر سے مدد چاہو، یہ حدیث ابن ابی حاتم میں ہے، منکر حدیث ہے اور اس کی سند میں ضعیف راوی ہیں لیکن اس کا مطلب بالکل صحیح اور درست ہے۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔ امام ابن جریر نے ان تمام اقوال کو بیان کر کے فرمایا ہے کہ صحیح مطلب یہ ہے کہ آپ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سخت سخت کاموں میں ایک کے بعد ایک سے گزرنے والے ہیں اور گو خطاب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہی ہے لیکن مراد سب لوگ ہیں کہ وہ قیامت کی ایک کے بعد ایک ہولناکی دیکھیں گے، پھر فرمایا کہ انہیں کیا ہوگیا یہ کیوں نہیں ایمان لاتے ؟ اور انہیں قرآن سن کر سجدے میں گر پڑنے سے کونسی چیز روکتی ہے، بلکہ یہ کفار تو الٹا جھٹلاتے ہیں اور حق کی مخالفت کرتے ہیں اور سرکشی میں اور برائی میں پھنسے ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کی باتوں کو جنھیں یہ چھپا رہے ہیں بخوبی جانتا ہے، تم اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں خبر پہنچا دو کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے عذاب تیار کر رکھے ہیں، پھر فرمایا کہ ان عذابوں سے محفوط ہونے والے بہترین اجر کے مستحق ایماندار نیک کردار لوگ ہیں، انہیں پورا پورا بغیر کسی کمی کے حساب اور اجر ملے گا، جیسے اور جگہ ہے آیت (عَطَاۗءً غَيْرَ مَجْذُوْذٍ\010\08 ) 11 ۔ ھود ;108) بعض لوگوں نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ بلا احسان لیکن یہ معنی ٹھیک نہیں ہر آن پر لحظہ اور ہر وقت اللہ تعالیٰ عز و جل کے اہل جنت پر احسان و انعام ہوں گے بلکہ صرف اس کے احسان اور اس کے فعل و کرم کی بنا پر انہیں جنت نصیب ہوئی نہ کہ ان کے اعمال کی وجہ سے پس اس مالک کا تو ہمیشہ اور مدام والا احسان اپنی مخلوق پر ہے ہی، اس کی ذات پاک ہر طرح کی ہر وقت کی تعریفوں کے لائز ہمیشہ ہمیشہ ہے، اسی لیے اہل جنت پر اللہ کی تسبیح اور اس کی حمد کا الہام اسی طرح کیا جائے جس طرح سانس بلا تکلیف اور بےتکلف بلکہ بےارادہ چلتا رہتا ہے، قرآن فرماتا ہے آیت (واخر دعوٰ ھم ان الحمد اللّٰہ رب العالمین) یعنی ان کا آخری قول یہی ہوگا کہ سب تعریف جہانوں کے پالنے والے اللہ کے لیے ہی ہے، الحمد اللہ سورة انشقاق کی تفسیر ختم ہوئی۔ اللہ ہمیں توفیق خیر دے اور برائی سے بچائے، آمین۔