اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَاِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ اٰيٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِيْمَانًا وَّعَلٰى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ ۙ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
سچّے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سُن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں
English Sahih:
The believers are only those who, when Allah is mentioned, their hearts become fearful, and when His verses are recited to them, it increases them in faith; and upon their Lord they rely –
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
سچّے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سُن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ یاد کیا جائے ان کے دل ڈر جائیں اور جب ان پر اس کی آیتیں پڑھی جائیں ان کا ایمان ترقی پائے اور اپنے رب ہی پر بھروسہ کریں
احمد علی Ahmed Ali
ایمان والے وہی ہیں جب الله کا نام آئے تو ان کے دل ڈر جائیں اورجب اس کی آیتیں ان پر پڑھی جائیں تو ان کا ایمان زیادہ ہو جاتا ہے اور اور وہ اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں
أحسن البيان Ahsanul Bayan
بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں جب اللہ تعالٰی کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ تعالٰی کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور زیادہ کر دیتی ہیں اور وہ لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں (١)
٢۔١ ان آیات میں اہل ایمان کی ٤ صفات بیان کی گئی ہیں ١، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے ہیں نہ کہ صرف اللہ کی یعنی قرآن کی۔ ٢۔ اللہ کا ذکر سن کر، اللہ کی جلالت وعظمت سے ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں۔ ٣۔ تلاوت قرآن سے ایمانوں میں اضافہ ہوتا ہے (جس سے معلوم ہوا کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے، جیسا کہ محدثین کا مسلک ہے) ٤۔ اور وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔ توکل کا مطلب ہے ظاہری اسباب اختیار کرنے کے بعد اللہ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہیں۔ یعنی اسباب سے اعراض و گریز بھی نہیں کرتے کیونکہ انہیں اختیار کرنے کا حکم اللہ تعالٰی نے ہی دیا ہے، لیکن اسباب ظاہری کو ہی نہیں سب کچھ ہی نہیں سمجھ لیتے بلکہ ان کا یہ یقین ہوتا ہے کہ اصل کار فرما مشیت الٰہی ہی ہے، اس لئے جب تک اللہ کی مشیت بھی نہیں ہوگی، یہ ظاہری اسباب کچھ نہیں کر سکیں گے اور اس یقین اعتماد کی بنیاد پر پھر وہ اللہ کی مدد و اعانت حاصل کرنے سے ایک لمحے کے لئے بھی غافل نہیں ہوتے۔ آگے ان کی مزید صفات کا تذکرہ ہے اور ان صفات کے حاملین کے لئے اللہ کی طرف سے سچے مومن ہونے کا سرٹیفیکیٹ اور مغفرت و رحمت الٰہی اور رزق کریم کی نوید ہے جَعَلَنَا اللّٰہُ مِنْھُمْ(اللہ تعالٰی ہمیں بھی ان میں شمار فرمالے) جنگ بدر کا پس منظر۔ جنگ بدر جو۲ ہجری میں ہوئی کافروں کیساتھ مسلمانوں کی پہلی جنگ تھی۔ علاوہ ازیں یہ منصوبہ بندی اور تیاری کے بغیر اچانک ہوئی نیز بےسروسامانی کیوجہ سے بعض مسلمان ذہنی طور پر اس کے لیے تیار بھی نہیں تھے۔ مختصرا اس کا پس منظر اس طرح ہے کہ ابو سفیان کی (جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) سرکردگی میں ایک تجارتی قافلہ شام سے مکہ جارہا تھا چونکہ مسلمانوں کا بھی بہت سامال واسباب ہجرت کیوجہ سے مکہ رہ گیا تھا یا کافروں نے چھین لیا تھا نیز کافروں کی قوت وشوکت کو توڑنا بھی مقتضائے وقت تھا۔ ان تمام باتوں کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تجارتی قافلے پر حملہ کرنے کا پروگرام بنایا اور مسلمان اس نیت سے مدینہ سے چل پڑے۔ ابو سفیان کو بھی اس امر کی اطلاع مل گئی۔ چنانچہ انہوں نے ایک تو اپناراستہ تبدیل کرلیا۔ دوسرے مکہ اطلاع بھجوادی جس کی بنا پر ابو جہل ایک لشکر لے کر اپنے قافلے کی حفاظت کے لیے بدر کی جانب چل پڑا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس صورت حال کا علم ہوا تو صحابہ کرام کے سامنے معاملہ رکھ دیا اور اللہ کا وعدہ بھی بتلایا کہ ان دونوں (تجارتی قافلہ اور لشکر) میں سے ایک چیز تمہیں ضرور حاصل ہوگی۔ تاہم پھر بھی لڑائی میں بعض صحابہ نے تردد کا اظہار اور تجارتی قافلے کے تعاقب کامشورہ دیا، جب کہ دوسرے تمام صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لڑنے میں بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ اسی پس منظر میں یہ آیات نازل ہوئیں۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
مومن تو وہ ہیں کہ جب خدا کا ذکر کیا جاتا ہے کہ ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کا ایمان اور بڑھ جاتا ہے۔ اور وہ اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتیں ہیں تو وه آیتیں ان کے ایمان کو اور زیاده کردیتی ہیں اور وه لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
(کامل) ایمان والے تو بس وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل دھل جاتے ہیں اور جب ان کے سامنے اس کی آیتوں کی تلاوت کی جائے تو ان کے ایمان بڑھ جاتے ہیں اور وہ ہر ایک حال میں اپنے پروردگار پر توکل (بھروسہ) رکھتے ہیں۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
صاحبان هایمان درحقیقت وہ لوگ ہیں جن کے سامنے ذکر خدا کیا جائے تو ان کے دلوں میں خورِ خدا پیدا ہو اور اس کی آیتوں کی تلاوت کی جائے تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوجائے اور وہ لوگ اللہ ہی پر توکل کرتے ہیں
طاہر القادری Tahir ul Qadri
ایمان والے (تو) صرف وہی لوگ ہیں کہ جب (ان کے سامنے) اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے (تو) ان کے دل (اس کی عظمت و جلال کے تصور سے) خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ (کلامِ محبوب کی لذت انگیز اور حلاوت آفریں باتیں) ان کے ایمان میں زیادتی کر دیتی ہیں اور وہ (ہر حال میں) اپنے رب پر توکل (قائم) رکھتے ہیں (اور کسی غیر کی طرف نہیں تکتے)،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
ایمان سے خالی لوگ اور حقیقت ایمان
ابن عباس فرماتے ہیں منافقوں کے دل میں نہ فریضے کی ادائیگی کے وقت ذکر اللہ ہوتا ہے نہ کسی اور وقت پر۔ نہ ان کے دلوں میں ایمان کا نور ہوتا ہے نہ اللہ پر بھروسہ ہوتا ہے۔ نہ تنہائی میں نمازی رہتے ہیں نہ اپنے مال کی زکوٰۃ دیتے ہیں، ایسے لوگ ایمان سے خالی ہوتے ہیں، لیکن ایماندار ان کے برعکس ہوتے ہیں۔ ان کے دل یاد خالق سے کپکپاتے رہتے ہیں فرائض ادا کرتے ہیں آیات الٰہی سن کر ایمان چمک اٹھتے ہیں تصدیق میں بڑھ جاتے ہیں رب کے سوا کسی پر بھروسہ نہیں کرتے اللہ کی یاد سے تھر تھراتے رہتے ہیں اللہ کا ڈر ان میں سمایا ہوا ہوتا ہے اسی وجہ سے نہ تو حکم کا خلاف کرتے ہیں نہ منع کئے ہوئے کام کو کرتے ہیں۔ جیسے فرمان ہے کہ ان سے اگر کوئی برائی سرزد ہو بھی جاتی ہے تو یاد اللہ کرتے ہیں پھر اپنے گناہ سے استغفار کرتے ہیں حقیقت میں سوائے اللہ کے کوئی گناہوں کا بخشنے والا بھی نہیں۔ یہ لوگ باوجود علم کے کسی گناہ پر اصرار نہیں کرتے۔ اور آیتوں میں ہے آیت (واما من خاف مقام ربہ الخ) ، جو شخص اپنے رب کے پاس کھڑا ہونے سے ڈرا اور اپنے نفس کو خواہشوں سے روکا اس کا ٹھکانا جنت ہے۔ سدی فرماتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے جی میں ظلم کرنے کی یا گناہ کرنے کی آتی ہے لیکن اگر ان سے کہا جائے کہ اللہ سے ڈر جا وہیں ان کا دل کانپنے لگتا ہے، ام درداء فرماتی ہیں کہ دل اللہ کے خوف سے حرکت کرنے لگتے ہیں ایسے وقت انسان کو اللہ عزوجل سے دعا مانگنی چاہئے۔ ایمانی حالت بھی ان کی روز بروز زیادتی میں رہتی ہے ادھر قرآنی آیات سنیں اور ایمان بڑھا۔ جیسے اور جگہ ہے کہ جب کوئی سورت اترتی ہے تو ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ اس نے تم میں سے کس کا ایمان بڑھا دیا ؟ بات یہ ہے کہ ایمان والوں کے ایمان بڑھ جاتے ہیں اور وہ خوش ہوجاتے ہیں، اس آیت سے اور اس جیسی اور آیتوں سے حضرت امام الائمہ امام بخاری (رح) وغیرہ ائمہ کرام نے استدلال کیا ہے کہ ایمان کی زیادتی سے مراد ہے کہ دلوں میں ایمان کم یا زیادہ ہوتا رہتا ہے یہی مذہب جمہور امت کا ہے بلکہ کئی ایک نے اس پر اجماع نقل کیا ہے جیسے شافعی، احمد بن حنبل، ابو عبیدہ وغیرہ جیسے کہ ہم نے شرح بخاری کے شروع میں پوری طرح بیان کردیا ہے۔ والحمد اللہ۔ ان کا بھروسہ صرف اپنے رب پر ہوتا ہے نہ اس کے سوا کسی سے وہ امید رکھیں نہ اس کے سوا کوئی ان کا مقصود، نہ اس کے سوا کسی سے وہ پناہ چاہیں نہ اس کے سوا کسی سے مرادیں مانگیں نہ کسی اور کی طرف جھکیں وہ جانتے ہیں کہ قدرتوں والا وہی ہے جو وہ چاہتا ہے ہوتا ہے جو نہیں چاہتا ہرگز نہیں ہوتا تمام ملک میں اسی کا حکم چلتا ہے ملک صرف وہی ہے وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں نہ اس کے کسی حکم کو کوئی ٹال سکے وہ جلد ہی حساب لینے والا ہے، حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں اللہ پر توکل کرنا ہی پورا ایمان ہے۔ ان مومنوں کے ایمان اور اعتقاد کی حالت بیان فرما کر اب ان کے اعمال کا ذکر ہو رہا ہے کہ وہ نمازوں کے پابند ہوتے ہیں۔ وقت کی، وضو کی، رکوع کی، سجدے کی، کامل پاکیزگی کی، قرآن کی تلاوت، تشہد، درود، سب چیزوں کی حفاظت و نگرانی کرتے ہیں۔ اللہ کے اس حق کی ادائیگی کے ساتھ ہی بندوں کے حق بھی نہیں بھولتے۔ واجب خرچ یعنی زکوٰۃ مستحب خرچ یعنی للہ فی اللہ خیرات برابر دیتے ہیں چونکہ تمام مخلوق اللہ کی عیال ہے اس لئے اللہ کو سب سے زیادہ پیارا وہ ہے جو اس کی مخلوق کی سب سے زیادہ خدمت کرے اللہ کے دیئے ہوئے کو اللہ کی راہ میں دیتے رہو یہ مال تمہارے پاس اللہ کی امانت ہے بہت جلد تم اسے چھوڑ کر رخصت ہونے والے ہو، پھر فرماتا ہے کہ جن میں یہ اوصاف ہوں وہ سچے مومن ہیں طبرانی میں ہے کہ حارث بن مالک انصاری (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے گذرے تو آپ نے ان سے دریافت فرمایا کہ تمہاری صبح کس حال میں ہوئی ؟ انہوں نے جواب دیا کہ سچے مومن ہونے کی حالت میں۔ آپ نے فرمایا کہ سمجھ لو کہ کیا کہہ رہے ہو ؟ ہر چیز کی حقیقت ہوا کرتی ہے۔ جانتے ہو حقیقت ایمان کیا ہے ؟ جواب دیا کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نے اپنی خواہشیں دنیا سے الگ کرلیں راتیں یاد اللہ میں جاگ کر دن اللہ کی راہ میں بھوکے پیاسے رہ کر گذراتا ہوں۔ گویا میں اللہ کے عرش کو اپنی نگاہوں کے سامنے دیکھتا رہتا ہوں اور گویا کہ میں اہل جنت کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ آپس میں ہنسی خوشی ایک دوسرے سے مل جل رہے ہیں اور گویا کہ میں اہل دوزخ کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ دوزخ میں جل بھن رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا حارثہ تو نے حقیقت جان لی پس اس حال پر ہمیشہ قائم رہنا۔ تین مرتبہ یہی فرمایا پس آیت میں بالکل محاورہ عرب کے مطابق ہے جیسے وہ کہا کرتے ہیں کہ گو فلاں قوم میں سردار بہت سے ہیں لیکن صحیح معنی میں سردار فلاں ہے یا فلاں قبیلے میں تاجر بہت ہیں لیکن صحیح طور پر تاجر فلاں ہے۔ فلاں لوگوں میں شاعر ہیں لیکن سچا شاعر فلاں ہے۔ ان کے مرتبے اللہ کے ہاں بڑے بڑے ہیں اللہ ان کے اعمال دیکھ رہا ہے وہ ان کی لغزشوں سے درگذر فرمائے گا ان کی نیکیوں کی قدردانی کرے گا۔ گویہ درجے اونچے نیچے ہوں گے لیکن کسی بلند مرتبہ شخص کے دل میں یہ خیال نہ ہوگا کہ میں فلاں سے اعلیٰ ہوں اور نہ کسی ادنیٰ درجے والوں کو یہ خیال ہوگا کہ میں فلاں سے کم ہوں۔ بخاری و مسلم میں ہے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ علیین والوں کو نیچے کے درجے کے لوگ اس طرح دیکھیں گے جیسے تم آسمان کے کناروں کے ستاروں کو دیکھتے ہو۔ صحابہ نے پوچھا یہ مرتبے تو انبیاء کے ہونگے ؟ کوئی اور تو اس مرتبے پر نہ پہنچ سکے گا ؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں ؟ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ لوگ بھی جو اللہ پر ایمان لائیں اور رسولوں کو سچ جانیں۔ اہل سنن کی حدیث میں ہے کہ اہل جنت بلند درجہ جنتیوں کو ایسے دیکھیں گے جیسے تم آسمان کے کناروں کے چمکیلے ستاروں کو دیکھا کرتے ہو یقیناً ابوبکر اور عمر انہی میں ہیں اور بہت اچھے ہیں۔