Skip to main content

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوْهُمُ الْاَدْبَارَۚ

O you!
يَٰٓأَيُّهَا
اے
who!
ٱلَّذِينَ
لوگو
believe!
ءَامَنُوٓا۟
جو ایمان لائے ہو
When
إِذَا
جب
you meet
لَقِيتُمُ
ملاقات کرو تم
those who
ٱلَّذِينَ
ان لوگوں سے
disbelieve
كَفَرُوا۟
جنہوں نے کفر کیا
advancing
زَحْفًا
بڑے لشکر کی شکل میں
then (do) not
فَلَا
پس نہ
turn to them
تُوَلُّوهُمُ
پھیرو ان سے
the backs
ٱلْأَدْبَارَ
پیٹھوں کو

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

اے ایمان لانے والو، جب تم ایک لشکر کی صورت میں کفار سے دوچار ہو تو ان کے مقابلہ میں پیٹھ نہ پھیرو

English Sahih:

O you who have believed, when you meet those who disbelieve advancing [in battle], do not turn to them your backs [in flight].

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

اے ایمان لانے والو، جب تم ایک لشکر کی صورت میں کفار سے دوچار ہو تو ان کے مقابلہ میں پیٹھ نہ پھیرو

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اے ایمان والو! جب کافروں کے لام (لشکر) سے تمہارا مقابلہ ہو تو انہیں پیٹھ نہ دو

احمد علی Ahmed Ali

اے ایمان والو جب تم کافروں سے میدان جنگ میں ملو تو ان سے پیٹھیں نہ پھیرو

أحسن البيان Ahsanul Bayan

اے ایمان والو! جب تم کافروں سے دو بدو مقابل ہو جاؤ، تو ان سے پشت مت پھیرنا (١)

١٥۔١ زَ حْفًا کے معنی ہیں ایک دوسرے کے مقابل اور دوبدو ہونا۔ یعنی مسلمان اور کافر جب ایک دوسرے کے بالمقابل صف آرا ہوں تو پیٹھ پھیر کا بھاگنے کی اجازت نہیں ہے۔ ایک حدیث میں ہے
اَ جْتَنِبُوْا السَّبْعَ الْمُوْبِقَاتِ ' سات ہلاک کر دینے والی چیزوں سے بچو ان سات میں ایک وَاتّوَلَیِ یَومَ الزَّحْفِ (مقابلے والے دن پیٹھ پھیر جانا ہے)

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

اے اہل ایمان جب میدان جنگ میں کفار سے تمہار مقابلہ ہو تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

اے ایمان والو! جب تم کافروں سے دو بدو مقابل ہو جاؤ تو ان سے پشت مت پھیرنا

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

اے ایمان والو! جب کافروں کے لشکر سے تمہاری مڈبھیڑ ہو جائے تو خبردار! ان کے مقابلہ میں ان کو پیٹھ نہ دکھانا (بلکہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح جم کر لڑنا)۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

اے ایمان والو جب کفاّر سے میدان هجنگ میں ملاقات کرو تو خبردار انہیں پیٹھ نہ دکھانا

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اے ایمان والو! جب تم (میدانِ جنگ میں) کافروں سے مقابلہ کرو (خواہ وہ) لشکرِ گراں ہو پھر بھی انہیں پیٹھ مت دکھانا،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

شہیدان وفا کے قصے
جہاد کے میدان میں جو مسلمان بھی بھاگ کھڑا ہوا اس کی سزا اللہ کے ہاں جہنم کی آگ ہے۔ جب لشکر کفار سے مڈبھیڑ ہوجائے اس وقت پیٹھ پھیڑ ہوجائے اس وقت پیٹھ پھیرنا حرام ہے ہاں اس شخص کے لئے جو فن جنگ کے طور پر پینترا بدلے یا دشمن کو اپنے پیچھے لگا کر موقعہ پر وار کرنے کے لئے بھاگے یا اس طرح لشکر پیچھے ہٹے اور دشمن کو گھات میں لے کر پھر ان پر اچانک چھاپہ مار دے تو بیشک اس کیلئے پیٹھ پھیرنا جائز ہے، دوسری صورت یہ ہے کہ ایک لشکر میں سے دوسرے لشکر میں جانا ہو جہاں چھوٹے سے لشکر سے بڑے لشکر کا ٹکراؤ ہو یا امام اعظم سے ملنا ہو تو وہ بھی اس میں داخل ہے۔ مسند احمد میں ہے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ حضور نے ایک چھوٹا سا لشکر بھیجا تھا میں بھی اس میں ہی تھا لوگوں میں بھگدڑ مچی میں بھی بھاگا ہم لوگ بہت ہی نادم ہوئے کہ ہم اللہ کی راہ سے بھاگے ہیں اللہ کا غضب ہم پر ہے ہم اب مدینے جائیں اور وہاں رات گذار کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش ہوں اگر ہماری توبہ کی کوئی صورت نکل آئے تو خیر ورنہ ہم جنگوں میں نکل جائیں۔ چناچہ نماز فجر سے پہلے ہم جا کر بیٹھ گئے جب حضور آئے تو آپ نے دریافت فرمایا کہ تم کون لوگ ہو ؟ ہم نے کہا بھاگنے والے آپ نے فرمایا نہیں بلکہ تم لوٹنے والے ہو میں تمہاری جماعت ہوں اور میں تمام مسلمانوں کی جماعت ہوں ہم نے بےساختہ آگے بڑھ کر حضور کے ہاتھ چوم لئے۔ ابو داؤد و ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے۔ امام ترمذی اسے حسن کہہ کر فرماتے ہیں ہم اسے ابن ابی زیاد کے علاوہ کسی کی حدیث سے پہچانتے نہیں۔ ابن ابی حاتم میں حضور کے اس فرمان کے بعد آپ کا اس آیت کا تلاوت کرنا بھی مذکور ہے۔ حضرت ابو عبیدہ جنگ فارس میں ایک پل پر گھیر لئے گئے مجوسیوں کے ٹڈی دل لشکروں نے چاروں طرف سے آپ کو گھیر لیا موقعہ تھا کہ آپ ان میں سے بچ کر نکل آتے لیکن آپ نے مردانہ وار اللہ کی راہ میں جام شہادت نوش فرمایا جب حضرت عمر (رض) کو یہ واقعہ معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا اگر وہ وہاں سے میرے پاس چلے آتے تو ان کے لئے جائز تھا کیونکہ میں مسلمانوں کی جماعت ہوں مجھ سے مل جانے میں کوئی حرج نہیں اور روایت میں ہے میں تمام مسلمانوں کی جماعت ہوں۔ اور روایت میں ہے کہ تم اس آیت کا غلط مطلب نہ لینا یہ واقعہ بدر کے متعلق ہے۔ اب تمام مسلمانوں کیلئے وہ فعتہ جس کی طرف پناہ لینے کے لئے واپس مڑنا جائز ہے، میں ہوں۔ ابن عمر سے نافع نے سوال کیا کہ ہم لوگ دشمن کی لڑائی کے وقت ثابت قدم نہیں رہ سکتے اور ہمیں یہ معلوم نہیں کہ فئتہ سے مراد امام لشکر ہے یا مسلمانوں کو جنگی مرکز آپ نے فرمایا فئتہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے میں نے اس آیت کی تلاوت کی تو آپ نے فرمایا یہ آیت بدر کے دن اتری ہے نہ اس سے پہلے نہ اس کے بعد۔ ضحاک فرماتے ہیں لشکر کفار سے بھاگ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کے پاس پناہ لے اس کے لئے جائز ہے۔ آج بھی امیر اور سالار لشکر کے پاس یا اپنے مرکز میں جو بھی آئے اس کیلئے یہی حکم ہے۔ ہاں اس صورت کے سوا نامردی اور بزدلی کے طور پر لشکر گاہ سے جو بھاگ کھڑا ہو لڑائی میں پشت دکھائے وہ جہنمی ہے اور اس پر اللہ کا غضب ہے وہ حرمت کے کبیرہ گناہ کا مرتکب ہے بخاری مسلم کی حدیث میں ہے سات گناہوں سے جو مہلک ہیں بچتے رہو پوچھا گیا کہ وہ کیا کیا ہیں ؟ فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو، کسی کو ناحق مار ڈالنا، سود خوری، یتیم کا مال کھانا، میدان جہاد سے پیٹھ دکھا کر بھاگ کھڑا ہونا، ایماندر پاک دامن بےعیب عورتوں پر تہمت لگانا۔ فرمان ہے کہ ایسا کرنے والا اللہ تعالیٰ کا غضب و غصہ لے کر لوٹتا ہے اس کی لوٹنے اور رہنے سہنے کی جگہ جہنم ہے جو بہت ہی بدتر ہے۔ بشیر بن معبد کہتے ہیں میں حضور کے ہاتھ پر بیعت کرنے آیا تو آپ نے شرط بیان کی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، شہادت اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عبدیت و رسالت کی شہادت دوں پانچوں وقت کی نماز قائم رکھوں اور زکوٰۃ ادا کرتا رہوں اور حج مطابق اسلام بجا لاؤں اور رمضان المبارک کے مہی نے کے روزے رکھوں اور اللہ کی راہ میں جہاد کروں۔ میں نے کہا یا رسول اللہ اس میں سے دو کام میرے بس کے نہیں ایک تو جہاد دوسرے زکوٰۃ میں نے تو سنا ہے کہ جہاد میں پیٹھ دکھانے والا اللہ کے غضب میں آجاتا ہے مجھے تو ڈر ہے کہ موت کا بھیانک سماں کہیں کسی وقت میرا منہ نہ پھیر دے اور مال غنیمت اور عشر ہی میرے پاس ہوتا ہے وہ ہی میرے بچوں اور گھر والوں کا اثاثہ ہے سواری لیں اور دودھ پئیں اسے میں کسی کو کیسے دے دوں ؟ آپ نے اپنا ہاتھ ہلا کر فرمایا جب جہاد بھی نہ ہو اور صدقہ بھی نہ ہو تو جنت کیسے مل جائے ؟ میں نے کہا اچھا یا رسول اللہ سب شرطیں منظور ہیں چناچہ میں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ یہ حدیث صحاح ستہ میں نہیں مسند احمد میں ہے اور اس سند سے غریب ہے۔ طبرانی میں فرمان رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے کہ تین گناہوں کے ساتھ کوئی نیکی نفع نہیں دیتی اللہ کے ساتھ شرک، ماں باپ کی نافرمانی لڑائی سے بھاگنا، یہ حدیث بھی بہت غریب ہے۔ اسی طبرانی میں ہے آپ فرماتے ہیں جس نے دعا (استغفر اللہ الذی لا الہ الا ھو واتوب الیہ) پڑھ لیا اس کے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں گو وہ لڑائی سے بھاگا ہو۔ ابو داؤد اور ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے امام ترمذی اسے غریب بتاتے ہیں اور آنحضرت کے مولیٰ زید اس کے راوی ہیں۔ ان سے اس کے سوا کوئی حدیث نظر سے نہیں گزری۔ بعض حضرات کا قول ہے کہ بھاگنے کی حرمت کا یہ حکم صحابہ کے ساتھ مخصوص تھا اس لئے کہ ان پر جہاد فرض عین تھا اور کہا گیا ہے کہ انصار کے ساتھ ہی مخصوص تھا اسلئے کہ ان کی بیعت سننے اور ماننے کی تھی خوشی میں بھی اور ناخوشی میں بھی۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ بدری صحابہ کے ساتھ یہ خاص تھا کیونکہ ان کی کوئی جماعت تھی ہی نہیں چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی دعا میں کہا تھا کہ اے اللہ اگر تو اس جماعت کو ہلاک کر دے گا تو پھر زمین میں تیری عبادت نہ کی جائے گی۔ حضرت حسن فرماتے ہیں یو مئذ سے مراد بدر کا دن ہے اب اگر کوئی اپنی بری جماعت کی طرف آجائے یا کسی قلعے میں پناہ لے تو میرے خیال میں تو اس پر کوئی حرج نہیں۔ یزید بن ابی حبیب فرماتے ہیں کہ بدر والے دن جو بھاگے اس کیلئے دوزخ واجب تھی اس کے بعد جنگ احد ہوئی اس وقت یہ آیتیں اتریں ( اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰن\015\05 ) 3 ۔ آل عمران ;155) سے عفا اللہ عنھم تک۔ اس کے ساتھ سال بعد جنگ حنین ہوئی جس کے بارے میں قرانی ذکر ہے آیت ( ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُّدْبِرِيْنَ 25؀ۚ ) 9 ۔ التوبہ ;25) پھر اللہ نے جس کی جاہی توبہ قبول فرمائی۔ ابو داؤد نسائی مستدرک حاکم وغیرہ میں ہے کہ ابو سعید فرماتے ہیں یہ آیت بدریوں کے بارے میں اتری ہے لیکن یہ یاد رہے کہ گویہ مان لیا جائے کہ سبب نزول اس آیت کا بدری لوگ ہیں مگر لڑائی سے منہ پھیرنا تو حرام ہے جیسے کہ اس سے پہلے حدیث میں گذرا کہ سات ہلاک کرنے والے گناہوں میں ایک یہ بھی ہے اور یہی مذہب جمہور کا ہے واللہ اعلم۔