اِنْطَلِقُوْۤا اِلٰى مَا كُنْتُمْ بِهٖ تُكَذِّبُوْنَۚ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
چلو اب اُسی چیز کی طرف جسے تم جھٹلایا کرتے تھے
English Sahih:
[They will be told], "Proceed to that which you used to deny.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
چلو اب اُسی چیز کی طرف جسے تم جھٹلایا کرتے تھے
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
چلو اس کی طرف جسے جھٹلاتے تھے،
احمد علی Ahmed Ali
اس (دوزخ) کی طرف چلو جسے تم جھٹلایا کرتےتھے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
اس دوزخ کی طرف جاؤ جسے تم جھٹلاتے رہے تھے (١)
٢٩۔١ یہ فرشتے جہنمیوں کو کہیں گے
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
جس چیز کو تم جھٹلایا کرتے تھے۔ (اب) اس کی طرف چلو
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
اس دوزخ کی طرف جاؤ جسے تم جھٹلاتے رہے تھے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
(حکم ہوگا) جاؤ اس (دوزخ) کی طرف جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
جاؤ اس طرف جس کی تکذیب کیا کرتے تھے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
(اب) تم اس (عذاب) کی طرف چلو جسے تم جھٹلایا کرتے تھے،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
جہنم کے شعلے سیاہ اونٹوں اور دہکتے تانبے کے ٹکڑوں کی مانند ہوں گے
جو کفار قیامت، جزا سزا اور جنت دوزخ کو جھٹلاتے تھے ان سے قیامت کے دن کہا جائے گا کہ لو جسے سچا نہ مانتے تھے وہ سزا اور وہ دوزخ یہ موجود ہے اس میں جاؤ، اس کے شعلے بھڑک رہے ہیں اور اونچے ہو ہو کر ان میں تین پھانکیں کھل جاتی ہیں، تین حصے ہوجاتے ہیں اور ساتھ ہی دھواں بھی اوپر کو چڑھتا ہے جس سے نیچے کی طرف چھاؤں پڑتی ہے اور سایہ معلوم ہوتا ہے لیکن فی الواقع نہ تو وہ سایہ ہے نہ آگ کی حرارت کو کم کرتا ہے یہ جہنم اتنی تیز تند سخت اور بہ کثرت آگ والی ہے کہ اس کی چنگاریاں جو اڑتی ہیں وہ بھی مثل قلعہ کے اور تناؤ درخت کے مضبوط لمبے چوڑے تنے کے ہیں، دیکھنے والے کو یہ لگتا ہے کہ گویا وہ سیاہ رنگ اونٹ ہیں یا کشتیوں کے رسے ہیں یا تانبے کے ٹکڑے ہیں، حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں ہم جاڑے کے موسم میں تین تین ہاتھ کی یا کچھ زیادہ لمبی لکڑیاں لے کر انہیں بلند کرلیتے اسے ہم قصر کہا کرتے تھے، کشتی کی رسیاں جب اکٹھی ہوجاتی ہیں تو خاصی اونچی قد آدم کے برابر ہوجاتی ہیں، اسی کو یہاں مراد لیا گیا ہے، ان جھٹلانے والوں پر حسرت و افسوس ہے، آج نہ یہ بول سکیں گے اور نہ انہیں عذر و معذرت کرنے کی اجازت ملے گی کیونکہ ان پر حجت قائم ہوچکی اور ظالموں پر اللہ کی بات ثابت ہوگئی اب انہیں بولنے کی اجازت نہیں، یہ یاد رہے کہ قرآن کریم میں ان کا بولنا مکرنا چھپانا عذر کرنا بھی بیان ہوا ہے، تو مطلب یہ ہے کہ حجت قائم ہونے سے پہلے عذر معذرت وغیرہ پیش کریں گے جب سب توڑ دیا جائے گا اور دلیلیں پیش ہوجائیں گی تو اب بول چال عذر معذرت ختم ہوجائے گی، غرض میدان حشر کے مختلف مواقع اور لوگوں کی مختلف مواقع اور لوگوں کی مختلف حالتیں ہیں کسی وقت یہ کسی وقت وہ، اسی لئے یہاں ہر کلام کے خاتمہ پر جھٹلانے والوں کی خرابی کی خبر دے دی جاتی ہے۔ پھر فرماتا ہے یہ فیصلے کا دن ہے اگلے پچھلے سب یہاں جمع ہیں اگر تم کسی چالاکی، مکاری، ہوشیاری اور فریب دہی سے میرے قبضے سے نکل سکتے ہو تو نکل جاؤ پوری کوشش کرلو۔ خیال فرمایئے کہ کس قدر دل ہلا دینے والا فقرہ ہے، پروردگار عالم خود قیامت کے دن ان منکروں سے فرمائے گا کہ اب خاموش کیوں ہو ؟ وہ عیاری، چالاکی اور بےباکی کیا ہوئی ؟ دیکھو میں نے تم سب کو ایک میدان میں حسب وعدہ جمع کردیا آج اگر کسی حکمت سے مجھ سے چھوٹ سکتے ہو تو کمی نہ کرو، جیسے اور جگہ ہے آیت ( يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْـطَار السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا ۭ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ 33ۚ ) 55 ۔ الرحمن ;33) یعنی اے جن وانس کے گروہ اگر تم آسان و زمین کے کناروں سے باہر چلے جانے کی طاقت رکھتے ہو تو نکل جاؤ مگر اتنا سمجھ لو کہ بغیر قوت کے تم باہر نہیں جاسکتے اور وہ تم میں نہیں اور جگہ ہے آیت (وَلَا تَضُرُّوْنَهٗ شَـيْـــًٔـا ۭ اِنَّ رَبِّيْ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ حَفِيْظٌ 57) 11 ۔ ھود ;57) یعنی تم اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے بندو نہ تو تمہیں مجھے نفع پہنچانے کا اختیار ہے نہ نقصان پہنچانے کا، نہ تم مجھے کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہو نہ میرا کچھ بگاڑ سکتے ہو، حضرت ابو عبد اللہ جدلی فرماتے ہیں کہ میں بیت المقدس گیا دیکھا کہ وہاں حضرت عبادہ بن صامت (رض) اور حضرت عبد اللہ بن عمرو (رض) اور حضرت کعب احبار (رض) بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے ہیں میں بھی بیٹھ گیا، تو میں نے سنا کہ حضرت عبادہ فرماتے ہیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام اگلوں پچھلوں کو ایک چٹیل صاف میدان میں جمع کرے گا آواز دینے والا آواز دے کر سب کو ہوشیار کر دے گا، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا آج کا دن فیصلوں کا دن ہے تم سب اگلے پچھلوں کو میں نے جمع کردیا ہے، اب میں تم سے کہتا ہوں کہ اگر میرے ساتھ کوئی دغا فریب مکر حیلہ کرسکتے ہو تو کرلو سنو ! متکبر سرکش منکر اور جھٹلانے والا آج میری پکڑ سے بچ نہیں سکتا اور نہ کوئی نافرمان شیطان میرے عذابوں سے نجات پاسکتا ہے، حضرت عبد اللہ (رض) نے فرمایا لو ایک حدیث میں بھی سنا دوں، اس دن جہنم اپنی گردن دراز کر کے لوگوں کے بیچوں بیچ پہنچا کر بہ آواز بلند کہے گی، اے لوگو تین قسم کے لوگوں کو ابھی ہی پکڑ لینے کا مجھے حکم مل چکا ہے، میں انہیں خوب پہچانتی ہوں کوئی باپ اپنی اولاد کو اور کوئی بھائی اپنے بھائی کو اتنا نہ جانتا ہوگا جتنا میں انہیں پہچانتی ہوں، آج نہ تو وہ مجھ سے کہیں چھپ سکتے ہیں نہ کوئی انہیں چھپا سکتا ہے۔ ایک تو وہ جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کیا ہو، دوسرے وہ جو منکر اور متکبر ہو اور تیسرے وہ جو نافرمان شیطان ہو، پھر وہ مڑ مڑ کر چن چن کر ان اوصاف کے لوگوں کو میدان حشر میں چھانٹ لے گی اور ایک ایک کو پکڑ کر نکل جائے گی اور حساب سے چالیس سال پہلے ہی یہ جہنم واصل ہوجائیں گے۔ (اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں محفوظ رکھے۔