سَاَلَ سَاۤٮِٕلٌ ۢ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍۙ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
مانگنے والے نے عذاب مانگا ہے، (وہ عذاب) جو ضرور واقع ہونے والا ہے
English Sahih:
A supplicant asked for a punishment bound to happen
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
مانگنے والے نے عذاب مانگا ہے، (وہ عذاب) جو ضرور واقع ہونے والا ہے
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
ایک مانگنے والا وہ عذاب مانگتا ہے،
احمد علی Ahmed Ali
ایک سوال کرنے والے نے اس عذاب کا سوال کیا جو واقع ہونے والا ہے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
ایک سوال کرنے والے نے (١) اس عذاب کا سوال کیا جو واضح ہونے والا ہے۔
١۔١ کہتے ہیں نضر بن حارث تھا یا ابو جہل تھا جس نے کہا تھا (وَاِذْ قَالُوا اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ 32) 8۔ الانفال;32) چنانچہ یہ شخص جنگ بدر میں مارا گیا۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ جنہوں نے اپنی قوم کے لئے بد دعا کی تھی اور اس کے نتیجے میں اہل مکہ پر قحط سالی مسلط کی گئی تھی۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
ایک طلب کرنے والے نے عذاب طلب کیا جو نازل ہو کر رہے گا
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
ایک سوال کرنے والے نے اس عذاب کا سوال کیا جو واضح ہونے واﻻ ہے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
ایک سوال کرنے والے نے اس عذاب کا سوال کیا۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ایک مانگنے والے نے واقع ہونے والے عذاب کا سوال کیا
طاہر القادری Tahir ul Qadri
ایک سائل نے ایسا عذاب طلب کیا جو واقع ہونے والا ہے،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
بعذاب میں جو " ب " ہے وہ بتارہی ہے کہ یہاں فعل کی تضمین ہے گویا کہ فعل مقدر ہے یعنی یہ کافر عذاب کے واقع ہونے کی طلب میں جلدی کر رہے ہیں، جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ بالْعَذَابِ وَلَنْ يُّخْلِفَ اللّٰهُ وَعْدَهٗ ۭ وَاِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ 47) 22 ۔ الحج ;47) یعنی یہ عذاب مانگنے میں عجلت کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہرگز وعدہ خلافی نہیں کرتا، یعنی اس کا عذاب یقیناً اپنے وقت مقررہ پر آ کر ہی رہے گا، نسائی میں حضرت ابن عباس سے وارد ہے کہ کافروں نے اللہ کا عذاب مانگا جو ان پر یقیناً آنے والا ہے، یعنی آخرت میں ان کی اس طلب کے الفاظ بھی دوسری جگہ قرآن میں منقول ہیں کہتے ہیں آیت (اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ 32) 8 ۔ الانفال ;32) یعنی الٰہی اگر یہ تیرے پاس سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسایا ہمارے پاس کوئی درد ناک عذاب لا، ابن جریر وغیرہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ عذاب کی وادی ہے جو قیامت کے دن عذابوں سے بہ نکلے گی، لیکن یہ قول ضعیف ہے اور مطلب سے بہت دور ہے صحیح قول پہلا ہی ہے جس پر روش کلام کی دلالت ہے پھر فرماتا ہے کہ وہ عذاب کافروں کے لئے تیار ہے اور ان پر آپڑنے والا ہے جب آجائے گا تو اسے دور کرنے والا نہیں اور نہ کسی میں اتنی طاقت ہے کہ اسے ہٹا سکے۔ آیت ( مِّنَ اللّٰهِ ذِي الْمَعَارِجِ ۭ ) 70 ۔ المعارج ;3) کے معنی ابن عباس کی تفسیر کے مطابق درجوں والا، یعنی بلندیوں اور بزرگیوں والا اور حضرت مجاہد فرماتے ہیں مراد معارج سے آسمان کی سیڑھیاں ہیں، قتادہ کہتے ہیں فضل و کرم اور نعمت و رحم والا، یعنی یہ عذاب اس اللہ کی طرف سے ہے جو ان صفتوں والا ہے، اس کی طرف فرشتے اور روح چڑھتے ہیں، روح کی تفسیر میں حضرت ابو صالح فرماتے ہیں کہ یہ قسم کی مخلوق ہے انسان تو نہیں لیکن انسانوں سے بالکل مشابہ ہے، میں کہتا ہوں ممکن ہے اس سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہوں اور یہ عطف ہو عام پر خاص کا اور ممکن ہے کہ اس سے مراد بنی آدم کی روحیں ہوں، اس لئے کہ وہ بھی قبض ہونے کے بعد آسمان کی طرف چڑھتی ہیں، جیسے کہ حضرت براء والی لمبی حدیث میں ہے کہ جب فرشتے پاک روح نکالتے ہیں تو اسے لے کر ایک آسمان سے دوسرے پر چڑھتے جاتے ہیں یہاں تک کہ ساتویں آسمان پر پہنچتے ہیں، گو اس کے بعض راویوں میں کلام ہے لیکن یہ حدیث مشہور ہے اور اس کی شہادت میں حضرت ابوہریرہ والی حدیث بھی ہے جیسے کہ پہلے بروایت امام احمد ترمذی اور ابن ماجہ گذر چکی ہے جسکی سند کے راوی ایک جماعت کی شرط پر ہیں، پہلی حدیث بھی مسند احمد ابو داؤد و نسائی اور ابن ماجہ میں ہے، ہم نے اس کے الفاظ اور اس کے طرق کا بسیط بیان آیت ( يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَةِ ۚ وَيُضِلُّ اللّٰهُ الظّٰلِمِيْنَ ڐ وَيَفْعَلُ اللّٰهُ مَا يَشَاۗءُ 27 ) 14 ۔ ابراھیم ;27) کی تفسیر میں کردیا ہے۔ پھر فرمایا اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے اس میں چار قول ہیں ایک تو یہ کہ اس سے مراد وہ دوری ہے جو اسفل السافلین سے عرش معلی تک ہے اور اسی طرح عرش کے نیچے سے اوپر تک کا فاصلہ بھی اتنا ہی ہے اور عرش معلی سرخ یاقوت کا ہے، جیسے کہ امام ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب " صفتہ العرش " میں ذکر کیا ہے، ابن ابی حاتم میں ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس کے حکم کی انتہاء نیچے کی زمین سے آسمانوں کے اوپر تک کی پچاس ہزار سال کی ہے اور ایک دن ایک ہزار سال کا ہے یعنی آسمان سے زمین تک اور زمین سے آسمان تک ایک دن میں جو ایک ہزار سال کے برابر ہے، اس لئے کہ آسمان و زمین کا فاصلہ پانچ سو سال کا ہے یہی روایت دوسرے طریق سے حضرت مجاہد کے قول سے مروی ہے حضرت ابن عباس کے قول سے نہیں، حضرت ابن عباس سی ابن ابی حاتم میں روایت ہے کہ ہر زمین کی موٹائی پانچ سو سال کے فاصلہ کی ہے اور ایک زمین سے دوسری زمین تک پانچ سو سال کی دوری ہے تو سات ہزار سال یہ ہوگئے، اسی طرح آسمان، تو چودہ ہزار سال یہ ہوئی اور ساتویں آسمان سے عرش عظیم تک چھتیس ہزار سال کا فاصلہ ہے یہی معنی ہیں اللہ کے اس فرمان کے کہ اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہے، دوسرا قول یہ ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے اس عالم کو پیدا کیا ہے تب سے لے کر قیامت تک کہ اس کی بقاء کی آخر تک مدت پچاس ہزار سال کی ہے، چناچہ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ دنیا کی کل عمر پچاس ہزار سال کی ہے، اور یہی ایک دن ہے جو اس آیت میں مراد لیا گیا ہے، حضرت عکرمہ فرماتے ہیں دنیا کی پوری مدت یہی ہے لیکن کسی کو معلوم نہیں کہ کس قدر گزر گئی اور کتنی باقی ہے سوائے اللہ تبارک و تعالیٰ کے تیسرا قول یہ ہے کہ یہ دن وہ ہے جو دنیا اور آخرت میں فاصلے کا ہے، حضرت محمد بن کعب یہی فرماتے ہیں لیکن یہ قول بہت ہی غریب ہے، چوتھا قول یہ ہے کہ اس سے مراد قیامت کا دن ہے حضرت ابن عباس سے یہ بہ سند صحیح مروی ہے، حضرت عکرمہ بھی یہی فرماتے ہیں، ابن عباس کا قول ہے کہ قیامت کے دن کو اللہ تعالیٰ کافروں پر پچاس ہزار سال کا کر دے گا، مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا گیا یہ دن تو بہت ہی بڑا ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ مومن پر اس قدر ہلکا ہوجائے گا کہ دنیا کی ایک فرض نماز کی ادائیگی میں جتنا وقت لگتا ہے اس سے بھی کم ہوگا، یہ حدیث ابن جریر میں بھی ہے اس کے دو راوی ضعیف ہیں، واللہ اعلم۔ مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) کے پاس سے قبیلہ بنو عامر کا ایک شخص گذرا لوگوں نے کہا حضرت یہ اپنے قبیلے میں سب سے بڑا مالدار ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے بلوایا اور فرمایا کیا واقع میں تم سب سے زیادہ مالدار ہو ؟ اس نے کہا ہاں میرے پاس رنگ برنگ سینکڑوں اونٹ قسم قسم کے غلام اعلیٰ اعلیٰ درجہ کے گھوڑے وغیرہ ہیں حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا دیکھو خبردار ایسا نہ ہو کہ یہ جانور اپنے پاؤں سے تمہیں روندیں اور اپنے سینگوں سے تمہیں ماریں بار بار یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ عامری کے چرے کا رنگ اڑ گیا اور اس نے کہا حضرت یہ کیوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سنو ! میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ جو اپنے اونٹوں کا حق ادا نہ کرے ان کی سختی میں اور ان کی آسانی میں اسے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ایک چٹیل لمبے چوڑے صاف میدان میں چت لٹائے گا اور ان تمام جانوروں کو خوب موٹا تازہ کر کے حکم دے گا کہ اسے روندے ہوئے چلو چناچہ ایک ایک کر کے اسے کچلتے ہوئے گزریں گے جب آخر والا گذر جائے گا تو اول والا لوٹ کر آجائے گا یہی عذاب اسے ہوتا رہے گا اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فاصلہ ہوجائے پھر وہ اپنا راستہ دیکھ لے گا، اسی طرح گائے گھوڑے بکری وغیرہ یہی سینگ دار جانور اپنے سینگوں سے بھی اسے مارتے جائیں گے کوئی ان میں بےسینگ کا یا ٹوٹے ہوئے سینگ والا نہ ہوگا، عامری نے پوچھا اے حضرت ابوہریرہ (رض) فرمایئے اونٹوں میں اللہ کا حق کیا ہے ؟ فرمایا مسکنیوں کو سواری کے لئے تحفتًہ دینا غرباء کے ساتھ سلوک کرنا دودھ پینے کے لئے جانور دینا ان کے نروں کی ضرورت جنہیں مادہ کے لئے ہوا نہیں مانگا ہوا بےقیمت دینا، یہ حدیث ابو داؤد اور نسائی میں بھی دسرے سند سے مذکور ہے، مسند کی ایک حدیث میں ہے کہ جو سونے چاندی کے خزانے والا اس کا حق ادا نہ کرے اس کا سونا چاندی کی تختیوں کی صورت میں بنایا جائے گا اور جہنم کی آگ میں تپا کر اس کی پیشانی کروٹ اور پیٹھ داغی جائے گی یہاں تک کہ اللہ اپنے بندوں کے فیصلے کرلے اس دن میں جس کی مقدار تمہاری گنتی سے پچاس ہزار سال کی ہوگی پھر وہ اپنا راستہ جنت کی طرف یا جہنم کی طرف دیکھ لے گا، پھر آگے بکریوں اور اونٹوں کا بیان ہے جیسے اوپر گذرا، اور یہ بھی بیان ہے کہ گھوڑے تین قسم کے لوگوں کے لئے ہیں۔ ایک تو اجر دلانے والے، دوسری قسم کے پردہ پوشی کرنے والے، تیسری قسم کے بوجھ ڈھونے والے۔ یہ حدیث پوری پوری صحیح مسلم شریف میں بھی ہے۔ ان روایتوں کے پورا بیان کرنے کی اور ان کی سندوں اور الفاظ کے تمام تر نقل کرنے کی مناسب جگہ احکام کی کتاب الزکوۃ ہے، یہاں ان کے وارد کرنے سے ہماری غرض صرف ان الفاظ سے ہے کہ یہاں تک کہ اللہ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرے گا، اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے ایک شخص پوچھتا ہے کہ وہ دن کیا ہے، جس کی مقدار ایک ہزار سال کی ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اور وہ دن کیا ہے جو پچاس ہزار سال کا ہے ؟ اس نے کہا حضرت میں تو خود دریافت کرنے آیا ہوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سنو یہ دو دن ہیں جن کا ذکر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی کو ان کی حقیقت کا بخوبی علم ہے میں تو باوجود نہ جاننے کے کتاب اللہ میں کچھ کہنا مکروہ جانتا ہوں۔ پھر فرماتا ہے اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم اپنی قوم کو جھٹلانے پر اور عذاب کے مانگنے کی جلدی پر جسے وہ اپنے نزدیک نہ آنے والا جانتے ہیں صبر و تحمل کرو، جیسے اور جگہ ہے آیت ( يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِهَا ۚ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مُشْفِقُوْنَ مِنْهَا ۙ وَيَعْلَمُوْنَ اَنَّهَا الْحَقُّ ۭ اَلَآ اِنَّ الَّذِيْنَ يُمَارُوْنَ فِي السَّاعَةِ لَفِيْ ضَلٰلٍۢ بَعِيْدٍ 18) 42 ۔ الشوری ;18) ، یعنی بےایمان تو قیامت کے جلد آنے کی تمنائیں کرتے ہیں اور ایمان دار اس کے آنے کو حق جان کر اس سے ڈر رہے ہیں۔ اسی لئے یہاں بھی فرمایا کہ یہ تو اسے دور جان رہے ہیں بلکہ محال اور واقع نہ ہونے والا مانتے ہیں لیکن ہم اسے قریب ہی دیکھ رہے ہیں، یعنی مومن تو اس کا آنا حق جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب آیا ہی چاہتی ہے، نہ جانے کب قیامت قائم ہوجائے اور کب عذاب آپڑیں، کیونکہ اس کے صحیح وقت کو تو سوائے اللہ کے اور کوئی جانتا ہی نہیں، پس ہر وہ چیز جس کے آنے اور ہونے میں کوئی شک نہ ہو اس کا آنا قریب ہی سمجھا جاتا ہے اور اس کے ہو پڑنے کا ہر وقت کھٹکا ہی رہتا ہے۔