وَبَيْنَهُمَا حِجَابٌ ۚ وَعَلَى الْاَعْرَافِ رِجَالٌ يَّعْرِفُوْنَ كُلًّاۢ بِسِيْمٰٮهُمْ ۚ وَنَادَوْا اَصْحٰبَ الْجَـنَّةِ اَنْ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْۗ لَمْ يَدْخُلُوْهَا وَهُمْ يَطْمَعُوْنَ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
ان دونوں گروہوں کے درمیان ایک اوٹ حائل ہوگی جس کی بلندیوں (اعراف) پر کچھ اور لوگ ہوں گے یہ ہر ایک کو اس کے قیافہ سے پہچانیں گے اور جنت والوں سے پکار کر کہیں گے کہ "سلامتی ہو تم پر" یہ لوگ جنت میں داخل تو نہیں ہوئے مگر اس کے امیدوار ہونگے
English Sahih:
And between them will be a partition [i.e., wall], and on [its] elevations are men who recognize all by their mark. And they call out to the companions of Paradise, "Peace be upon you." They have not [yet] entered it, but they long intensely.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
ان دونوں گروہوں کے درمیان ایک اوٹ حائل ہوگی جس کی بلندیوں (اعراف) پر کچھ اور لوگ ہوں گے یہ ہر ایک کو اس کے قیافہ سے پہچانیں گے اور جنت والوں سے پکار کر کہیں گے کہ "سلامتی ہو تم پر" یہ لوگ جنت میں داخل تو نہیں ہوئے مگر اس کے امیدوار ہونگے
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اور جنت و دوزخ کے بیچ میں ایک پردہ ہے اور اعراف پر کچھ مرد ہوں گے کہ دونوں فریق کو ان کی پیشانیوں سے پہچانیں گے اور وہ جنتیوں کو پکاریں گے کہ سلام تم پر یہ جنت میں نہ گئے اور اس کی طمع رکھتے ہیں،
احمد علی Ahmed Ali
اور ان دونوں کے درمیان ایک دیوار ہو گی اور اعراف کے اوپر ایسے مرد ہوں گے کہ ہر ایک کو اس کی نشانی سے پہچان لیں گے اور جنت والوں کو پکار کر کہیں گے کہ تم پر سلام ہو وہ ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے اور امیدوار ہیں
أحسن البيان Ahsanul Bayan
اور ان دونوں کے درمیان ایک آڑ ہوگی (١) اور اعراف کے اوپر بہت سے آدمی ہونگے وہ لوگ (٢) ہر ایک کو ان کے قیافہ سے پہچانیں گے (٣) اور اہل جنت کو پکار کر کہیں گے السلامُ علیکم! ابھی یہ اہل اعراف (دوزخ اور جنت کے درمیان) جنت میں داخل نہیں ہوئے ہونگے اور اس کے امیدوار ہونگے (٤)۔
٤٦۔١ ' ان دونوں کے درمیان ' سے مراد جنت دوزخ کے درمیان یا کافروں اور مومنوں کے درمیان ہے۔ حِجَاب،ُ (آڑ) سے وہ فصیل (دیوار) مراد ہے جس کا ذکر سورۃ حدید میں ہے ;(فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُوْرٍ لَّهٗ بَابٌ) 57۔ الحدید;13) پس ان کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی جائے گی، جس میں ایک دروازہ ہوگا یہی اعراف کی دیوار ہے۔
٤٦۔٢ یہ کون ہونگے؟ ان کی تعین میں مفسرین کے درمیان خاصا اختلاف ہے۔ اکثر مفسرین کے نزدیک یہ وہ لوگ ہونگے جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں گی۔ ان کی نیکیاں جہنم میں جانے سے اور برائیاں جنت میں جانے سے مانع ہونگی اور یوں اللہ تعالٰی کی طرف سے قطعی فیصلہ ہونے تک وہ درمیان میں معلق رہیں گے۔
٤٦۔٣ سیماء کے معنی علامت کے ہیں جنتیوں کے چہرے روشن اور جہنمیوں کے چہرے سیاہ اور آنکھیں نیلی ہونگی۔ اس طرح وہ دونوں قسم کے لوگوں کو پہچان لیں گے۔
٤٦۔٤ یہاں یَطْمَعُوْنَ کے معنی بعض لوگوں نے یَعْلَمُوْن کے کئے ہیں یعنی ان کو علم ہوگا کہ وہ عنقریب جنت میں داخل کر دئے جائیں گے۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
ان دونوں (یعنی بہشت اور دوزخ) کے درمیان (اعراف نام) ایک دیوار ہو گی اور اعراف پر کچھ آدمی ہوں گے جو سب کو ان کی صورتوں سے پہچان لیں گے۔ تو وہ اہل بہشت کو پکار کر کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو۔ یہ لوگ بھی بہشت میں داخل تو نہیں ہوں گے مگر امید رکھتے ہوں گے
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
اور ان دونوں کے درمیان ایک آڑ ہوگی اور اعراف کے اوپر بہت سے آدمی ہوں گے وه لوگ، ہر ایک کو ان کے قیافہ سے پہچانیں گے اور اہل جنت کو پکار کر کہیں گے، السلام علیکم! ابھی یہ اہل اعراف جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے اور اس کے امیدوار ہوں گے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
اور ان دونوں (بہشت و دوزخ) کے درمیان پردہ ہے (حدِ فاصل ہے) اور اعراف پر کچھ لوگ ہوں گے جو ہر ایک کو اس کی علامت سے پہچان لیں گے۔ اور وہ بہشت والوں کو پکار کر کہیں گے کہ تم پر سلام ہو اور یہ لوگ (ابھی) اس میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے۔ حالانکہ وہ اس کی خواہش رکھتے ہوں گے۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ان کے درمیان پردہ ڈال دیا جائے گا اور اعراف پر کچھ لوگ ہوں گے جو سب کو ان کی نشانیوں سے پہچان لیں گے اور اصحابِ جنّت کو آواز دیں گے کہ تم پر ہمارا سلام -وہ جنّت میں داخل نہ ہوئے ہوں گے لیکن اس کی خواہش رکھتے ہوں گے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
اور (ان) دونوں (یعنی جنتیوں اور دوزخیوں) کے درمیان ایک حجاب (یعنی فصیل) ہے، اور اَعراف (یعنی اسی فصیل) پر کچھ مرد ہوں گے جو سب کو ان کی نشانیوں سے پہچان لیں گے۔ اور وہ اہلِ جنت کو پکار کر کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو۔ وہ (اہلِ اَعراف خود ابھی) جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے حالانکہ وہ (اس کے) امیدوار ہوں گے،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
جنت اور جہنم میں دیوار و حجاب
جنتیوں اور دوزخیوں کی بات بیان فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ جنت دوزخ کے درمیان ایک اور حجاب حد فاصل اور دیوار ہے کہ دوزخیوں کو جنت سے فاصلے پر رکھے اسی دیوار کا ذکر آیت (فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُوْرٍ لَّهٗ بَابٌ ۭ بَاطِنُهٗ فِيْهِ الرَّحْمَةُ وَظَاهِرُهٗ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذَاب 13) 57 ۔ الحدید) ، میں ہے یعنی ان کے درمیان ایک دیوار ہائل کردی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہے۔ اس کے اندر رحمت ہے اور باہر عذاب ہے۔ اسی کا نام (اعراف) ہے۔ (اعراف) (عرف) کی جمع ہے ہر اونچی زمین کو عرب میں عرفہ کہتے ہیں اسی لئے مرغ کے سر کی کلنگ کو بھی عرب میں (عرف الدیک) کہا جاتا ہے کیونکہ اونچی جگہ ہوتا ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں یہ ایک اونچی جگہ ہے جنت دوزخ کے درمیان جہاں کچھ لوگ روک دیئے جائیں گے۔ سدی فرماتے ہیں اس کا نام اعراف اس لئے رکھا گیا ہے کہ یہاں کے لوگ اور لوگوں کو جانتے پہچانتے ہیں۔ یہاں کون لوگ ہوں گے ؟ اس میں بہت سے اقوال ہیں سب کا حاصل یہ ہے کہ وہ یہ لوگ ہوں گے جن کے گناہ اور نیکیاں برباد ہوں گی بعض سلف سے بھی یہی منقول ہے۔ حضرت حذیفہ حضرت ابن عباس حضرت ابن مسعود وغیرہ نے یہی فرمایا ہے۔ یہی بعد والے مفسرین کا قول ہے۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے لیکن سنداً وہ حدیث غریب ہے اور سند سے مروی ہے کہ حضور سے جب ان لوگوں کی بابت جن کی نیکیاں بدیاں برابر ہوں اور جو اعراف والے ہیں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا یہ وہ نافرمان لوگ ہیں جو اپنے باپ کی اجازت بغیر پھر اللہ کی راہ میں قتل کردیئے گئے اور روایت میں ہے کہ یہ لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے اور اپنے والدین کے نافرمان تھے تو جنت میں جانے سے باپ کی نافرمانی نے روک دیا اور جہنم میں جانے سے شہادت نے روک دیا۔ ابن ماجہ وغیرہ میں بھی یہ روایتیں ہیں۔ اب اللہ ہی کو ان کی صحت کا علم ہے بہت ممکن ہے کہ یہ موقوف روایتیں ہوں۔ بہر صورت ان سے اصحاب اعراف کا حال معلوم ہو رہا ہے۔ حضرت حذیفہ سے جب ان کی بابت سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جن کی نیکیاں بدیاں برابر برابر تھیں۔ برائیوں کی وجہ سے جنت میں نہ جاسکے اور نیکیوں کی وجہ سے جہنم سے بچ گئے پس یہاں آڑ میں روک دیئے جائیں گے یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ ان کے بارے میں سرزد ہو اور آیت میں آپ سے مروی ہے کہ یہ دوزخیوں کو دیکھ دیکھ کر ڈر رہے ہوں گے اور اللہ سے نجات طلب کر رہے ہوں گے کہ ناگاہ انکا رب ان کی طرف دیکھے گا اور فرمائے گا جاؤ جنت میں داخل ہوجاؤ میں نے تمہیں بخشا۔ حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں قیامت کے دن لوگوں کا حساب ہوگا ایک نیکی بھی اگر برائیوں سے بڑھ گئی تو داخل جنت ہوگا اور ایک برائی بھی اگر نیکیوں سے زیادہ ہوگئی تو دوزخ میں جائے گا پھر آپ نے آیت (فمن ثقلت موازینہ) سے دو آیتوں تک تلاوت کیں اور فرمایا ایک رائی کے دانے کے برابر کی کمی زیادتی ہے میزان کا پلڑا ہلکا بھاری ہوجاتا ہے اور جن کی نیکیاں بدیاں برابر برابر ہوئیں یہ اعراف والے ہیں یہ ٹھہرا لئے جائیں گے اور جنتی دوزخی مشہور ہوجائیں گے یہ جب جنت کو دیکھیں گے تو اہل جنت پر سلام کریں گے اور جب جہنم کو دیکھیں گے تو اللہ سے پناہ طلب کریں گے۔ نیک لوگوں کو نور ملے گا جو ان کے آگے اور ان کے داہنے موجود رہے گا ہر انسان کو وہ مرد ہوں خواہ عورتیں ہوں ایک نور ملے گا لیکن پل صراط پر منافقوں کا نور چھین لیا جائے گا اس وقت سچے مومن اللہ سے اپنے نور کے باقی رہنے کی دعائیں کریں گے۔ اعراف والوں کا نور چھینا نہیں جائے گا وہ ان کے آگے آگے موجود ہوگا انہیں جنت میں جانے کی طمع ہوگی، لوگوں ایک نیکی دس گنی کر کے لکھی جاتی ہے اور برائی اتنی ہی لکھی جاتی ہے جتنی ہو، افسوس ان پر جن کی اکائیاں دہائیوں پر غالب آجائیں۔ حضرت ابن عباس (رض) کا فرمان ہے کہ اعراف ایک دیوار ہے جو جنت دوزخ کے درمیان ہے اصحاب اعراف وہیں ہوں گے۔ جب انہیں عافیت دینے کا اللہ کا ارادہ ہوگا تو حکم ملے گا انہیں ہر حیات کی طرف لے جاؤ اس کے دونوں کناروں پر سونے کے خیمے ہوں گے جو موتیوں سے مرصع ہوں گے اس کی مٹی مشک خالص ہوگی اس میں غوطہ لگاتے ہی ان کی رنگتیں نکھر جائیں گی اور ان کی گردنوں پر ایک سفید چمکیلا نشان ہوجائے گا جس سے وہ پہچان لئے جائیں یہ اللہ کے سامنے لائے جائیں گے اللہ تعالیٰ فرمائے گا جو چاہو مانگو یہ مانگیں گے یہاں تک کہ ان کی تمام تمنائیں اللہ تعالیٰ پوری کر دے گا پھر فرمائے گا ان جیسی ستر گنا اور نعمتیں بھی میں نے تمہیں دیں۔ پھر یہ جنت میں جائیں گے، وہ علامت ان پر موجود ہوگی جنت میں ان کا نام مساکین اہل جنت ہوگا، یہی روایت حضرت مجاہد کے اپنے قول سے بھی مروی ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے۔ واللہ اعلم۔ ایک حسن سند کی مرسل حدیث میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اعراف والوں کی نسبت دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ ان کا فیصلہ سب سے آخر میں ہوگا، رب العالمین جب اپنے بندوں کے فیصلے کرچکے گا تو ان سے فرمائے گا کہ تم لوگوں کو تمہاری نیکیوں نے دوزخ سے تو محفوظ کرلیا لیکن تم جنت میں جانے کے حقدار ثابت نہیں ہوئے اب تم کو میں اپنی طرف سے آزاد کرتا ہوں جاؤ جنت میں رہو سہو اور جہاں چاہو کھاؤ پیو، یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ زنا کی اولاد ہیں۔ ابن عساکر میں فرمان نبی ہے کہ مومن جنوں کو ثواب ہے اور ان میں سے جو برے ہیں انہیں عذاب بھی ہوگا، ہم نے ان کے ثواب اور ان کے ایمانداروں کے بابت حضور سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا وہ اعراف میں ہوں گے جنت میں میری امت کے ساتھ نہ ہوں گے ہم نے پوچھا یا رسول اللہ اعراف کیا ہے ؟ فرمایا جنت کا ایک باغ جہاں نہریں جاری ہیں اور پھل پک رہے ہیں (بیہقی) حضرت مجاہد فرماتے ہیں یہ صالح دینار فقہاء علما لوگ ہوں گے ابو مجاز فرماتے ہیں یہ فرشتے ہیں جنت دوزخ والوں کو جانتے ہیں پھر آپ نے ان آیتوں کے تلاوت کی اور فرمایا سب جنتی جنت میں جانے لگیں گے تو کہا جائے گا کہ تم امن وامان کے ساتھ بےخوف و خطر ہو کر جنت میں جاؤ۔ اس کی سند گو ٹھیک ہے لیکن یہ قول بہت غریب ہے کیونکہ روانی عبارت بھی اس کے خلاف ہے اور جمہور کا قول ہی مقدم ہے کیونکہ آیت کے ظاہری الفاظ کے مطابق ہے۔ حضرت مجاہد کا قول بھی جو اوپر بیان ہوا غرابت سے خالی نہیں واللہ اعلم۔ قرطبی (رح) نے اس میں بارہ قول نقل کئے ہیں۔ صلحاء، انبیاء، ملائیکہ وغیرہ۔ یہ جنتیوں کو ان کے چہرے کی رونق اور سفیدی سے اور دوزخیوں کو ان کے چہرے کی سیاہی سے پہچان لیں گے یہ یہاں اسی لئے ہیں کہ ہر ایک کا امتیاز کرلیں اور سب کو پہچان لیں یہ جنتیوں سے سلام کریں گے جنتیوں کو دیکھ دیکھ کر اللہ کی پناہ چائیں گے اور طمع رکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں بھی بہشت بریں میں پہنچا دے یہ طمع ان کے دل میں اللہ نے اسی لئے ڈالا ہے کہ اس کا ارادہ انہیں جنت میں لے جانے کا ہوچکا ہے۔ جب وہ اہل دوزخ کو دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پروردگار ہمیں ظالموں میں سے نہ کر۔ جب کوئی جماعت جہنم میں پہنچائی جاتی ہے تو یہ اپنے بچاؤ کی دعائیں کرنے لگتے ہیں جہنم سے ان کے چہرے کوئلے جیسے ہوجائیں گے لیکن جب جنت والوں کو دیکھیں گے تو یہ چیز چہروں سے دور ہوجائے گی جنتیوں کے چہروں کی پہچان نورانیت ہوگی اور دوزخیوں کے چہروں پر سیاہی اور آنکھوں میں بھینگا پن ہوگا۔