Skip to main content

وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوْسٰى مِنْۢ بَعْدِهٖ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ ۗ اَلَمْ يَرَوْا اَنَّهٗ لَا يُكَلِّمُهُمْ وَلَا يَهْدِيْهِمْ سَبِيْلًا ۘ اِتَّخَذُوْهُ وَكَانُوْا ظٰلِمِيْنَ

And took
وَٱتَّخَذَ
اور بنا لیا
(the) people
قَوْمُ
قوم نے
(of) Musa
مُوسَىٰ
موسیٰ کی
from
مِنۢ
سے
after him
بَعْدِهِۦ
ان کے پیچھے
from
مِنْ
میں سے
their ornaments
حُلِيِّهِمْ
اپنے زیورات
a calf
عِجْلًا
ایک بچھڑا
an image
جَسَدًا
جسم والا
[for] it
لَّهُۥ
اسی کی
(had) a lowing sound
خُوَارٌۚ
آواز تھی
Did not
أَلَمْ
کیا نہیں
they see
يَرَوْا۟
انہوں نے دیکھا
that it
أَنَّهُۥ
کہ بیشک وہ
(could) not
لَا
نہیں
speak to them
يُكَلِّمُهُمْ
کلام کرتا ان سے
and not
وَلَا
اور نہیں
guide them
يَهْدِيهِمْ
وہ راہنمائی کرنا ان کی
(to) a way?
سَبِيلًاۘ
راستے کی طرف
They took it (for worship)
ٱتَّخَذُوهُ
انہوں نے بنا لیا اس کو
and they were
وَكَانُوا۟
تھے وہ
wrongdoers
ظَٰلِمِينَ
ظالم

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

موسیٰؑ کے پیچھے اس کی قوم کے لوگوں نے اپنے زیوروں سے ایک بچھڑے کا پتلا بنا لیا جس میں سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی کیا اُنہیں نظر نہ آتا تھا کہ وہ نہ ان سے بولتا ہے نہ کسی معاملہ میں ان کی رہنمائی کرتا ہے؟ مگر پھر بھی اُنہوں نے اسے معبود بنا لیا اور وہ سخت ظالم تھے

English Sahih:

And the people of Moses made, after [his departure], from their ornaments a calf – an image having a lowing sound. Did they not see that it could neither speak to them nor guide them to a way? They took it [for worship], and they were wrongdoers.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

موسیٰؑ کے پیچھے اس کی قوم کے لوگوں نے اپنے زیوروں سے ایک بچھڑے کا پتلا بنا لیا جس میں سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی کیا اُنہیں نظر نہ آتا تھا کہ وہ نہ ان سے بولتا ہے نہ کسی معاملہ میں ان کی رہنمائی کرتا ہے؟ مگر پھر بھی اُنہوں نے اسے معبود بنا لیا اور وہ سخت ظالم تھے

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اور موسیٰ کے بعد اس کی قوم اپنے زیوروں سے ایک بچھڑا بنا بیٹھی بے جان کا دھڑ گائے کی طرف آواز کرتا، کیا نہ دیکھا کہ وہ ان سے نہ بات کرتا ہے اور نہ انہیں کچھ راہ بتائے اسے لیا اور وہ ظالم تھے

احمد علی Ahmed Ali

اور موسیٰ کی قوم نے اس کے بعد اپنے زیوروں سے بچھڑا بنا لیا ایک جسم تھا جس میں گائے کی آواز تھی کیا انہوں نے یہ نہ دیکھا کہ وہ ان سے بات بھی نہیں کرتا اور نہ ہی انہیں راہ بتاتا ہے اسے معبود بنا لیا اور وہ ظالم تھے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

اور موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے ان کے بعد اپنے زیوروں کا ایک بچھڑا معبود ٹھہرا لیا جو کہ ایک قالب تھا جس میں ایک آواز تھی۔ کیا انہوں نے یہ نہ دیکھا کہ وہ ان سے بات نہیں کرتا تھا اور نہ کوئی راہ بتلاتا تھا اس کو انہوں نے معبود قرار دیا اور بڑی بے انصافی کا کام کیا (١)

١٤٨۔١ موسیٰ علیہ السلام جب چالیس راتوں کے لئے کوہ طور پر گئے تو پیچھے سے سامری نامی شخص نے سونے کے زیورات اکھٹے کرکے ایک بچھڑا تیار کیا جس میں اس نے جبرائیل علیہ السلام کے گھوڑے کے سموں کے نیچے کی مٹی بھی، جو اس نے سنبھال کر رکھی تھی شامل کردی، جس میں اللہ نے زندگی کی تاثیر رکھی تھی جس کی وجہ سے بچھڑا کچھ کچھ بیل کی آواز نکالتا تھا (گو واضح کلام کرنے اور راہنمائی کرنے سے عاجز تھا جیسا کہ قرآن کے الفاظ واضح کر رہے ہیں، اسمیں اختلاف ہے کہ فی الواقع گوشت پوست کا بچھڑا بن گیا تھا، یا تھا وہ سونے کا ہی، لیکن کسی طریقے سے اس میں ہوا داخل ہوتی تو گائے، بیل کی سی آواز اس میں سے نکلتی۔ (ابن کثیر) اس آواز سے سامری نے بنی اسرائیل کو گمراہ کیا کہ تمہارا معبود تو یہ ہے، موسیٰ علیہ السلام بھول گئے ہیں اور وہ معبود کی تلاش میں کوہ طور پر گئے ہیں۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

اور قوم موسیٰ نے موسیٰ کے بعد اپنے زیور کا ایک بچھڑا بنا لیا (وہ) ایک جسم (تھا) جس میں سے بیل کی آواز نکلتی تھی۔ ان لوگوں نے یہ نہ دیکھا کہ وہ نہ ان سے بات کرسکتا ہے اور نہ ان کو راستہ دکھا سکتا ہے۔ اس کو انہوں نے (معبود) بنالیا اور (اپنے حق میں) ظلم کیا

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

اور موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے ان کے بعد اپنے زیوروں کا ایک بچھڑا معبود ٹھہرا لیا جو کہ ایک قالب تھا جس میں ایک آواز تھی۔ کیا انہوں نے یہ نہ دیکھا کہ وه ان سے بات نہیں کرتا تھا اور نہ ان کو کوئی راه بتلاتا تھا اس کو انہوں نے معبود قرار دیا اور بڑی بے انصافی کا کام کیا

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

اور موسیٰ کی قوم نے ان کے (کوہِ طور پر چلے جانے کے) بعد اپنے زیوروں سے (ان کو گلا کر) ایک بچھڑے کا پتلا بنا لیا جس سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی۔ کیا انہوں نے اتنا بھی نہ دیکھا (نہ سوچا) کہ وہ نہ ان سے بات کرتا ہے اور نہ ہی کسی طرح کی راہنمائی کر سکتا ہے پھر بھی انہوں نے اسے (معبود) بنا لیا اور وہ (اپنے اوپر) سخت ظلم کرنے والے تھے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

اور موسٰی علیھ السّلامکی قوم نے ان کے بعد اپنے زیورات سے گوسالہ کا مجسمہ بنایا جس میں آواز بھی تھی کیاان لوگوں نے نہیں دیکھا کہ وہ نہ بات کرنے کے لائق ہے اور نہ کوئی راستہ دکھا سکتا ہے انہوں نے اسے خدا بنالیا اور وہ لوگ واقعاظلم کرنے والے تھے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اور موسٰی (علیہ السلام) کی قوم نے ان کے (کوہِ طور پر جانے کے) بعد اپنے زیوروں سے ایک بچھڑا بنا لیا (جو) ایک جسم تھا، اس کی آواز گائے کی تھی، کیا انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ وہ نہ ان سے بات کرسکتا ہے اور نہ ہی انہیں راستہ دکھا سکتا ہے۔ انہوں نے اسی کو (معبود) بنا لیا اور وہ ظالم تھے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

بنی اسرائیل کا بچھڑے کو پوجنا
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تو اللہ کے وعدے کے مطابق تورات لینے گئے ادھر فرعونیوں کے جو زیور بنی اسرائیل کے پاس رہ گئے تھے سامری نے انہیں جمع کیا اور اپنے پاس سے اس میں خاک کی مٹھی ڈال دی جو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے گھوڑے کی ٹاپ تلے سے اس نے اٹھالی تھی اللہ کی قدرت سے وہ سونا گل کر مثل ایک گائے کے جسم کے ہوگیا اور چونکہ کھو کھلا تھا اس میں سے آواز بھی آنے لگی اور وہ بالکل ہو بہو گائے کی سی آواز تھی۔ اس نے بنی اسرائیل کو بہکا کر اس کی عبادت کرانی شروع کردی بہت سے لوگ اسے پوجنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے طور پر حضرت موسیٰ کو اس فتنے کی خبر دی۔ یہ بچھڑا یا تو سچ مچ خون گوشت کا بن گیا تھا یا سونے کا ہی تھا مگر شکل گائے کی تھی یہ اللہ ہی جانے۔ بنی اسرائیل تو آواز سنتے ہی ناچنے لگے اور اس پر ریجھ گئے۔ سامری نے کہہ دیا کہ اللہ تو یہی ہے موسیٰ بھول گئے ہیں۔ انہیں اتنی بھی تمیز نہ آئی کہ وہ اللہ تو کسی بات کا جواب بھی نہیں دے سکتا اور کسی نفع نقصان کا اختیار بھی نہیں رکھتا۔ اس بچھڑے کو اس اللہ کو چھوڑ کر پوجو جو سب کا مالک اور سب کا خالق ہے۔ اس کی وجہ سوائے اندھے پن اور بےعقلی کے اور کیا ہوسکتی ہے ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سچ فرمایا کسی چیز کی محبت انسان کو اندھا بہرا کردیتی ہے پھر جب اس محبت میں کمی آئی آنکھیں کھلیں تو اپنے اس فعل پر نادم ہونے لگے اور یقین کرلیا کہ واقعی ہم گمراہ ہوگئے تو اللہ سے بخشش مانگنے لگے۔ ایک قرأت میں تغفر تے سے بھی ہے۔ جان گئے کہ اگر معافی نہ ملی تو بڑے نقصان سے دو جار ہوجائیں گے۔ غرض اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ سے جھکے اور التجا کرنے لگے۔