وَقَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوْسٰى وَقَوْمَهٗ لِيُفْسِدُوْا فِى الْاَرْضِ وَيَذَرَكَ وَاٰلِهَتَكَ ۗ قَالَ سَنُقَتِّلُ اَبْنَاۤءَهُمْ وَنَسْتَحْىٖ نِسَاۤءَهُمْ ۚ وَاِنَّا فَوْقَهُمْ قَاهِرُوْنَ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
فرعون سے اُس کی قوم کے سرداروں نے کہا "کیا تو موسیٰؑ اور اُس کی قوم کو یونہی چھوڑ دے گا کہ ملک میں فساد پھیلائیں اور وہ تیری اور تیرے معبودوں کی بندگی چھوڑ بیٹھے؟" فرعون نے جواب دیا "میں اُن کے بیٹوں کو قتل کراؤں گا اور اُن کی عورتوں کو جیتا رہنے دوں گا ہمارے اقتدار کی گرفت ان پر مضبوط ہے"
English Sahih:
And the eminent among the people of Pharaoh said, "Will you leave Moses and his people to cause corruption in the land and abandon you and your gods?" [Pharaoh] said, "We will kill their sons and keep their women alive; and indeed, we are subjugators over them."
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
فرعون سے اُس کی قوم کے سرداروں نے کہا "کیا تو موسیٰؑ اور اُس کی قوم کو یونہی چھوڑ دے گا کہ ملک میں فساد پھیلائیں اور وہ تیری اور تیرے معبودوں کی بندگی چھوڑ بیٹھے؟" فرعون نے جواب دیا "میں اُن کے بیٹوں کو قتل کراؤں گا اور اُن کی عورتوں کو جیتا رہنے دوں گا ہمارے اقتدار کی گرفت ان پر مضبوط ہے"
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اور قوم فرعون کے سردار بولے کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو اس لیے چھوڑ تا ہے کہ وہ زمین میں فساد پھیلائیں اور موسیٰ تجھے اور تیرے ٹھہرائے ہوئے معبودوں کو چھوڑدے بولا اب ہم ان کے بیٹوں کو قتل کریں گے اور ان کی بیٹیاں زندہ رکھیں گے اور ہم بیشک ان پر غالب ہیں
احمد علی Ahmed Ali
اور فرعون کی قوم کے سرداروں نے کہا کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو چھوڑتا ہے تاکہ وہ ملک میں فساد کریں اور تجھے اورتیرے معبودوں کو چھوڑ دے کہا ہم ان کے بیٹوں کو قتل کریں گے اور ان کی عورتو ں کو زندہ رکھیں گے اور بے شک ہم ان پر غالب ہیں
أحسن البيان Ahsanul Bayan
اور قوم فرعوں کے سرداروں نے کہا کہ کیا آپ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم یوں ہی رہنے دیں گے کہ وہ ملک فساد کرتے پھریں (١) اور آپ کو اور آپ کے معبودوں کو ترک کیئے رہیں (٢) فرعون نے کہا ہم ابھی ان لوگوں کے بیٹوں کو قتل کرنا شروع کر دیں گے اور عورتوں کو زندہ رہنے دیں گے اور ہم کو ان پر ہر طرح کا زور ہے۔ (٣)
١٢٧۔١ یہ ہر دور کے مفسدین کا شیوا رہا ہے کہ وہ اللہ والوں کو فسادی اور ان کی دعوت ایمان و توحید کو فساد سے تعبیر کرتے ہیں فرعون نے بھی یہی کہا۔
١٢٧۔٢ فرعون کو بھی اگرچہ دعویٰ ربوبیت تھا (اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى) 79۔ الزاریات;24) میں تمہارا بڑا رب ہوں وہ کہا کرتا تھا لیکن دوسرے چھوٹے چھوٹے معبود بھی تھے جن کے ذریعے سے لوگ فرعون کا تقرب حاصل کرتے تھے۔
١٢٧۔٣ ہمارے اس انتظام میں یہ رکاوٹ نہیں ڈال سکتے قتلِ انبیاء کا یہ پروگرام فرعونیوں کے کہنے پر بنایا گیا اس سے قبل بھی جب موسیٰ علیہ السلام کی ولادت نہیں ہوئی تھی موسیٰ علیہ السلام کے بعد از ولادت خاتمے کے لئے اس نے بنی اسرائیل کے نوملود بچوں کو قتل کرنا شروع کیا تھا، اللہ تعالٰی نے موسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے بعد ان کو بچانے کی یہ تدبیر کی کہ موسیٰ علیہ السلام کو خود فرعون کے محل میں پہنچوا کر اس کی گود میں ان کی پرورش کروائی۔ (فَلِلّٰهِ الْمَكْرُ جَمِيْعًا) 13۔ الرعد;42)۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
اور قومِ فرعون میں جو سردار تھے کہنے لگے کہ کیا آپ موسیٰ اور اس کی قوم کو چھوڑ دیجیے گا کہ ملک میں خرابی کریں اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں۔ وہ بولے کہ ہم ان کے لڑکوں کو قتل کرڈالیں گے اور لڑکیوں کو زندہ رہنے دیں گے اور بےشک ہم ان پر غالب ہیں
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
اور قوم فرعون کے سرداروں نے کہا کہ کیا آپ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کو یوں ہی رہنے دیں گے کہ وه ملک میں فساد کرتے پھریں، اور وه آپ کو اور آپ کے معبودوں کو ترک کئے رہیں۔ فرعون نے کہا کہ ہم ابھی ان لوگوں کے بیٹوں کو قتل کرنا شروع کر دیں گے اور عورتوں کو زنده رہنے دیں گے اور ہم کو ان پر ہر طرح کا زور ہے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
قومِ فرعون کے سرداروں نے کہا! تو موسیٰ اور اس کی قوم کے آدمیوں کو اس لئے چھوڑے رکھے گا کہ وہ ملک میں فساد پھیلاتے رہیں اور تمہیں اور تمہارے معبودوں کو چھوڑتے رہیں۔ اس (فرعون) نے (چین بجبین ہوکر) کہا ہم عنقریب ان کے لڑکوں کو قتل کریں گے اور ان کی عورتوں کو زندہ رہنے دیں گے اور ہم (پوری طرح) ان پر غالب ہیں۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور فرعون کی قوم کے ایک گروہ نے کہا کہ کیا تو موسٰی علیھ السّلاماور ان کی قوم کو یوں ہی چھوڑ دے گا کہ یہ زمین میں فساد برپا کریں اور تجھے اور تیرے خداؤں کو چھوڑ دیں -اس نے کہا کہ میں عنقریب ان کے لڑکوں کو قتل کر ڈالوں گا اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھوں گا .میں ان پر قوت اور غلبہ رکھتا ہوں
طاہر القادری Tahir ul Qadri
اور قومِ فرعون کے سرداروں نے (فرعون سے) کہا: کیا تو موسٰی اور اس کی (اِنقلاب پسند) قوم کو چھوڑ دے گا کہ وہ ملک میں فساد پھیلائیں اور (پھر کیا) وہ تجھ کو اور تیرے معبودوں کو چھوڑ دیں گے؟ اس نے کہا: (نہیں) اب ہم ان کے لڑکوں کو قتل کردیں گے (تاکہ ان کی مردانہ افرادی قوت ختم ہوجائے) اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھیں گے (تاکہ ان سے زیادتی کی جاسکے)، اور بیشک ہم ان پر غالب ہیں،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
آخری حربہ بغاوت کا الزام
فرعون اور فرعونیت نے حضرت موسیٰ اور مسلمانوں کے خلاف جو منصوبے سوچے ان کا بیان ہو رہا ہے کہ ایک دوسرے کو ان مسلمانوں کے خلاف ابھارتے رہے کہنے لگے یہ تو آپ کی رعایا کو بہکاتے ہیں بغاوت پھیلا دیں گے ملک میں بد امنی پیدا کریں گے ان کا ضرور اور جلد کوئی انتظام کرنا چاہئے، اللہ کی شان دیکھئے کیا مصلح بنے ہوئے ہیں کہ اللہ کے رسول اور مومنوں کے فساد سے دنیا کو بچانا چاہتے ہیں حالانکہ مفسد اور بد نفس خود ہیں۔ آیت (ویذرک) میں بعض تو کہتے ہیں واؤ حالیہ ہے یعنی در آنحالیکہ موسیٰ اور قوم موسیٰ نے تیری پرستش چھوڑ رکھی ہے پھر بھی تو انہیں زندہ رہنے دیتا ہے ؟ حضرت ابی بن کعب کی قرأت میں ہے آیت (وقد ترکوک ان یعبدوا الھتک) اور قول ہے کہ واؤ عاطفہ ہے یعنی تو نے انہیں چھوڑ رکھا ہے۔ جس فساد کو یہ برپا کر رہے ہیں اور تیرے معبودوں کے چھوڑنے پر اکسا رہے ہیں۔ بعض کی قرأت الاھتک ہے یعنی تیری عبادت سے، بعض کا بیان ہے کہ فرعون بھی کسی کو پوجا کرتا تھا۔ ایک قول ہے کہ اسے وہ پوشیدہ راز میں رکھتا تھا، ایک روایت میں ہے کہ اس کا بت اس کی گردن میں ہی لٹکتا رہتا تھا جسے یہ سجدہ کرتا تھا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ کسی بہترین گائے پر فرعون کی نگاہ پڑی جاتی تو لوگوں سے کہہ دیتا کہ اس کی پرستش کرو۔ اسی لئے سامری نے بھی بنی اسرائیل کے لئے بچھڑا نکالا۔ الغرض اپنے سرداروں کی بات سن کر فرعون جواب دیتا ہے کہ اب سے ان کے لئے ہم احکام جاری کریں گے کہ ان کے ہاں جو اولاد ہو دیکھ لی جائے۔ اگر لڑکا ہو تو قتل کردیا جائے لڑکی ہو تو زندہ چھوڑ دی جائے۔ پہلے سرکش فرعون ان مساکین کے ساتھ یہی کرچکا تھا جبکہ اسے یہ منظور تھا کہ حضرت موسیٰ پیدا ہی نہ ہوں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا ارادہ غالب آیا اور حضرت موسیٰ باوجود اس کے حکم کے زندہ وسالم بجے رہے اب دوبارہ اس نے یہی قانون جاری کردیا تاکہ بنی اسرائیل کی جمعیت ٹوٹ جائے، یہ کمزور پڑجائیں اور بالاخر ان کا نام مٹ جائے لیکن قدرت نے اس کا بھی خلاف کر دکھایا، اسی کو اور اس کی قوم کو غارت کردیا اور بنی اسرائیل کو اوج و ترقی پر پہنچا دیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس تکبر کے مقابلے میں تحمل اور اس کے ظلم کے مقابلے میں صبر سے کام لیا اپنی قوم کو سمجھایا اور بتایا کہ اللہ فرما چکا ہے کہ لحاظ سے تم ہی اچھے رہو گے تم اللہ سے مدد چاہو اور صبر کرو۔ قوم والوں نے کہا اے اللہ کے نبی آپ کی نبوت سے پہلے بھی ہم اس طرح ستائے جاتے رہے، اسی ذلت و اہانت میں مبتلا رہے اور اب پھر یہی نوبت آئی ہے۔ آپ نے مزید تسلی دی اور فرمایا کہ گھبراؤ نہیں۔ یقین مانو کہ تمہارا بدخواہ ہلاک ہوگا اور تم کو اللہ تعالیٰ اوج پر پہنچائے گا۔ اس وقت وہ دیکھے گا کہ کون کتنا شکر بجا لاتا ہے ؟ تکلیف کا ہٹ جانا راحت کامل جانا انسان کو نہال نہال کردیتا ہے یہ پورے شکریئے کا وقت ہوتا ہے۔