Skip to main content

اِنَّا بَلَوْنٰهُمْ كَمَا بَلَوْنَاۤ اَصْحٰبَ الْجَـنَّةِ ۚ اِذْ اَقْسَمُوْا لَيَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِيْنَۙ

Indeed We
إِنَّا
بیشک ہم نے
have tried them
بَلَوْنَٰهُمْ
آزمائش میں ڈالا ہم نے ان کو
as
كَمَا
جیسا کہ
We tried
بَلَوْنَآ
آزمایا ہم نے
(the) companions
أَصْحَٰبَ
والوں کو
(of) the garden
ٱلْجَنَّةِ
باغ
when
إِذْ
جب
they swore
أَقْسَمُوا۟
انہوں نے قسم کھائی
to pluck its fruit
لَيَصْرِمُنَّهَا
البتہ ضرور کاٹ لیں گے اس کو
(in the) morning
مُصْبِحِينَ
صبح سویرے

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

ہم نے اِن (اہل مکہ) کو اُسی طرح آزمائش میں ڈالا ہے جس طرح ایک باغ کے مالکوں کو آزمائش میں ڈالا تھا، جب اُنہوں نے قسم کھائی کہ صبح سویرے ضرور اپنے باغ کے پھل توڑیں گے

English Sahih:

Indeed, We have tried them as We tried the companions of the garden, when they swore to cut its fruit in the [early] morning

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

ہم نے اِن (اہل مکہ) کو اُسی طرح آزمائش میں ڈالا ہے جس طرح ایک باغ کے مالکوں کو آزمائش میں ڈالا تھا، جب اُنہوں نے قسم کھائی کہ صبح سویرے ضرور اپنے باغ کے پھل توڑیں گے

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

بیشک ہم نے انہیں جانچا جیسا اس باغ والوں کو جانچا تھا جب انہوں نے قسم کھائی کہ ضرور صبح ہوتے اس کھیت کو کاٹ لیں گے

احمد علی Ahmed Ali

بے شک ہم نے ان کو آزمایا ہے جیسا کہ ہم نے باغ والوں کو آزمایا تھا جب انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ ضرور صبح ہوتے ہی اس کا پھل توڑ لیں گے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

بیشک ہم نے انہیں اسی طرح آزما لیا (۱) جس طرح ہم نے باغ والوں کو (۲) آزمایا تھا جبکہ انہوں نے قسمیں کھائیں کہ صبح ہوتے ہی اس باغ کے پھل اتار لیں گے۔

۱۷۔۱ مراد اہل مکہ ہیں یعنی ہم نے ان کو مال و دولت سے نوازا تاکہ وہ اللہ کا شکر کریں نہ کہ کفر وتکبر لیکن انہوں نے کفر و استکبار کیا تو ہم نے انہیں بھوک اور قحط کی آزمائش میں ڈال دیا جس میں وہ نبی کی بددعا کی وجہ سے کچھ عرصہ مبتلا رہے۔
١٧۔۲ باغ والوں کا قصہ عربوں میں مشہور تھا۔ یہ باغ (یمن) سے دو فرسخ کے فاصلے پر تھا اس کا مالک اس کی پیداوار غربا و مساکین پر بھی خرچ کرتا تھا، لیکن اس کے مرنے کے بعد جب اس کی اولاد اس کی وارث بنی تو انہوں نے کہا کہ ہمارے تو اپنے اخراجات بمشکل پورے ہوتے ہیں، ہم اس کی آمدنی میں سے مساکین اور سائلین کو کس طرح دیں؟ چنانچہ اللہ تعالٰی نے اس باغ کو تباہ کر دیا، کہتے ہیں یہ واقعہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کے تھوڑے عرصے بعد پیش آیا (فتح القدیر) یہ ساری تفصیل تفسیری روایات کی ہے۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

ہم نے ان لوگوں کی اسی طرح آزمائش کی ہے جس طرح باغ والوں کی آزمائش کی تھی۔ جب انہوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ صبح ہوتے ہوتے ہم اس کا میوہ توڑ لیں گے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

بیشک ہم نے انہیں اسی طرح آزما لیا جس طرح ہم نے باغ والوں کو آزمایا تھا جبکہ انہوں نے قسمیں کھائیں کہ صبح ہوتے ہی اس باغ کے پھل اتار لیں گے

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

ہم نے ان (کفارِ مکہ) کو اسی طرح آزمائش میں ڈالا ہے جس طرح ایک باغ والوں کو آزمائش میں ڈالا تھا جب انہوں نے قَسم کھائی تھی کہ وہ صبح سویرے ضرور اس کا پھل توڑ لیں گے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

ہم نے ان کو اسی طرح آزمایا ہے جس طرح باغ والوں کو آزمایا تھا جب انہوں نے قسم کھائی تھی کہ صبح کو پھل توڑ لیں گے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

بے شک ہم ان (اہلِ مکہ) کی (اُسی طرح) آزمائش کریں گے جس طرح ہم نے (یمن کے) ان باغ والوں کو آزمایا تھا جب انہوں نے قَسم کھائی تھی کہ ہم صبح سویرے یقیناً اس کے پھل توڑ لیں گے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

سیاہ رات اور کٹی ہوئی کھیتی
یہاں ان کافروں کی جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کو جھٹلا رہے تھے مثال بیان ہو رہی ہے کہ جس طرح یہ باغ والے تھے کہ اللہ کی نعمت کی ناشکری کی اور اللہ کے عذابوں میں اپنے آپ کو ڈل دیا، یہی حالت ان کافروں کی ہے کہ اللہ کی نعمت یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیغمبر کی ناشکری یعنی انکار نے انہیں بھی اللہ کی ناراضگی کا مستحق کردیا ہے، تو فرماتا ہے کہ ہم نے انہیں بھی آزما لیا جس طرح ہم نے باغ والوں کو آزمایا تھا جس باغ میں طرح طرح کے پھل میوے وغیرہ تھے، ان لوگوں نے آپس میں قسمیں کھائیں کہ صبح سے پہلے ہی پہلے رات کے وقت پھل اتار لیں گے تاکہ فقیروں مسکینوں اور سائلوں کو پتہ نہ چلے جو وہ آ کھڑے ہوں اور ہمیں ان کو بھی دینا پڑے بلکہ کل پھل اور میوے خود ہی لے آئیں گے، اپنی اس تدبیر کی کامیابی پر انہیں غرور تھا اور اس خوشی میں پھولے ہوئے تھے یہاں تک کہ اللہ کو بھی بھول گئے انشاء اللہ تک کسی کی زبان سے نہ نکلا اس لئے ان کی یہ قسم پوری نہ ہوئی، رات ہی رات میں ان کے پہنچنے سے پہلے آسمانی آفت نے سارے باغ کو جلا کر خاکستر کردیا ایسا ہوگیا جیسے سیاہ رات اور کٹی ہوئی کھیتی، اسی لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرماتے ہیں کہ لوگو گناہوں سے بچو گناہوں کی شامت کی وجہ سے انسان اس روزی سے بھی محروم کردیا جاتا ہے جو اس کے لئے تیار کردی گئی ہے پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دو آیتوں کی تلاوت کی کہ یہ لوگ بہ سبب اپنے گناہ کے اپنے باغ کے پھل اور اس کی پیداوار سے بےنصیب ہوگئے (ابن ابی حاتم) صبح کے وقت یہ آپس میں ایک دوسرے کو آوازیں دینے لگے کہ اگر پھل اتارنے کا ارادہ ہے تو اب دیر نہ لگاؤ سویرے ہی چل پڑو، حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں یہ باغ انگور کا تھا، اب یہ چپکے چپکے باتیں کرتے ہوئے چلے تاکہ کوئی سن نہ لے اور غریب غرباء کو پتہ نہ لگ جائے، چونکہ ان کی سرگوشیاں اس اللہ سے تو پوشیدہ نہیں رہ سکتی تھیں جو دلی ارادوں سے بھی پوری طرح واقف رہتا ہے وہ بیان فرماتا ہے کہ ان کی وہ خفیہ باتیں یہ تھیں کہ دیکھو ہوشیار رہو کوئی مسکین بھنک پا کر کہیں آج آ نہ جائے ہرگز کسی فقیر کو باغ میں گھسنے ہی نہ دینا اب قوت و شدت کے ساتھ پختہ ارادے اور غریبوں پر غصے کے ساتھ اپنے باغ کو چلے، سدی فرماتے ہیں حرد ان کی بستی کا نام تھا لیکن یہ کچھ زیادہ ٹھیک نہیں معلوم ہوتا۔ یہ جانتے تھے کہا اب ہم پھلوں پر قابض ہیں ابھی اتار کر سب لے آئیں گے، لیکن جب وہاں پہنچے تو ہکا بکا رہ گئے۔ کہ لہلہاتا ہوا ہرا بھرا باغ میوؤں سے لدے ہوئے درخت اور پکے ہوئے پھل سب غارت اور برباد ہوچکے ہیں سارے باغ میں آندھی پھر گئی ہے اور کل باغ میوؤں سمیت جل کر کوئلہ ہوگیا ہے، کوئی پھل نصف دام کا بھی نہیں رہا، ساری تروتازگی پژمردگی سے بدل گئی ہے، باغ سارا کا سارا جل کر راکھ ہوگیا ہے درختوں کے کالے کالے ڈراؤنے ٹنڈ کھڑے ہوئے ہیں، پہلے تو سمجھے کہ ہم راہ بھول گئے کسی اور باغ میں چلے آئے اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ ہمارا طریقہ کار غلط تھا جس کا یہ نتیجہ ہے پھر بغور دیکھنے سے جب یقین ہوگیا کہ باغ تو یہ ہمارا ہی ہے تب سمجھ گئے اور کہنے لگے ہے تو یہی لیکن ہم بدقسمت ہیں، ہمارے نصیب میں ہی اس کا پھل اور فائدہ نہیں، ان سب میں جو عدل و انصاف والا اور بھلائی اور بہتری والا تھا وہ بول پڑا کہ دیکھو میں تو پہلے ہی تم سے کہتا تھا کہ تم انشاء اللہ کیوں نہیں کہتے، سدی فرماتے ہیں ان کے زمانہ میں سبحان اللہ کہنا بھی انشاء اللہ کہنے کے قائم مقام تھا، امام ابن جریر فرماتے ہیں اس کے معنی ہی انشاء اللہ کہنے کے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کے بہتر شخص نے ان سے کہا کہ دیکھو میں نے تو تمہیں پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ تم کیوں اللہ کی پاکیزگی اور اس کی حمد وثناء نہیں کرتے ؟ یہ سن کر اب وہ کہنے لگ ہمارا رب پاک ہے بیشک ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اب اطاعت بجا لائے جبکہ عذاب پہنچ چکا اب اپنی تقصیر کو مانا جب سزا دے دی گئی، اب تو ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے کہ ہم نے بہت ہی برا کیا کہ مسکینوں کا حق مارنا چاہا اور اللہ کی فرمانبرداری سے رک گئے، پھر سب نے کہا کہ کوئی شک نہیں ہماری سرکشی حد سے بڑھ گئی اسی وجہ سے اللہ کا عذاب آیا، پھر کہتے ہیں شاید ہمارا رب ہمیں اس سے بہتر بدلہ دے یعنی دنیا میں اور یہ بھی ممکن ہے کہ آخرت کے خیال سے انہوں نے یہ کہا ہو واللہ اعلم، بعض سلف کا قول ہے کہ یہ واقعہ اہل یمن کا ہے، حضرت سعید بن جیبر فرماتے ہیں یہ لوگ فروان کے رہنے والے تھے جو صنعاء سے چھ میل کے فاصلہ پر ایک بستی ہے اور مفسرین کہتے ہیں کہ یہ اہل حبشہ تھے۔ مذہباً اہل کتاب تھے یہ باغ انہیں ان کے باپ کے ورثے میں ملا تھا اس کا یہ دستور تھا کہ باغ کی پیداوار میں سے باغ کا خرچ نکال کر اپنے اور اپنے بال بچوں کے لئے سال بھر کا خرچ رکھ کر باقی نفع اللہ کے نام صدقہ کردیتا تھا اس کے انتقال کے بعد ان بچوں نے آپس میں مشورہ کیا اور کہا کہ ہمارا باپ تو بیوقوف تھا جو اتنی بڑی رقم ہر سال ادھر ادھر دے دیتا تھا ہم ان فقیروں کو اگر نہ دیں اور اپنا مال باقاعدہ سنبھالیں تو بہت جلد دولت مند بن جائیں یہ ارادہ انہوں نے پختہ کرلیا تو ان پر وہ عذاب آیا جس نے اصل مال بھی تباہ کردیا اور بالکل خالی ہاتھ رہ گئے، پھر فرماتا ہے جو شخص بھی اللہ کے حکموں کے خلاف کرے اور اللہ کی نعمتوں میں بخل کرے اور مسکینوں محتاجوں کا حق ادا نہ کرے اور اللہ کی نعمت کی ناشکری کرے اس پر اسی طرح کے عذاب نازل ہوتے ہیں اور یہ تو دنیوی عذاب ہیں آخرت کے عذاب تو ابھی باقی ہیں جو سخت تر اور بدتر ہیں، بیہقی کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ نے رات کے وقت کھیتی کاٹنے اور باغ کے پھل اتارنے سے منع فرما دیا ہے۔