مَنْ جَاۤءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَا ۚ وَمَنْ جَاۤءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزٰۤى اِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
جو اللہ کے حضور نیکی لے کر آئے گا اس کے لیے دس گنا اجر ہے، اور جو بدی لے کر آئے گا اس کو اتنا ہی بدلہ دیا جائے گا جتنا اس نے قصور کیا ہے، اور کسی پر ظلم نہ کیا جائے گا
English Sahih:
Whoever comes [on the Day of Judgement] with a good deed will have ten times the like thereof [to his credit], and whoever comes with an evil deed will not be recompensed except the like thereof; and they will not be wronged.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
جو اللہ کے حضور نیکی لے کر آئے گا اس کے لیے دس گنا اجر ہے، اور جو بدی لے کر آئے گا اس کو اتنا ہی بدلہ دیا جائے گا جتنا اس نے قصور کیا ہے، اور کسی پر ظلم نہ کیا جائے گا
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
جو ایک نیکی لائے تو اس کے لیے اس جیسی دس ہیں اور جو برائی لائے تو اسے بدلہ نہ ملے گا مگر اس کے برابر اور ان پر ظلم نہ ہوگا،
احمد علی Ahmed Ali
جو کوئی ایک نیکی کرے گا اس کے لیے دس گنا اجر ہے اور جو بدی کرے گا سو اسے اسی کے برابر سزا دی جائے گی اور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا
أحسن البيان Ahsanul Bayan
جو شخص نیک کام کرے گا اس کو اس کے دس گنا ملیں گے (١) جو شخص برا کام کرے گا اس کو اس کے برابر ہی سزا ملے گی اور ان پر ظلم نہ ہو گا۔
١٦٠۔١ یہ اللہ تعالٰی کے اس فضل و احسان کا بیان ہے کہ جو اہل ایمان کے ساتھ وہ کرے گا کہ ایک نیکی کا بدلہ دس نیکیوں کے برابر عطا فرمائے گا، یہ کم از کم اجر ہے۔ ورنہ قرآن اور حدیث دونوں سے ثابت ہے کی بعض نیکیوں کا اجر کئی سو گنا ہے بلکہ ہزار گنا تک ملے گا۔
١٦٠۔۲ یعنی جن گناہوں پر سزا مقرر نہیں ہے اور اس کے ارتکاب کے بعد اس نے اس سے توبہ بھی نہیں کی یا اس کی نیکیاں اس کی برائیوں پر غالب نہ آئیں یا اللہ نے اپنے فضل خاص سے اسے معاف نہیں فرمادیا کیونکہ ان تمام صورتوں میں مجازات کا قانون بروئے عمل نہیں آئے گا تو پھر اللہ تعالٰی ایسی برائی کی سزا دے اور اس کے برابر ہی دے گا۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
اور جو کوئی (خدا کے حضور) نیکی لے کر آئے گا اس کو ویسی دس نیکیاں ملیں گی اور جو برائی لائے گا اسے سزا ویسے ہی ملے گی اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
جو شخص نیک کام کرے گا اس کو اس کے دس گنا ملیں گے اور جو شخص برا کام کرے گا اس کو اس کے برابر ہی سزا ملے گی اور ان لوگوں پر ﻇلم نہ ہوگا
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
جو شخص ایک نیکی لے کر (اللہ کی بارگاہ میں) آئے گا اس کو دس گنا (اجر) ملے گا۔ اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
جو شخص بھی نیکی کرے گا اسے دس گنا اجر ملے گا اور جو برائی کرے گا اسے صرف اتنی ہی سزا ملے گی اور کوئی ظلم نہ کیا جائے گا
طاہر القادری Tahir ul Qadri
جو کوئی ایک نیکی لائے گا تو اس کے لئے (بطورِ اجر) اس جیسی دس نیکیاں ہیں، اور جو کوئی ایک گناہ لائے گا تو اس کو اس جیسے ایک (گناہ) کے سوا سزا نہیں دی جائے گی اور وہ ظلم نہیں کئے جائیں گے،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
نیکی کا دس گنا ثواب اور غلطی کی سزا برابر برابر
ایک اور آیت میں مجملاً یہ آیا ہے کہ (فلہ خیر منھا) جو نیکی لائے اس کیلئے اس سے بہتر بدلہ ہے۔ اسی آیت کے مطابق بہت سی حدیثیں بھی وارد ہوتی ہیں ایک میں ہے تمہارا رب عزوجل بہت بڑا رحیم ہے نیکی کے صرف قصد پر نیکی کے کرنے کا ثواب عطا فرما دیتا ہے اور ایک نیکی کے کرنے پر دس سے ساٹھ تک بڑھا دیتا ہے اور بھی بہت زیادہ اور بہت زیادہ اور اگر برائی کا قصد ہوا پھر نہ کرسکا تو بھی نیکی ملتی ہے اور اگر اس برائی کو کر گذرا تو ایک برائی ہی لکھی جاتی ہے اور بہت ممکن ہے کہ اللہ معاف ہی فرما دے اور بالکل ہی مٹا دے سچ تو یہ ہے کہ ہلاکت والے ہی اللہ کے ہاں ہلاک ہوتے ہیں (بخاری مسلم نسائی وغیرہ) ایک حدیث قدسی میں ہے نیکی کرنے والے کو دس گنا ثواب ہے اور پھر بھی میں زیادہ کردیتا ہوں اور برائی کرنے والے کو اکہرا عذاب ہے اور میں معاف بھی کردیتا ہوں زمین بھر تک جو شخص خطائیں لے آئے اگر اس نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا تو میں اتنی ہی رحمت سے اس کی طرف متوجہ ہوتا ہوں جو میری طرف بالشت بھر آئے میں اس کی طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہوں اور جو ہاتھ بھر آئے میں اس کی طرف دو ہاتھ برھتا ہوں اور جو میری طرف چلتا ہوا آئے میں اس کی طرف دوڑتا ہوا جاتا ہوں (مسلم مسند وغیرہ) اس سے پہلے گذری ہوئی حدیث کی طرح ایک اور حدیث بھی ہے اس میں فرمایا ہے کہ برائی کا اردہ کر کے پھر اسے چھوڑ دینے والے کو بھی نیکی ملتی ہے اس سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ کے ڈر سے چھوڑ دے چناچہ بعض روایات میں تشریح آ بھی چکی ہے۔ دوسری صورت چھوڑ دینے کی یہ ہے کہ اسے یاد ہی نہ آئے بھول بسر جائے تو اسے نہ ثواب ہے نہ عذاب کیونکہ اس نے اللہ سے ڈر کر نیک نیتی سے اسے ترک نہیں کیا اور اگر بدنیتی سے اس نے کوشش بھی کی اسے پوری طرح کرنا بھی چاہا لیکن عاجز ہوگیا کر نہ سکا موقعہ ہی نہ ملا اسباب ہی نہ بنے تھک کر بیٹھ گیا تو ایسے شخص کو اس برائی کے کرنے کے برابر ہی گناہ ہوتا ہے چناچہ حدیث میں ہے جب دو مسلمان تلواریں لے کر ایک دوسرے سے جنگ کریں تو جو مار ڈالے اور جو مار ڈالا جائے دونوں جہنمی ہیں لوگوں نے کہا مار ڈالنے والا تو خیر لیکن جو مارا گیا وہ جہنم میں کیوں جائے گا ؟ آپ نے فرمایا اس لئے کہ وہ بھی دوسرے کو مار ڈالنے کا آرزو مند تھا اور حدیث میں ہے حضور فرماتے ہیں نیکی کے محض ارادے پر نیکی لکھ لی جاتی ہے اور عمل میں لانے کے بعد دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں برائی کے محض ارادے کو لکھا نہیں جاتا اگر عمل کرلے تو ایک ہی گناہ لکھا جاتا ہے اور اگر چھوڑ دے تو نیکی لکھی جاتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس نے گناہ کے کام کو میرے خوف سے ترک کردیا۔ حضور فرماتے ہیں لوگوں کی چار قسمیں ہیں اور اعمال کی چھ قسمیں ہیں۔ بعض لوگ تو وہ ہیں جنہیں دنیا اور آخرت میں وسعت اور کشادگی دی جاتی ہے بعض وہ ہیں جن پر دنیا میں کشادگی ہوتی ہے اور آخرت میں تنگی بعض وہ ہیں جن پر دنیا میں تنگی رہتی ہے اور آخرت میں انہیں کشادگی ملے گی۔ بعض وہ ہیں جو دونوں جہان میں بدبخت رہتے ہیں یہاں بھی وہاں بھی بےآبرو، اعمال کی چھ قسمیں یہ ہیں دو قسمیں تو ثواب واجب کردینے والی ہیں ایک برابر کا، ایک دس گنا اور ایک سات سو گنا۔ واجب کردینے والی دو چیزیں وہ ہیں جو شخص اسلام و ایمان پر مرے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو اس کیلئے جنت واجب ہے اور جو کفر پر مرے اس کیلئے جہنم واجب ہے اور جو نیکی کا ارادہ کرے گو کہ نہ ہو اسے ایک نیکی ملتی ہے اس لئے کہ اللہ جانتا ہے کہ اس کے دل نے اسے سمجھا اس کی حرص کی اور جو شخص برائی کا ارادہ کرے اس کے ذمہ گناہ نہیں لکھا جاتا اور جو کر گذرے اسے ایک ہی گناہ ہوتا ہے اور وہ بڑھتا نہیں ہے اور جو نیکی کا کام کرے اسے دس نیکیاں ملتی ہیں اور جو راہ اللہ عزوجل میں خرچ کرے اسے سات سو گنا ملتا ہے (ترمذی) فرمان ہے کہ جمعہ میں آنے والے لوگ تین طرح کے ہیں ایک وہ جو وہاں لغو کرتا ہے اس کے حصے میں تو وہی لغو ہے، ایک دعا کرتا ہے اسے اگر اللہ چاہے دے چاہے نہ دے۔ تیسرا وہ شخص ہے جو سکوت اور خاموشی کے ساتھ خطبے میں بیٹھتا ہے کسی مسلمان کی گردن پھلانگ کر مسجد میں آگے نہیں بڑھتا نہ کسی کو ایذاء دیتا ہے اس کا جمعہ اگلے جمعہ تک گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے بلکہ اور تین دن تک کے گناہوں کا بھی اس لئے کہ وعدہ الٰہی میں ہے آیت (مَنْ جَاۗءَ بالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَا ۚ وَمَنْ جَاۗءَ بالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزٰٓى اِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ ) 6 ۔ الانعام ;160) جو نیکی کرے اسے دس گنا اجر ملتا ہے۔ طبرانی میں ہے جمعہ جمعہ تک بلکہ اور تین دن تک کفارہ ہے اس لئے کہ اللہ کا فرمان ہے نیکی کرنے والے کو اس جیسی دس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے۔ فرماتے ہیں جو شخص ہر مہینے میں تین روزے رکھے اسے سال بھر کے روزوں کا یعنی تمام عمر سارا زمانہ روزے سے رہنے کا ثواب دس روزوں کا ملتا ہے (ترمذی) ابن مسعود (رض) اور سلف کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ اس آیت میں حسنہ سے مراد کلمہ توحید ہے اور سیئہ سے مراد شرک ہے، ایک مرفوع حدیث میں بھی یہ ہے لیکن اس کی کوئی صحیح سند میری نظر سے نہیں گذری۔ اس آیت کی تفسیر میں اور بھی بہت سی حدیثیں اور آثار ہیں لیکن انشاء اللہ یہ ہی کافی ہیں۔