Skip to main content

ثُمَّ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْـكِتٰبَ تَمَامًا عَلَى الَّذِىْۤ اَحْسَنَ وَتَفْصِيْلاً لِّـكُلِّ شَىْءٍ وَّهُدًى وَّرَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ بِلِقَاۤءِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُوْنَ

Moreover
ثُمَّ
پھر
We gave
ءَاتَيْنَا
دی ہم نے
Musa
مُوسَى
موسیٰ کو
the Book
ٱلْكِتَٰبَ
کتاب
completing (Our Favor)
تَمَامًا
پورا کرنے کو
on
عَلَى
اوپر
the one who
ٱلَّذِىٓ
اس کے جو
did good
أَحْسَنَ
نیکی کرے
and an explanation
وَتَفْصِيلًا
اور تفصیل (بیان کرنے کو)
of every
لِّكُلِّ
ہر
thing
شَىْءٍ
چیز کے لئے
and a guidance
وَهُدًى
اور باعث ہدایت
and mercy
وَرَحْمَةً
اور باعث رحمت
so that they may -
لَّعَلَّهُم
تاکہ وہ
in (the) meeting
بِلِقَآءِ
ملاقات کا
(with) their Lord
رَبِّهِمْ
اپنے رب کی
believe
يُؤْمِنُونَ
ایمان رکھیں / ایمان لائیں

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

پھر ہم نے موسیٰؑ کو کتاب عطا کی تھی جو بھلائی کی روش اختیار کرنے والے انسان پر نعمت کی تکمیل اور ہر ضروری چیز کی تفصیل اور سراسر ہدایت اور رحمت تھی (اور اس لیے بنی اسرائیل کو دی گئی تھی کہ) شاید لوگ اپنے رب کی ملاقات پر ایمان لائیں

English Sahih:

Then We gave Moses the Scripture, making complete [Our favor] upon the one who did good [i.e., Moses] and as a detailed explanation of all things and as guidance and mercy that perhaps in the meeting with their Lord they would believe.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

پھر ہم نے موسیٰؑ کو کتاب عطا کی تھی جو بھلائی کی روش اختیار کرنے والے انسان پر نعمت کی تکمیل اور ہر ضروری چیز کی تفصیل اور سراسر ہدایت اور رحمت تھی (اور اس لیے بنی اسرائیل کو دی گئی تھی کہ) شاید لوگ اپنے رب کی ملاقات پر ایمان لائیں

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی پورا احسان کرنے کو اس پر جو نیکوکار ہے اور ہر چیز کی تفصیل اور ہدایت اور رحمت کہ کہیں وہ اپنے رب سے ملنے پر ایمان لائیں

احمد علی Ahmed Ali

پھر ہم نےنیکوں پر نعمت پوری کرنے کے لیے موسیٰ کو کتاب دی جس میں ہر چیز کی تفصیل اور ہدایت اور رحمت تھی تاکہ وہ لوگ اپنے رب کی ملاقات پر ایمان لائیں

أحسن البيان Ahsanul Bayan

پھر ہم نے موسیٰ(علیہ السلام) کو کتاب دی تھی جس سے اچھی طرح عمل کرنے والوں پر نعمت پوری ہو اور رحمت ہو (١) تاکہ وہ لوگ اپنے رب کو ملنے پر یقین لائیں۔

١٥٤۔١ قرآن کریم کا یہ اسلوب ہے جو متعدد جگہ دہرایا کہ جہاں قرآن کا ذکر ہوتا ہے وہاں تورات کا اور جہاں تورات کا ذکر ہو وہاں قرآن کا بھی ذکر کر دیا جاتا ہے۔ اس کی متعدد مثالیں حافظ ابن کثیر نے نقل کی ہیں۔ اسی اسلوب کے مطابق یہاں تورات کا اور اس کے وصف کا بیان ہے کہ وہ بھی اپنے دور کی ایک جامع کتاب تھی جس میں ان کی دینی ضروریات کی تمام باتیں تفصیل سے بیان کی گئی تھیں اور وہ ہدایت اور رحمت کا باعث تھی۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

(ہاں) پھر (سن لو کہ) ہم نے موسیؑ کو کتاب عنایت کی تھی تاکہ ان لوگوں پر جو نیکوکار ہیں نعمت پوری کر دیں اور (اس میں) ہر چیز کا بیان (ہے) اور ہدایت (ہے) اور رحمت ہے تاکہ (ان کی امت کے) لوگ اپنے پروردگار کے رُوبرو حاضر ہونے کا یقین کریں

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

پھر ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی تھی جس سے اچھی طرح عمل کرنے والوں پر نعمت پوری ہو اور سب احکام کی تفصیل ہوجائے اور رہنمائی ہو اور رحمت ہو تاکہ وه لوگ اپنے رب کے ملنے پر یقین ﻻئیں

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

پھر ہم نے موسیٰ کو وہ کتاب عطا کی جو نیک عمل کرنے والے پر نعمت کی تکمیل ہے۔ اور اس میں ہر چیز کی تفصیل ہے اور (لوگوں کے لیے) سراسر ہدایت و رحمت ہے تاکہ وہ اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضری و حضوری پر ایمان لائیں۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

اس کے بعد ہم نے موسٰی علیھ السّلام کو اچھی باتوں کی تکمیل کرنے والی کتاب دی اور اس میں ہر شے کو تفصیل سے بیان کردیا اور اسے ہدایت اور رحمت قرار دے دیا کہ شاید یہ لوگ لقائے الٰہی پر ایمان لے آئیں

طاہر القادری Tahir ul Qadri

پھر ہم نے موسٰی (علیہ السلام) کو کتاب عطا کی اس شخص پر (نعمت) پوری کرنے کے لئے جو نیکو کار بنے اور (اسے) ہر چیز کی تفصیل اور ہدایت اور رحمت بنا کر (اتارا) تاکہ وہ (لوگ قیامت کے دن) اپنے رب سے ملاقات پر ایمان لائیں،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

جنوں نے قرآن حکیم سنا
امام ابن جریر نے تو لفظ ثم کو ترتیب کے لئے مانا ہے یعنی ان سے یہ بھی کہہ دے اور ہماری طرف سے یہ خبر بھی پہنچا دے لیکن میں کہتا ہوں ثم کو ترتیب کیلئے مان کر خبر کا خبر پر عطف کردیں تو کیا حرج ؟ ایسا ہوتا ہے اور شعروں میں موجود ہے چونکہ قرآن کریم کی مدح آیت (ان ھذا صراطی مستقیما) میں گذری تھی اس لئے اس پر عطف ڈال کر توراۃ کی مدح بیان کردی۔ جیسے کہ اور بھی بہت سی آیتوں میں ہے۔ چناچہ فرمان ہے آیت (ومن قبلہ کتاب موسیٰ اماما و رحمتہ و ھذا کتاب مصدق لسانا عربیا) یعنی اس سے پہلے توراۃ امام رحمت تھی اور اب یہ قرآن عربی تصدیق کرنے والا ہے۔ اسی سورت کے اول میں ہے آیت (قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ الَّذِيْ جَاۗءَ بِهٖ مُوْسٰي نُوْرًا وَّهُدًى لِّلنَّاسِ ) 6 ۔ الانعام ;91) ، اس آیت میں بھی تورات کے بیان کے بعد اس قرآن کا بیان ہے، کافروں کا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے آیت (فَلَمَّا جَاۗءَھُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا) 10 ۔ یونس ;76) ، جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق آپہنچا تو کہنے لگے اسے اس جیسا کیوں نہ ملا جو موسیٰ کو ملا تھا جس کے جواب میں فرمایا گیا کیا انہوں نے موسیٰ کی اس کتاب کے ساتھ کفر نہیں کیا تھا ؟ کیا صاف طور سے نہیں کہا تھا کہ یہ دونوں جادوگر ہیں اور ہم تو ہر ایک کے منکر ہیں۔ جنوں کا قول بیان ہوا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا ہم نے وہ کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد اتری ہے جو اپنے سے اگلی کتابوں کو سچا کہتی ہیں اور راہ حق کی ہدایت کرتی ہیں۔ وہ کتاب جامع اور کامل تھی۔ شریعت کی جن باتوں کی اس وقت ضرورت تھی سب اس میں موجود تھیں یہ احسان تھا نیک کاروں کی نیکیوں کے بدلے کا۔ جیسے فرمان ہے احسان کا بدلہ احسان ہی ہے اور جیسے فرمان ہے کہ نبی اسرائیلیوں کو ہم نے ان کا امام بنادیا جبکہ انہوں نے صبر کیا اور ہماری آیتوں پر یقین رکھا۔ غرض یہ بھی اللہ کا فضل تھا اور نیکوں کی نیکیوں کا صلہ۔ احسان کرنے والوں پر اللہ بھی احسان پورا کرتا ہے یہاں اور وہاں بھی۔ امام ابن جریر الذی کو مصدریہ مانتے ہیں جیسے آیت (خفتم کالذی خاصوا) میں ابن رواحہ کا شعر ہے۔
وثبت اللہ ما اتاک من حسن فی
المرسلین و نصر کالذی نصروا
اللہ تیری اچھائیاں بڑھائے اور اگلے نبیوں کی طرح تیری بھی مدد فرمائے۔ بعض کہتے ہیں یہاں الذی معنی میں الذین کا ہے عبداللہ بن مسعود کی قرأت (لما ما علی الذین احسنوا) ہے۔ پس مومنوں اور نیک لوگوں پر اللہ کا یہ احسان ہے اور پورا احسان ہے۔ بغوی کہتے ہیں مراد اس سے انبیاء اور عام مومن ہیں۔ یعنی ان سب پر ہم نے اس کی فضیلت ظاہر کی جیسے فرمان ہے آیت (قَالَ يٰمُوْسٰٓي اِنِّى اصْطَفَيْتُكَ عَلَي النَّاسِ بِرِسٰلٰتِيْ وَبِكَلَامِيْ ) 7 ۔ الاعراف ;144 ) ، یعنی اے موسیٰ میں نے اپنی رسالت اور اپنے کلام سے تجھے لوگوں پر بزرگی عطا فرمائی۔ ہاں حضرت موسیٰ کی اس بزرگی سے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو خاتم الانبیاء ہیں اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جو خلیل اللہ ہیں مستثنیٰ ہیں بہ سبب ان دلائل کے جو وارد ہوچکے ہیں۔ یحییٰ بن یعمر احسن ھو کو مخذوف مان کر احسن پڑھتے تھے ہوسکتا ہے ؟ امام ابن جریر فرماتے ہیں میں اس قرأت کو جائز نہیں رکھوں گا اگرچہ عربیت کی بنا پر اس میں نقصان نہیں۔ آیت کے اس جملے کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ پر احسان رب کو تمام کرنے کیلئے یہ اللہ کی کتاب ان پر نازل ہوئی، ان دونوں کے مطلب میں کوئی تفاوت نہیں۔ پھر تورات کی تعریف بیان فرمائی کہ اس میں ہر حکم بہ تفصیل ہے اور وہ ہدایت و رحمت ہے تاکہ لوگ قیامت کے دن اپنے رب سے ملنے کا یقین کرلیں۔ پھر قرآن کریم کی اتباع کی رغبت دلاتا ہے اس میں غور و فکر کی دعوت دیتا ہے اور اس پر عمل کرنے کی ہدایت فرماتا ہے اور اس کی طرف لوگوں کو بلانے کا حکم دیتا ہے برکت سے اس کا وصف بیان فرماتا ہے کہ جو بھی اس پر کار بند ہوجائے وہ دونوں جہان کی برکتیں حاصل کرے گا اس لئے کہ یہ اللہ کی طرف مضبوط رسی ہے۔