ذٰلِكَ اَنْ لَّمْ يَكُنْ رَّبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرٰى بِظُلْمٍ وَّاَهْلُهَا غٰفِلُوْنَ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
(یہ شہادت اُن سے اس لیے لی جائے گی کہ یہ ثابت ہو جائے کہ) تمہارا رب بستیوں کو ظلم کے ساتھ تباہ کرنے والا نہ تھا جبکہ ان کے باشندے حقیقت سے نا واقف ہوں
English Sahih:
That is because your Lord would not destroy the cities for wrongdoing while their people were unaware.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
(یہ شہادت اُن سے اس لیے لی جائے گی کہ یہ ثابت ہو جائے کہ) تمہارا رب بستیوں کو ظلم کے ساتھ تباہ کرنے والا نہ تھا جبکہ ان کے باشندے حقیقت سے نا واقف ہوں
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
یہ اس لیے کہ تیرا رب بستیوں کو ظلم سے تباہ نہیں کرتا کہ ان کے لوگ بے خبر ہوں
احمد علی Ahmed Ali
یہ اس لیے ہوا کہ تیار رب بستیوں کو ظلم کرنے کے باوجود ہلاک نہیں کیاکرتا اس حال میں کہ وہ بے خبر ہوں
أحسن البيان Ahsanul Bayan
اس وجہ سے کہ آپ کا رب کسی بستی والوں کو کفر کے سبب ایسی حالت میں ہلاک نہیں کرتا کہ اس بستی کے رہنے والے بےخبر ہوں (١)۔
١٣١۔١ یعنی رسولوں کے ذریعے سے جب تک اپنی حجت قائم نہیں کردیتا، ہلاک نہیں کرتا جیسا کہ یہی بات سورۃ فاطر آیت، ٤٢۔ سورۃ نحل ٦٢، سورۃ بنی اسرائیل ١٥ اور سورہ ملک ٨،٩ وغیرہ میں بیان کی گئی ہے۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
(اے محمدﷺ!) یہ (جو پیغمبر آتے رہے اور کتابیں نازل ہوتی رہیں تو) اس لیے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں کہ بستیوں کو ظلم سے ہلاک کر دے اور وہاں کے رہنے والوں کو (کچھ بھی) خبر نہ ہو
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
یہ اس وجہ سے ہے کہ آپ کا رب کسی بستی والوں کو کفر کے سبب ایسی حالت میں ہلاک نہیں کرتا کہ اس بستی کے رہنے والے بے خبر ہوں
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
یہ (رسولوں کا بھیجنا) اس لئے ہے کہ تمہارا پروردگار بستیوں کو ظلم و جور سے ہلاک نہیں کرتا۔ جبکہ ان کے رہنے والے بے خبر ہوں۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار کسی بھی قریہ کو ظلم و زیادتی سے اس طرح تباہ و برباد نہیں کرنا چاہتا کہ اس کے رہنے والے بالکل غافل اور بے خبر ہوں
طاہر القادری Tahir ul Qadri
یہ (رسولوں کا بھیجنا) اس لئے تھا کہ آپ کا رب بستیوں کو ظلم کے باعث ایسی حالت میں تباہ کرنے والا نہیں ہے کہ وہاں کے رہنے والے (حق کی تعلیمات سے بالکل) بے خبر ہوں (یعنی انہیں کسی نے حق سے آگاہ ہی نہ کیا ہو)،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
حجت تمام
جن اور انسانوں کی طرف رسول بھیج کر، کتابیں اتار کر ان کے عذر ختم کردیئے اس لئے کہ یہ اللہ کا اصول نہیں کہ وہ کسی بستی کے لوگوں کو اپنی منشاء معلوم کرائے بغیر چپ چاپ اپنے عذابوں میں جکڑ لے اور اپنا پیغام پہنچائے بغیر بلا وجہ ظلم کے ساتھ ہلاک کر دے، فرماتا ہے آیت (وَاِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ) 35 ۔ فاطر ;24) یعنی کوئی بستی ایسی نہیں جہاں کوئی آگاہ کرنے والا نہ آیا ہو اور آیت میں ہے ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ اے لوگو اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے سوا ہر ایک کی عبادت سے بچو اور جگہ ہے ہم رسولوں کو بھیجنے سے پہلے عذاب نہیں کیا کرتے۔ سورة تبارک میں ہے جب جہنم میں کوئی جماعت جائے گی تو وہاں کے داروغے ان سے کہیں گے کہ کیا تمہارے پاس آ گاہ کرنے والے نہیں آئے تھے ؟ وہ کہیں گے آئے تھے اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں اس آیت کے پہلے جملے کے ایک معنی امام ابن جریر نے اور بھی بیان کئے ہیں اور فی الواقع وہ معنی بہت درست ہیں امام صاحب نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے یعنی یہ کہ کسی بستی والوں کے ظلم اور گناہوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انہیں اسی وقت ہلاک نہیں کرتا جب تک نبیوں کو بھیج کر انہیں غفلت سے بیدار نہ کر دے، ہر عامل اپنے عمل کے بدلے کا مستحق ہے۔ نیک نیکی کا اور بد بدی کا۔ خواہ انسان ہو خواہ جن ہو۔ بدکاروں کے جہنم میں درجے ان کی بدکاری کے مطابق مقرر ہیں جو لوگ خود بھی کفر کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی راہ الہیہ سے روکتے ہیں انہیں عذاب پر عذاب ہوں گے اور ان کے فساد کا بدلہ ملے گا ہر عامل کا عمل اللہ پر روشن ہے تاکہ قیامت کے دن ہر شخص کو اس کے کئے ہوئے کا بدلہ مل جائے۔