فَمَنْ يُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ يَّهْدِيَهٗ يَشْرَحْ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِۚ وَمَنْ يُّرِدْ اَنْ يُّضِلَّهٗ يَجْعَلْ صَدْرَهٗ ضَيِّقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِى السَّمَاۤءِۗ كَذٰلِكَ يَجْعَلُ اللّٰهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
پس (یہ حقیقت ہے کہ) جسے اللہ ہدایت بخشنے کا ارادہ کرتا ہے اُس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہی میں ڈالنے کا ارادہ کرتا ہے اُس کے سینے کو تنگ کر دیتا ہے اور ایسا بھینچتا ہے کہ (اسلام کا تصور کرتے ہی) اُسے یوں معلوم ہونے لگتا ہے کہ گویا اس کی روح آسمان کی طرف پرواز کر رہی ہے اِس طرح اللہ (حق سے فرار اور نفرت کی) ناپاکی اُن لوگوں پر مسلط کر دیتا ہے جو ایمان نہیں لاتے
English Sahih:
So whoever Allah wants to guide – He expands his breast to [contain] IsLam; and whoever He wants to send astray – He makes his breast tight and constricted as though he were climbing into the sky. Thus does Allah place defilement upon those who do not believe.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
پس (یہ حقیقت ہے کہ) جسے اللہ ہدایت بخشنے کا ارادہ کرتا ہے اُس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہی میں ڈالنے کا ارادہ کرتا ہے اُس کے سینے کو تنگ کر دیتا ہے اور ایسا بھینچتا ہے کہ (اسلام کا تصور کرتے ہی) اُسے یوں معلوم ہونے لگتا ہے کہ گویا اس کی روح آسمان کی طرف پرواز کر رہی ہے اِس طرح اللہ (حق سے فرار اور نفرت کی) ناپاکی اُن لوگوں پر مسلط کر دیتا ہے جو ایمان نہیں لاتے
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اور جسے اللہ راہ دکھانا چاہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہ کرنا چاہے اس کا سینہ تنگ خوب رکا ہوا کر دیتا ہے گویا کسی کی زبردستی سے آسمان پر چڑھ رہا ہے، اللہ یونہی عذاب ڈالتا ہے ایمان نہ لانے والوں کو،
احمد علی Ahmed Ali
سو جسے الله چاہتا ہے کہ ہدایت دے تو اس کے سینہ کو اسلام کے قبول کرنے کے لیے کھول دیتا ہے اور جس کے متعلق چاہتا ہے کہ گمراہ کرے اس کے سینہ کو بے حد تنگ کر دیتا ہے گو کہ وہ آسمان پر چڑھتا ہے اسی طرح الله تعالیٰ ایمان نہ لانے والوں پر پھٹکار ڈالتا ہے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
سو جس شخص کو اللہ تعالٰی راستہ پر ڈالنا چاہے اس کے سینہ کو اسلام کے لئے کشادہ کر دیتا ہے جس کو بےراہ رکھنا چاہے اس کے سینے کو بہت تنگ کر دیتا ہے جیسے کوئی آسمان پر چڑھتا ہے (١) اس طرح اللہ تعالٰی ایمان نہ لانے والوں پر ناپاکی مسلط کر دیتا ہے (٢)۔
١٢٥۔١ یعنی جس طرح زور لگا کر آسمان پر چڑھنا ممکن نہیں۔ اسی طرح جس شخص کے سینے کو اللہ تعالٰی تنگ کردے اس میں توحید اور ایمان کا داخلہ ممکن نہیں، الایہ کہ اللہ تعالٰی ہی اس کا سینہ اس کے لئے کھول دے۔
١٢٥۔٢ یعنی جس طرح سینہ تنگ کر دیتا ہے اسی طرح رجس میں مبتلا کر دیتا ہے، رجس سے مراد پلیدی یا عذاب یا شیطان کا تسلط ہے۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
تو جس شخص کو خدا چاہتا ہے کہ ہدایت بخشے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ اور گھٹا ہوا کر دیتا ہے گویا وہ آسمان پر چڑھ رہا ہے اس طرح خدا ان لوگوں پر جو ایمان نہیں لاتے عذاب بھیجتا ہے
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
سو جس شخص کو اللہ تعالیٰ راستہ پر ڈالنا چاہے اس کے سینہ کو اسلام کے لیے کشاده کر دیتا ہے اور جس کو بے راه رکھنا چاہے اس کے سینہ کو بہت تنگ کردیتا ہے جیسے کوئی آسمان میں چڑھتا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ ایمان نہ ﻻنے والوں پر ناپاکی مسلط کردیتا ہے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
پس جب اللہ کسی کو ہدایت بخشنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے سینہ کو اسلام کیلئے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہی میں چھوڑنا چاہتا ہے تو اس کے سینہ کو تنگ کر دیتا ہے جیسے کہ وہ زبردستی آسمان پر چڑھ رہا ہے (اس کی طرف اونچا ہو رہا ہے) اسی طرح اللہ ان لوگوں پر کثافت مسلط کر دیتا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پس خدا جسے ہدایت دینا چاہتا ہے اس کے سینے کو اسلام کے لئے کشادہ کردیتا ہے اور جس کو گمراہی میں چھوڑنا چاہتا ہے اس کے سینے کو ایسا تنگ اور دشوار گزار بنادیتا ہے جیسے آسمان کی طرف بلند ہورہا ہو ,وہ اسی طرح بے ایمانوں پر ان کی کثافت کو مسّلط کردیتاہے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
پس اﷲ جس کسی کو (فضلاً) ہدایت دینے کا ارادہ فرماتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لئے کشادہ فرما دیتا ہے اور جس کسی کو (عدلاً اس کی اپنی خرید کردہ) گمراہی پر ہی رکھنے کا ارادہ فرماتا ہے اس کا سینہ (ایسی) شدید گھٹن کے ساتھ تنگ کر دیتا ہے گویا وہ بمشکل آسمان (یعنی بلندی) پر چڑھ رہا ہو، اسی طرح اﷲ ان لوگوں پر عذابِ (ذّلت) واقع فرماتا ہے جو ایمان نہیں لاتے،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
جس پر اللہ کا کرم اس پہ راہ ہدایت آسان
اللہ کا ارادہ جسے ہدایت کرنے کا ہوتا ہے اس پر نیکی کے راستے آسان ہوجاتے ہیں جیسے فرمان ہے آیت (افمن شرح اللہ صدرہ للاسلام فھو علی نور من ربہ) الخ، یعنی اللہ ان کے سینے اسلام کی طرف کھول دیتا ہے اور انہیں اپنا نور عطا فرماتا ہے اور آیت میں فرمایا آیت (وَلٰكِنَّ اللّٰهَ حَبَّبَ اِلَيْكُمُ الْاِيْمَانَ وَزَيَّنَهٗ فِيْ قُلُوْبِكُمْ وَكَرَّهَ اِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْيَانَ ۭاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الرّٰشِدُوْنَ ) 49 ۔ الحجرات ;7) اللہ نے تمہارے دلوں میں ایمان کی محبت پیدا کردی اور اسے تمہارے دلوں میں زینت دار بنادیا اور کفر فسق اور نافرمانی کی تمہارے دلوں میں کراہیت ڈال دہی یہی لوگ راہ یافتہ اور نیک بخت ہیں۔ ابن عباس فرماتے ہیں اس کا دل ایمان و توہید کی طرف کشادہ ہوجاتا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال ہوا کہ سب سے زیادہ دان کون سا مومن ہے ؟ فرمایا سب سے زیادہ موت کو یاد رکھنے والا اور سب سے زیادہ موت کے بعد کی زندگی کے لئے تیاریاں کرنے والا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس آیت کی بابت سوال ہوا تو فرمایا کہ اس کے دل میں ایک نور ڈال دیا جاتا ہے جس سے اس کا سینہ کھل جاتا ہے لوگوں نے اس کی نشانی درریافت کی تو فرمایا جنت کی طرف جھکنا اور اس کی جانب رغبت کام رکھنا اور دنیا کے فریب سے بھاگنا اور الگ ہونا اور موت کے آنے سے پہلے تیاریاں کرنا ضیقا کی ایک قرأت (ضیقا) بھی ہے (حرجا) کی دوسری (حرجا) بھی ہے یعنی گنہگار یا دونوں کے ایک ہی معنی یعنی تنگ جو ہدایت کے لئے نہ کھلے اور ایمان اس میں جگہ نہ پائے، ایک مرتبہ ایک بادیہ نشین بزرگ سے حضرت عمر فاروق (رض) نے حرجہ کے بارے میں دریافت فرمایا تو اس نے کہا یہ ایک درخت ہوتا ہے جس کے پاس نہ تو چرواہے جاتے ہیں نہ جانور نہ وحشی۔ آپ نے فرمایا سچ ہے ایسا ہی منافق کا دل ہوتا ہے کہ اس میں کوئی بھلائی جگہ پاتی ہی نہیں۔ ابن عباس کا قول ہے کہ اسلام باوجود آسان اور کشادہ ہونے کے اسے سخت اور تنگ معلوم ہوتا ہے خود قرآن میں ہے آیت ( وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ ) 22 ۔ الحج ;78) اللہ نے تمہارے دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔ لیکن منافق کا شکی دل اس نعمت سے محروم رہتا ہے اسے لا الہ الا اللہ کا اقرار ایک مصیبت معلوم ہوتی ہے، جیسے کسی پر آسمان پر جڑھائی مشکل ہو، جیے وہ اس کے بس کی بات نہیں اسی طرح توحید و ایمان بھی اس کے قبضے سے باہر ہیں پس مردہ دل والے کبھی بھی اسلام قبول نہیں کرتے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ بےایمانوں پر شیطان مقرر کردیتا ہے جو انہیں بہکاتے رہتے ہیں اور خیر سے ان کے دل کو تنگ کرتے رہتے ہیں۔ نحوست ان پر برستی رہتی ہے اور عذاب ان پر اتر آتے ہیں۔