وَلَا تَأْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ وَاِنَّهٗ لَفِسْقٌ ۗ وَاِنَّ الشَّيٰطِيْنَ لَيُوْحُوْنَ اِلٰۤى اَوْلِيٰۤـٮِٕـهِمْ لِيُجَادِلُوْكُمْ ۚ وَاِنْ اَطَعْتُمُوْهُمْ اِنَّكُمْ لَمُشْرِكُوْنَ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
اور جس جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح نہ کیا گیا ہو اس کا گوشت نہ کھاؤ، ایسا کرنا فسق ہے شیاطین اپنے ساتھیوں کے دلوں میں شکوک و اعتراضات القا کرتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں لیکن اگر تم نے اُن کی اطاعت قبول کر لی تو یقیناً تم مشرک ہو
English Sahih:
And do not eat of that upon which the name of Allah has not been mentioned, for indeed, it is grave disobedience. And indeed do the devils inspire their allies [among men] to dispute with you. And if you were to obey them, indeed, you would be associators [of others with Him].
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
اور جس جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح نہ کیا گیا ہو اس کا گوشت نہ کھاؤ، ایسا کرنا فسق ہے شیاطین اپنے ساتھیوں کے دلوں میں شکوک و اعتراضات القا کرتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں لیکن اگر تم نے اُن کی اطاعت قبول کر لی تو یقیناً تم مشرک ہو
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اور اُسے نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا اور وہ بیشک حکم عدولی ہے، اور بیشک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں ڈالتے ہیں کہ تم سے جھگڑیں اور اگر تم ان کا کہنا مانو تو اس وقت تم مشرک ہو
احمد علی Ahmed Ali
اور جس چیز پر الله کا نام نہیں لیا گیا اس میں سے نہ کھاؤ اور بے شک یہ کھانا گناہ ہے اور بے شک شیطان اپنے دوستوں کے دلو ں میں ڈالتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑیں اور اگر تم نے ان کا کہا مانا تو تم بھی مشرک ہو جاؤ گے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
اور ایسے جانوروں میں سے مت کھاؤ جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اور یہ کام نافرمانی کا ہے (١) اور یقیناً شیاطین اپنے دوستوں کے دل میں ڈالتے ہیں تاکہ یہ تم سے جدال کریں (٢) اور اگر تم ان لوگوں کی اطاعت کرنے لگو تو یقیناً تم مشرک ہو جاؤ گے۔
١٢١۔١ یعنی عمداً اللہ کا نام جس جانور پر نہ لیا گیا، اس کا کھانا فسق اور ناجائز ہے، حضرت ابن عباس نے اس کے یہی معنی بیان کئے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ بھول جانے والے کو فاسق نہیں کہا جاتا اور امام بخاری کا رجحان بھی یہی ہے تاہم امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ مسلمان کا ذبیحہ دونوں صورتوں میں حلال ہے چاہے وہ اللہ کا نام لے یا چھوڑ دے اور وَ اِنَّہُ لَفِسْق،ُکو غیر اللہ کے نام ذبح کئے گئے جانور سے متعلق قرار دیتے ہیں
١٢١۔٢ شیطان نے اپنے ساتھیوں کے ذریعے سے یہ بات پھیلائی کہ یہ مسلمان اللہ کے ذبح کئے ہوئے جانور (یعنی مردہ) کو تو حرام اور اپنے ہاتھ سے ذبح شدہ کو حلال قرار دیتے ہیں اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ ہم اللہ کو ماننے والے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ شیطان اور اس کے دوستوں کے وسوسوں کے پیچھے مت لگو، جو جانور مردہ ہے یعنی بغیر ذبح کئے مر گیا (سوائے سمندرى مچھلی کے وہ حلال ہے) اس پر چونکہ اللہ کا نام نہیں لیا گیا، اس لئے اس کا کھانا حلال نہیں ہے۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
اور جس چیز پر خدا کا نام نہ لیا جائے اسے مت کھاؤ کہ اس کا کھانا گناہ ہے اور شیطان (لوگ) اپنے رفیقوں کے دلوں میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ تم سے جھگڑا کریں اور اگر تم لوگ ان کے کہے پر چلے تو بےشک تم بھی مشرک ہوئے
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
اور ایسے جانوروں میں سے مت کھاؤ جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اور یہ کام نافرمانی کا ہے اور یقیناً شیاطین اپنے دوستوں کے دل میں ڈالتے ہیں تاکہ یہ تم سے جدال کریں اور اگر تم ان لوگوں کی اطاعت کرنے لگو تو یقیناً تم مشرک ہوجاؤ گے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
اور اس (جانور) کو نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو۔ کہ یہ (کھانا) فسق (نافرمانی) ہے اور بے شک شیطان اپنے دوستوں کو خفیہ اشارے کرتے ہیں (پٹی پڑھاتے ہیں) تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں اور اگر تم نے ان کی اطاعت کر لی (ان کا کہنا مانا) تو یقینا تم مشرک ہو جاؤ گے۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور دیکھو جس پر ناهِ خدا نہ لیا گیا ہو اسے نہ کھانا کہ یہ فسق ہے اور شیاطین تو اپنے والوں کی طرف خفیہ اشارے کرتے ہی رہتے ہیں تاکہ یہ لوگ تم سے جھگڑا کریں اور اگر تم لوگوں نے ان کی اطاعت کر لی تو تمہارا شمار بھی مشرکین میں ہوجائے گا
طاہر القادری Tahir ul Qadri
اور تم اس (جانور کے گوشت) سے نہ کھایا کرو جس پر (ذبح کے وقت) اﷲ کا نام نہ لیا گیا ہو اور بیشک وہ (گوشت کھانا) گناہ ہے، اور بیشک شیاطین اپنے دوستوں کے دلوں میں (وسوسے) ڈالتے رہتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں اور اگر تم ان کے کہنے پر چل پڑے (تو) تم بھی مشرک ہو جاؤ گے،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
سدھائے ہوئے کتوں کا شکار
یہی آیت ہے جس سے بعض علماء نے یہ سمجھا ہے کہ گو کسی مسلمان نے ہی ذبح کیا ہو لیکن اگر بوقت ذبح اللہ کا نام نہیں لیا تو اس ذبیحہ کا کھانا حرام ہے، اس بارے میں علماء کے تین قول ہیں ایک تو وہی جو مذکور ہوا، خواہ جان بوجھ کر اللہ کا نام نہ لیا ہو یا بھول کر، اس کی دلیل آیت (فَكُلُوْا مِمَّآ اَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهِ ۠ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ ) 5 ۔ المائدہ ;4) ہے یعنی جس شکار کو تمہارے شکاری کتے روک رکھیں تم اسے کھالو اور اللہ کا نام اس پر لو، اس آیت میں اسی کی تاکید کی اور فرمایا کہ یہ کھلی نافرمانی ہے یعنی اس کا کھانا یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنا، احادیث میں بھی شکار کے اور ذبیحہ کے متعلق حکم وارد ہوا ہے آپ فرماتے ہیں جب تو اپنے سدھائے ہوئے کتے کو اللہ کا نام لے کر چھوڑے جس جانور کو وہ تیرے لئے پکڑ کر روک لے تو اسے کھالے اور حدیث میں ہے جو چیز خون بہا دے اور اللہ کا نام بھی اس پر لیا گیا ہو اسے کھالیا کرو، جنوں سے حضور نے فرمایا تھا تمہارے لئے ہر وہ ہڈی غذا ہے جس پر اللہ کا نام لیا جائے، عید کی قربانی کے متعلق آپ کا ارشاد مروی ہے کہ جس نے نماز عید پڑھنے سے پہلے ہی ذبح کرلیا وہ اس کے بدلے دوسرا جانور ذبح کرلے اور جس نے قربانی نہیں کی وہ ہمارے ساتھ عید کی نماز پڑھے پھر اللہ کا نام لے کر اپنی قربانی کے جانور کو ذبح کرے، چند لوگوں نے حضور سے پوچھا کہ بعض نو مسلم ہمیں گوشت دیتے ہیں کیا خبر انہوں نے ان جانوروں کے ذبح کرنے کے وقت اللہ کا نام بھی لیا یا نہیں ؟ تو آپ نے فرمایا تم ان پر اللہ کا نام لو اور کھالو، الغرض اس حدیث سے بھی یہ مذہب قومی ہوتا ہے کیونکہ صحابہ نے بھی سمجھا کر بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے اور یہ لوگ احکام اسلام سے صحیح طور پر واقف نہیں ابھی ابھی مسلمان ہوئے ہیں کیا خبر اللہ کا نام لیتے بھی ہیں یا نہیں ؟ تو حضور نے انہیں بطور مزید احتیاط فرما دیا کہ تم خود اللہ کا نام لے لو تاکہ بالفرض انہوں نے نہ بھی لیا ہو تو یہ اس کا بدلہ ہوجائے، ورنہ ہر مسلمان پر ظاہر احسن ظن ہی ہوگا، دوسرا قول اس مسئلہ میں یہ ہے کہ بوقت ذبح بسم اللہ کا پڑھنا شرط نہیں بلکہ مستحب ہے اگر چھوٹ جائے گوہ عمداً ہو یا بھول کر، کوئی حرج نہیں۔ اس آیت میں جو فرمایا گیا ہے کہ یہ فسق ہے اس کا مطلب یہ لوگ یہ لیتے ہیں کہ اس سے مراد غیر اللہ کے لئے ذبح کیا ہوا جانور ہے جیسے اور آیت میں ہے (اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ ) 6 ۔ الانعام ;145) بقول عطا ان جانوروں سے روکا گیا ہے جنہیں کفار اپنے معبودوں کے نام ذبح کرتے تھے اور مجوسیوں کے ذبیحہ سے بھی ممکن کی گئی، اس کا جواب بعض متأخرین نے یہ بھی دیا ہے کہ (وانہ) میں واؤ حالیہ یہ۔ تو فسق فعلیہ حالیہ پر لازم آئے گا، لیکن یہ دلیل اس کے بعد کے جملے ( وان الشیاطین) سے ہی ٹوٹ جاتی ہے اس لئے کہ وہ تو یقینا عاطفہ جملہ ہے۔ تو جس اگلے واؤ کو حالیہ کہا گیا ہے اگر اسے حالیہ مان لیا جائے تو پھر اس پر اس جملے کا عطف ناجائز ہوگا اور اگر اسے پہلے کے حالیہ جملے پر عطف ڈالا جائے تو جو اعتراض یہ دوسرے پر وارد کر رہے تھے وہی ان پر پڑے گا ہاں اگر اس واؤ کو حالیہ نہ مانا جائے تو یہ اعتراض ہٹ سکتا ہے لیکن جو بات اور دعویٰ تھا وہ سرے سے باطل ہوجائے گا۔ واللہ اعلم۔ ابن عباس کا قول ہے مراد اس سے مردار جانور ہے جو اپنی موت آپ مرگیا ہو۔ اس مذہب کی تائید ابو داؤد کی ایک مرسل حدیث سے بھی ہوسکتی ہے جس میں حضور کا فرمان ہے کہ مسلمان کا ذبیحہ حلال ہے اس نے اللہ کا نام لیا ہو یا نہ لیا ہو کیونکہ اگر وہ لیتا تو اللہ کا نام ہی لیتا۔ اس کی مضبوطی دار قطنی کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا جب مسلمان ذبح کرے اور اللہ کا نام نہ ذکر کرے تو کھالیا کرو کیونکہ مسلمان اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے، اسی مذہب کی دلیل میں وہ حدیث بھی پیش ہوسکتی ہے جو پہلے بیان ہوچکی ہے کہ نو مسلموں کے ذبیحہ کے کھانے کی جس میں دونوں اہتمال تھے آپ نے اجازت دی تو اگر بم اللہ کا کہنا شرط اور لازم ہوتا تو حضور تحقیق کرنے کا حکم دیتے، تیسرا قول یہ ہے کہ اگر بسم اللہ کہنا بوقت ذبح بھول گیا ہے تو ذبیحہ پر عمداً بسم اللہ نہ کہی جائے وہ حرام ہے اسی لئے امام ابو یوسف اور مشائخ نے کہا ہے کہ اگر کوئی حاکم اسے بچنے کا حکم بھی دے تو وہ حکم جاری نہیں ہوسکتا کیونکہ اجماع کے خلاف ہے لیکن صاحب ہدایہ کا یہ قول محض غلط ہے، امام شافعی سے پہلے بھی بہت سے ائمہ اس کے خلاف تھے چناچہ اوپر جو دوسرا مذہب بیان ہوا ہے کہ بسم اللہ پڑھنا شرط نہیں بلکہ مستحب ہے یہ امام شافعی کا ان کے سب ساتھیوں کا اور ایک روایت میں امام احمد کا اور امام مالک کا اور اشہب بن عبدالعزیز کا مذہب ہے اور یہی بیان کیا گیا ہے۔ حضرت ابن عباس حضرت ابوہریرہ حضرت عطاء بن ابی رباح کا اس سے اختلاف ہے۔ پھر اجماع کا دعویٰ کرنا کیسے درست ہوسکتا ہے واللہ اعلم۔ امام ابو جعفر بن جریر (رح) فرماتے ہیں کہ جن لوگوں نے بوقت ذبح بسم اللہ بھول کر نہ کہے جانے پر بھی ذبیحہ حرام کہا ہے انہوں نے اور دلائل سے اس حدیث کی بھی مخالفت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مسلم کو اس کا نام ہی کافی ہے اگر وہ ذبح کے وقت اللہ کا نام ذکر کرنا بھول گیا تو اللہ کا نام لے اور کھالے۔ یہ حدیث بیہقی میں ہے لیکن اس کا مرفوع روایت کرنا خطا ہے اور یہ خطا معقل بن عبید اللہ خرزمی کی ہے، ہیں تو یہ صحیح مسلم کے راویوں میں سے مگر سعید بن منصور اور عبداللہ بن زبیر حمیری اسے عبداللہ بن عباس سے موقوف روایت کرتے ہیں۔ بقول امام بہیقی یہ روایت سب سے زیادہ صحیح ہے۔ شعبی اور محمد بن سیرین اس جانور کا کھانا مکروہ جانتے تھے جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو گو بھول سے ہی رہ گیا ہو۔ ظاہر ہے کہ سلف کراہئیت کا اطلاق حرمت پر کرتے تھے۔ واللہ اعلم۔ ہاں یہ یاد رہے کہ امام ابن جریر کا قاعدہ یہ ہے کہ وہ ان دو ایک قولوں کو کوئی چیز نہیں سمجھتے جو جمہور کے مخالف ہوں اور اسے اجماع شمار کرتے ہیں۔ واللہ الموفق۔ امام حسن بصری (رح) سے ایک شخص نے مسئلہ پوچھا کہ میرے پاس بہت سے پرند ذبح شدہ آئے ہیں ان سے بعض کے ذبح کے وقت بسم اللہ پڑھی گئی ہے اور بعض پر بھول سے رہ گئی ہے اور سب غلط ملط ہوگئے ہیں آپ نے فتوی دیا کہ سب کھالو، پھر محمد بن سیرین سے یہی سوال ہوا تو آپ نے فرمایا جن پر اللہ کا نام ذکر نہیں کیا گیا انہیں نہ کھاؤ۔ اس تیسرے مذہب کی دلیل میں یہ حدیث بھی پیش کی جاتی ہے کہحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے میری امت کی خطاء کو بھول کو اور جس کام پر زبردستی کی جائے اس کو معاف فرما دیا ہے لیکن اس میں ضعف ہے ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ بتائیے تو ہم میں سے کوئی شخص ذبح کرے اور بسم اللہ کہنا بھول جائے ؟ آپ نے فرمایا اللہ کا نام ہر مسلمان کی زبان پر ہے (یعنی وہ حلال ہے) لیکن اس کی اسناد ضعیف ہے، مردان بن سالم ابو عبداللہ شامی اس حدیث کا راوی ہے اور ان پر بہت سے ائمہ نے جرح کی ہے، واللہ اعلم، میں نے اس مسئلہ پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے اس میں تمام مذاہب اور ان کے دلائل وغیرہ تفصیل سے لکھے ہیں اور پوری بحث کی ہے، بظاہر دلیلوں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ذبح کے وقت بسم اللہ کہنا ضروری ہے لیکن اگر کسی مسلمان کی زبان سے جلدی میں یا بھولے سے یا کسی اور وجہ سے نہ نکلے اور ذبح ہوگیا تو وہ حرما نہیں ہوتا (واللہ اعلم مترجم) عام اہل علم تو کہتے ہیں کہ اس آیت کا کوئی حصہ منسوخ نہیں لیکن بعض حضرات کہتے ہیں اس میں اہل کتاب کے ذبیحہ کا استثناء کرلیا گیا ہے اور ان کا ذبح کیا ہوا حلال جانور کھا لینا ہمارے ہاں حلال ہے تو گو وہ اپنی اصطلاح میں اسے نسخ سے تعبیر کریں لیکن دراصل یہ ایک مخصوص صورت ہے پھر فرمایا کہ شیطان اپنے ولیوں کی طرف وحی کرتے ہیں حضرت عبداللہ بن عمر سے جب کہا گیا کہ مختار گمان کرتا ہے کہ اس کے پاس وحی آتی ہے تو آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرما کر فرمایا وہ ٹھیک کہتا ہے۔ شیطان بھی اپنے دوستوں کی طرف وحی کرتے ہیں اور روایت میں ہے کہ اس وقت مختار حج کو آیا ہوا تھا۔ ابن عباس کے اس جواب سے کہ وہ سچا ہے اس شخص کو سخت تعجب ہوا اس وقت آپ نے تفصیل بیان فرمائی کہ ایک تو اللہ کی وحی جو آنحضرت کی طرف آئی اور ایک شیطانی وحی ہے جو شیطان کے دوستوں کی طرف آتی ہے۔ شیطانی وساوس کو لے کر لشکر شیطان اللہ والوں سے جھگڑتے ہیں۔ چناچہ یہودیوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ یہ کیا اندھیر ہے ؟ کہ ہم اپنے ہاتھ سے مارا ہوا جانور تو کھا لیں اور جسے اللہ مار دے یعنی اپنی موت آپ مرجائے اسے نہ کھائیں ؟ اس پر یہ آیت اتری اور بیان فرمایا کہ وجہ حلت اللہ کے نام کا ذکر ہے لیکن ہے یہ قصہ غور طلب اولاً اس وجہ سے کہ یہودی از خود مرے ہوئے جانور کا کھانا حلال نہیں جانتے تھے دوسرے اس وجہ سے بھی کہ یہودی تو مدینے میں تھے اور یہ پوری سورت مکہ میں اتری ہے۔ تیسرے یہ کہ یہ حدیث ترمذی میں مروی تو ہے لیکن مرسل طبرانی میں ہے کہ اس حکم کے نازل ہونے کے بعد کہ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اسے کھالو اور جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اسے نہ کھاؤ تو اہل فارس نے قریشوں سے کہلوا بھیجا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وہ جھگڑیں اور کہیں کہ جسے تم اپنی چھری سے ذبح کرو وہ تو حلال اور جسے اللہ تعالیٰ سونے کی چھری سے خود ذبح کرے وہ حرام ؟ یعنی میتہ از خود مرا ہوا جانور۔ اس پر یہ آیت اتری، پس شیاطین سے مراد فارسی ہیں اور ان کے اولیاء قریش ہیں اور بھی اس طرح کی بہت سی روایتیں کئی ایک سندوں سے مروی ہیں لیکن کسی میں بھی یہود کا ذکر نہیں پس صحیح یہی ہے کیونکہ آیت مکی ہے اور یہود مدینے میں تھے اور اس لئے بھی کہ یہودی خود مردار خوار نہ تھے۔ ابن عباس فرماتے ہیں جسے تم نے ذبح کیا یہ تو وہ ہے جس پر اللہ کا نام لیا گیا اور جو از خود مرگیا وہ وہ ہے جس پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا، مشرکین قریش فارسیوں سے خط و کتابت کر رہے تھے اور رومیوں کے خلاف انہیں مشورے اور امداد پہنچاتے تھے اور فارسی قریشیوں سے خط و کتابت رکھتے تھے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف انہیں اکساتے اور ان کی امداد کرتے تھے، اسی میں انہوں نے مشرکین کی طرف یہ اعتراض بھی بھیجا تھا اور مشرکین نے صحابہ سے یہی اعتراض کیا اور بعض صحابہ کے دل میں بھی یہ بات کھٹکی اس پر یہ آیت اتری۔ پھر فرمایا اگر تم نے ان کی تابعداری کی تو تم مشرک ہوجاؤ گے کہ تم نے اللہ کی شریعت اور فرمان قرآن کے خلاف دوسرے کی مان لی اور یہی شرک ہے کہ اللہ کے قول کے مقابل دوسرے کا قول مان لیا چناچہ قرآن کریم میں ہے آیت (اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ ۚ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوْٓا اِلٰــهًا وَّاحِدًا ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۭسُبْحٰنَهٗ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ) 9 ۔ التوبہ ;31) یعنی انہوں نے اپنے عالموں اور درویشوں کو الہ بنا لیا ہے، ترمذی میں ہے کہ جب حضرت عدی بن حاتم نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ حضور انہوں نے ان کی عبادت نہیں کی تو آپ نے فرمایا انہوں نے حرام کو حلال کہا اور حلال کو حرام کہا اور انہوں نے ان کا کہنا مانا یہی عبادت ہے۔