وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِاِيْمَانٍ اَلْحَـقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَاۤ اَلَـتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَىْءٍۗ كُلُّ امْرِیءٍۢ بِمَا كَسَبَ رَهِيْنٌ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
جو لوگ ایمان لائے ہیں اور اُن کی اولاد بھی کسی درجہ ایمان میں ان کے نقش قدم پر چلی ہے ان کی اُس اولاد کو بھی ہم (جنت میں) اُن کے ساتھ ملا دیں گے اور اُن کے عمل میں کوئی گھاٹا ان کو نہ دیں گے ہر شخص اپنے کسب کے عوض رہن ہے
English Sahih:
And those who believed and whose descendants followed them in faith – We will join with them their descendants, and We will not deprive them of anything of their deeds. Every person, for what he earned, is retained.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
جو لوگ ایمان لائے ہیں اور اُن کی اولاد بھی کسی درجہ ایمان میں ان کے نقش قدم پر چلی ہے ان کی اُس اولاد کو بھی ہم (جنت میں) اُن کے ساتھ ملا دیں گے اور اُن کے عمل میں کوئی گھاٹا ان کو نہ دیں گے ہر شخص اپنے کسب کے عوض رہن ہے
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اور جو ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی ہم نے ان کی اولاد ان سے ملادی اور ان کے عمل میں انہیں کچھ کمی نہ دی سب آدمی اپنے کیے میں گرفتار ہیں
احمد علی Ahmed Ali
اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان میں ان کی پیروی کی ہم ان کے ساتھ ان کی اولاد کو بھی (جنت) میں ملا دیں گے اور ان کے عمل میں سے کچھ بھی کم نہ کریں گے ہر شخص اپنے عمل کے ساتھ وابستہ ہے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کی پیروی کی ہم ان کی اولاد کو ان تک پہنچا دیں گے اور ان کے عمل سے ہم کچھ کم نہ کریں گے (١) ہر شخص اپنے اپنے اعمال کا گروی ہے (٢)
٢١۔١ یعنی جن کے باپ اپنے اخلاص و تقوٰی اور عمل و کردار کی بنیاد پر جنت کے اعلٰی درجوں پر فائز ہوں گے، اللہ تعالٰی ان کی ایماندار اولاد کے بھی درجے بلند کرکے، ان کو ان کے باپوں کے ساتھ ملا دے گا یہ نہیں کرے گا کہ ان کے باپوں کے درجے کم کرکے ان کی اولاد والے کمتر درجوں میں انہیں لے آئے یعنی اہل ایمان پر دو گونہ احسان فرمائے گا۔ ایک تو باپ بیٹوں کو آپس میں ملا دے گا تاکہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں، بشرطیکہ دونوں ایماندار ہوں دوسرا یہ کہ کم درجے والوں کو اٹھا کر اونچے درجوں پر فائز فرما دے گا۔ ورنہ دونوں کے ملاپ کا یہ طریقہ بھی ہوسکتا ہے کہ اے کلاس والوں کو بی کلاس دے دے، یہ بات چونکہ اس کے فضل واحسان سے فروتر ہوگی اس لیے وہ ایسا نہیں کرے گا بلکہ بی کلاس والوں کا اے کلاس عطا فرمائے گا۔ یہ تو اللہ کا وہ احسان ہے جو اولاد پر آبا کے عملوں کی برکت سے ہوگا اور حدیث میں آتا ہے کہ اولاد کی دعا واستغفار سے آبا کے درجات میں بھی اضافہ ہوتا ہے ایک شخص کے جب جنت میں درجے بلند ہوتے ہیں تو وہ اللہ سے اس کا سبب پوچھتا ہے اللہ تعالٰی فرماتا ہے تیری اولاد کی تیرے لیے دعائے مغفرت کرنے کی وجہ سے (مسند احمد) اس کی تأیید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں آتا ہے کہ جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے البتہ تین چیزوں کا ثواب موت کے بعد بھی جاری رہتا ہے ایک صدقہ جاریہ دوسرا وہ علم جس سے لوگ فیض یاب ہوتے رہیں اور تیسری نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہو۔(صحیح مسلم)
٢١۔۲رھین بمعنی مرھون (گروی شدہ چیز) ہر شخص اپنے عمل کا گروی ہوگا۔ یہ عام ہے۔ مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور مطلب ہے کہ جو جیسا اچھا یا برا عمل کرے گا۔ اس کے مطابق اچھی یا بری جزاء پائے گا۔ یا اس سے مراد صرف کافر ہیں کہ وہ اپنے اعمال میں گرفتار ہوں گے، جیسے دوسرے مقام پر فرمایا "كُلُّ نَفْسٍۢ بِمَا كَسَبَتْ رَهِيْنَةٌ" 74۔ المدثر;38) ہر شخص اپنے اعمال میں گرفتار ہوگا۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی (راہ) ایمان میں ان کے پیچھے چلی۔ ہم ان کی اولاد کو بھی ان (کے درجے) تک پہنچا دیں گے اور ان کے اعمال میں سے کچھ کم نہ کریں گے۔ ہر شخص اپنے اعمال میں پھنسا ہوا ہے
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
اور جو لوگ ایمان ﻻئے اور ان کی اوﻻد نے بھی ایمان میں ان کی پیروی کی ہم ان کی اوﻻد کو ان تک پہنچا دیں گے اور ان کے عمل سے ہم کچھ کم نہ کریں گے، ہر شخص اپنے اپنے اعمال کا گروی ہے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان کے ساتھ ان کی اتباع (پیروی) کی تو ہم ان کی اولاد کو (جنت میں) ان کے ساتھ ملا دیں گے اور ان کے اعمال میں کچھ بھی کمی نہیں کریں گے ہر شخص اپنے عمل کے بدلے میں گروی ہے۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کا اتباع کیا تو ہم ان کی ذریت کو بھی ان ہی سے ملادیں گے اور کسی کے عمل میں سے ذرہ برابر بھی کم نہیں کریں گے کہ ہر شخص اپنے اعمال کا گروی ہے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
اور جو لوگ ایمان لائے اور اُن کی اولاد نے ایمان میں اُن کی پیروی کی، ہم اُن کی اولاد کو (بھی) (درجاتِ جنت میں) اُن کے ساتھ ملا دیں گے (خواہ اُن کے اپنے عمل اس درجہ کے نہ بھی ہوں یہ صرف اُن کے صالح آباء کے اکرام میں ہوگا) اور ہم اُن (صالح آباء) کے ثوابِ اعمال سے بھی کوئی کمی نہیں کریں گے، (علاوہ اِس کے) ہر شخص اپنے ہی عمل (کی جزا و سزا) میں گرفتار ہوگا،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
صالح اولاد انمول اثاثہ
اللہ تعالیٰ جل شانہ اپنے فضل و کرم اور لطف و رحم اپنے احسان اور انعام کا بیان فرماتا ہے کہ جن مومنوں کی اولاد بھی ایمان میں اپنے باپ دادا کی راہ میں لگ جائے لیکن اعمال صالحہ میں اپنے بڑوں سے کم ہو پروردگار ان کے نیک اعمال کا بدلہ بڑھا چڑھا کر انہیں ان کے بڑوں کے درجے میں پہنچا دے گا تاکہ بڑوں کی آنکھیں چھوٹوں کو اپنے پاس دیکھ کر ٹھنڈی رہیں اور چھوٹے بھی اپنے بڑوں کے پاس ہشاش بشاش رہیں ان کے عملوں کی بڑھوتری ان کے بزرگوں کے اعمال کی کمی سے نہ کی جائے گی بلکہ محسن و مہربان اللہ انہیں اپنے معمور خزانوں میں سے عطا فرمائے گا حضرت ابن عباس اس آیت کی تفسیر یہی فرماتے ہیں۔ ایک مرفوع حدیث بھی اس مضمون کی مروی ہے ایک اور روایت میں ہے کہ جب جنتی شخص جنت میں جائے گا اور اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں کو نہ پائے گا تو دریافت کرے گا کہ وہ کہاں ہیں جواب ملے گا کہ وہ تمہارے مرتبہ تک نہیں پہنچے یہ کہے گا باری تعالیٰ میں نے تو اپنے لئے اور انکے لئے نیک اعمال کئے تھے چناچہ حکم دیا جائے گا اور انہیں بھی ان کے درجے میں پہنچا دیا جائے گا۔ یہ بھی مروی ہے کہ جنتیوں کے بچوں نے ایمان قبول کیا اور نیک کام کئے وہ تو ان کے ساتھ ملا دئیے جائیں گے لیکن ان کے جو چھوٹے بچے چھٹ پن ہی میں انتقال کر گئے تھے وہ بھی ان کے پاس پہنچا دئیے جائیں گے۔ حضرت ابن عباس، شعبی، سعید بن جبیر ابراہیم قتادہ ابو صالح ربیع بن انس ضحاک بن زید بھی یہی کہتے ہیں امام ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت خدیجہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے دو بچوں کی نسبت دریافت کیا جو زمانہ جاہلیت میں مرے تھے تو آپ نے فرمایا وہ دونوں جہنم میں ہیں، پھر جب مائی صاحبہ کو غمگین دیکھا تو فرمایا اگر تم ان کی جگہ دیکھ لیتیں تو تمہارے دل میں ان کا بغض پیدا ہوجاتا مائی صاحبہ نے پوچھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرا بچہ جو آپ سے ہوا وہ کہاں ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ جنت میں ہے مومن مع اپنی اولاد کے جنت میں ہیں۔ پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تلاوت کی یہ تو ہوئی ماں باپ کے اعمال صالحہ کی وجہ سے اولاد کی بزرگی اب اولاد کی دعا خیر کی وجہ سے ماں باپ کی بزرگی ملاحظہ وہ مسند احمد میں حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندے کا درجہ جنت میں دفعۃً بڑھاتا ہے وہ دریافت کرتا ہے کہ اللہ میرا یہ درجہ کیسے بڑھ گیا ؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ تیری اولاد نے تیرے لئے استغفار کیا اس بنا پر میں نے تیرا درجہ بڑھا دیا اس حدیث کی اسناد بالکل صحیح ہیں گو بخاری مسلم میں ان لفظوں سے نہیں آئی لیکن اس جیسی ایک روایت صحیح مسلم میں اسی طرح مروی ہے کہ ابن آدم کے مرتے ہی اس کے اعمال موقوف ہوجاتے ہیں لیکن تین عمل کہ وہ مرنے کے بعد بھی ثواب پہنچاتے رہتے ہیں۔ صدقہ جاریہ علم دین جس سے نفع پہنچتا ہے نیک اولاد جو مرنے والے کے لئے دعائے خیر کرتی رہے چونکہ یہاں بیان ہوا تھا کہ مومنوں کی اولاد کے درجے بےعمل بڑھا دئیے گئے تھے تو ساتھ ہی ساتھ اپنے اس فضل کے بعد اپنے عدل کا بیان فرماتا ہے کہ کسی کو کسی کے اعمال میں پکڑا نہ جائے گا بلکہ ہر شخص اپنے اپنے عمل میں رہن ہوگا باپ کا بوجھ بیٹے پر اور بیٹے کا باپ پر نہ ہوگا جیسے اور جگہ ہے آیت ( كُلُّ نَفْسٍۢ بِمَا كَسَبَتْ رَهِيْنَةٌ 38ۙ ) 74 ۔ المدثر ;38) ، ہر شخص اپنے کئے ہوئے کاموں میں گرفتار ہے مگر وہ جن کے دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال پہنچے وہ جنتوں میں بیٹھے ہوئے گنہگاروں سے دریافت کرتے ہیں۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ان جنتیوں کو قسم قسم کے میوے اور طرح طرح کے گوشت دئیے جاتے ہیں جس چیز کو جی چاہے جس پر دل آئے وہ یک لخت موجود ہوجاتی ہے شراب طہور کے چھلکتے ہوئے جام ایک دوسرے کو پلا رہے ہیں جس کے پینے سے سرور اور کیف لطف اور بہار حاصل ہوتا ہے لیکن بد زبانی بےہودہ گوئی نہیں ہوتی ہذیان نہیں بکتے بیہوش نہیں ہوتے سچا سرور اور پوری خوشی حاصل بک جھک سے دور گناہ سے غافل باطل وکذب سے دور غیبت و گناہ سے نفور دنیا میں شرابیوں کی حالت دیکھی ہوگی کہ ان کے سر میں چکر پیٹ میں درد عقل زائل بکواس بہت بو بری چہرے بےرونق اسی طرح شراب کے بد ذائقہ اور بدبو یہاں جنت کی شراب ان تمام گندگیوں سے کوسوں دور ہے یہ رنگ میں سفید پینے میں خوش ذائقہ نہ اس کے پینے سے حواس معطل ہوں نہ بک جھک ہو نہ بہکیں نہ بھٹکیں نہ مستی ہو نہ اور کسی طرح ضرر پہنچائے ہنسی خوشی اس پاک شراب کے جام پلا رہے ہوں گے ان کے غلام کمسن نوعمر بچے جو حسن و خوبی میں ایسے ہیں جیسے مروارید ہوں اور وہ بھی ڈبے میں بند رکھے گئے ہوں کسی کا ہاتھ بھی نہ لگا ہو اور ابھی ابھی تازے تازے نکالے ہوں ان کی آبداری صفائی چمک دمک روپ رنگ کا کیا پوچھنا ؟ لیکن ان غلمان کے حسین چہرے انہیں بھی ماند کردیتے ہیں اور جگہ یہ مضمون ان الفاظ میں ادا کیا گیا ہے آیت ( يَــطُوْفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ 17 ۙ ) 56 ۔ الواقعة ;17) یعنی ہمیشہ نو عمر اور کمسن رہنے والے بچے آبخورے آفتابے اور ایسی شراب صاف کے جام کہ جن کے پینے سے نہ سر میں درد ہو نہ بہکیں اور جس قسم کا میوہ یہ پسند کریں اور جس پرند کا گوشت یہ چاہیں ان کے پاس بار بار لانے کے لئے چاروں طرف کمربستہ چل رہے ہیں اس دور شراب کے وقت آپس میں گھل مل کر طرح طرح کی باتیں کریں گے دنیا کے احوال یاد آئیں گے کہیں گے کہ ہم دنیا میں جب اپنے والوں میں تھے تو اپنے رب کے آج کے دن کے عذاب سے سخت لرزاں و ترساں تھے الحمد اللہ رب نے ہم پر خاص احسان کیا اور ہمارے خوف کی چیز سے ہمیں امن دیا ہم اسی سے دعائیں اور التجائیں کرتے رہے اس نے ہماری دعائیں قبول فرمائیں اور ہمارا قول پورا کردیا یقینا وہ بہت ہی نیک سلوک اور رحم والا ہے مسند بزار میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جنتی اپنے دوستوں سے ملنا چاہے گا تو ادھر دوست کے دل میں بھی یہی خواہش پیدا ہوگی اس کا تخت اڑے گا اور راستہ میں دونوں مل جائیں گے اپنے اپنے تختوں پر آرام سے بیٹھے ہوئے باتیں کرنے لگیں گے دنیا کے ذکر کو چھیڑیں گے اور کہیں گے کہ فلاں دن فلاں جگہ ہم نے اپنی بخشش کی دعا مانگی تھی اللہ نے اسے قبول فرمایا۔ اس حدیث کی سند کمزور ہے حضرت مائی عائشہ نے جب اس آیت کی تلاوت کی تو یہ دعا پڑھی (اللھم من علینا وقنا عذاب السموم انک انت البر الرحیم) حضرت اعمش راوی حدیث سے پوچھا گیا کہ اس آیت کو پڑھ کر یہ دعا ام المومنین نے نماز میں مانگی تھی ؟ جواب دیا ہاں۔