وَاِذَا سَمِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ تَرٰۤى اَعْيُنَهُمْ تَفِيْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَـقِّۚ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِيْنَ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اترا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ حق شناسی کے اثر سے اُن کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو جاتی ہیں وہ بول اٹھتے ہیں کہ "پروردگار! ہم ایمان لائے، ہمارا نام گواہی دینے والوں میں لکھ لے"
English Sahih:
And when they hear what has been revealed to the Messenger, you see their eyes overflowing with tears because of what they have recognized of the truth. They say, "Our Lord, we have believed, so register us among the witnesses.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اترا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ حق شناسی کے اثر سے اُن کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو جاتی ہیں وہ بول اٹھتے ہیں کہ "پروردگار! ہم ایمان لائے، ہمارا نام گواہی دینے والوں میں لکھ لے"
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اور جب سنتے ہیں وہ جو رسول کی طرف اترا تو ان کی آنکھیں دیکھو کہ آنسوؤں سے ابل رہی ہیں اس لیے کہ وہ حق کو پہچان گئے، کہتے ہیں اے رب ہمارے! ہم ایمان لائے تو ہمیں حق کے گواہوں میں لکھ لے
احمد علی Ahmed Ali
اور جب اس چیز کو سنتے ہیں جو رسول پر اتری تو ان کی آنکھوں کو دیکھے گا کہ آنسوؤں سے بہتی ہیں اس لیے کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا کہتے ہیں اے رب ہمارے کہ ہم ایمان لائے تو ہمیں ماننے والوں کے ساتھ لکھ لے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
اور جب وہ رسول کی طرف نازل کردہ (کلام) کو سنتے ہیں تو آپ ان کی آنکھیں آنسو سے بہتی ہوئی دیکھتے ہیں اس سبب سے کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا، وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہم ایمان لے آئے پس تو ہم کو بھی ان لوگوں کے ساتھ لکھ لے جو تصدیق کرتے ہیں۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب اس (کتاب) کو سنتے ہیں جو (سب سے پہلے) پیغمبر (محمدﷺ) پر نازل ہوئی تو تم دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں اس لیے کہ انہوں نے حق بات پہچان لی اور وہ (خدا کی جناب میں) عرض کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہم ایمان لے آئے تو ہم کو ماننے والوں میں لکھ لے
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
اور جب وه رسول کی طرف نازل کرده (کلام) کو سنتے ہیں تو آپ ان کی آنکھیں آنسو سے بہتی ہوئی دیکھتے ہیں اس سبب سے کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا، وه کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہم ایمان لے آئے پس تو ہم کو بھی ان لوگوں کے ساتھ لکھ لے جو تصدیق کرتے ہیں
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
اور جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو (ہمارے) پیغمبر پر اتارا گیا ہے تو تم دیکھوگے کہ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے چھلک رہی ہوتی ہیں اس لئے کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا ہے وہ کہتے ہیں پروردگار ہم ایمان لائے سو تو ہم کو (صداقتِ اسلام کی) گواہی دینے والوں میں درج فرما۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جب اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر نازل ہوا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو جاری ہوجاتے ہیں کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا ہے اور کہتے ہیں کہ پروردگار ہم ایمان لے آئے ہیں لہذا ہمارا نام بھی تصدیق کرنے والوں میں درج کرلے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
اور (یہی وجہ ہے کہ ان میں سے بعض سچے عیسائی جب اس (قرآن) کو سنتے ہیں جو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف اتارا گیا ہے تو آپ ان کی آنکھوں کو اشک ریز دیکھتے ہیں۔ (یہ آنسوؤں کا چھلکنا) اس حق کے باعث (ہے) جس کی انہیں معرفت (نصیب) ہوگئی ہے۔ (ساتھ یہ) عرض کرتے ہیں: اے ہمارے رب! ہم (تیرے بھیجے ہوئے حق پر) ایمان لے آئے ہیں سو تو ہمیں (بھی حق کی) گواہی دینے والوں کے ساتھ لکھ لے،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
ایمان والو کی پہچان
اوپر بیان گزر چکا ہے کہ عیسائیوں میں سے جو نیک دل لوگ اس پاک مذہب اسلام کو قبول کئے ہوئے ہیں ان میں جو اچھے اوصاف ہیں مثلاً عبادت، علم، تواضع، انکساری وغیرہ، ساتھ ہی ان میں رحمدلی وغیرہ بھی ہے حق کی قبولیت بھی ہے اللہ کے احکامات کی اطلاعت بھی ہے ادب اور لحاظ سے کلام اللہ سنتے ہیں، اس سے اثر لیتے ہیں اور نرم دلی سے رو دیتے ہیں کیونکہ وہ حق کے جاننے والے ہیں، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے بشارت سے پہلے ہی آگاہ ہوچکے ہیں۔ اس لئے قرآن سنتے ہی دل موم ہوجاتے ہیں۔ ایک طرف آنکھیں آنسو بہانے لگتی ہیں دوری جانب زبان سے حق کو تسلیم کرتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) فرماتے ہیں یہ آیتیں حضرت نجاشی اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) ما کا بیان ہے کہ کچھ لوگ حضرت جعفر بن ابی طالب (رض) کے ساتھ جشہ سے آئے تھے حضور کی زبان مبارک سے قرآن کریم سن کر ایمان لائے اور بےتحاشہ رونے لگے۔ آپ نے ان سے دریاف فرمایا کہ کہیں اپنے وطن پہنچ کر اس سے پھر تو نہیں جاؤ گے ؟ انہوں نے کہا ناممکن ہے اسی کا بیان ان آیتوں میں ہے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں شاہدوں سے مراد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دیگر انبیاء کرام (علیہم السلام) کی تبلیغ کی شہادت ہے پھر اس قسم کے نصرانیوں کا ایک اور وصف بیان ہو رہا ہے ان ہی کا دوسرا وصف اس آیت میں ہے آیت (وَاِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ ۚ وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكُوْنُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا) 4 ۔ النسآء ;159) یعنی اہل کتاب میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ پر اور اس قرآن پر اور جو ان پر نازل کیا گیا ہے سب پر ایمان رکھتے ہیں اور پھر اللہ سے ڈرنے والے بھی ہیں۔ ان ہی کے بارے میں فرمان ربانی آیت (اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِهٖ هُمْ بِهٖ يُؤْمِنُوْنَ 52 وَاِذَا يُتْلٰى عَلَيْهِمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِهٖٓ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَآ اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهٖ مُسْلِمِيْنَ 53 اُولٰۗىِٕكَ يُؤْتَوْنَ اَجْرَهُمْ مَّرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوْا وَيَدْرَءُوْنَ بالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ 54 وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْهُ وَقَالُوْا لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اَعْمَالُكُمْ ۡ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ ۡ لَا نَبْتَغِي الْجٰهِلِيْنَ 55) 28 ۔ القصص ;52 تا 55) ۔ کہ یہ لوگ اس کتاب کو اور اس کتاب کو سچ جانتے ہیں اور دونوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ پس یہاں بھی فرمایا کہ وہ کہتے ہیں کہ جب ہمیں صالحین میں ملنا ہے تو اللہ پر اور اس کی اس آخری کتاب پر ہم ایمان کیوں نہ لائیں ؟ ان کے اس ایمان و تصدیق اور قبولیت حق کا بدلہ اللہ نے انہیں یہ دیا کہ وہ ہمیشہ رہنے والے ترو تازہ باغات و چشموں والی جنتوں میں جائیں گے۔ محسن، نیکو کار، مطیع حق، تابع فرمان الٰہی لوگوں کی جزا یہی ہے، وہ کہیں کے بھی ہوں کوئی بھی ہوں۔ جو ان کے خلاف ہیں انجام کے لحاظ سے بھی ان کے برعکس ہیں، کفرو تکذب اور مخالفت یہاں ان کا شیوہ ہے اور وہاں جہنم ان کا ٹھکانا ہے۔