Skip to main content

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَـتَّخِذُوا الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا دِيْنَكُمْ هُزُوًا وَّلَعِبًا مِّنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَالْـكُفَّارَ اَوْلِيَاۤءَ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ

O you
يَٰٓأَيُّهَا
اے
who
ٱلَّذِينَ
وہ لوگو
believe!
ءَامَنُوا۟
جو ایمان لائے ہو
(Do) not
لَا
نہ
take
تَتَّخِذُوا۟
تم بناؤ
those who
ٱلَّذِينَ
ان لوگوں کو
take
ٱتَّخَذُوا۟
جنہوں نے بنا لیا
your religion
دِينَكُمْ
تمہارے دین کو
(in) ridicule
هُزُوًا
مذاق
and fun
وَلَعِبًا
اور کھیل
from
مِّنَ
سے
those who
ٱلَّذِينَ
ان لوگوں میں سے
are given
أُوتُوا۟
جو دیئے گئے
the Book
ٱلْكِتَٰبَ
کتاب
from
مِن
سے
before you
قَبْلِكُمْ
تم سے پہلے
and the disbelievers
وَٱلْكُفَّارَ
اور کافروں کو
(as) allies
أَوْلِيَآءَۚ
دوست
And fear
وَٱتَّقُوا۟
اور ڈرو
Allah
ٱللَّهَ
اللہ سے
if
إِن
اگر
you are
كُنتُم
ہو تم
believers
مُّؤْمِنِينَ
ایمان لانے والے

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

ا ے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے پیش رو اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے تمہارے دین کو مذاق اور تفریح کا سامان بنا لیا ہے، اُنہیں اور دوسرے کافروں کو اپنا دوست اور رفیق نہ بناؤ اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو

English Sahih:

O you who have believed, take not those who have taken your religion in ridicule and amusement among the ones who were given the Scripture before you nor the disbelievers as allies. And fear Allah, if you should [truly] be believers.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

ا ے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے پیش رو اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے تمہارے دین کو مذاق اور تفریح کا سامان بنا لیا ہے، اُنہیں اور دوسرے کافروں کو اپنا دوست اور رفیق نہ بناؤ اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اے ایمان والو! جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنالیا ہے وہ جو تم سے پہلے کتاب دیے گئے اور کافر ان میں کسی کو اپنا دوست نہ بناؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو اگر ایمان رکھتے ہو

احمد علی Ahmed Ali

اے ایمان والو! ان لوگوں کو اپنا دوست نہ بناؤ جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی اور کھیل بنا رکھا ہے ان لوگو ں میں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور کافروں کو اور الله سے ڈرو اگر تم ایمان دار ہو

أحسن البيان Ahsanul Bayan

مسلمانو! ان لوگوں کو دوست نہ بناؤ جو تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنائے ہوئے ہیں (خواہ) وہ ان میں سے ہوں جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے یا کفار ہوں (١) اگر تم مومن ہو تو اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہو۔

٥٧۔١ اہل کتاب سے یہود و نصاریٰ اور کفار سے مشرکین مراد ہیں۔ یہاں پھر یہی تاکید کی گئی ہے کہ دین کو کھیل مذاق بنانے والے چونکہ اللہ اور اس کے رسول کے دشمن ہیں اس لئے ان کے ساتھ اہل ایمان کی دوستی نہیں ہونی چاہئے۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

اے ایمان والوں! جن لوگوں کو تم سے پہلے کتابیں دی گئی تھیں ان کو اور کافروں کو جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی اور کھیل بنا رکھا ہے دوست نہ بناؤ اور مومن ہو تو خدا سے ڈرتے رہو

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

مسلمانو! ان لوگوں کو دوست نہ بناؤ جو تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنائے ہوئے ہیں (خواه) وه ان میں سے ہوں جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے یا کفار ہوں اگر تم مومن ہو تو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

اے ایمان والو! وہ لوگ جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور انہوں نے تمہارے دین کو مذاق اور کھیل بنا رکھا ہے۔ ان کو اور دوسرے عام کفار کو اپنا دوست نہ بناؤ اور اللہ سے ڈرو، اگر تم مؤمن ہو۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

ایمان والو خبردار اہل ه کتاب میں جن لوگوں نے تمہارے دین کو مذاق اور تماشہ بنالیا ہے اور دیگر کفار کو بھی اپنا ولی اور سرپرست نہ بنانا اور اللہ سے ڈرتے رہنا اگر تم واقعی صاحب ایمان ہو

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اے ایمان والو! ایسے لوگوں میں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی، ان کو جو تمہارے دین کو ہنسی اور کھیل بنائے ہوئے ہیں اور کافروں کو دوست مت بناؤ، اور اﷲ سے ڈرتے رہو بشرطیکہ تم (واقعی) صاحبِ ایمان ہو،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

اذان اور دشمنان دین
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو غیر مسلموں کی محبت سے نفرت دلاتا ہے اور فرماتا ہے کہ " کیا تم ان سے دوستیاں کرو گے جو تمہارے طاہر و مطہر دین کی ہنسی اڑاتے ہیں اور اسے ایک بازیچہ اطفال بنائے ہوئے ہیں "۔ من بیان جنس کیلئے جیسے (من الاوثان) میں۔ بعض نے (والکفار) پڑھا ہے اور عطف ڈالا ہے اور بعض نے (والکفار) پڑھا ہے اور (لاتتخذوا) کا نیا معمول بنایا ہے تو تقدیر عبارت (والا الکفار اولیاء) ہوگی، کفار سے مراد مشرکین ہیں، ابن مسعود کی قرأت میں (و من الذین اشرکوا) ہے۔ اللہ سے ڈرو اور ان سے دوستیاں نہ کرو اگر تم سچے مومن ہو۔ یہ تو تمہارے دین کے، اللہ کی شریعت کے دشمن ہیں۔ جیسے فرمایا آیت (لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ ) 3 ۔ آل عمران ;28) مومن مومنوں کو چھوڑ کر کفار سے دوستیاں نہ کریں اور جو ایسا کرے وہ اللہ کے ہاں کسی بھلائی میں نہیں ہاں ان سے بچاؤ مقصود ہو تو اور بات ہے، اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔ اسی طرح یہ کفار اہل کتاب اور مشرک اس وقت بھی مذاق اڑاتے ہیں جب تم نمازوں کیلئے لوگوں کو پکارتے ہو حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کی سب سے پیاری عبادت ہے، لیکن یہ بیوقوف اتنا بھی نہیں جانتے، اس لئے کہ یہ متبع شیطان ہیں، اس کی یہ حالت ہے کہ اذان سنتے ہی بدبو چھوڑ کر دم دبائے بھاگتا ہے اور وہاں جا کر ٹھہرتا ہے، جہاں اذان کی آواز نہ سن پائے۔ اس کے بعد آجاتا ہے پھر تکبیر سن کر بھاگ کھڑا ہوتا ہے اور اس کے ختم ہوتے ہی آکر اپنے بہکاوے میں لگ جاتا ہے، انسان کو ادھر ادھر کی بھولی بسری باتیں یاد دلاتا ہے یہاں تک کہ اسے یہ بھی خبر نہیں رہتی کہ نماز کی کتنی رکعت پڑھیں ؟ جب ایسا ہو تو وہ سجدہ سہو کرلے۔ (متفق علیہ) امام زہری فرماتے ہیں " اذان کا ذکر قرآن کریم میں بھی ہے پھر یہی آیت تلاوت کی "۔ ایک نصرانی مدینے میں تھا، اذان میں جب اشہد ان محمد الرسول اللہ سنتا تو کہتا کذاب جل جائے۔ ایک مرتبہ رات کو اس کی خادمہ گھر میں آگ لائی، کوئی پتنگا اڑا جس سے گھر میں آگ لگ گئی، وہ شخص اس کا گھر بار سب جل کر ختم ہوگیا۔ فتح مکہ والے سال حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت بلال کو کعبے میں اذان کہنے کا حکم دیا، قریب ہی ابو سفیان بن حرب، عتاب بن اسید، حارث بن ہشام بیٹھے ہوئے تھے، عتاب نے تو اذان سن کر کہا میرے باپ پر تو اللہ کا فضل ہوا کہ وہ اس غصہ دلانے والی آواز کے سننے سے پہلے ہی دنیا سے چل بسا۔ حارث کہنے لگا اگر میں اسے سچا جانتا تو مان ہی نہ لیتا۔ ابو سفیان نے کہا بھئی میں تو کچھ بھی زبان سے نہیں نکالتا، ڈر ہے کہ کہیں یہ کنکریاں اسے خبر نہ کردیں انہوں نے باتیں ختم کی ہی تھیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آگئے اور فرمانے لگے اس وقت تم نے یہ یہ باتیں کیں ہیں، یہ سنتے ہی عتاب اور حارث تو بول پڑے کہ ہماری گواہی ہے کہ آپ اللہ کے سچے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، یہاں تو کوئی چوتھا تھا ہی نہیں، ورنہ گمان کرسکتے تھے کہ اس نے جا کر آپ سے کہہ دیا ہوگا (سیرۃ محمد بن اسحاق) حضرت عبداللہ بن جبیر جب شام کے سفر کو جانے لگے تو حضرت محذورہ سے جن کی گود میں انہوں نے ایام یتیمی بسر کئے تھے، کہا آپ کی اذان کے بارے میں مجھ سے وہاں کے لوگ ضرور سوال کریں گے تو آپ اپنے واقعات تو مجھے بتا دیجئے۔ فرمایا ہاں سنو جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حنین سے واپس آ رہے تھے، راستے میں ہم لوگ ایک جگہ رکے، تو نماز کے وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مؤذن نے اذان کہی، ہم نے اس کا مذاق اڑانا شروع کیا، کہیں آپ کے کان میں بھی آوازیں پڑگئیں۔ سپاہی آیا اور ہمیں آپ کے پاس لے گیا۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ تم سب میں زیادہ اونچی آواز کس کی تھی ؟ سب نے میری طرف اشارہ کیا تو آپ نے اور سب کو چھوڑ دیا اور مجھے روک لیا اور فرمایا " اٹھو اذان کہو " واللہ اس وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات سے اور آپ کی فرماں برداری سے زیادہ بری چیز میرے نزدیک کوئی نہ تھی لیکن بےبس تھا، کھڑا ہوگیا، اب خود آپ نے مجھے اذان سکھائی اور جو سکھاتے رہے، میں کہتا رہا، پھر اذان پوری بیان کی، جب میں اذان سے فارغ ہوا تو آپ نے مجھے ایک تھیلی دے، جس میں چاندی تھی، پھر اپنا دست مبارک میرے سر پر رکھا اور پیٹھ تک لائے، پھر فرمایا اللہ تجھ میں اور تجھ پر اپنی برکت نازل کرے۔ اب تو اللہ کی قسم میرے دل سے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عداوت بالکل جاتی رہی، ایسی محبت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دل میں پیدا ہوگئی، میں نے آرزو کی کہ مکہ کا مؤذن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھ کو بنادیں۔ آپ نے میری یہ درخواست منظور فرما لی اور میں مکہ میں چلا گیا اور وہاں کے گورنر حضرت عتاب بن اسید سے مل کر اذان پر مامور ہوگیا۔ حضرت ابو مخدورہ کا نام سمرہ بن مغیرہ بن لوذان تھا، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چار مؤذنوں میں سے ایک آپ تھے اور لمبی مدت تک آپ اہل مکہ کے مؤذن رہے۔ (رض) وارضاہ۔