وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَوْلَا نُزِّلَتْ سُوْرَةٌ ۚ فَاِذَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ مُّحْكَمَةٌ وَّذُكِرَ فِيْهَا الْقِتَالُۙ رَاَيْتَ الَّذِيْنَ فِىْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ يَّنْظُرُوْنَ اِلَيْكَ نَظَرَ الْمَغْشِىِّ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِۗ فَاَوْلٰى لَهُمْۚ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ کہہ رہے تھے کہ کوئی سورت کیوں نہیں نازل کی جاتی (جس میں جنگ کا حکم دیا جائے) مگر جب ایک محکم سورت نازل کر دی گئی جس میں جنگ کا ذکر تھا تو تم نے دیکھا کہ جن کے دلوں میں بیماری تھی وہ تمہاری طرف اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے کسی پر موت چھا گئی ہو افسوس اُن کے حال پر
English Sahih:
Those who believe say, "Why has a Surah not been sent down?" But when a precise Surah is revealed and battle is mentioned therein, you see those in whose hearts is disease [i.e., hypocrisy] looking at you with a look of one overcome by death. And more appropriate for them [would have been]
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ کہہ رہے تھے کہ کوئی سورت کیوں نہیں نازل کی جاتی (جس میں جنگ کا حکم دیا جائے) مگر جب ایک محکم سورت نازل کر دی گئی جس میں جنگ کا ذکر تھا تو تم نے دیکھا کہ جن کے دلوں میں بیماری تھی وہ تمہاری طرف اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے کسی پر موت چھا گئی ہو افسوس اُن کے حال پر
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اور مسلمان کہتے ہیں کوئی سورت کیوں نہ اتاری گئی پھر جب کوئی پختہ سورت اتاری گئی اور اس میں جہاد کا حکم فرمایا گیا تو تم دیکھو گے انہیں جن کے دلوں میں بیماری ہے کہ تمہاری طرف اس کا دیکھنا دیکھتے ہیں جس پر مُرونی چھائی ہو، تو ان کے حق میں بہتر یہ تھا کہ فرمانبرداری کرتے
احمد علی Ahmed Ali
اور کہتے ہیں وہ لوگ جو ایمان لائے کوئی سورت کیوں نہیں نازل ہوئی سو جس وقت کوئی صاف (مضمون) کی سورت نازل ہوتی ہے اور اس میں جہاد کا بھی ذکر ہوتا ہے تو جن لوگو ں کے دلوں میں بیماری (نفاق) ہے آپ ان لوگو ں کو دیکھتے ہیں کہ وہ آپ کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے کسی پر موت کی بیہوشی طاری ہو پس ایسے لوگوں کے لیے تباہی ہے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
اور جو لوگ ایمان لائے اور کہتے ہیں کوئی سورت کیوں نازل نہیں کی گئی؟ (۱) پھر جب کوئی صاف مطلب والی سورت (۲) نازل کی جاتی ہے اور اس میں قتال کا ذکر کیا جاتا ہے تو آپ دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے وہ آپ کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے اس شخص کی نظر ہوتی ہے جس پر موت کی بیہوشی طاری ہو (۳) پس بہت بہتر تھا ان کے لئے۔
۲۰ ۔۱ جب جہاد کا حکم نازل نہیں ہوا تھا تو مومنین جو جذبہ جہاد سے سرشار تھے جہاد کی اجازت کے خواہش مند تھے اور کہتے تھے کہ اس بارے میں کوئی سورت نازل کیوں نہیں کی جاتی یعنی جس میں جہاد کا حکم ہو۔
۲۰۔۲ یعنی ایسی سورت جو غیر منسوح ہو ۔
٢٠۔۳ یہ ان منافقین کا ذکر ہے جن پر جہاد کا حکم نہایت گراں گزرتا تھا، ان میں بعض کمزور ایمان والے بھی بعض دفعہ شامل ہو جاتے تھے سورہ نساء آیت ٧٧ میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
اور مومن لوگ کہتے ہیں کہ (جہاد کی) کوئی سورت کیوں نازل نہیں ہوتی؟ لیکن جب کوئی صاف معنوں کی سورت نازل ہو اور اس میں جہاد کا بیان ہو تو جن لوگوں کے دلوں میں (نفاق کا) مرض ہے تم ان کو دیکھو کہ تمہاری طرف اس طرح دیکھنے لگیں جس طرح کسی پر موت کی بےہوشی (طاری) ہو رہی ہو۔ سو ان کے لئے خرابی ہے
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
اور جو لوگ ایمان ﻻئے وه کہتے ہیں کوئی سورت کیوں نازل نہیں کی گئی؟ پھر جب کوئی صاف مطلب والی سورت نازل کی جاتی ہے اور اس میں قتال کا ذکر کیا جاتا ہے تو آپ دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے وه آپ کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے اس شخص کی نظر ہوتی ہے جس پر موت کی بیہوشی طاری ہو، پس بہت بہتر تھا ان کے لئے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
اور جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ کہتے ہیں کہ (جہاد کے بارے میں) کوئی سورہ کیوں نازل نہیں کی جاتی؟ پس جب ایک محکم سورہ نازل کی جاتی ہے اور اس میں قتل و قتال کا ذکر ہوتا ہے تو آپ(ص) ان لوگوں کو دیکھئے گا کہ جن کے دلوں میں (نفاق کی) بیماری ہے وہ آپ(ص) کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں جس طرح وہ شخص دیکھتا ہے جس پر موت کی غشی طاری ہو۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جو لوگ ایمان لے آئے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ آخر جہاد کے بارے میں سورہ کیوں نہیں نازل ہوتا اور جب سورہ نازل ہوگیا اور اس میں جہاد کا ذکر کردیا گیا تو آپ نے دیکھا کہ جن کے دلوں میں مرض تھا وہ آپ کی طرف اس طرح دیکھتے رہ گئے جیسے موت کی سی غشی طاری ہوگئی ہو تو ان کے واسطے ویل اور افسوس ہے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
اور ایمان والے کہتے ہیں کہ (حکمِ جہاد سے متعلق) کوئی سورت کیوں نہیں اتاری جاتی؟ پھر جب کوئی واضح سورت نازل کی جاتی ہے اور اس میں (صریحاً) جہاد کا ذکر کیا جاتا ہے تو آپ ایسے لوگوں کو جن کے دلوں میں (نفاق کی) بیماری ہے ملاحظہ فرماتے ہیں کہ وہ آپ کی طرف (اس طرح) دیکھتے ہیں جیسے وہ شخص دیکھتا ہے جس پر موت کی غشی طاری ہو رہی ہو۔ سو ان کے لئے خرابی ہے،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
ایمان کی دلیل حکم جہاد کی تعمیل ہے
اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ مومن تو جہاد کے حکم کی تمنا کرتے ہیں پھر جب اللہ تعالیٰ جہاد کو فرض کردیتا ہے اور اس کا حکم نازل فرما دیتا ہے تو اس سے اکثر لوگ ہٹ جاتے ہیں، جیسے اور آیت میں ہے آیت ( اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ قِيْلَ لَھُمْ كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ 77) 4 ۔ النسآء ;77) یعنی کیا تو نے انہیں نہیں دیکھا جن لوگوں سے کہا گیا کہ تم اپنے ہاتھوں کو روک لو اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو پھر جب ان پر جہاد فرض کیا گیا تو ان میں سے ایک فریق لوگوں سے اس طرح ڈرنے لگا جیسے اللہ کا ڈر ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ اور کہنے لگے اے ہمارے رب ہم پر تو نے جہاد کیوں فرض کردیا تو نے ہم کو قریب کی مدت تک ڈھیل کیوں نہ دی ؟ تو کہہ کہ دنیا کی متاع بہت ہی کم ہے اور پرہیزگاروں کے لئے آخرت بہت ہی بہتر ہے اور تم پر بالکل ذرا سا بھی ظلم نہ کیا جائے گا۔ پس یہاں بھی فرماتا ہے کہ ایمان والے تو جہاد کے حکموں کی آیتوں کے نازل ہونے کی تمنا کرتے ہیں لیکن منافق لوگ جب آن آیتوں کو سنتے ہیں تو بوجہ اپنی گبھراہٹ بوکھلاہٹ اور نامردی کے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اس طرح تجھے دیکھنے لگتے ہیں جیسے موت کی غشی والا۔ پھر انہیں مرد میدان بننے کی رغبت دلاتے ہوئے فرماتا ہے کہ ان کے حق میں بہتر تو یہ ہوتا کہ یہ سنتے مانتے اور جب موقعہ آجاتا معرکہ کارزار گرم ہوتا تو نیک نیتی کے ساتھ جہاد کر کے اپنے خلوص کا ثبوت دیتے پھر فرمایا قریب ہے کہ تم جہاد سے رک جاؤ اور اس سے بچنے لگو تو زمین میں فساد کرنے لگو اور صلہ رحمی توڑنے لگو یعنی زمانہ جاہلیت میں جو حالت تمہاری تھی وہی تم میں لوٹ آئے پس فرمایا ایسے لوگوں پر اللہ کی پھٹکار ہے اور یہ رب کی طرف سے بہرے اندھے ہیں۔ اس میں زمین میں فساد کرنے کی عموما اور قطع رحمی کی خصوصا ممانعت ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے زمین میں اصلاح اور صلہ رحمی کرنے کی ہدایت کی ہے اور ان کا حکم فرمایا ہے، صلہ رحمی کے معنی ہیں قرابت داروں سے بات چیت میں کام کاج میں، سلوک و احسان کرنا اور ان کی مالی مشکلات میں ان کے کام آنا۔ اس بارے میں بہت سی صحیح اور حسن حدیثیں مروی ہیں۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو پیدا کرچکا تو رحم کھڑا ہوا اور رحمن سے چمٹ گیا اس سے پوچھا گیا کیا بات ہے ؟ اس نے کہا یہ مقام ہے ٹوٹنے سے تیری پناہ میں آنے کا اس پر اللہ عزوجل نے فرمایا کیا تو اس سے راضی نہیں ؟ کہ تیرے ملانے والے کو میں ملاؤں اور تیرے کاٹنے والے کو میں کاٹ دوں ؟ اس نے کہا ہاں اس پر میں بہت خوش ہوں اس حدیث کو بیان فرما کر پھر راوی حدیث حضرت ابوہریرہ نے فرمایا اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو ( فَهَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ تَوَلَّيْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَتُـقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَكُمْ 22) 47 ۔ محمد ;22) ، اور سند سے ہے کہ خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ابو داؤد ترمذی ابن ماجہ وغیرہ میں ہے کوئی گناہ اتنا بڑا اور اتنا برا نہیں جس کی بہت جلدی سزا دنیا میں اور پھر اس کی برائی آخرت میں بہت بری پہنچتی ہو بہ نسبت سرکشی بغاوت اور قطع رحمی کے۔ مسند احمد میں ہے جو شخص چاہے کہ اس کی عمر بڑی ہو اور روزی کشادہ وہ وہ صلہ رحمی کرے۔ اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا میرے نزدیکی قرابت دار مجھ سے تعلق توڑتے رہتے ہیں اور میں انہیں معاف کرتا رہتا ہوں وہ مجھ پر ظلم کرتے ہیں اور میں ان کے ساتھ احسان کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ برائیاں کرتے رہتے ہیں تو کیا میں ان سے بدلہ نہ لوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہیں اگر ایسا کرو گے تو تم سب کے سب چھوڑ دئیے جاؤ گے، تو صلہ رحمی پر ہی رہ اور یاد رکھ کہ جب تک تو اس پر باقی رہے گا اللہ کی طرف سے تیرے ساتھ ہر وقت معاونت کرنے والا رہے گا۔ بخاری وغیرہ میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا صلہ رحمی عرش کے ساتھ لٹکی ہوئی ہے حقیقتًا صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو کسی احسان کے بدلے احسان کرے بلکہ صحیح معنی میں رشتے ناطے ملانے والا وہ ہے کہ گو تو اسے کاٹتا جائے وہ تجھ سے جوڑتا جائے۔ مسند احمد میں ہے کہ صلہ رحمی قیامت کے دن رکھی جائے گی اس کی رانیں ہوں مثل ہرن کی رانوں کے وہ بہت صاف اور تیز زبان سے بولے گی پس وہ کاٹ دیا جائے گا جو اسے کاٹتا تھا اور وہ ملایا جائے گا جو اسے ملاتا تھا۔ مسند کی ایک اور حدیث میں ہے رحم کرنے والوں پر رحمن بھی رحم کرتا ہے۔ تم زمین والوں پر رحم کرو آسمانوں والا تم پر رحم کرے گا۔ رحم رحمان کی طرف سے ہے اس کے ملانے والے کو اللہ ملاتا ہے اور اس کے توڑنے والے کو اللہ تعالیٰ خود توڑ دیتا ہے۔ یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف کی بیمار پرسی کے لئے لوگ گئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمانے لگے تم نے صلہ رحمی کی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اللہ عزوجل نے فرمایا ہے میں رحمن ہوں اور رحم کا نام میں نے اپنے نام پر رکھا ہے اسے جوڑنے والے کو میں جوڑوں گا اور اس کے توڑنے والے کو میں توڑ دوں گا اور حدیث میں ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں روحیں ملی جلی ہیں جو روز ازل میں میل کرچکی ہیں وہ یہاں یگانگت برتتی ہیں اور جن میں وہاں نفرت رہی ہے یہاں بھی دوری رہتی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جب زبانی دعوے بڑھ جائیں عملی کام گھٹ جائیں، زبانی میل جول ہو، دلی بغض و عداوت ہو، رشتے دار رشتے دار سے بدسلوکی کرے اس وقت ایسے لوگوں پر لعنت اللہ نازل ہوتی ہے اور ان کے کان بہرے اور آنکھیں اندھی کردی جاتی ہیں۔ اس بارے میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں۔ واللہ اعلم۔