Skip to main content

اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَفّٰٮهُمُ الْمَلٰۤٮِٕكَةُ ظَالِمِىْۤ اَنْفُسِهِمْ قَالُوْا فِيْمَ كُنْتُمْۗ قَالُوْا كُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِىْ الْاَرْضِۗ قَالُوْۤا اَلَمْ تَكُنْ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوْا فِيْهَاۗ فَاُولٰۤٮِٕكَ مَأْوٰٮهُمْ جَهَـنَّمُۗ وَسَاۤءَتْ مَصِيْرًا ۙ

Indeed
إِنَّ
بیشک
those whom -
ٱلَّذِينَ
وہ لوگ
take them (in death)
تَوَفَّىٰهُمُ
فوت کرتے ہیں ان کو
the Angels
ٱلْمَلَٰٓئِكَةُ
فرشتے (اس حال میں کہ وہ)
(while) they (were) wronging
ظَالِمِىٓ
ظلم کرنے والے ہیں
themselves
أَنفُسِهِمْ
اپنی جانوں پر
they say
قَالُوا۟
وہ کہتے ہیں
"In what (condition)
فِيمَ
کس میں
were you?"
كُنتُمْۖ
تھے تم
They said
قَالُوا۟
وہ کہتے ہیں
"We were
كُنَّا
تھے ہم
oppressed
مُسْتَضْعَفِينَ
کمزور ۔ بےبس۔ مجبور
in
فِى
میں
the earth
ٱلْأَرْضِۚ
زمین
They said
قَالُوٓا۟
وہ کہتے ہیں
"Not
أَلَمْ
کیا نہیں
was
تَكُنْ
تھی
(the) earth
أَرْضُ
زمین
(of) Allah
ٱللَّهِ
اللہ کی
spacious (enough)
وَٰسِعَةً
وسیع۔ فراخ
so that you (could) emigrate
فَتُهَاجِرُوا۟
کہ تم ہجرت کر جاتے
in it?"
فِيهَاۚ
اس میں
Then those
فَأُو۟لَٰٓئِكَ
تو یہی لوگ
(will have) their abode
مَأْوَىٰهُمْ
ٹھکانہ ان کا
(in) Hell -
جَهَنَّمُۖ
جہنم ہے
and it is an evil
وَسَآءَتْ
اور کتنا برا ہے
destination
مَصِيرًا
ٹھکانہ

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

جو لوگ اپنے نفس پر ظلم کر رہے تھے اُن کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ یہ تم کس حال میں مبتلا تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم زمین میں کمزور و مجبور تھے فرشتوں نے کہا، کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور بڑا ہی برا ٹھکانا ہے

English Sahih:

Indeed, those whom the angels take [in death] while wronging themselves – [the angels] will say, "In what [condition] were you?" They will say, "We were oppressed in the land." They [the angels] will say, "Was not the earth of Allah spacious [enough] for you to emigrate therein?" For those, their refuge is Hell – and evil it is as a destination.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

جو لوگ اپنے نفس پر ظلم کر رہے تھے اُن کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ یہ تم کس حال میں مبتلا تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم زمین میں کمزور و مجبور تھے فرشتوں نے کہا، کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور بڑا ہی برا ٹھکانا ہے

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

وہ لوگ جنکی جان فرشتے نکالتے ہیں اس حال میں کہ وہ اپنے اوپر ظلم کرتے تھے انسے فرشتے کہتے ہیں تم کاہے میں تھے کہتے ہیں کہ ہم زمین میں کمزور تھے کہتے ہیں کیا اللہ کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم اسمیں ہجرت کرتے، تو ایسوں کا ٹھکانا جہنم ہے، اور بہت بری جگہ پلٹنے کی

احمد علی Ahmed Ali

بے شک جو لوگ اپنے نفسوں پر ظلم کر رہے تھے ان کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں توان سے پوچھا کہ تم کس حال میں تھے انہوں نے جواب دیا ہم اس ملک میں بے بس تھے فرتشوں نے کہا کیا الله کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتےسو ایسوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور بہت ہی برا ٹھکانہ ہے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں جب فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہیں تو پوچھتے ہیں، تم کس حال میں تھے؟ (١) یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم اپنی جگہ کمزور اور مغلوب تھے (٢) فرشتے کہتے ہیں کیا اللہ تعالٰی کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم ہجرت کر جاتے؟ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ پہنچنے کی بری جگہ ہے۔

٩٧۔١ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو مکہ اور اس کے قرب و جوار میں مسلمان تو ہو چکے تھے لیکن انہوں نے اپنے آبائی علاقے اور خاندان چھوڑ کر ہجرت کرنے سے گریز کیا۔ جب کہ مسلمانوں کی قوت کو ایک جگہ مجتمع کرنے کے لئے ہجرت کا نہایت تاکیدی حکم مسلمانوں کو دیا جا چکا تھا اس لئے جن لوگوں نے ہجرت کے حکم پر عمل نہیں کیا۔ ان کو یہاں ظالم قرار دیا گیا ہے۔ اور ان کا ٹھکانا جہنم بتلایا گیا جس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ حالات و ظروف کے اعتبار سے اسلام کے بعض احکام کفر یا اسلام کے مترادف بن جاتے ہیں جیسے اس موقع پر ہجرت اسلام اور اس سے گریز کفر کے مترادف قرار پایا۔ دوسرے یہ معلوم ہوا کہ ایسے دارالکفر سے ہجرت کرنا فرض ہے جہاں اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنا مشکل اور وہاں رہنا کفر اور اہل کفر کی حوصلہ افزائی کا باعث ہو۔
٩٧۔٢ یہاں ارض (جگہ) سے مراد شان نزول کے اعتبار سے مکہ اور اس کا قرب و جوار ہے اور آگے ارض اللہ سے مراد مدینہ ہے لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہے یعنی پہلی جگہ سے مراد ارض کفار ہوگی۔ جہاں اسلام پر عمل مشکل ہو اور ارض اللہ سے مراد ہر وہ جگہ ہوگی جہاں انسان اللہ کے دین پر عمل کرنے کی غرض سے ہجرت کرکے جائے۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

اور جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں جب فرشتے ان کی جان قبض کرنے لگتے ہیں تو ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے وہ کہتے ہیں کہ ہم ملک میں عاجز وناتواں تھے فرشتے کہتے ہیں کیا خدا کا ملک فراخ نہیں تھا کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے ایسے لوگوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بری جگہ ہے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

جو لوگ اپنی جانوں پر ﻇلم کرنے والے ہیں جب فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہیں تو پوچھتے ہیں، تم کس حال میں تھے؟ یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم اپنی جگہ کمزور اور مغلوب تھے۔ فرشتے کہتے ہیں کیا اللہ تعالیٰ کی زمین کشاده نہ تھی کہ تم ہجرت کر جاتے؟ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وه پہنچنے کی بری جگہ ہے

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

بے شک وہ لوگ جو اپنی جانوں پر ظلم کر رہے تھے۔ جب فرشتوں نے ان کی روحوں کو قبض کیا، تو ان سے کہا تم کس حال میں تھے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم زمین میں کمزور و بے بس تھے۔ فرشتوں نے کہا کہ اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے یہی وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بُری جائے بازگشت ہے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

جن لوگوں کو ملائکہ نے اس حال میں اٹھایا کہ وہ اپنے نفس پر ظلم کرنے والے تھے ان سے پوچھا کہ تم کس حال میں تھے- انہوں نے کہا کہ ہم زمین میں کمزور بنادئے گئے تھے. ملائکہ نے کہا کہ کیا زمین هخدا وسیع نہیں تھی کہ تم ہجرت کرجاتے- ان لوگوں کا ٹھکاناجہّنم ہے اور وہ بدترین منزل ہے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

بیشک جن لوگوں کی روح فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ وہ (اسلام دشمن ماحول میں رہ کر) اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں (تو) وہ ان سے دریافت کرتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے (تم نے اِقامتِ دین کی جد و جہد کی نہ سرزمینِ کُفر کو چھوڑا)؟ وہ (معذرۃً) کہتے ہیں کہ ہم زمین میں کمزور و بے بس تھے، فرشتے (جواباً) کہتے ہیں: کیا اللہ کی زمین فراخ نہ تھی کہ تم اس میں (کہیں) ہجرت کر جاتے، سو یہی وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے، اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

بےمعنی عذر مسترد ہوں گے ہجرت اور نیت
محمد بن عبدالرحمن ابو الا سود فرماتے ہیں اہل مدینہ سے جنگ کرنے کے لئے جو لشکر تیار کیا گیا اس میں میرا نام بھی تھا۔ میں حضرت ابن عباس کے مولیٰ حضرت عکرمہ سے ملا اور اس بات کا ذکر کیا تو انہوں نے مجھے اس میں شمولیت کرنے سے بہت سختی سے روکا۔ اور کہا سنو حضرت ابن عباس سے میں نے سنا ہے کہ بعض مسلمان لوگ جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں مشرکوں کے ساتھ تھے اور ان کی تعداد بڑھاتے تھے بسا اوقات ایسا بھی ہوتا کہ ان میں سے کوئی تیر سے ہلاک کردیا جاتا یا مسلمانوں کی تلواروں سے قتل کردیا جاتا، انہی کے بارے میں یہ آیت اتری ہے یعنی موت کے وقت ان کا اپنی بےطاقتی کا حیلہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول نہیں ہوتا اور روایت میں ہے کہ ایسے لوگ جو اپنے ایمان کو مخفی رکھتے تھے جب وہ بدر کی لڑائی میں کافروں کے ساتھ آگئے تو مسلمانوں کے ہاتھوں ان میں سے بھی بعض مارے گئے جس پر مسلمان غمگین ہوئے کہ افسوس یہ تو ہمارے ہی بھائی تھے، اور ہمارے ہی ہاتھوں مارے گئے ان کے لئے استغفار کرنے لگے اس پر یہ آیت اتری۔ پس باقی ماندہ مسلمانوں کی طرف یہ آیت لکھی کہ ان کا کوئی عذر نہ تھا کہا یہ نکلے اور ان سے مشرکین ملے اور انہوں نے تقیہ کیا پس یہ آیت اتری (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ اٰمَنَّا باللّٰهِ وَبِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِيْنَ ) 2 ۔ البقرۃ ;8) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں اتری ہے جو اسلام کا کلمہ پڑھتے تھے اور تھے مکہ میں ہی ان میں علی ابن امیہ بن خلف اور ابو قیس بن ولید بن مغیرہ اور ابو منصور بن حجاج اور حارث بن زمعہ تھے ضحاک کہتے ہیں یہ ان منافقوں کے بارے میں اتری ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت کے بعد مکہ میں رہ گئے پھر بدر کی لڑائی میں مشرکوں کے ساتھ آئے ان میں سے بعض میدان جنگ میں کام بھی آگئے۔ مقصد یہ ہے کہ آیت کا حکم عام ہے ہر اس شخص کا جو ہجرت پر قادر ہو پھر بھی مشرکوں میں پڑا رہے اور دین پر مضبوط نہ رہے اوہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ظالم ہے اور اس آیت کی رو سے اور مسلمانوں کے اجماع سے وہ حرام کام کا مرتکب ہے اس آیت میں ہجرت سے گریز کرنے کو ظلم کہا گیا ہے، ایسے لوگوں سے ان کے نزع کے عالم میں فرشتے کہتے ہیں کہ تم یہاں کیوں ٹھہرے رہے ؟ کیوں ہجرت نہ کی ؟ یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم اپنے شہر سے دوسرے شہر کہیں نہیں جاسکتے تھے، جس کے جواب میں فرشتے کہتے ہیں کیا اللہ تعالیٰ کی زمین میں کشادگی نہ تھی ؟ ابو داؤد میں ہے جو شخص مشرکین میں ملا جلا رہے انہی کے ساتھ رہے سہے وہ بھی انہی جیسا ہے۔ سدی فرماتے ہیں جبکہ حضرت عباس عقیل اور نوفل گرفتار کئے گئے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عباس تم اپنا فدیہ بھی دو اور اپنے بھتیجے کا بھی، حضرت عباس نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ہم آپ کے قبلے کی طرف نمازیں نہیں پڑھتے تھے ؟ کیا ہم کلمہ شہادت ادا نہیں کرتے تھے ؟ آپ نے فرمایا عباس تم نے بحث تو چھیڑی لیکن اس میں تم ہار جاؤ گے سنو اللہ جل شانہ فرماتا ہے پھر آپ نے یہی تلاوت فرمائی یعنی تم نے ہجرت کیوں نہ کی ؟ پھر جن لوگوں کو ہجرت کے چھوڑ دینے پر ملامت نہ ہوگی ان کا ذکر فرماتا ہے کہ جو لوگ مشرکین کے ہاتھوں سے نہ چھوٹ سکیں اور اگر کبھی چھوٹ بھی جائیں تو راستے کا علم انہیں نہیں ان سے اللہ تعالیٰ درگذر فرمائے گا، " عسی " کلمہ اللہ کے کلام میں وجوب اور یقین کے لئے ہوتا ہے۔ اللہ درگذر کرنے والا اور بہت ہی معافی دینے والا ہے۔ حضرت ابوہریرہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عشاء کی نماز میں سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کے بعد سجدے میں جانے سے پہلے یہ دعا مانگی اے اللہ عیاش ابو ربیعہ کو سلمہ بن ہشام کو ولید بن ولید کو اور تمام بےبس ناطاقت مسلمانوں کو کفار کے پنجے سے رہائی دے اے اللہ اپنا سخت عذاب قبیلہ مضر پر ڈال اے اللہ ان پر ایسی قحط سالی نازل فرما جیسی حضرت یوسف کے زمانے میں آئی تھی۔ ابن ابی حاتم میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سلام پھیرنے کے بعد قبلے کی طرف منہ کئے ہوئے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی اے اللہ ولید بن ولید کو عیاش بن ابو ربیعہ کو سلمہ بن ہشام کو اور تمام ناتواں بےطاقت مسلمانوں کو اور جو بےحیلے کی طاقت رکھتے ہیں نہ راہ پانے کی کافروں کے ہاتھوں سے نجات دے۔ ابن جریر میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ظہر کی نماز کے بعد یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ اس حدیث کے شواہد صحیح میں بھی اس سند کے سوا اور سندوں میں بھی ہیں کہ جیسے کہ پہلے گذرا۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں میں اور میری والدہ ان ضعیف عورتوں اور بچوں میں تھے جن کا ذکر اس آیت میں ہے۔ ہمیں اللہ نے معذور رکھا۔ ہجرت کی ترغیب دیتے ہوئے اور مشرکوں سے الگ ہونے کی ہدایات کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والا ہراساں نہ ہو وہ جہاں جائے گا اللہ تعالیٰ اس کے لئے اسباب پناہ تیار کر دے گا اور وہ بہ آرام وہاں اقامت کرسکے گا مراغم کے ایک معنی ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے بھی ہیں، مجاہد فرماتے ہیں وہ اپنے دکھ سے بچاؤ کی بہت سی صورتیں پالے گا، امن کے بہت سے اسباب اسے مل جائیں گے، دشمنوں کے شر سے بچ جائے گا اور وہ روزی بھی پائے گا گمراہی کی جگہ ہدایت اسے ملے گی اس کی فقیری تونگری سے بدل جائے ارشاد ہوتا ہے جو شخص بہ نیت ہجرت اپنے گھر سے نکلا پھر ہجرت گاہ پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں اسے موت آگئی اسے بھی ہجرت کا کامل ثواب مل گیا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ ہر عمل کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر شخص کے لئے وہ ہے جو اس نے نیت کی پس جس کی ہجرت اللہ کی طرف اور اس کے رسول کی طرف ہو اس کی ہجرت اللہ کی رضامندی اور رسول کی خوشنودی کا باعث ہوگی اور جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے کے لئے ہو یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لئے ہو تو اسے اصل ہجرت کا ثواب نہ ملے گا بلکہ اس کی ہجرت اس کے بارے میں ہے جس نے ننانوے قتل کئے تھے پھر ایک عابد کو قتل کرکے سو پورے کئے پھر ایک عالم سے پوچھا کہ کیا اس کی توبہ قبول ہوسکتی ہے ؟ اس نے کہا تیری توبہ کے اور تیرے درمیان کوئی چیز حائل نہیں تو اپنی بستی سے ہجرت کرکے فلاں شہر چلا جا جہاں اللہ کے عابد بندے رہتے ہیں چناچہ یہ ہجرت کرکے اس طرف چلا راستہ میں ہی تھا جو موت آگئی۔ رحمت اور عذاب کے فرشتوں میں اس کے بارے میں اختلاف ہوا بحث یہ تھی کہ یہ شخص توبہ کرکے ہجرت کرکے مگر چلا تو سہی یہ وہاں پہنچا تو نہیں پھر انہیں حکم کیا گیا کہ وہ اس طرف کی اور اس طرف کی زمین ناپیں جس بستی سے یہ شخص قریب ہو اس کے رہنے والوں میں اسے ملا دیا جائے پھر زمین کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ بری بستی کی جانب سے دور ہوجا اور نیک بستی والوں کی طرف قریب ہوجا، جب زمین ناپی گئی تو توحید والوں کی بستی سے ایک بالشت برابر قریب نکلی اور اسے رحمت کے فرشتے لے گئے۔ ایک روایت میں ہے کہ موت کے وقت یہ اپنے سینے کے بل نیک لوگوں کی بستی کی طرف گھسیٹتا ہوا گیا۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے جو شخص اپنے گھر سے اللہ کی راہ میں ہجرت کی نیت سے نکلا پھر آپ نے اپنی تینوں انگلیوں یعنی کلمہ کی انگلی بیچ کی انگلی اور انگھوٹھے کو ملا کر کہا۔ پھر فرمایا کہاں ہیں مجاہد ؟ پھر وہ اپنی سواری پر سے گرپڑا یا اسے کسی جانور نے کاٹ لیا یا اپنی موت مرگیا تو اس کا ہجرت کا ثواب اللہ کے ذمے ثابت ہوگیا (راوی کہتے ہیں اپنی موت مرنے کے لئے جو کلمہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے استعمال کیا) واللہ میں نے اس کلمہ کو آپ سے پہلے کسی عربی کی زبانی نہیں سنا اور جو شخص غضب کی حالت میں قتل کیا گیا وہ جگہ کا مستحق ہوگیا، حضرت خالد بن خرام ہجرت کرکے حبشہ کی طرف چلے لیکن راہ میں ہی انہیں ایک سانب نے ڈس لیا اور اسی میں ان کی روح قبض ہوگئی ان کے بارے میں یہ آیت اتری۔ حضرت زبیر فرماتے ہیں میں چونکہ ہجرت کرکے حبشہ پہنچ گیا اور مجھے ان کی خبر مل گئی تھی کہ یہ بھی ہجرت کرکے آرہے ہیں اور میں جانتا تھا کہ قبیلہ بنو اسد سے ان کے سوا اور کوئی ہجرت کرکے آنے کا نہیں اور کم وبیش جتنے مہاجر تھے ان کے ساتھ رشتے کنبے کے لوگ تھے لیکن میرے ساتھ کوئی نہ تھا میں ان کا یعنی حضرت خالد کا بےچینی سے انتظار کر رہا تھا جو مجھے ان کی اس طرح کی اچانک شہادت کی خبر ملی تو مجھے بہت ہی رنج ہوا۔ یہ اثر بہت ہی غریب ہے، یہ بھی وجہ ہے کہ یہ قصہ مکہ کا ہے اور آیت مدینے میں اتری ہے۔ لیکن بہت ممکن ہے کہ راوی کا مقصود یہ ہو کہ آیت کا حکم عام ہے گوشان نزول یہ نہ ہو واللہ اعلم۔ اور روایت میں ہے کہ حضرت صمرہ بن جندب ہجرت کرکے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف چلے لیکن آپ کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں انتقال کر گئے ان کے بارے میں یہ آیت شریفہ نازل ہوئی اور روایت میں ہے کہ حضرت سعد بن ابی ضمرہ جن کو آنکھوں سے دکھائی نہ دیتا تھا جب وہ (اِلَّا الْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاۗءِ وَالْوِلْدَانِ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ حِيْلَةً وَّلَا يَهْتَدُوْنَ سَبِيْلًا) 4 ۔ النسآء ;98) سنتے ہیں تو کہتے ہیں میں مالدار ہوں اور چارہ کار بھی رکھتا ہوں مجھے ہجرت کرنی چاہئے چناچہ سامان سفر تیار کرلیا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف چل کھڑے ہوئے لیکن ابھی تنعیم میں ہی تھے جو موت آگئی ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ طبرانی میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو شخض میری راہ میں غزوہ کرنے کے لئے نکلا صرف میرے وعدوں کو سچا جان کر اور میرے رسولوں پر ایمان رکھ کر بس وہ اللہ کی ضمانت میں ہے یا تو وہ لشکر کے ساتھ فوت ہو کر جنت میں پہنچے گا یا اللہ کی ضمانت میں واپس لوٹے گا اجر و غنیمت اور فضل رب لے کر۔ اگر وہ اپنی موت مرجائے یا مار ڈالا جائے یا گھوڑے سے گرجائے یا اونٹ پر سے گرپڑے یا کوئی زہریلا جانور کاٹ لے یا اپنے بستر پر کسی طرح فوت ہوجائے وہ شہید ہے۔ ابو داؤد میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ وہ جتنی ہے بعض الفاظ ابو داؤد میں نہیں ہیں۔ ابو یعلیٰ میں ہے جو شخص حج کے لئے نکلا پھر مرگیا قیامت تک اس کے لئے حج کا ثواب لکھا جاتا ہے، جو عمرے کے لئے نکلا اور راستے میں فوت ہوگیا اس کے لئے قیامت تک عمرے کا اجر لکھا جاتا ہے۔ جو جہاد کے لئے نکلا اور فوت ہوگیا اس کے لئے قیامت تک کا ثواب لکھا جاتا ہے۔ یہ حدیث بھی غریب ہے۔