وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاۤءَ اَمْوَالَـكُمُ الَّتِىْ جَعَلَ اللّٰهُ لَـكُمْ قِيٰمًا وَّارْزُقُوْهُمْ فِيْهَا وَاكْسُوْهُمْ وَقُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
اور اپنے وہ مال جنہیں اللہ نے تمہارے لیے قیام زندگی کا ذریعہ بنایا ہے، نادان لوگوں کے حوالہ نہ کرو، البتہ انہیں کھانے اور پہننے کے لیے دو اور انہیں نیک ہدایت کرو
English Sahih:
And do not give the weak-minded your property, which Allah has made a means of sustenance for you, but provide for them with it and clothe them and speak to them words of appropriate kindness.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
اور اپنے وہ مال جنہیں اللہ نے تمہارے لیے قیام زندگی کا ذریعہ بنایا ہے، نادان لوگوں کے حوالہ نہ کرو، البتہ انہیں کھانے اور پہننے کے لیے دو اور انہیں نیک ہدایت کرو
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اور بے عقلوں کو ان کے مال نہ دو جو تمہارے پاس ہیں جن کو اللہ نے تمہاری بسر اوقات کیا ہے اور انہیں اس میں سے کھلاؤ اور پہناؤ اور ان سے اچھی بات کہو
احمد علی Ahmed Ali
اور اپنے وہ مال جنہیں الله نے تمہاری زندگی کے قیام کا ذریعہ بنایا ہے بے سمجھو کے حوالے نہ کرو البتہ انہیں ان مالوں سے کھلاتے او رپہناتے رہو اور انہیں نصیحت کی بات کہتے رہو
أحسن البيان Ahsanul Bayan
بے عقل لوگوں کو اپنا مال نہ دے دو جس مال کو اللہ تعالٰی نے تمہاری گزران کے قائم رکھنے کا ذریعہ بنایا ہے ہاں انہیں اس مال سے کھلاؤ پلاؤ، پہناؤ، اوڑھاؤ اور انہیں معقولیت سے نرم بات کہو۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
اور بےعقلوں کو ان کا مال جسے خدا نے تم لوگوں کے لئے سبب معیشت بنایا ہے مت دو (ہاں) اس میں سے ان کو کھلاتے اور پہناتے رہے اور ان سے معقول باتیں کہتے رہو
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
بے عقل لوگوں کو اپنا مال نہ دے دو جس مال کو اللہ تعالیٰ نے تمہاری گزران کے قائم رکھنے کا ذریعہ بنایا ہے، ہاں انہیں اس مال سے کھلاؤ پلاؤ، پہناؤ، اوڑھاؤ اور انہیں معقولیت سے نرم بات کہو
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
اور اپنے وہ مال جنہیں اللہ نے تمہاری زندگی کا سامان اور اسے قائم رکھنے کا ذریعہ بنایا ہے ناسمجھ لوگوں کے حوالے نہ کرو۔ ہاں البتہ ان کو (کھانا و طعام) کھلاؤ اور (کپڑا) پہناؤ اور ان سے اچھی گفتگو کرو۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ناسمجھ لوگوں کو ان کے وہ اموال جن کو تمہارے لئے قیام کا ذریعہ بنایا گیا ہے نہ دو- اس میں ان کے کھانے کپڑے کا انتظام کردو اور ان سے مناسب گفتگو کرو
طاہر القادری Tahir ul Qadri
اور تم بے سمجھوں کو اپنے (یا ان کے) مال سپرد نہ کرو جنہیں اللہ نے تمہاری معیشت کی استواری کا سبب بنایا ہے۔ ہاں انہیں اس میں سے کھلاتے رہو اور پہناتے رہو اور ان سے بھلائی کی بات کیا کرو،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
کم عقل اور یتیموں کے بارے میں احکامات
اللہ سبحانہ و تعالیٰ لوگوں کو منع فرماتا ہے کہ کم عقل بیویوں کو مال کے تصرف سے روکیں، مال کو اللہ تعالیٰ نے تجارتوں وغیرہ میں لگا کر انسان کا ذریعہ معاش بنایا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ کم عقل لوگوں کو ان کے مال کے خرچ سے روک دینا چاہئے، مثلاً نابالغ بچہ ہو یا مجنون و دیوانہ ہو یا کم عقل بیوقوف ہو اور بےدین ہو بری طرح اپنے مال کو لٹا رہا ہو، اسی طرح ایسا شخص جس پر قرض بہت چڑھ گیا ہو جسے وہ اپنے کل مال سے بھی ادا نہیں کرسکتا اگر قرض خواہ حاکم وقت سے درخواست کریں تو حاکم وہ سب مال اس کے قبضے سے لے لے گا اور اسے بےدخل کر دے گا، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہاں (سفہاء) سے مراد تیری اولاد اور عورتیں ہیں، اسی طرح حضرت ابن مسعود حکم بن عبینہ حسن اور ضحاک رحمتہ اللہ سے بھی مروی ہے کہ اس سے مراد عورتیں اور بچے ہیں، حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں یتیم مراد ہیں، مجاہد عکرمہ اور قتادہ کا قول ہے کہ عورتیں مراد ہیں، ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک عورتیں بیوقوف ہیں مگر جو اپنے خاوند کی اطاعت گزار ہوں، ابن مردویہ میں بھی یہ حدیث مطول مروی ہے، حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد سرکش خادم ہیں۔ پھر فرماتا ہے انہیں کھلاؤ پہناؤ اور اچھی بات کہو ابن عباس فرماتے ہیں یعنی تیرا مال جس پر تیری گزر بسر موقوف ہے اسے اپنی بیوی بچوں کو نہ دے ڈال کر پھر ان کا ہاتھ تکتا پھرے بلکہ اپنا مال اپنے قبضے میں رکھ اس کی اصلاح کرتا رہ اور خود اپنے ہاتھ سے ان کے کھانے کپڑے کا بندوبست کر اور ان کے خرچ اٹھا، حضرت ابو موسیٰ (رض) فرماتے ہیں تین قسم کے لوگ ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا، ایک وہ شخص جس کی بیوی بدخلق ہو اور پھر بھی وہ اسے طلاق نہ دے دوسرا وہ شخص جو اپنا مال بیوقوف کو دے دے حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے بیوقوف کو اپنا مال نہ دو تیسرا وہ شخص جس کا فرض کسی پر ہو اور اس نے اس قرض پر کسی کو گواہ نہ کیا ہو۔ ان سے بھلی بات کہو یعنی ان سے نیکی اور صلہ رحمی کرو، اس آیت سے معلوم ہوا کہ محتاجوں سے سلوک کرنا چاہئے اسے جسے بالفعل تصرف کا حق نہ ہو اس کے کھانے کپڑے کی خبر گیری کرنی چاہئے اور اس کے ساتھ نرم زبانی اور خوش خلقی سے پیش آنا چاہئے۔ پھر فرمایا یتیموں کی دیکھ بھال رکھو یہاں تک کہ وہ جوانی کو پہنچ جائیں، یہاں نکاح سے مراد بلوغت ہے اور بلوغت اس وقت ثابت ہوتی ہے جب اسے خاص قسم کے خواب آنے لگیں جن میں خاص پانی اچھل کر نکلتا ہے، حضرت علی فرماتے ہیں مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان بخوبی یاد ہے کہ احتلام کے بعد یتیمی نہیں اور نہ تمام دن رات چپ رہتا ہے۔ دوسری حدیث میں ہے تین قسم کے لوگوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے، بچے سے جب تک بالغ نہ ہو، سوتے سے جب جاگ نہ جائے، مجنوں سے جب تک ہوش نہ آجائے، پس ایک تو علامت بلوغ یہ ہے دوسری علامت بلوغ بعض کے نزدیک یہ ہے کہ پندرہ سال کی عمر ہوجائے اس کی دلیل بخاری مسلم کی حضرت ابن عمر والی حدیث ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ احد والی لڑائی میں مجھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ساتھ اس لئے نہیں لیا تھا کہ اس وقت میری عمر چودہ سال کی تھی اور خندق کی لڑائی میں جب میں حاضر کیا گیا تو آپ نے قبول فرما لیا اس وقت میں پندرہ سال کا تھا حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) کو جب یہ حدیث پہنچی تو آپ نے فرمایا نابالغ بالغ کی حد یہی ہے، تیسری علامت بلوغت کی زیر ناف کے بالوں کا نکلنا ہے، اس میں علماء کے تین قول ہیں ایک یہ کہ علامت بلوغ ہے دوسرے یہ کہ نہیں تیسرے یہ کہ مسلمانوں میں نہیں اور ذمیوں میں ہے اس لئے کہ ممکن ہے کسی دوا سے یہ بال جلد نکل آتے ہوں اور ذمی پر جواب ہوتے ہی جزیہ لگ جاتا ہے تو وہ اسے کیوں استعمال کرنے لگا ؟ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ سب کے حق میں یہ علامت بلوغت ہے کیونکہ اولاً تو جبلی امر ہے علاج معالجہ کا احتمال بہت دور کا احتمال ہے ٹھیک یہی ہے کہ یہ بال اپنے وقت پر ہی نکلتے ہیں، دوسری دلیل مسند احمد کی حدیث ہے، جس میں حضرت عطیہ قرضی کا بیان ہے کہ بنو قریظہ کی لڑائی کے بعد ہم لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش کئے گئے تو آپ نے حکم دیا کہ ایک شخص دیکھے جس کے یہ بال نکل آئے ہوں اسے قتل کردیا جائے اور نہ نکلے ہوں اسے چھوڑ دیا جائے چناچہ یہ بال میرے بھی نہ نکلے تھے مجھے چھوڑ دیا گیا، سنن اربعہ میں بھی یہ حدیث ہے اور امام ترمذی اسے حسن صحیح فرماتے ہیں، حضرت سعد کے فیصلے پر راضی ہو کر یہ قبیلہ لڑائی سے باز آیا تھا پھر حضرت سعد نے یہ فیصلہ کیا کہ ان میں سے لڑنے والے تو قتل کر دئیے جائیں اور بچے قیدی بنا لئے جائیں غرائب ابی عبید میں ہے کہ ایک لڑکے نے ایک نوجوان لڑکی کی نسبت کہا کہ میں نے اس سے بدکاری کی ہے دراصل یہ تہمت تھی حضرت عمر نے اسے تہمت کی حد لگانی چاہی لیکن فرمایا دیکھ لو اگر اس کے زیر ناف کے بال اگ آئے ہوں تو اس پر حد جاری کردو ورنہ نہیں دیکھا تو آگے نہ تھے چناچہ اس پر سے حد ہٹا دی۔ پھر فرماتا ہے جب تم دیکھو کہ یہ اپنے دین کی صلاحیت اور مال کی حفاظت کے لائق ہوگئے ہیں تو ان کے ولیوں کو چاہئے کہ ان کے مال انہیں دے دیں۔ بغیر ضروری حاجت کے صرف اس ڈر سے کہ یہ بڑے ہوتے ہی اپنا مال ہم سے لے لیں گے تو ہم اس سے پہلے ہی ان کے مال کو ختم کردیں ان کا مال نہ کھاؤ۔ جسے ضرورت نہ ہو خود امیر ہو کھاتا پیتا ہو تو اسے تو چاہئے کہ ان کے مال میں سے کچھ بھی نہ لے، مردار اور بہے ہوئے خون کی طرح یہ مال ان پر حرام محض ہے، ہاں اگر والی مسکین محتاج ہو تو بیشک اسے جائز ہے کہ اپنی پرورش کے حق کے مطابق وقت کی حاجت اور دستور کے موجب اس مال میں سے کھا پی لے اپنی حاجت کو دیکھیئے اور اپنی محنت کو اگر حاجت محنت سے کم ہو تو حاجت کے مطابق لے اور اگر محنت حاجت سے کم ہو تو محنت کا بدلہ لے لے، پھر ایسا ولی اگر مالدار بن جائے تو اسے اس کھائے ہوئے اور لئے ہوئے مال کو واپس کرنا پڑے گا یا نہیں ؟ اس میں دو قول ہیں ایک تو یہ کہ واپس نہ دینا ہوگا اس لئے کہ اس نے اپنے کام کے بدلے لے لیا ہے امام شافعی کے ساتھیوں کے نزدیک یہی صحیح ہے، اس لئے کہ آیت میں بغیر بدل کے مباح قرار دیا ہے اور مسند احمد وغیرہ میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس مال نہیں ایک یتیم میری پرورش میں ہے تو کیا میں اس کے کھانے سے کھا سکتا ہوں آپ نے فرمایا ہاں اس یتیم کا مال اپنے کام میں لاسکتا بشرطیکہ حاجت سے زیادہ نہ اڑا نہ جمع کر نہ یہ ہو کہ اپنے مال کو تو بچا رکھے اور اس کے مال کو کھاتا چلا جائے، ابن ابی حاتم میں بھی ایسی ہی روایت ہے، ابن حبان وغیرہ میں ہے کہ ایک شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ میں اپنے یتیم کو ادب سکھانے کے لئے ضرورتاً کس چیز سے ماروں ؟ فرمایا جس سے تو اپنے بچے کو تنبیہہ کرتا ہے اپنا مال بچا کر اس کا مال خرچ نہ کر نہ اس کے مال سے دولت مند بننے کی کوشش کر، حضرت ابن عباس سے کسی نے پوچھا کہ میرے پاس بھی اونٹ ہیں اور میرے ہاں جو یتیم پل رہے ہیں ان کے بھی اونٹ ہیں میں اپنی اونٹنیاں دودھ پینے کے لئے فقیروں کو تحفہ دے دیتا ہوں تو کیا میرے لئے جائز ہے کہ ان یتیموں کی اونٹنیوں کا دودھ پی لوں ؟ آپ نے فرمایا اگر ان یتیموں کی گم شدہ اونٹنیوں کی کو تو ڈھونڈ لاتا ہے ان کے چارے پانی کی خبر گیری رکھتا ہے ان کے حوض درست کرتا رہتا ہے اور ان کی نگہبانی کیا کرتا ہے تو بیشک دودھ سے نفع بھی اٹھا لیکن اس طرح کہ نہ ان کے بچوں کو نقصان پہنچے نہ حاجت سے زیادہ لے، (موطا مالک) حضرت عطاء بن رباح حضرت عکرمہ حضرت ابراہیم نخعی حضرت عطیہ عوفی حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہم اجمعین کا یہی قول ہے دوسرا قول یہ ہے کہ تنگ دستی کے دور ہوجانے کے بعد وہ مال یتیم کو واپس دینا پڑے گا اس لئے کہ اصل تو ممانعت ہے البتہ ایک وجہ سے جواز ہوگیا تھا جب وہ وجہ جاتی رہی تو اس کا بدل دینا پڑے گا جیسے کوئی بےبس اور مضطر ہو کر کسی غیر کا مال کھالے لیکن حاجت کے نکل جانے کے بعد اگر اچھا وقت آیا تو اسے واپس دینا ہوگا، دوسری دلیل یہ ہے کہ حضرت عمر (رض) جب تخت خلافت پر بیٹھے تو اعلان فرمایا تھا کہ میری حیثیت یہاں یتیم کے والی کی حیثیت ہے اگر مجھے ضرورت ہی نہ ہوئی تو میں بیت المال سے کچھ نہ لوں گا اور اگر محتاجی ہوئی تو بطور قرض لوں گا جب آسانی ہوئی پھر واپس کر دوں گا (ابن ابی الدنیا) یہ حدیث سعید بن منصور میں بھی ہے اور اس کو اسناد صحیح ہے، بیہقی میں بھی یہ حدیث ہے، ابن عباس سے آیت کے اس جملہ کی تفسیر میں مروی ہے کہ بطور قرض کھائے اور بھی مفسرین سے یہ مروی ہے، حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں معروف سے کھانے کا مطلب یہ ہے کہ تین انگلیوں سے کھائے اور روایت میں آپ سے یہ مروی ہے کہ وہ اپنے ہی مال کو صرف اپنی ضرورت پوری ہوجانے کے لائق ہی خرچ کرے تاکہ اسے یتیم کے مال کی حاجت ہی نہ پڑے، حصرت عامر شعبی فرماتے ہیں اگر ایسی بےبسی ہو جس میں مردار کھانا جائز ہوجاتا ہے تو بیشک کھالے لیکن پھر ادا کرنا ہوگا، یحییٰ بن سعید انصار اور ربیعہ سے اس کی تفسیریوں مروی ہے کہ اگر یتیم فقیر ہو تو اس کا ولی اس کی ضرورت کے موافق دے اور پھر اس ولی کو کچھ نہ ملے گا، لیکن عبارت یہ ٹھیک نہیں بیٹھتا اس لئے کہ اس سے پہلے یہ جملہ بھی ہے کہ جو غنی ہو وہ کچھ نہ لے، یعنی جو ولی غنی ہو تو یہاں بھی یہی مطلب ہوگا جو ولی فقیر ہو نہ یہ کہ جو یتیم فقیر ہو، دوسری آیت میں ہے آیت (وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْيَتِيْمِ اِلَّا بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ حَتّٰي يَبْلُغَ اَشُدَّهٗ ) 6 ۔ الانعام ;152) یعنی یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ ہاں بطور اصلاح کے پھر اگر تمہیں حاجت ہو تو حسب حاجت بطریق معروف اس میں سے کھاؤ پیو پھر اولیاء سے کہا جاتا ہے کہ جب وہ بلوغت کو پہنچ جائیں اور تم دیکھ لو کہ ان میں تمیز آچکی ہے تو گواہ رکھ کر ان کے مال ان کے سپرد کردو، تاکہ انکار کرنے کا وقت ہی نہ آئے، یوں تو دراصل سچا شاہد اور پورا نگراں اور باریک حساب لینے والا اللہ ہی ہے وہ خوب جانتا ہے کہ ولی نے یتیم کے مال میں نیت کیسی رکھی ؟ آیا خورد برد کیا تباہ و برباد کیا جھوٹ سچ حساب لکھا اور دیا یا صاف دل اور نیک نیتی سے نہایت چوکسی اور صفائی سے اس کے مال کا پورا پورا خیال رکھا اور حساب کتاب صاف رکھا، ان سب باتوں کا حقیقی علم تو اسی دانا و بینا نگران و نگہبان کو ہے، صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوذر (رض) سے فرمایا اے ابوذر میں تمہیں ناتواں پاتا ہوں اور جو اپنے لئے چاہتا ہوں وہی تیرے لئے بھی پسند کرتا ہوں خبردار ہرگز دو شخصوں کا بھی سردار اور امیر نہ بننا نہ کبھی کسی یتیم کا ولی بننا۔