وَاٰ تُوا الْيَتٰمٰۤى اَمْوَالَهُمْ وَلَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِيْثَ بِالطَّيِّبِۖ وَلَا تَأْكُلُوْۤا اَمْوَالَهُمْ اِلٰۤى اَمْوَالِكُمْۗ اِنَّهٗ كَانَ حُوْبًا كَبِيْرًا
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
یتیموں کے مال اُن کو واپس دو، اچھے مال کو برے مال سے نہ بدل لو، اور اُن کے مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھا جاؤ، یہ بہت بڑا گناہ ہے
English Sahih:
And give to the orphans their properties and do not substitute the defective [of your own] for the good [of theirs]. And do not consume their properties into your own. Indeed, that is ever a great sin.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
یتیموں کے مال اُن کو واپس دو، اچھے مال کو برے مال سے نہ بدل لو، اور اُن کے مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھا جاؤ، یہ بہت بڑا گناہ ہے
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اور یتیموں کو ان کے مال دو اور ستھرے کے بدلے گندا نہ لو اور ان کے مال اپنے مالوں میں ملاکر نہ کھا جاؤ، بیشک یہ بڑا گناہ ہے
احمد علی Ahmed Ali
اوریتیموں کوان کے مال دے دو اور ناپاک کو پاک سے نہ بدلو اور ان کے مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھا جاؤ یہ بڑا گناہ ہے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
(۱) اور یتیموں کا مال ان کو دے دو اور حلال چیز کے بدلے ناپاک اور حرام چیز نہ لو اور اپنے مالوں کے ساتھ ان کے مال ملا کر کھا نہ جاؤ، بیشک یہ بہت بڑا گناہ ہے (۲)
٢۔١ یتیم جب بالغ اور باشعور ہو جائیں تو ان کا مال ان کے سپرد کر دو، خبیث سے گھٹیا چیزیں اور طیب سے عمدہ چیزیں مراد ہیں یعنی ایسا نہ کرو کہ ان کے مال سے اچھی چیزیں لے لو اور محض گنتی پوری کرنے کے لئے گھٹیا چیزیں ان کے بدلے میں رکھ دو، بدلایا گیا مال جو اگرچہ اصل میں طیب (پاک اور حلال) ہے لیکن تمہاری اس بد دیانتی نے اس میں خباثت داخل کر دی اور وہ اب طیب نہیں رہا، بلکہ تمہارے حق میں وہ خبیث (ناپاک اور حرام) ہو گیا۔ اسی طرح بد دیانتی سے ان کا مال اپنے مال میں ملا کر کھانا بھی ممنوع ہے ورنہ اگر مقصد خیر خواہی ہو تو ان کے مال کو اپنے مال میں ملانا جائز ہے۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
اور یتیموں کا مال (جو تمہاری تحویل میں ہو) ان کے حوالے کردو اور ان کے پاکیزہ (اور عمدہ) مال کو (اپنے ناقص اور) برے مال سے نہ بدلو۔ اور نہ ان کا مال اپنے مال میں ملا کر کھاؤ۔ کہ یہ بڑا سخت گناہ ہے
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
اور یتیموں کو ان کے مال دے دو اور پاک اور حلال چیز کے بدلے ناپاک اور حرام چیز نہ لو، اور اپنے مالوں کے ساتھ ان کے مال ملا کر کھا نہ جاؤ، بے شک یہ بہت بڑا گناه ہے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
اور یتیموں کے مال ان کے سپرد کرو۔ اور پاک مال کے بدلے ناپاک مال حاصل نہ کرو۔ اور ان کے مالوں کو اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھاؤ۔ بے شک یہ بہت بڑا گناہ ہے۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور یتیموں کو ان کا مال دے دو اور ان کے مال کو اپنے مال سے نہ بدلو اور ان کے مال کو اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھا جاؤ کہ یہ گناہ کبیرہ ہے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
اور یتیموں کو ان کے مال دے دو اور بُری چیز کو عمدہ چیز سے نہ بدلا کرو اور نہ ان کے مال اپنے مالوں میں ملا کر کھایا کرو، یقیناً یہ بہت بڑا گناہ ہے،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
یتیموں کی نگہداشت اور چار شادیوں کی اجازت
اللہ تعالیٰ یتیموں کے والیوں کو حکم دیتا ہے کہ جب یتیم بلوغت اور سمجھداری کو پہنچ جائیں تو ان کے جو مال تمہارے پاس ہو انہیں سونپ دو ، پورے پورے بغیر کمی اور خیانت کے ان کے حوالے کرو، اپنے مالوں کے ساتھ ملا کر گڈمڈ کر کے کھا جانے کی نیت نہ رکھو، حلال رزق جب اللہ رحیم تمہیں دے رہا ہے پھر حرام کی طرف کیوں منہ اٹھاؤ ؟ تقدیر کی روزی مل کر ہی رہے گی اپنے حلال مال چھوڑ کر لوگوں کے مالوں کو جو تم پر حرام ہیں نہ لو، دبلا پتلا جانور دے کر موٹا تازہ نہ لو، بوٹی دے کر بکرے کی فکر نہ کرو، ردی دے کر اچھے کی اور کھوٹا دے کر کھرے کی نیت نہ رکھو، پہلے لوگ ایسا کرلیا کرتے تھے کہ یتیموں کی بکریوں کے ریوڑ میں سے عمدہ بکری لے لی اور اپنی دبلی پتلی بکری دے کر گنتی پوری کردی، کھوٹا درہم اس کے مال میں ڈال کر کھرا نکال لیا اور پھر سمجھ لیا کہ ہم نے تو بکری کے بدلے بکری اور درہم کے بدلے درہم لیا ہے۔ ان کے مالوں میں اپنا مال خلط ملط کر کے پھر یہ حیلہ کر کے اب امتیاز کیا ہے ؟ ان کے مال تلف نہ کرو، یہ بڑا گناہ ہے، ایک ضعیف حدیث میں بھی یہی معنی آخری جملے کے مروی ہیں، ابو داؤد کی حدیث میں ایک دعا میں بھی (حوب) کا لفظ گناہ کے معنی میں آیا ہے، حضرت ابو ایوب نے جب اپنی بیوی صاحبہ کو طلاق دینے کا ارادہ کیا تھا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں فرمایا تھا کہ اس طلاق میں گناہ ہے، چناچہ وہ اپنے ارادے سے باز رہے، ایک روایت میں یہ واقعہ حضرت ابو طلحہ اور ام سلیم کا مروی ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ تمہاری پرورش میں کوئی یتیم لڑکی ہو اور تم اس سے نکاح کرنا چاہتے ہو لیکن چونکہ اس کا کوئی اور نہیں اس لئے تم تو ایسا نہ کرو کہ مہر اور حقوق میں کمی کر کے اسے اپنے گھر ڈال لو اس سے باز رہو اور عورتیں بہت ہیں جس سے چاہو نکاح کرلو، حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں ایک یتیم لڑکی تھی جس کے پاس مال بھی تھا اور باغ بھی جس کی پرورش میں وہ تھی اس نے صرف اس مال کے لالچ میں بغیر اس کا پورا مہر وغیرہ مقرر کرنے کے اس سے نکاح کرلیا جس پر یہ آیت اتری میرا خیال ہے کہ اس باغ اور مال میں یہ لڑکی حصہ دار تھی، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت ابن شہاب نے حضرت عائشہ سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو آپ نے فرمایا بھانجے، یہ ذکر اس یتیم لڑکی کا ہے جو اپنے ولی کے قبضہ میں ہے اس کے مال میں شریک ہے اور اسے اس کا مال و جمال اچھا لگتا ہے چاہتا ہے کہ اس سے نکاح کرلے لیکن جو مہر وغیرہ اور جگہ سے اسے ملتا ہے اتنا یہ نہیں دیتا تو اسے منع کیا جا رہا ہے کہ وہ اس اپنی نیت چھوڑ دے اور کسی دوسری عورت سے جس سے چاہے اپنا نکاح کرلے، پھر اس کے بعد لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی کی بابت دریافت کیا اور آیت (وَيَسْتَفْتُوْنَكَ فِي النِّسَاۗءِ ۭ قُلِ اللّٰهُ يُفْتِيْكُمْ فِيْهِنَّ ) 4 ۔ النسآء ;127) نازل ہوئی وہاں فرمایا گیا ہے کہ جب یتیم لڑکی کم مال والی اور کم جمال والی ہوتی ہے اس وقت تو اس کے والی اس سے بےرغبتی کرتے ہیں پھر کوئی وجہ نہیں کہ مال و جمال پر مائل ہو کر اس کے پورے حقوق ادا نہ کر کے اس سے اپنا نکاح کرلیں، ہاں عدل و انصاف سے پورا مہر وغیرہ مقرر کریں تو کوئی حرج نہیں، ورنہ پھر عورتوں کی کمی نہیں اور کسی سے جس سے چاہیں اظہار نکاح کرلیں دو دو عورتیں اپنے نکاح میں رکھیں اگر چاہیں تین تین رکھیں اگر چاہیں چار چار، جیسے اور جگہ یہ الفاظ ان ہی معنوں میں ہیں، فرماتا ہے آیت (اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ جَاعِلِ الْمَلٰۗىِٕكَةِ رُسُلًا اُولِيْٓ اَجْنِحَةٍ مَّثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ) 35 ۔ فاطر ;1) یعنی جن فرشتوں کو اللہ تعالیٰ اپنا قاصد بنا کر بھیجتا ہے ان میں سے بعض دو دو پروں والے ہیں بعض تین تین پروں والے بعض چار پروں والے فرشتوں میں اس سے زیادہ پر والے فرشتے بھی ہیں کیونکہ دلیل سے یہ ثابت شدہ ہے، لیکن مرد کو ایک وقت میں چار سے زیادہ بیویوں کا جمع کرنا منع ہے جیسے کہ اس آیت میں موجود ہے اور جیسے کہ حضرت ابن عباس اور جمہور کا قول ہے، یہاں اللہ تعالیٰ اپنے احسان اور انعام بیان فرما رہا ہے پس اگر چار سے زیادہ کی اجازت دینی منظور ہوتی تو ضرور فرما دیا جاتا، حضرت امام شافعی (رح) فرماتے ہیں حدیث جو قرآن کی وضاحت کرنے والی ہے اس نے بتلا دیا ہے کہ سوائے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کسی کے لئے چار سے زیادہ بیویوں کا بیک وقت جمع کرنا جائز نہیں اسی پر علماء کرام کا اجماع ہے، البتہ بعض شیعہ کا قول ہے کہ نو تک جمع کرنی جائز ہیں، بلکہ بعض شیعہ نے تو کہا ہے کہ نو سے بھی زیادہ جمع کرلینے میں بھی کوئی حرج نہیں کوئی تعداد مقرر ہے ہی نہیں، ان کا استدلال ایک تو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فعل سے ہے جیسا کہ صحیح حدیث میں آچکا ہے کہ آپ کی نو بیویاں تھیں اور بخاری شریف کی معلق حدیث کے بعض راویوں نے گیارہ کہا ہے، حضرت انس سے مروی ہے کہ آپ نے پندرہ بیویوں سے عقد کیا تیرہ کی رخصتی ہوئی ایک وقت میں گیارہ بیویاں آپ کے پاس تھیں۔ انتقال کے وقت آپ کی نو بیویاں تھیں (رض) اجمعین، ہمارے علماء کرام اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ یہ آپ کی خصوصیت تھی امتی کو ایک وقت میں چار سے زیادہ پاس رکھنے کی اجازت نہیں، جیسے کہ یہ حدیثیں اس امر پر دلالت کرتی ہیں، حضرت غیلان بن سلمہ ثقفی (رض) جب مسلمان ہوتے ہیں تو ان کے پاس ان کی دس بیویاں تھیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرماتے ہیں کہ ان میں سے جنہیں چاہو چار رکھ لو باقی کو چھوڑ دو چناچہ انہوں نے ایسا ہی کیا پھر حضرت عمر کی خلافت کے زمانے میں اپنی ان بیویوں کو بھی طلاق دے دی اور اپنے لڑکوں کو اپنا مال بانٹ دیا، حضرت عمر (رض) کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا شاید تیرے شیطان نے بات اچک لی اور تیرے دل میں خیال جما دیا کہ تو عنقریب مرنے والا ہے اس لئے اپنی بیویوں کو تو نے الگ کردیا کہ وہ تیرا مال نہ پائیں اور اپنا مال اپنی اولاد میں تقسیم کردیا میں تجھے حکم دیتا ہوں کہ اپنی بیویوں سے رجوع کرلے اور اپنے اولاد سے مال واپس لے اگر تو نے ایسا نہ کیا تو تیرے بعد تیری ان مطلقہ بیویوں کو بھی تیرا وارث بناؤں گا کیونکہ تو نے انہیں اسی ڈر سے طلاق دی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ تیری زندگی بھی اب ختم ہونے والی ہے اور اگر تو نے میری بات نہ مانی تو یاد رکھ میں حکم دوں گا کہ لوگ تیری قبر پر پتھر پھینکیں جیسے کہ ابو رغال کی قبر پر پتھر پھینکے جاتے ہیں (مسند احمد شافعی ترمذی ابن ماجہ دار قطنی بیہقی وغیرہ) مرفوع حدیث تک تو ان سب کتابوں میں ہے ہاں حضرت عمر (رض) والا واقعہ صرف مسند احمد میں ہی ہے لیکن یہ زیادتی حسن ہے، اگرچہ امام بخاری نے اسے ضعیف کہا ہے اور اس کی اسناد کا دوسرا طریقہ بتا کر اس طریقہ کو غیر محفوظ کہا ہے مگر اس تعلیل میں بھی اختلاف ہے واللہ اعلم اور بزرگ محدثین نے بھی اس پر کلام کیا ہے لیکن مسند احمد والی حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں اور شرط شیخین پر ہیں ایک اور روایت میں ہے کہ یہ دس عورتیں بھی اپنے خاوند کے ساتھ مسلمان ہوئی تھیں ملاحظہ ہو (سنن نسائی) ، اس حدیث سے صاف ظاہر ہوگیا کہ اگر چار سے زیادہ کا ایک وقت میں نکاح میں رکھنا جائز ہوتا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے یہ نہ فرماتے کہ اپنی ان دس بیویوں میں سے چار کو جنہیں تم چاہو روک لو باقی کو چھوڑ دو کیونکہ یہ سب بھی اسلام لا چکی تھیں، یہاں یہ بات بھی خیال میں رکھنی چاہئے کہ ثقفی کے ہاں تو یہ دس عورتیں بھی موجود تھی اس پر بھی آپ نے چھ علیحدہ کرا دیں پھر بھلا کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص نئے سرے سے چار سے زیادہ جمع کرے ؟ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم با الصواب
چار سے زائد نہیں، وہ بھی بشرط انصاف ورنہ ایک ہی بیوی !
" دوسری حدیث " ابو داؤد ابن ماجہ وغیرہ میں ہے حضرت امیرہ اسدی (رض) فرماتے ہیں میں نے جس وقت اسلام قبول کیا میرے نکاح میں آٹھ عورتیں تھیں میں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ذکر کیا آپ نے فرمایا ان میں سے جن چار کو چاہو رکھ لو، اس کی سند حسن ہے اور اس کے شواہد بھی ہیں راویوں کے ناموں کا ہیر پھیر وغیرہ ایسی روایات میں نقصان دہ نہیں ہوتا " تیسری حدیث " مسند شافعی میں ہے حضرت نوفل بن معاویہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے جب اسلام قبول کیا اس وقت میری پانچ بیویاں تھیں مجھ سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان میں سے پسند کر کے چار کو رکھ لو اور ایک کو الگ کردو میں نے جو سب سے زیادہ عمر کی بڑھیا اور بےاولاد بیوی ساٹھ سال کی تھیں انہیں طلاق دے دی، پس یہ حدیثیں حضرت غیلان والی پہلی حدیث کی شواہد ہیں جیسے کہ حضرت امام بیہقی نے فرمایا۔ پھر فرماتا ہے ہاں اگر ایک سے زیادہ بیویوں میں عدل و انصاف نہ ہوسکنے کا خوف ہو تو صرف ایک ہی پر اکتفا کرو اور اپنی کنیزوں سے استمتاع کرو جیسے اور جگہ ہے آیت (وَلَنْ تَسْتَطِيْعُوْٓا اَنْ تَعْدِلُوْا بَيْنَ النِّسَاۗءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِيْلُوْا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوْھَا كَالْمُعَلَّقَةِ ) 4 ۔ النسآء ;129) یعنی گو تم چاہو لیکن تم سے نہ ہو سکے گا کہ عورتوں کے درمیان پوری طرح عدل و انصاف کو قائم رکھ سکو پس بالکل ایک ہی طرف جھک کر دوسری کو مصیبت میں نہ ڈال دو ، ہاں یاد رہے کہ لونڈیاں میں باری وغیرہ کی تقسیم واجب نہیں البتہ مستحب ہے جو کرے اس نے اچھا کیا اور جو نہ کرے اس پر حرج نہیں۔ اس کے بعد کے جملے کے مطلب میں بعض نے تو کہا ہے کہ یہ قریب ہے ان معنی کے کہ تمہارے عیال یعنی فقیری زیادہ نہ ہو جیسے اور جگہ ہے آیت (وان خفتم) یعنی اگر تمہیں فقر کا ڈر ہو، عربی شاعر
کہتا ہے۔
فما یدری الفقیر متی غناہ
وما یدری الغنی متی یعیل
یعنی فقیر نہیں جانتا کہ کب امیر ہوجائے گا، اور امیر کو معلوم نہیں کہ کب فقیر بن جائے گا، جب کوئی مسکین محتاج ہوجائے تو عرب کہتے ہیں (عال الرج) یعنی یہ شخص فقیر ہوگیا غرض اس معنی میں یہ لفظ مستعمل تو ہے لیکن یہاں یہ تفسیر کچھ زیادہ اچھی نہیں معلوم ہوتی، کیونکہ اگر آزاد عورتوں کی کثرت فقیری کا باعث بن سکتی ہے تو لونڈیوں کی کثرت بھی فقیری کا سبب ہوسکتی ہے، پس صحیح قول جمہور کا ہے کہ مرادیہ ہے کہ یہ قریب ہے اس سے کہ تم ظلم سے بچ جاؤ، عرب میں کہا جاتا ہے ( عال فی الحکم) جبکہ ظلم و جور کیا ہو، ابو طالب کے مشہور قصیدے میں ہے۔
بمیزان قسط لا یخبس شعیرۃ
لہ شاہدمن نفسہ غیر عائل
ضمیر بہترین ترازو ہے
یعنی ایسی ترازو سے تولتا ہے جو ایک جو برابر کی بھی کمی نہیں کرتا اس کے پاس اس کا گواہ خود اس کا نفس ہے جو ظالم نہیں ہے ابن جریر میں ہے کہ جب کو فیوں نے حضرت عثمان (رض) پر ایک خط کچھ الزام لکھ کر بھیجے تو ان کے جواب میں خلیفہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لکھا کہ (انی لست بمیزان اعول) میں ظلم کا ترازو نہیں ہوں، صحیح ابن حبان وغیرہ میں ایک مرفوع حدیث اس جملہ کی تفسیر میں مروی ہے کہ اس کا معنی ہے تم ظلم نہ کرو، ابو حاتم (رح) فرماتے ہیں اس کا مرفوع ہونا تو خطا ہے ہاں یہ حضرت عائشہ کا قول ہے اسی طرح لا تعولوا کے یہی معنی میں یعنی تم ظلم نہ کرو حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عائشہ، حضرت مجاہد، حضرت عکرمہ، حضرت حسن، حضرت ابو مالک، حضرت ابو زرین، حضرت نخعی، حضرت شعبی، حضرت ضحاک، حضرت عطاء خراسانی، حضرت قتادہ، حضرت سدی اور حضرت مقاتل بن حیان وغیرہ سے بھی مروی ہیں۔ حضرت عکرمہ (رح) نے بھی ابو طالب کا وہی شعر پیش کیا ہے، امام ابن جریر نے اسے روایت کیا ہے اور خود امام صاحب بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں۔ پھر فرماتا ہے اپنی بیویوں کو ان کے مہر خوش دلی سے ادا کردیا کرو جو بھی مقرر ہوئے ہوں اور جن کو تم نے منظور کیا ہو، ہاں اگر عورت خود اپنا سارا یا تھوڑا بہت مہر اپنی خوشی سے مرد کو معاف کر دے تو اسے اختیار ہے اور اس صورت میں بیشکل مرد کو اس کا اپنے استعمال میں لانا حلال طیب ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کسی کو جائز نہیں کہ بغیر مہر واجب کے نکاح کرے نہ یہ کہ جھوٹ موٹ مہر کا نام ہی نام ہو، ابن ابی حاتم میں حضرت علی (رض) کا قول مروی ہے کہ تم میں سے جب کوئی بیمار پڑے تو اسے چاہئے کہ اپنی بیوی سے اس کے مال کے تین درہم یا کم و بیش لے ان کا شہد خرید لے اور بارش کا آسمانی پانی اس میں ملالے تو تین تین بھلائیاں مل جائیں گی آیت (ہنیأ امریأ) تو مال عورت اور شفاء شہد اور مبارک بارش کا پانی۔ حضرت ابو صالح فرماتے ہیں کہ لوگ اپنی بیٹیوں کا مہر آپ لیتے تھے جس پر یہ آیت اتری اور انہیں اس سے روک دیا گیا (ابن ابی حاتم اور ابن جریر) اس حکم کو سن کر لوگوں نے رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ ان کا مہر کیا ہونا چاہئے ؟ آپ نے فرمایا جس چیز پر بھی ان کے ولی رضامند ہوجائیں (ابن ابی حاتم) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے خطبے میں تین مرتبہ فرمایا کہ بیوہ عورتوں کا نکاح کردیا کرو، ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسی صورت میں ان کا مہر کیا ہوگا ؟ آپ نے فرمایا جس پر ان کے گھر والے راضی ہوجائیں، اس کے ایک راوی ابن سلمانی ضعیف ہیں، پھر اس میں انقطاع بھی ہے۔