لَنْ يَّسْتَـنْكِفَ الْمَسِيْحُ اَنْ يَّكُوْنَ عَبْدًا لِّـلّٰـهِ وَلَا الْمَلٰۤٮِٕكَةُ الْمُقَرَّبُوْنَ ۗ وَمَنْ يَّسْتَـنْكِفْ عَنْ عِبَادَ تِهٖ وَيَسْتَكْبِرْ فَسَيَحْشُرُهُمْ اِلَيْهِ جَمِيْعًا
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
مسیح نے کبھی اس بات کو عار نہیں سمجھا کہ وہ اللہ کا بندہ ہو، اور نہ مقرب ترین فرشتے اِس کو اپنے لیے عار سمجھتے ہیں اگر کوئی اللہ کی بندگی کو اپنے لیے عار سمجھتا ہے اور تکبر کرتا ہے تو ایک وقت آئے گا جب اللہ سب کو گھیر کر اپنے سامنے حاضر کرے گا
English Sahih:
Never would the Messiah disdain to be a servant of Allah, nor would the angels near [to Him]. And whoever disdains His worship and is arrogant – He will gather them to Himself all together.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
مسیح نے کبھی اس بات کو عار نہیں سمجھا کہ وہ اللہ کا بندہ ہو، اور نہ مقرب ترین فرشتے اِس کو اپنے لیے عار سمجھتے ہیں اگر کوئی اللہ کی بندگی کو اپنے لیے عار سمجھتا ہے اور تکبر کرتا ہے تو ایک وقت آئے گا جب اللہ سب کو گھیر کر اپنے سامنے حاضر کرے گا
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
مسیح اللہ کا بندہ بننے سے کچھ نفرت نہیں کرتا اور نہ مقرب فرشتے اور جو اللہ کی بندگی سے نفرت اور تکبر کرے تو کوئی دم جاتا ہے کہ وہ ان سب کو اپنی طرف ہانکے گا
احمد علی Ahmed Ali
مسیح خدا کا بندہ بننے سے ہرگز عار نہیں کرے گا اور نہ مقرب فرشتے اور جو کوئی اس کی بندگی سے انکار کرے گا اور تکبر کرے گا پھران سب کو اپنی طرف اکھٹاکرے گا
أحسن البيان Ahsanul Bayan
مسیح (علیہ السلام) کو اللہ کا بندہ ہونے میں کوئی ننگ و عار نہیں یا تکبر و انکار ہرگز ہو ہی نہیں سکتا اور ان مقرب فرشتوں کو (١) اس کی بندگی سے جو بھی دل چرائے اور تکبر و انکار کرے اللہ تعالٰی ان سب کو اکٹھا اپنی طرف جمع کرے گا۔
١٧٢۔١ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح بعض لوگوں نے فرشتوں کو بھی خدائی میں شریک ٹھہرا رکھا تھا، اللہ تعالٰی فرما رہا ہے کہ یہ تو سب کے سب اللہ کے بندے ہیں اور اس سے انہیں قطعاً کوئی انکار نہیں ہے۔ تم انہیں اللہ یا اس کی خدائی میں شریک کس بنیاد پر بناتے ہو۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
مسیح اس بات سے عار نہیں رکھتے کہ خدا کے بندے ہوں اور نہ مقرب فرشتے (عار رکھتے ہیں) اور جو شخص خدا کا بندہ ہونے کو موجب عار سمجھے اور سرکشی کرے تو خدا سب کو اپنے پاس جمع کرلے گا
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
مسیح (علیہ السلام) کو اللہ کا بنده ہونے میں کوئی ننگ و عار یا تکبر وانکار ہرگز ہو ہی نہیں سکتا اور نہ مقرب فرشتوں کو، اس کی بندگی سے جو بھی دل چرائے اور تکبر و انکار کرے، اللہ تعالیٰ ان سب کو اکٹھا اپنی طرف جمع کرے گا
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
عیسیٰ مسیح اللہ کا بندہ ہونے میں اپنے لئے عار نہیں سمجھتے اور نہ ہی مقرب فرشتے اس میں اپنے لئے کوئی عار محسوس کرتے ہیں اور جو اس کی بندگی میں ننگ و عار محسوس کرے گا اور تکبر کرے گا۔ اللہ سب کو جلد اپنی طرف محشور فرمائے گا۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
نہ مسیح کو اس بات سے انکار ہے کہ وہ بندئہ خدا ہیں اور نہ ملائکہ مقربین کو اس کی بندگی سے کوئی انکار ہے اور جو بھی اس کی بندگی سے انکار و استکبار کرے گا تو اللہ سب کو اپنی بارگاہ میں محشور کرے گا
طاہر القادری Tahir ul Qadri
مسیح (علیہ السلام) اس (بات) سے ہرگز عار نہیں رکھتا کہ وہ اﷲ کا بندہ ہو اور نہ ہی مقرّب فرشتوں کو (اس سے کوئی عار ہے)، اور جو کوئی اس کی بندگی سے عار محسوس کرے اور تکبر کرے تو وہ ایسے تمام لوگوں کو عنقریب اپنے پاس جمع فرمائے گا،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
اس کی گرفت سے فرار ناممکن ہے !
مطلب یہ ہے کہ مسیح (علیہ السلام) اور اعلیٰ ترین فرشتے بھی اللہ کی بندگی سے انکار اور فرار نہیں کرسکتے، نہ یہ ان کی شان کے لائق ہے بلکہ جو جتنا مرتبے میں قریب ہوتا ہے، وہ اسی قدر اللہ کی عبادت میں زیادہ پابند ہوتا ہے۔ بعض لوگوں نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ فرشتے انسانوں سے افضل ہیں۔ لیکن دراصل اس کا کوئی ثبوت اس آیت میں نہیں، اس لئے یہاں ملائکہ کا عطف مسیح پر ہے اور استنکاف کا معنی رکنے کے ہیں اور فرشتوں میں یہ قدرت بہ نسبت مسیح کے زیادہ ہے۔ اس لئے یہ فرمایا گیا ہے اور رک جانے پر زیادہ قادر ہونے سے فضیلت ثابت نہیں ہوتی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس طرح حضرت مسیح (علیہ السلام) کو لوگ پوجتے تھے، اسی طرح فرشتوں کی بھی عبادت کرتے تھے۔ تو اس آیت میں مسیح (علیہ السلام) کو اللہ کی عبادت سے رکنے والا بتا کر فرشتوں کی بھی یہی حالت بیان کردی، جس سے ثابت ہوگیا کہ جنہیں تم پوجتے ہو وہ خود اللہ کو پوجتے ہیں، پھر ان کی پوجا کیسی ؟ جیسے اور آیت میں ہے آیت (وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَـدًا سُبْحٰنَهٗ ۭ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَ ) 21 ۔ الانبیآء ;26) اور اسی لئے یہاں بھی فرمایا کہ جو اس کی عبادت سے رکے، منہ موڑے اور بغاوت کرے، وہ ایک وقت اسی کے پاس لوٹنے والا ہے اور اپنے بارے میں اس کا فیصلہ سننے والا ہے اور جو ایمان لائیں، نیک اعمال کریں، انہیں ان کا پورا ثواب بھی دیا جائے گا، پھر رحمت ایزدی اپنی طرف سے بھی انعام عطا فرمائے گی۔ ابن مردویہ کی حدیث میں ہے کہ اجر تو یہ ہے کہ جنت میں پہنچا دیا اور زیادہ فضل یہ ہے کہ جو لوگ قابل دوزخ ہوں، انہیں بھی ان کی شفاعت نصیب ہوگی، جن سے انہوں نے بھلائی اور اچھائی کی تھی، لیکن اس کی سند ثابت شدہ نہیں، ہاں اگر ابن مسعود کے قول پر ہی اسے روایت کیا جائے تو ٹھیک ہے۔ پھر فرمایا جو لوگ اللہ کی عبادت و اطاعت سے رک جائیں اور اس سے تکبر کریں، انہیں پروردگار درد ناک عذاب کرے گا اور یہ اللہ کے سوا کسی کو دلی و مددگار نہ پائیں گے۔ جیسے اور آیت میں ہے آیت (اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ ) 40 ۔ غافر ;60) جو لوگ میری عبادت سے تکبر کریں، وہ ذلیل و حقیر ہو کر جہنم میں جائیں گے، یعنی ان کے انکار اور ان کے تکبر کا یہ بدلہ انہیں ملے گا کہ ذلیل و حقیر خوار و بےبس ہو کر جہنم میں داخل کئے جائیں گے۔