Skip to main content

وَّقَوْلِهِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيْحَ عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُوْلَ اللّٰهِ ۚ وَمَا قَتَلُوْهُ وَمَا صَلَبُوْهُ وَلٰـكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ ۗ وَاِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَـفُوْا فِيْهِ لَفِىْ شَكٍّ مِّنْهُ ۗ مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوْهُ يَقِيْنًا ۢ ۙ

And for their saying
وَقَوْلِهِمْ
اور ان کے کہنے کے
"Indeed we
إِنَّا
بیشک ہم نے
killed
قَتَلْنَا
قتل کیا ہم نے
the Messiah
ٱلْمَسِيحَ
مسیح کو
Isa
عِيسَى
عیسیٰ کو
son
ٱبْنَ
جو بیٹے ہیں
(of) Maryam
مَرْيَمَ
مریم ہیں
(the) Messenger
رَسُولَ
جو رسول تھے
(of) Allah"
ٱللَّهِ
اللہ کے
And not
وَمَا
حالانکہ نہیں
they killed him
قَتَلُوهُ
انہوں نے قتل کیا اس کو
and not
وَمَا
اور نہیں
they crucified him
صَلَبُوهُ
انہوں نے صلیب چڑھایا اس کو
but
وَلَٰكِن
لیکن
it was made to appear (so)
شُبِّهَ
شبہ ڈالا گیا
to them
لَهُمْۚ
ان کے لیے
And indeed
وَإِنَّ
اور بیشک
those who
ٱلَّذِينَ
وہ لوگ
differ
ٱخْتَلَفُوا۟
جنہوں نے اختلاف کیا
in it
فِيهِ
اس میں
(are) surely in
لَفِى
البتہ
doubt
شَكٍّ
شک میں ہیں
about it
مِّنْهُۚ
اس سے
Not
مَا
نہیں
for them
لَهُم
ان کے لیے
about it
بِهِۦ
اس کا
[of]
مِنْ
کوئی
(any) knowledge
عِلْمٍ
علم
except
إِلَّا
مگر
(the) following
ٱتِّبَاعَ
پیروی کرنا
(of) assumption
ٱلظَّنِّۚ
گمان کی
And not
وَمَا
اور نہیں
they killed him
قَتَلُوهُ
انہوں نے قتل کیا اس کو
certainly
يَقِينًۢا
یقینی طور پر

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

اور خود کہا کہ ہم نے مسیح، عیسیٰ ابن مریم، رسول اللہ کو قتل کر دیا ہے حالانکہ فی الواقع انہوں نے نہ اس کو قتل کیا نہ صلیب پر چڑھایا بلکہ معاملہ ان کے لیے مشتبہ کر دیا گیا اور جن لوگوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے وہ بھی دراصل شک میں مبتلا ہیں، ان کے پاس اس معاملہ میں کوئی علم نہیں ہے، محض گمان ہی کی پیروی ہے انہوں نے مسیح کو یقین کے ساتھ قتل نہیں کیا

English Sahih:

And [for] their saying, "Indeed, we have killed the Messiah, Jesus the son of Mary, the messenger of Allah." And they did not kill him, nor did they crucify him; but [another] was made to resemble him to them. And indeed, those who differ over it are in doubt about it. They have no knowledge of it except the following of assumption. And they did not kill him, for certain.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

اور خود کہا کہ ہم نے مسیح، عیسیٰ ابن مریم، رسول اللہ کو قتل کر دیا ہے حالانکہ فی الواقع انہوں نے نہ اس کو قتل کیا نہ صلیب پر چڑھایا بلکہ معاملہ ان کے لیے مشتبہ کر دیا گیا اور جن لوگوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے وہ بھی دراصل شک میں مبتلا ہیں، ان کے پاس اس معاملہ میں کوئی علم نہیں ہے، محض گمان ہی کی پیروی ہے انہوں نے مسیح کو یقین کے ساتھ قتل نہیں کیا

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اور ان کے اس کہنے پر کہ ہم نے مسیح عیسیٰ بن مریم اللہ کے رسول کو شہید کیا اور ہے یہ کہ انہوں نے نہ اسے قتل کیا اور نہ اسے سولی دی بلکہ ان کے لئے ان کی شبیہ کا ایک بنادیا گیا اور وہ جو اس کے بارہ میں اختلاف کررہے ہیں ضرور اس کی طرف سے شبہ میں پڑے ہوئے ہیں انہیں اس کی کچھ بھی خبر نہیں مگر یہی گمان کی پیروی اور بیشک انہوں نے اس کو قتل نہیں کیا

احمد علی Ahmed Ali

اور ان کے اس کہنے پر کہ ہم نے مسیح عیسیٰ مریم کے بیٹے کو قتل کیا جو الله کا رسول تھا حالانکہ انہوں نے نہ اسے قتل کیا اور نہ سولی پر چڑھایا لیکن ان کو اشتباہ ہو گیا اورجن لوگوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے وہ بھی دراصل شک میں مبتلا ہیں ان کے پا س بھی اس معاملہ میں کوئی یقین نہیں ہے محض گمان ہی کی پیروی ہے انہوں نے یقیناً مسیح کو قتل نہیں کیا

أحسن البيان Ahsanul Bayan

اور یوں کہنے کے باعث کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسیٰ بن مریم کو قتل کر دیا حالانکہ نہ تو انہوں نے اسے قتل کیا نہ سولی پر چڑھایا (١) بلکہ ان کے لئے (عیسیٰ) کا شبیہ بنا دیا گیا تھا (٢) یقین جانو کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اختلاف کرنے والے ان کے بارے میں شک میں ہیں، انہیں اس کا کوئی یقین نہیں بجز تخمینی باتوں پر عمل کرنے کے (٣) اتنا یقینی ہے کہ انہوں نے انہیں قتل نہیں کیا۔

١٥٧۔١ اس سے واضح ہوگیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودی قتل کرنے میں کامیاب ہو سکے نہ سولی چڑھانے میں۔ جیسا کہ ان کا منصوبہ تھا۔ جیسا کہ) سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ٥٥ کے حاشیہ)
مختصر تفصیل گزر چکی ہے۔
١٥٧۔٢ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں کی سازش کا پتہ چلا تو انہوں نے اپنے حواریوں کو جن کی تعداد ١٢ یا ١٧ تھی جمع کیا اور فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص میری جگہ قتل ہونے کے لئے تیار ہے؟ تاکہ اللہ تعالٰی کی طرف سے اس کی شکل و صورت میری جیسی بنا دی جائے
۔ ایک نوجوان اس کے لئے تیار ہوگیا۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وہاں سے آسمان پر اٹھا لیا گیا۔ بعد میں یہودی آئے اور انہوں نے اس نوجوان کو لے جا کر سولی چڑھا دیا۔ جسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہم شکل بنا دیا گیا تھا۔ یہودی یہی سمجھتے رہے کہ ہم نے عیسیٰ علیہ السلام کو سولی دی ہے درآنحالیکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس وقت وہاں موجود ہی نہ تھے وہ زندہ جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر اٹھائے جاچکے تھے (ابن کثیر و فتح القدیر)
١٥٧۔٣ عیسیٰ علیہ السلام کے ہم شکل شخص کو قتل کرنے کے بعد ایک گروہ تو یہی کہتا رہا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کر دیا گیا جب کہ دوسرا گروہ جسے یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ مصلوب شخص عیسیٰ علیہ السلام نہیں کوئی اور ہے، بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر جاتے ہوئے بھی دیکھا تھا بعض کہتے ہیں کہ اس اختلاف سے مراد وہ اختلاف ہے جو خود عیسائیوں کے ایک فرقے نے کہا کہ عیسیٰ علیہ السلام جسم کے لحاظ تو سولی دے دیے گئے لیکن لاہوت (خداوندی) کے اعتبار سے نہیں۔ ملکانیہ فرقے نے کہا یہ قتل و صلب ناسوت اور لاہوت دونوں اعتبار سے مکمل طور پر ہوا ہے (فتح القدیر) بہرحال وہ اختلاف اور تردد اور شک کا شکار رہے۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

اور یہ کہنے کے سبب کہ ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ مسیح کو جو خدا کے پیغمبر (کہلاتے) تھے قتل کردیا ہے (خدا نے ان کو معلون کردیا) اور انہوں نے عیسیٰ کو قتل نہیں کیا اور نہ انہیں سولی پر چڑھایا بلکہ ان کو ان کی سی صورت معلوم ہوئی اور جو لوگ ان کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں وہ ان کے حال سے شک میں پڑے ہوئے ہیں اور پیروئی ظن کے سوا ان کو اس کا مطلق علم نہیں۔ اور انہوں نے عیسیٰ کو یقیناً قتل نہیں کیا

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

اور یوں کہنے کے باعﺚ کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسیٰ بن مریم کو قتل کر دیا حاﻻنکہ نہ تو انہوں نے اسے قتل کیا نہ سولی پر چڑھایا بلکہ ان کے لئے ان (عیسیٰ) کا شبیہ بنا دیا گیا تھا۔ یقین جانو کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اختلاف کرنے والے ان کے بارے میں شک میں ہیں، انہیں اس کا کوئی یقین نہیں بجز تخمینی باتوں پر عمل کرنے کے اتنا یقینی ہے کہ انہوں نے انہیں قتل نہیں کیا

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

اور ان کے اس کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے خدا کے رسول مسیح عیسیٰ بن مریم کو قتل کر دیا ہے۔ حالانکہ انہوں نے نہ انہیں قتل کیا اور نہ سولی پر چڑھایا، بلکہ ان پر اصل معاملہ مشتبہ کر دیا گیا۔ اور جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے وہ یقینا اس کے متعلق شک میں ہیں اور انہیں گمان کی پیروی کرنے کے سوا کوئی علم نہیں ہے۔ اور انہوں نے یقینا ان کو قتل نہیں کیا۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

اور یہ کہنے کی بنا پر کہ ہم نے مسیح عیسٰی علیھ السّلام بن مریم رسول اللہ کو قتل کردیا ہے حالانکہ انہوں نے نہ انہیں قتل کیا ہے اور نہ سولی دی ہے بلکہ دوسرے کو ان کی شبہیہ بنا دیا گیا تھا اور جن لوگوں نے عیسٰی علیھ السّلام کے بارے میں اختلاف کیا ہے وہ سب منزل ه شک میں ہیں اور کسی کو گمان کی پیروی کے علاوہ کوئی علم نہیں ہے اور انہوں نے یقینا انہیں قتل نہیں کیا ہے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اور ان کے اس کہنے (یعنی فخریہ دعوٰی) کی وجہ سے (بھی) کہ ہم نے اﷲ کے رسول، مریم کے بیٹے عیسٰی مسیح کو قتل کر ڈالا ہے، حالانکہ انہوں نے نہ ان کو قتل کیا اور نہ انہیں سولی چڑھایا مگر (ہوا یہ کہ) ان کے لئے (کسی کو عیسٰی علیہ السلام کا) ہم شکل بنا دیا گیا، اور بیشک جو لوگ ان کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں وہ یقیناً اس (قتل کے حوالے) سے شک میں پڑے ہوئے ہیں، انہیں (حقیقتِ حال کا) کچھ بھی علم نہیں مگر یہ کہ گمان کی پیروی (کر رہے ہیں)، اور انہوں نے عیسٰی (علیہ السلام) کو یقیناً قتل نہیں کیا،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

صحیح بخاری میں ہے اس وقت کیا ہوگا، جب تم میں مسیح بن مریم اتریں گے اور تمہارا امام تمہیں میں سے ہوگا۔ ابو داؤد، مسند احمد وغیرہ میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا " انبیاء کرام (علیہم السلام) سب ایک باپ کے بیٹے بھائی کی طرح ہیں، مائیں جدا جدا اور دین ایک۔ عیسیٰ بن مریم سے زیادہ تر نزدیک میں ہوں اس لئے کہ میرے اور ان کے درمیان کوئی اور نبی نہیں، یقیناً وہ اترنے والے ہیں پس تم انہیں پہچان رکھو۔ درمیان قد ہے، سرخ سفید رنگ ہے۔ وہ دو گیروے رنگ میں رنگے ہوئے کپڑے اوڑھے اور باندھے ہوں گے، بال خشک ہونے کے باوجود ان کے سر سے قطرے ٹپک رہے ہوں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ قبول نہ کریں گے، لوگوں کو اسلام کی طرف بلائیں گے، ان کے زمانے میں تمام ملتیں مٹ جائیں گی، صرف اسلام ہی اسلام رہے گا، ان کے زمانے میں اللہ تعالیٰ مسیح دجال کو ہلاک کرے گا۔ پھر زمین پر امن ہی امن ہوگا یہاں تک کہ کالے ناگ اونٹوں کے ساتھ، چیتے گایوں کے ساتھ اور بھیڑیئے بکریوں کے ساتھ چرتے پھریں گے اور بچے سانپوں سے کھیلیں گے، انہیں کوئی نقصان نہ پہنچائیں گے، چالیس برس تک ٹھہریں گے، پھر فوت ہوں گے اور مسلمان آپ کے جنازے کی نماز ادا کریں گے۔ " ابن جریر کی اسی روایت میں ہے، آپ لوگوں سے اسلام کے لئے جہاد کریں گے، اس حدیث کا ایک ٹکڑا بخاری شریف میں بھی ہے اور روایت میں ہے " سب سے زیادہ قریب تر حضرت عیسیٰ سے دنیا اور آخرت میں میں ہوں۔ " صحیح مسلم میں ہے " قیامت قائم نہ ہوگی، جب تک رومی اعماق یا والق میں نہ اتریں اور ان کے مقابلہ کے لئے مدینہ سے مسلمانوں کا لشکر نہ نکلے گا، جو اس وقت تمام زمین کے لوگوں سے زیادہ اللہ کے پسندیدہ بندے ہوں گے، جب صفیں بندھ جائیں گی تو رومی کہیں گے تم سے ہم لڑنا نہیں چاہتے، ہم میں سے جو دین بدل کر تم میں ملے ہم ان سے لڑنا چاہتے ہیں تم بیچ میں سے ہٹ جاؤ لیکن مسلمان کہیں گے واللہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم اپنے ان کمزور بھائیوں کو تمہارے حوالے کردیں۔ چناچہ لڑائی شروع ہوگی مسلمانوں کے اس لشکر کا تہائی حصہ تو شکست کھا کر بھاگ کھڑا ہوگا، ان کی توبہ اللہ تعالیٰ ہرگز قبول نہ فرمائے گا اور تہائی حصہ شہید ہوجائے گا، جو اللہ کے نزدیک سب سے افضل شہید ہیں لیکن آخری تہائی حصہ فتح حاصل کرے گا اور رومیوں پر غالب آجائے گا، پھر یہ کسی فتنے میں نہ پڑیں گے، قسطنطنیہ کو فتح کریں گے، ابھی تو وہ اپنی تلواریں زیتون کے درختوں پر لٹکائے ہوئے مال غنیمت تقسیم کر ہی رہے ہوں گے جو شیطان چیخ کر کہے گا کہ تمہارے بال بچوں میں دجال آگیا، اس کے اس جھوٹ کو سچ جان کر مسلمان یہاں سے نکل کھڑے ہوں گے، شام میں پہنچیں گے، دشمنوں سے جنگ آزما ہونے کے لئے صفیں ٹھیک کر رہے ہوں گے کہ دوسری جانب نماز کی اقامت ہوگی اور حضرت عیسیٰ بن مریم نازل ہوں گے، ان کی امامت کرائیں گے، جب دشمن رب انہیں دیکھے گا تو اسی طرح گھلنے لگے گا جس طرح نمک پانی میں گھلتا ہے، اگر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اسے یونہی چھوڑ دیں، جب بھی وہ گھلتے گھلتے ختم ہوجائے لیکن اللہ تعالیٰ اسے آپ کے ہاتھ سے قتل کرائے گا اور آپ اپنے حربے پر اس کا خون لوگوں کو دکھائیں گے۔ " مسند احمد اور ابن ماجہ میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں " معراج والی رات میں نے ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) سے ملاقات کی، آپس میں قیامت کی نسبت بات چیت ہونے لگی، ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی لاعلمی ظاہر کی، اس طرح موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی، لیکن حضرت عیسیٰ نے فرمایا اس کے آنے کا ٹھیک وقت تو سوائے اللہ عزوجل کے کوئی نہیں جانتا، ہاں مجھ سے میرے رب نے جو عہد لیا ہے وہ یہ ہے کہ دجال نکلے گا اس کے ہمراہ دو شاخیں ہوں گی، مجھے دیکھ کر اس طرح پگھلنے لگے گا جس طرح سیسہ پگھلتا ہے، یہاں تک کہ پتھر اور درخت بھی بولنے لگیں گے کہ اے مسلمان یہاں میرے پیچھے ایک کافر ہے اور اسے قتل کرلیں، اللہ تعالیٰ ان سب کو غارت کر دے گا اور لوگ امن وامان کے ساتھ اپنے اپنے وطن اور شہروں کو لوٹ جائیں گے، اب یاجوج ماجوج نکلیں گے، ہر طرف سے چڑھ دوڑیں گے، تمام شہروں کو روندیں گے، جس جس چیز پر گذر ہوگا اسے ہلاک کردیں گے، جس پانی کے پاس سے گذریں گے پی جائیں گے، لوگ پھر لوٹ کر میرے پاس آئیں گے، میں اللہ سے دعا کروں گا، اللہ ان سب کو ایک ساتھ فنا کر دے گا لیکن ان کے مردہ جسموں سے ہوا بگڑ جائے گی، بدبو پھیل جائے گی، پھر مینہ برسے گا اور اس قدر کہ ان کی تمام لاشوں کو بہا کر سمندر میں ڈال دے گا۔ بس اس وقت قیامت کی اس طرح آمد آمد ہوگی جس طرح پورے دن کی حاملہ عورت ہو کہ اس کے گھر والے نہیں جانتے کہ صبح کو بچہ ہوجائے یا شام کو، رات کو پیدا ہو یا دن کو ؟ " مسند احمد میں ہے حضرت ابو نضرہ فرماتے ہیں ہیں ہم حضرت عثمان بن ابو العاص کے پاس جمعہ والے دن آئے کہ ہم اپنا لکھا ہوا قرآن ان کے قرآن سے ملائیں، جب جمعہ کا وقت آیا تو آپ نے ہم سے فرمایا " غسل کرلو " پھر خوشبو لے آئے جو ہم نے ملی، پھر ہم مسجد میں آئے اور ایک شخص کے پاس بیٹھ گئے جنہوں نے ہم سے دجال والی حدیث بیان کی پھر حضرت عثمان بن ابو العاص آئے، ہم کھڑے ہوگئے، پھر سب بیٹھ گئے، آپ نے فرمایا " میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ مسلمان کے تین شہر میں جائیں گے، ایک دونوں سمندر کے ملنے کی جگہ پر، دوسرا حیرہ میں اور تیسرا شام میں، پھر تین گھبراہٹیں لوگوں کو ہوں گی، پھر دجال نکلے گا، یہ پہلے شہر کی طرف جائے گا، وہاں کے لوگ تین حصوں میں بٹ جائیں گے، ایک حصہ تو کہے گا ہم اس کے مقابلہ پر ٹھہرے رہیں گے اور دیکھیں گے کہ کیا ہوتا ہے ؟ دوسری جماعت گاؤں کے لوگوں میں مل جائے گی اور تیسری جماعت دوسرے شہر میں چلی جائے گی جو ان سے قریب ہوگا، دجال کے ساتھ ستر ہزار لوگ ہوں گے، جن کے سروں پر تاج ہوں گے، ان کی اکثریت یہودیوں کی اور عورتوں کی ہوگی، یہاں کے یہ مسلمان ایک گھاٹی میں سمٹ کر محصور ہوجائیں گے، ان کے جانور جو چرنے چگنے کو گئے ہوں گے، وہ بھی ہلاک ہوجائیں گے، اس سے ان کے مصائب بہت بڑھ جائیں گے اور بھوک کے مارے برا حال ہوجائے گا، یہاں تک کہ اپنی کمانوں کی تانیں سینک سینک کر کھا لیں گے، جب سخت تنگی کا عالم ہوگا تو انہیں سمندر میں سے آواز آئے گی کہ لوگو تمہاری مدد آگئی، اس آواز کو سن کر یہ لوگ خوش ہوں گے، کیونکہ آواز سے جان لیں گے کہ یہ کسی آسودہ شخص کی آواز ہے، عین صبح کی نماز کے وقت حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نازل ہوں گے، ان کا امیر آپ سے کہے گا کہ اے روح اللہ آگے بڑھئے اور نماز پڑھایئے لیکن آپ کہیں گے کہ اس امت کے بعض بعض کے امیر ہیں، چناچہ انہی کا امیر آگے بڑھے گا اور نماز پڑھائے گا، نماز سے فارغ ہو کر اپنا حربہ ہاتھ میں لے کر مسیح دجال کا رخ کریں گے، دجال آپ کو دیکھ کر سیسے کی طرح پگھلنے لگے گا، آپ اس کے سینہ پر وار کریں گے جس سے وہ ہلاک ہوجائے گا اور اس کے ساتھی شکست کھا کر بھاگ کھڑے ہوں گے، لیکن انہیں کہیں امن نہیں ملے گا، یہاں تک کہ اگر وہ کسی درخت تلے چھپیں گے تو وہ درخت پکار کر کہے گا کہ اے مومن یہ ایک کافر میرے پاس چھپا ہوا ہے اور اسی طرح پتھر بھی۔ " ابن ماجہ میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ایک خطبہ کا کم و بیش حصہ دجال کا واقعہ بیان کرنے اور اس سے ڈرانے میں ہی صرف کیا، جس میں یہ بھی فرمایا کہ دنیا کی ابتداء سے لے کر انتہا تک کوئی فتنہ اس سے بڑا نہیں، تمام انبیاء اپنی اپنی امتوں کو اس سے آگاہ کرتے رہے ہیں، میں سب سے آخری نبی ہوں اور تم سب سے آخری امت ہو، وہ یقینا تمہیں میں آئے گا، اگر میری موجودگی میں آگیا تو میں آپ اس سے نمٹ لوں گا اور اگر بعد میں آیا تو ہر شخص کو اپنے آپ کو اس سے بچانا پڑے گا۔ میں اللہ تعالیٰ کو ہر مسلمان کا خلیفہ بناتا ہوں۔ وہ شام و عراق کے درمیان نکلے گا، دائیں بائیں خوب گھومے گا، لوگو اے اللہ کے بندو ! دیکھو دیکھو تم ثابت قدم رہنا، سنو میں تمہیں اس کی ایسی صفت بتاتا ہوں جو کسی نبی نے اپنی امت کو نہیں بتائی۔ وہ ابتداء میں دعویٰ کرے گا کہ میں نبی ہوں، پس تم یاد رکھنا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں، پھر وہ اس سے بھی بڑھ جائے گا اور کہے گا میں اللہ ہوں، پس تم یاد رکھنا کہ اللہ کو ان آنکھوں سے کوئی نہیں دیکھ سکتا، ہاں مرنے کے بعد دیدار باری تعالیٰ ہوسکتا ہے اور سنو وہ کانا ہوگا اور تمہارا رب کانا نہیں، اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان " کافر " لکھا ہوگا جسے پڑھا لکھا اور ان پڑھ غرض ہر ایمان دار پڑھ لے گا۔ اس کے ساتھ آگ ہوگی اور باغ ہوگا اس کی آگ دراصل جنت ہوگی اور اس کا باغ دراصل جہنم ہوگا، سنو تم میں سے جسے وہ آگ میں ڈالے، وہ اللہ سے فریاد رسی چاہے اور سورة کہف کی ابتدائی آیتیں پڑھے، اس کی وہ آگ اس پر ٹھنڈک اور سلامتی بن جائے گی جیسے کہ خلیل اللہ پر نمرود کی آگ ہوگئی، اس کا ایک فتنہ یہ بھی ہوگا کہ وہ ایک اعرابی سے کہے گا کہ اگر میں تیرے مرے ہوئے باپ کو زندہ کر دوں تو تو مجھے رب مان لے گا وہ اقرار کرے گا، اتنے میں دو شیطان اسکی ماں اور باپ کی شکل میں ظاہر ہوں گے اور ان سے کہیں گے بیٹے یہی تیرا رب ہے تو اسے مان لے، اس کا ایک فتنہ یہ بھی ہوگا کہ وہ ایک شخص پر مسلط کردیا جائے گا اسے آرے سے چروا کردو ٹکڑے کروا دے گا، پھر لوگوں سے کہے گا میرے اس بندے کو دیکھنا اب میں اسے زندہ کر دوں گا، لیکن پھر بھی یہی کہے گا کہ اس کا رب میرے سوا اور ہے، چناچہ یہ اسے اٹھا بیٹھائے گا اور یہ خبیث اس سے پوچھے گا کہ تیرا رب کون ہے ؟ وہ جواب دے گا میرا رب اللہ ہے اور تو اللہ کا دشمن دجال ہے۔ اللہ کی قسم اب تو مجھے پہلے سے بھی بہت زیادہ یقین ہوگیا۔ دوسری سند سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا " یہ مومن میری تمام امت سے زیادہ بلند درجہ کا جنتی ہوگا۔ " حضرت ابو سعید خدری (رض) فرماتے ہیں اس حدیث کو سن کر ہمارا خیال تھا کہ یہ شخص حضرت عمر بن خطاب ہی ہوں گے آپ کی شہادت تک ہمارا یہی خیال رہا، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اس کا ایک فتنہ یہ بھی ہوگا کہ وہ آسمان کو پانی برسانے کا حکم دے گا اور آسمان سے بارش ہوگی، وہ زمین کو پیداوار اگانے کا حکم دے گا اور زمین سے پیداوار نکلے گی، اس کا ایک فتنہ یہ بھی ہوگا کہ وہ ایک قبیلے کے پاس جائے گا وہ اسے نہ مانیں گے، اسی وقت ان کی تمام چیزیں برباد اور ہلاک ہوجائیں گی، ایک اور قبیلے کے پاس جائے گا جو اسے خدا مان لے گا، اسی وقت اس کے حکم سے ان پر آسمان سے بارش برسے گی اور زمین پھل اور کھیتی اگائے گی، ان کے جانور پہلے سے زیادہ موٹے تازے اور دودھ والے ہوجائیں گے۔ سوائے مکہ اور مدینہ کے تمام کا گشت کرے گا، ان کے جانور پہلے سے زیادہ موٹے تازے اور دودھ والے ہوجائیں گے۔ سوائے مکہ اور مدینہ کے تمام زمین کا گشت کرے گا، جب مدینہ کا رخ کرے گا تو یہاں ہر ہر راہ پر فرشتوں کو کھلی تلواریں لئے ہوئے پائے گا تو ضریب کی انتہائی حد پر ضریب احمر کے پاس ٹھہر جائے گا، پھر مدینے میں تین بھونچال آئیں گے، اس وجہ سے جتنے منافق مرد اور جس قدر منافقہ عورتیں ہوں گی، سب مدینہ سے نکل کر اس کے لشکر میں مل جائیں گے اور مدینہ ان گندے لوگوں کو اس طرح اپنے میں سے دور پھینک دے گا جس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کو لاگ کردیتی ہے، اس دن کا نام یوم الخلاص ہوگا۔ " ام شریک (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس دن عرب کہاں ہوں گے ؟ فرمایا اولاً تو ہوں گے ہی بہت کم اور اکثریت ان کی بیت المقدس میں ہوگی، ان کا امام پچھلے پیروں پیچھے ہٹے گا تاکہ آپ آگے بڑھ کر امامت کرائیں لیکن آپ اس کی کمر پر ہاتھ رکھ کر فرمائیں گے کہ آگے بڑھو اور نماز پڑھاؤ، اقامت تمہارے لئے کی گی ہے پس ان کا امام ہی نماز پڑھائے گا، فارغ ہو کر آپ فرمائیں گے، دروازہ کھول دو ، پس کھول دیا جائے گا، ادھر دجال ستر ہزار یہودیوں کا لشکر لئے ہوئے موجود ہوگا، جن کے سر پر تاج اور جن کی تلواروں پر سونا ہوگا، دجال آپ کو دیکھ کر اس طرح گھلنے لگے گا جس طرح نمک پانی میں گھلتا ہے اور ایک دم پیٹھ پھیر کر بھاگنا شروع کر دے گا لیکن آپ فرمائیں گے اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ تو میرے ہاتھ سے ایک ضرب کھائے تو اسے ٹال نہیں سکتا۔ چناچہ آپ اسے مشرقی باب لد کے پاس پکڑ لیں گے اور وہیں اسے قتل کریں گے، اب یہودی بد حواسی سے منتشر ہو کر بھاگیں گے لیکن انہیں کہیں سر چھپانے کو جگہ نہ ملے گی، ہر پتھر ہر درخت ہر دیوار اور ہر جانور بولتا ہوگا کہ اے مسلمان یہاں یہودی ہے، آ اسے مار ڈال، ہاں ببول کا درخت یہودیوں کا درخت ہے یہ نہیں بولے گا۔ " حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اس کا رہنا چالیس سال تک ہوگا، سال آدھے سال کے برابر اور سال مہینہ بھر جیسا اور مہینہ جمعہ جیسا اور باقی دن مثل شرارہ کے۔