اَذٰلِكَ خَيْرٌ نُّزُلًا اَمْ شَجَرَةُ الزَّقُّوْمِ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
بولو، یہ ضیافت اچھی ہے یا زقوم کا درخت؟
English Sahih:
Is that [i.e., Paradise] a better accommodation or the tree of zaqqum?
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
بولو، یہ ضیافت اچھی ہے یا زقوم کا درخت؟
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
تو یہ مہمانی بھلی یا تھوہڑ کا پیڑ
احمد علی Ahmed Ali
کیا یہ اچھی مہمانی ہے یا تھوہر کا درخت
أحسن البيان Ahsanul Bayan
کیا یہ مہمانی اچھی ہے یا (زقوم) کا درخت (١)
٦٢۔١ زَ قوْم تَزَقْم سے نکلا ہے، جس کے معنی بدبودار اور کریہ چیز کے نکلنے کے ہیں۔ اس درخت کا پھل بھی کھانا اہل جہنم کے کے لئے سخت ناگوار ہوگا۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
بھلا یہ مہمانی اچھی ہے یا تھوہر کا درخت؟
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
کیا یہ مہمانی اچھی ہے یا سینڈھ (زقوم) کا درخت؟
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
کیا یہ ضیافت اچھی ہے یا زقوم کا درخت؟
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ذرا بتاؤ کہ یہ ن نعمتیں مہمانی کے واسطے بہتر ہیں یا تھوہڑ کا درخت
طاہر القادری Tahir ul Qadri
بھلا یہ (خُلد کی) مہمانی بہتر ہے یا زقّوم کا درخت،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
زقوم اور طوبی۔
جنت کی نعمتوں کا بیان فرما کر فرماتا ہے کہ اب لوگ خود فیصلہ کرلیں کہ وہ جگہ اور وہ نعمتیں بہتر ہیں ؟ یا زقوم کا درخت جو دوزخیوں کا کھانا ہے۔ ممکن ہے اس سے مراد خاص ایک ہی درخت ہو اور وہ تمام جہنم میں پھیلا ہوا ہو، جیسے طوبیٰ کا ایک درخت ہے جو جنت کے ایک ایک محل میں پہنچا ہوا ہے۔ اور ممکن ہے کہ مراد زقوم کے درخت کی جنس ہو اس کی تائید آیت ( لَاٰكِلُوْنَ مِنْ شَجَرٍ مِّنْ زَقُّوْمٍ 52 ۙ ) 56 ۔ الواقعة ;52) ، سے بھی ہوتی ہے۔ ہم نے اسے ظالموں کے لیے فتنہ بنایا ہے۔ حضرت فتادہ (رض) فرماتے ہیں شجرہ زقوم کا ذکر گمراہوں کے لیے فتنہ ہوگیا وہ کہنے لگے لو اور سنو آگ میں اور درخت ؟ آگ تو درخت جلا دینے والی ہے۔ یہ نبی کہتے ہیں جہنم میں درخت اگے گا۔ تو اللہ نے فرمایا ہاں یہ درخت آگ ہی سے پیدا ہوگا اور اس کی غذا بھی آگ ہی ہوگی۔ ابو جہل ملعون اسی پر ہنسی اڑاتا تھا اور کہتا تھا میں تو خوب مزے سے کھجور مکھن کھاؤں گا اسی کا نام زقوم ہے۔ الغرض یہ بھی ایک امتحان ہے بھلے لوگ تو اس سے ڈر گئے اور بروں نے اس کا مذاق اڑایا۔ جیسے فرمان ہے (وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِيْٓ اَرَيْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِي الْقُرْاٰنِ ۭ وَنُخَوِّفُهُمْ ۙ فَمَا يَزِيْدُهُمْ اِلَّا طُغْيَانًا كَبِيْرًا 60ۧ) 17 ۔ الإسراء ;60) ، جو منظر ہم نے تجھے دکھایا تھا وہ صرف اس لیے ہے کہ لوگوں کی آزمائش ہوجائے اور اسی طرح اس نامبارک درخت کا ذکر بھی۔ ہم تو انہیں دھمکا رہے ہیں مگر یہ نافرمانی میں بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ اس درخت کی اصل جڑ جہنم میں ہے۔ اس کے خوشے اور شاخیں بھیانک ڈراؤنی لمبی چوڑی دور دور شیطانوں کے سروں کی طرح پھیلی ہوئی ہیں۔ گو شیطان کو بھی کسی نے دیکھا نہیں لیکن اس کا نام سنتے ہی اس کی بد صورتی اور خباثت کا منظر سامنے آجاتا ہے، یہی حال اس درخت کا ہے کہ دیکھنے اور چکھنے میں ظاہر اور باطن میں بری چیز ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ سانپوں کی ایک قسم ہے جو بدترین بھیانک اور خوفناک شکل کے ہوتے ہیں۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ نبات کی ایک قسم ہے جو بہت بری طرح پھیل جاتی ہے۔ لیکن یہ دونوں احتمال درست نہیں ٹھیک بات وہی ہے جسے ہم نے پہلے ذکر کیا۔ اسی بد منظر بدبو بد ذائقہ بدمزہ بد خصال تھور کو انہیں جبراً کھانا پڑے گا۔ اور ٹھونس ٹھونس کر انہیں کھلایا جائے گا کہ یہ بجائے خود ایک زبردست عذاب ہے۔ اور آیت میں ہے ( لَيْسَ لَهُمْ طَعَامٌ اِلَّا مِنْ ضَرِيْعٍ ۙ ) 88 ۔ الغاشية ;6) ، ان کی خوراک وہاں صرف کانٹوں دار تھور ہوگا جو نہ انہیں فربہ کرسکے نہ بھوک مٹاسکے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آیت (اتقوا اللہ حق تقاتہ) کی تلاوت کرکے فرمایا اگر زقوم کا ایک قطرہ دنیا کے سمندروں میں پڑجائے توروئے زمین کے تمام لوگوں کی خوراکیں خراب ہوجائیں۔ اس کا کیا حال ہوگا جس کی خوراک ہی یہی ہوگا (ترمذی وغیرہ) پھر اس زقوم کے کھانے کے ساتھ ہی انہیں اوپر سے جہنم کا کھولتا گرم پانی پلایا جائے گا۔ یا یہ مطلب کہ اس جہنمی درخت کو جہنمی پانی کے ساتھ ملا کر انہیں کھلایا پلایا جائے گا۔ اور یہ گرم پانی وہ ہوگا جو جہنمیوں کے زخموں سے لہو پیپ وغیرہ کی شکل میں نکلا ہوگا اور جو ان کی آنکھوں سے اور پوشیدہ راستوں سے نکلا ہوا ہوگا۔ حدیث میں ہے کہ جب یہ پانی ان کے سامنے لایا جائے گا۔ انہیں سخت ایذاء ہوگی بڑی کراہیت آئے گی پھر جب وہ ان کے منہ کے پاس لایا جائے گا تو اس کی بھاپ سے اس کے چہرے کی کھال جھلس کر جھڑ جائے گی اور جب اس کا گھونٹ پیٹ میں جائے گا تو ان کی آنتیں کٹ کر پاخانے کے راستے سے باہر آجائیں گی (ابن ابی حاتم) حضرت سعید بن جیر (رض) فرماتے ہیں جب جہنمی بھوک کی شکایت کریں گے تو زقوم کھلایا جائے گا جس سے ان کے چہر کی کھالیں بالکل الگ ہو کر پڑیں گی۔ اس طرح انہیں پہچاننے والا اس میں ان کے منہ کی پوری کھال دیکھ کر پہچان سکتا ہے کہ یہ فلاں ہے۔ پھر پیاس کی شدت سے بیتاب ہو کر وہ ہائے وائے پکاریں گے تو انہیں پگھلے ہوئے تانبے جیسا گرم پانی دیا جائے گا جو چہرے کے سامنے آتے ہی چہرے کے گوشت کو جھلس دے گا اور تمام گوشت گرپڑے گا اور پیٹ میں جاکر آنتوں کو کاٹ دے گا۔ اوپر سے لوہے کے ہتھوڑے مارے جائیں گے اور ایک ایک عضو بدن الگ الگ جھڑ جائے گا، بری طرح چیختے پیٹتے ہوں گے۔ فیصلہ ہوتے ہی ان کا ٹھکانا جہنم ہوجائے گا جہاں طرح طرح کے عذاب ہوتے رہیں گے جیسے اور آیت میں ہے ( يَطُوْفُوْنَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ حَمِيْمٍ اٰنٍ 44ۚ ) 55 ۔ الرحمن ;44) جہنم اور آگ جیسے گرم پانی کے درمیان چکر کھاتے رہیں گے حضرت عبداللہ (رض) کی قرأت (ثم ان مقیلھم لا الی الجحیم) ہے حضرت عبداللہ (رض) کا فرمان ہے کہ واللہ آدھے دن سے پہلے ہی پہلے دونوں گروہ اپنی اپنی جگہ پہنچ جائیں گے اور وہیں قیلولہ یعنی دوپہر کا آرام کریں گے، قرآن فرماتا ہے ( اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ يَوْمَىِٕذٍ خَيْرٌ مُّسْتَــقَرًّا وَّاَحْسَنُ مَقِيْلًا 24) 25 ۔ الفرقان ;24) جنتی با عتبار جائے قیام کے بہت اچھے ہوں گے اور باعتبار آرام گاہ کے بھی بہت اچھے ہوں گے۔ الغرض قیلولے کا وقت دونوں کا اپنی اپنی جگہ ہوگا آدھے دن سے پہلے پہلے اپنی اپنی جگہ پہنچ جائیں گے۔ اس بنا پر یہاں ثم کا لفظ خبر پر خبر کے عطف کے لیے ہوگا۔ یہ اس کا بدلہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنے باپ دادوں کو گمراہ پایا۔ لیکن پھر بھی انہی کے نقش قدم پر چلتے رہے۔ مجبوروں اور بیوقوفوں کی طرح ان کے پیچھے ہولئے۔