اِنَّكُمْ لَذَاۤٮِٕقُوا الْعَذَابِ الْاَلِيْمِۚ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
(اب ان سے کہا جائے گا کہ) تم لازماً دردناک سزا کا مزا چکھنے والے ہو
English Sahih:
Indeed, you [disbelievers] will be tasters of the painful punishment,
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
(اب ان سے کہا جائے گا کہ) تم لازماً دردناک سزا کا مزا چکھنے والے ہو
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
بیشک تمہیں ضرور دکھ کی مار چکھنی ہے،
احمد علی Ahmed Ali
بے شک اب تم دردناک عذاب چکھو گے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
یقیناً تم دردناک عذاب (کا مزہ) چکھنے والے ہو۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
بےشک تم تکلیف دینے والے عذاب کا مزہ چکھنے والے ہو
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
یقیناً تم دردناک عذاب (کا مزه) چکھنے والے ہو
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
(اے مجرمو!) تم ضرور دردناک عذاب کا مزہ چکھنے والے ہو۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
بیشک تم سب دردناک عذاب کا مزہ چکھنے والے ہو
طاہر القادری Tahir ul Qadri
بے شک تم دردناک عذاب کا مزہ چکھنے والے ہو،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
متقیوں کے لیے نجات اور انعامات۔
اللہ تعالیٰ تمام لوگوں سے خطاب کر کے فرما رہا ہے کہ تم المناک عذاب چکھنے والے ہو۔ اور صرف اسی کا بدلہ دئیے جانے والے ہو جسے تم نے کیا دھرا ہے۔ پھر اپنے مخلص بندوں کو اس سے الگ کرلیتا ہے جیسے والعصر میں فرمایا کہ تمام انسان گھاٹے میں ہیں۔ مگر ایماندار نیک اعمال۔ اور سورة والتین میں فرمایا ہم نے انسان کو بہت اچھی پیدائش میں پیدا کیا پھر اسے نیچوں کا نیچ کردیا مگر جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال کئے۔ اور سورة مریم میں فرمایا ( وَاِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا ۚ كَانَ عَلٰي رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا 71ۚ ) 19 ۔ مریم ;71) ، تم میں سے ہر ایک جہنم پروارد ہونے والا ہے یہ تو تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے اور یہ ضروری چیز ہے لیکن پھر ہم متقیوں کو نجات دیں گے اور ظالموں کو اسی میں گرے پڑے چھوڑ دیں گے۔ سورة مدثر میں ارشاد ہوا ہے۔ ( كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ ۣثُمَّ اِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ 57) 29 ۔ العنکبوت ;57) ہر شخص اپنے اپنے اعمال میں مشغول ہے مگر وہ جن کے دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال آچکا ہے اسی طرح یہاں پر بھی اپنے خاص بندوں کا استثناء کرلیا کہ وہ المناک عذابوں سے حساب کے پھنساوے سے الگ ہیں بلکہ ان کی برائیوں سے درگذر فرمایا گیا ہے اور ان کی نیکیاں بڑھا چڑھا کر ایک کی دس دس گنی بلکہ سات سات سو گنی کرکے بلکہ اس سے بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر انہیں دی گئی ہیں۔ ان کے لیے مقررہ روزی اور وہ قسم قسم کے میوہ جات ہیں۔ وہ مخدوم ہیں، ذی عزت ہیں، ذی اکرام ہیں، ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں، بڑی آؤ بھگت ہوتی ہے، بڑا ادب لحاظ رکھا جاتا ہے۔ یہ نعمتوں سے پر جنتوں میں ہیں۔ وہاں کے تختوں پر اس طرح بیٹھے ہیں کہ کسی کی پیٹھ کسی کی طرف نہیں۔ ایک مرفوع غریب حدیث میں بھی ہے کہ اس آیت کی تلاوت کرکے آپ نے فرمایا ہر ایک کی نگاہیں دوسرے کے چہرے پر پڑیں گی، آمنے سامنے بیٹھے ہوئے ہوں گے۔ اس شراب کے دور ان میں چل رہے ہوں گے جو جاری ہے جس کے ختم ہوجانے کم ہوجانے کا مطلق اندیشہ نہیں۔ جو ظاہر باطن میں آراستہ ہے خوبیاں ہیں برائیاں نہیں۔ رنگ کی سفید مزے کی بہت اچھی لذیذ۔ نہ اس کے پینے سے سردرد ہو نہ بک جھک لگے، دنیا کی شراب میں یہ آفتیں تھیں پیٹ کا درد سر کا درد بیہوشی بد حواسی وغیرہ لیکن جنت کی شراب میں ان میں سے ایک برائی بھی موجود نہیں رہی۔ دیکھنے میں خوش رنگ، پینے میں لذیذ، فوائد میں اعلیٰ ، سرور و کیف میں عمدہ لیکن سدھ بدھ دور کردینے والی بد مست بنادینے والی نہیں، نہ بدبو دار نہ بد نظر نہ قابل نفرت۔ بلکہ خوشبو دار خوش رنگ خوش ذائق خوش فائدہ، اس کے پینے سے پیٹ میں درد نہیں ہوتا اور اس کی کثرت ضرر رساں نہیں خلاف طبع نہیں۔ سر بھاری نہیں ہوجاتا چکر نہیں آتے گرانی محسوس نہیں ہوتی۔ ہوش و حواس جاتے نہیں رہتے۔ کوئی ایذاء تکلیف قے متلی نہیں ہوتی۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں دنیا کی شراب میں چار برائیاں ہیں، نشہ، سردرد، قے اور پیشاب۔ جنت کی شراب ان تمام برائیوں سے پاک ہے دیکھ لو سورة الصافات۔ ان کے پاس نیچی نگاہوں والی شرمیلی نظروں والی پاک دامن عفیفہ حوریں ہیں جن کی نگاہ اپنے خاوندوں کے چہرے کے سوا کبھی کسی کے چہرے پر نہیں پڑتی اور نہ پڑیں گی۔ بڑی بڑی موٹی موٹی رسیلی آنکھیں ہیں حسن صورت حسن سیرت دونوں چیزیں ان میں موجود ہیں۔ جس طرح حضرت زلیخا نے حضرت یوسف (علیہ السلام) میں یہ دونوں خوبیاں دیکھیں۔ عورتوں نے جب انہیں طعنے دینے شروع کئے تو ایک دن سب کو بلا کر بٹھالیا اور حضرت یوسف کا پورا بناؤ سنگھار کراکر بلایا عورتوں کی نگاہیں ان کے جمال کو دیکھ کر خیرہ ہوگئیں اور بےساختہ ان کے منہ سے نکل گیا کہ یہ تو فرشتہ ہیں۔ اسی وقت کہا یہی تو ہیں جن کے بارے میں تم سب مجھے ملامت کر رہی تھیں واللہ میں نے ان کو ہرچند اپنی طرف مائل کرنا چاہا لیکن یہ پاک دامن ہی رہا۔ یہ باوجود جمال ظاہری کے حسن باطنی بھی رکھتا ہے۔ بڑا پاکباز امین پارسا متقی پرہیزگار ہے اسی طرح حوریں ہیں کہ جمال ظاہری کے ساتھ ہی باطنی خوبی بھی اپنے اندر رکھتی ہیں۔ پھر ان کا مزید حسن بیان ہو رہا ہے کہ ان کا گورا گورا جسم اور بھبوکا سا رنگ ایسا چمکیلا دلکش اور جاذب نظر ہے کہ گویا محفوظ موتی۔ جس تک کسی کا ہاتھ نہ پہنچا ہو، جو سیپ سے نہ نکلا ہو جسے زمانے کی ہوا نہ لگی ہو جو اپنی آبداری میں بےمثل ہو ایسے ہی انکے اچھوتے جسم ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ گویا وہ انڈے کی طرح ہیں۔ انڈے کے اوپر کے چھلکے کے نیچے چھوٹے چھلکے جیسے ان کے بدن ہیں۔ ایک حدیث میں ام سلمہ (رض) کے سوال پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حور عین سے مراد بہت بڑی آنکھوں والی سیاہ پلکوں والی حوریں ہیں۔ پھر پوچھا بیض مکنون سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا انڈے کے اندر کی سفید جھلی۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جب لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے تو سب سے پہلے میں کھڑا کیا جاؤن گا اور جبکہ وہ جناب باری میں پیش ہوں گے تو میں ان کا خطیب بنوں گا اور جب وہ غمگین ہو رہے ہوں گے تو میں انہیں خوشخبریاں سنانے والا ہوں گا اور ان کا سفارشی بنوں گا جب کہ یہ رکے ہوئے ہوں گے۔ حمد کا جھنڈا اس دن میرے ہاتھ میں ہوگا۔ حضرت آدم کی اولاد میں سے سب سے زیادہ اللہ کے ہاں اکرام و عزت والا میں ہوں یہ میں بطور فخر کے نہیں کہہ رہا۔ میرے آگے پیچھے قیام کے دن ایک ہزار خادم گھوم رہے ہوں گے جو مثل چھپے ہوئے انڈوں یا اچھوت موتیوں کے ہوں گے واللہ اعلم بالصواب۔