وَالصّٰٓفّٰتِ صَفًّا ۙ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
قطار در قطار صف باندھنے والوں کی قسم
English Sahih:
By those [angels] lined up in rows
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
قطار در قطار صف باندھنے والوں کی قسم
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
قسم ان کی کہ باقاعدہ صف باندھیں
احمد علی Ahmed Ali
صف باندھ کر کھڑے ہونے والو ں کی قسم ہے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
قسم صف باندھنے والے (فرشتوں) کی۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
قسم ہے صف باندھنے والوں کی پرا جما کر
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
قسم ہے صف باندھنے والے (فرشتوں) کی
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
باقاعدہ طور پر صف باندھنے والی ہستیوں کی قسم۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
باقاعدہ طور پر صفیں باندھنے والوں کی قسم
طاہر القادری Tahir ul Qadri
قسم ہے قطار در قطار صف بستہ جماعتوں کی،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
فرشتوں کا تذکرہ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں ان تینوں قسموں سے مراد فرشتے ہیں۔ اور بھی اکثر حضرات کا یہی قول ہے۔ حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں فرشتوں کی صفیں آسمانوں پر ہیں۔ مسلم میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں ہمیں سب لوگوں پر تین باتوں میں فضیلت دی گئی ہے۔ ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں جیسی کی گئی ہیں۔ ہمارے لیے ساری زمین مسجد بنادی گئی ہے۔ اور پانی کے نہ ملنے کے وقت زمین کی مٹی ہمارے لیے وضو کے قائم مقام کی گئی ہے۔ مسلم وغیرہ میں ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے ہم سے فرمایا تم اس طرح صفیں نہیں باندھتے جس طرح فرشتے اپنے رب کے سامنے صف بستہ کھڑے ہوتے ہیں۔ ہم نے کہا وہ کس طرح ؟ آپ نے فرمایا اگلی صفوں کو وہ پورا کرتے جاتے ہیں اور صفیں بالکل ملا لیا کرتے ہیں۔ ڈانٹنے والوں سے مراد سدی (رح) وغیرہ کے نزدیک ابر اور بادل کو ڈانٹ کر احکام دے کر ادھر سے ادھر لے جانے والے فرشتے ہیں۔ ربیع بن انس وغیرہ فرماتے ہیں قرآن جس چیز سے روکتا ہے وہ اسی سے بندش کرتے ہیں۔ ذکر اللہ کی تلاوت کرنے والے فرشتے وہ ہیں جو اللہ کا پیغام بندوں کے پاس لاتے ہیں جیسے فرمان ہے ( فَالْمُلْقِيٰتِ ذِكْرًا ۙ ) 77 ۔ المرسلات ;5) یعنی وحی اتارنے والے فرشتوں کی قسم جو عذر کو ٹالنے یا آگاہ کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ ان قسموں کے بعد جس چیز پر یہ قسمیں کھائی گئی ہیں اس کا ذکر ہو رہا ہے کہ تم سب کا معبود برحق ایک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ وہی آسمان و زمین کا اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کا مالک و متصرف ہے۔ اسی نے آسمان میں ستارے اور چاند سورج کو مسخر کر رکھا ہے، جو مشرق سے ظاہر ہوتے ہیں مغرب میں غروب ہوتے ہیں۔ مشرقوں کا ذکر کرکے مغربوں کا ذکر اس کی دلالت موجود ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیا۔ دوسری آیت میں ذکر کر بھی دیا ہے فرمان ہے ( رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ 17ۚ ) 55 ۔ الرحمن ;17) یعنی جاڑے گرمیوں کی طلوع و غروب کی جگہ کا رب وہی ہے۔