وَاِذَا قِيْلَ لَهُمُ اتَّقُوْا مَا بَيْنَ اَيْدِيْكُمْ وَمَا خَلْفَكُمْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
اِن لوگوں سے جب کہا جاتا ہے کہ بچو اُس انجام سے جو تمہارے آگے آ رہا ہے اور تمہارے پیچھے گزر چکا ہے، شاید کہ تم پر رحم کیا جائے (تو یہ سنی اَن سنی کر جاتے ہیں)
English Sahih:
But when it is said to them, "Beware of what is before you and what is behind you; perhaps you will receive mercy..."
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
اِن لوگوں سے جب کہا جاتا ہے کہ بچو اُس انجام سے جو تمہارے آگے آ رہا ہے اور تمہارے پیچھے گزر چکا ہے، شاید کہ تم پر رحم کیا جائے (تو یہ سنی اَن سنی کر جاتے ہیں)
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اور جب ان سے فرمایا جاتا ہے ڈرو تم اس سے جو تمہارے سامنے ہے اور جو تمہارے پیچھے آنے والا ہے اس امید پر کہ تم پر مہر ہو تو منہ پھیر لیتے ہیں،
احمد علی Ahmed Ali
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اپنے سامنے اور پیچھے آنے والے عذاب سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
اور ان سے جب (کبھی) کہا جاتا ہے کہ اگلے پچھلے (گناہوں) سے بچو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو تمہارے آگے اور جو تمہارے پیچھے ہے اس سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
اور ان سے جب (کبھی) کہا جاتا ہے کہ اگلے پچھلے (گناہوں) سے بچو تاکہ تم پر رحم کیا جائے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ڈرو اس (انجام و عذاب) سے جو تمہارے آگے ہے اور اس سے ڈرو جو تمہارے پیچھے ہے کہ تم پر رحم کیا جائے (تو وہ اس کی پرواہ نہیں کرتے)۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس عذاب سے ڈرو جو سامنے یا پیچھے سے آسکتا ہے شاید کہ تم پر رحم کیا جائے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ تم اس (عذاب) سے ڈرو جو تمہارے سامنے ہے اور جو تمہارے پیچھے ہے تاکہ تم پر رحم کیا جائے،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
کفار کا تکبر۔
کافروں کی سرکشی نادانی اور عناد تکبر بیان ہو رہا ہے کہ جب ان سے گناہوں سے بچنے کو کہا جاتا ہے کہ جو کرچکے ان پر نادم ہوجاؤ ان سے توبہ کرلو اور آئندہ کے لئے ان سے احتیاط کرو۔ اس سے اللہ تم پر رحم فرمائے گا اور تمہیں اپنے عذابوں سے بچا لے گا۔ تو وہ اس پر کار بند ہوا تو ایک طرف اور منہ پھلا لیتے ہیں، قرآن نے اس جملے کو بیان نہیں فرمایا کیونکہ آگے جو آیت ہے وہ اس پر صاف طور سے دلالت کرتی ہے۔ اس میں ہے کہ یہی ایک بات کیا ؟ ان کی تو عادت ہوگئی ہے کہ اللہ کی ہر بات سے منہ پھیر لیں۔ نہ اسکی توحید کو مانتے ہیں نہ رسولوں کو سچا جانتے ہیں نہ ان میں غور و خوض کی عادت نہ ان میں قبولیت کا مادہ، نہ نفع کو حاصل کرنے کا ملکہ۔ ان کو جب کبھی اللہ کی راہ میں خیرات کرنے کو کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو تمہیں دیا ہے اس میں فقراء مساکین اور محتاجوں کا حصہ بھی ہے۔ تو یہ جواب دیتے ہیں کہ اگر اللہ کا ارادہ ہوتا تو ان غریبوں کو خود ہی دیتا، جب اللہ ہی کا ارادہ انہیں دینے کا نہیں تو ہم اللہ کے ارادے کے خلاف کیوں کریں ؟ تم جو ہمیں خیرات کی نصیحت کر رہے ہو اس میں بالکل غلطی پر ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ پچھلہ جملہ کفار کی تردید میں اللہ کی طرف سے ہو۔ یعنی اللہ تعالیٰ ان کفار سے فرما رہا ہے کہ تم کھلی گمراہی میں ہو لیکن ان سے یہی اچھا معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی کفار کے جواب کا حصہ ہے۔ واللہ اعلم۔