Skip to main content

قَالُـوْۤا اِنَّا تَطَيَّرْنَا بِكُمْۚ لَٮِٕنْ لَّمْ تَنْتَهُوْا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَلَيَمَسَّنَّكُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِيْمٌ

They said
قَالُوٓا۟
انہوں نے کہا
"Indeed we
إِنَّا
بیشک ہم
[we] see an evil omen
تَطَيَّرْنَا
منحوس سمجھتے ہیں ہم /فال بد سمجھتے ہیں ہم
from you
بِكُمْۖ
تم کو
If
لَئِن
البتہ اگر
not
لَّمْ
نہیں
you desist
تَنتَهُوا۟
تم باز آئے
surely we will stone you
لَنَرْجُمَنَّكُمْ
البتہ ہم ضرور سنگسار کردیں گے تم کو
and surely will touch you
وَلَيَمَسَّنَّكُم
اور البتہ ضرور چھوئے گا تم کو
from us
مِّنَّا
ہماری طرف سے
a punishment
عَذَابٌ
عذاب
painful"
أَلِيمٌ
درد ناک

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

بستی والے کہنے لگے "ہم تو تمہیں اپنے لیے فال بد سمجھتے ہیں اگر تم باز نہ آئے تو ہم تم کو سنگسار کر دیں گے اور ہم سے تم بڑی دردناک سزا پاؤ گے"

English Sahih:

They said, "Indeed, we consider you a bad omen. If you do not desist, we will surely stone you, and there will surely touch you, from us, a painful punishment."

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

بستی والے کہنے لگے "ہم تو تمہیں اپنے لیے فال بد سمجھتے ہیں اگر تم باز نہ آئے تو ہم تم کو سنگسار کر دیں گے اور ہم سے تم بڑی دردناک سزا پاؤ گے"

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

بولے ہم تمہیں منحوس سمجھتے ہیں بیشک اگر تم باز نہ آئے تو ضرور ہم تمہیں سنگسار کریں گے بیشک ہمارے ہاتھوں تم پر دکھ کی مار پڑے گی،

احمد علی Ahmed Ali

انہوں نے کہا ہم نے تو تمہیں منحوس سمجھا ہے اگر تم باز نہ آؤ گے توہم تمہیں سنگسار کر دیں گے اور تمہیں ہمارے ہاتھ سے ضرور دردناک عذاب پہنچے گا

أحسن البيان Ahsanul Bayan

انہوں نے کہا کہ ہم تم کو منحوس سمجھتے ہیں (١) اگر تم باز نہ آئے تو ہم پتھروں سے تمہارا کام تمام کر دیں گے اور تم کو ہماری طرف سے سخت تکلیف پہنچے گی۔

١٨۔١ ممکن ہے کچھ لوگ ایمان لے آئے ہوں اور ان کی وجہ سے قوم دو گروہوں میں بٹ گئی ہو، جس کو انہوں نے رسولوں کی نَعْوذُ بِاللّٰہِ نحوست قرار دیا۔ یا بارش کا سلسلہ موقوف رہا ہو تو وہ سمجھے ہوں کہ یہ ان رسولوں کی نحوست ہے۔ نَعْوذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ، جیسے آج کل بھی بد نہاد اور دین وشریعت سے بےبہرہ لوگ، اہل ایمان وتقوی کو ہی، منحوس، سمجھتے ہیں۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

وہ بولے کہ ہم تم کو نامبارک سمجھتے ہیں۔ اگر تم باز نہ آؤ گے تو ہم تمہیں سنگسار کردیں گے اور تم کو ہم سے دکھ دینے والا عذاب پہنچے گا

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

انہوں نے کہا کہ ہم تو تم کو منحوس سمجھتے ہیں۔ اگر تم باز نہ آئے تو ہم پتھروں سے تمہارا کام تمام کردیں گے اور تم کو ہماری طرف سے سخت تکلیف پہنچے گی

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

تو بستی والوں نے کہا کہ ہم تو تمہیں اپنے لئے فالِ بد سمجھتے ہیں (کہ تمہارے آنے سے قحط پڑ گیا ہے) اگر تم باز نہ آئے تو ہم تمہیں سنگسار کر دیں گے اور ہماری طرف سے تمہیں دردناک سزا ملے گی۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

ان لوگوں نے کہا کہ ہمیں تم منحوس معلوم ہوتے ہو اگر اپنی باتوں سے باز نہ آؤ گے تو ہم سنگسار کردیں گے اور ہماری طرف سے تمہیں سخت سزا دی جائے گی

طاہر القادری Tahir ul Qadri

(بستی والوں نے) کہا: ہمیں تم سے نحوست پہنچی ہے اگر تم واقعی باز نہ آئے تو ہم تمہیں یقیناً سنگ سار کر دیں گے اور ہماری طرف سے تمہیں ضرور دردناک عذاب پہنچے گا،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

انبیاء و رسل سے کافروں کا رویہ ٭
ان کافروں نے ان رسولوں سے کا کہ تمہارے آنے سے ہمیں کوئی برکت و خیریت تو ملی نہیں۔ بلکہ اور برائی اور بدی پہنچی۔ تم ہو ہی بدشگون اور تم جہاں جاؤ گے بلائیں برسیں گی۔ سنو اگر تم اپنے اس طریقے سے باز نہ آئے اور یہی کہتے رہے تو ہم تمہیں سنگسار کردیں گے۔ اور سخت المناک سزائیں دیں گے رسولوں نے جواب دیا کہ تم خود بدفطرت ہو۔ تمہارے اعمال ہی برے ہیں اور اسی وجہ سے تم پر مصیبتیں آتی ہیں۔ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔ یہی بات فرعونیوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے مومنوں سے کہی تھی۔ جب انہیں کوئی راحت ملتی تو کہتے ہم تو اس کے مستحق ہی تھے۔ اور اگر کوئی رنج پہنچتا تو حضرت موسیٰ اور مومنوں کی بدشگونی پر اسے محمول کرتے۔ جس کے جواب میں جناب باری نے فرمایا یعنی ان کی مصیبتوں کی وجہ ان کے بد اعمال ہیں جن کا وبال ہماری جانب سے انہیں پہنچ رہا ہے۔ قوم صالح نے بھی اپنے نبی سے یہی کہا تھا اور یہی جواب پایا تھا۔ خود جناب پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی یہی کہا گیا ہے جیسا کہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے یعنی اگر ان کافروں کو کوئی نفع ہوتا ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر کوئی نقصان ہوتا ہے تو کہتے ہیں یہ تیری طرف سے ہے تہ کہہ دیجیے کہ سب کچھ اللہ کی جانب سے ہے۔ انہیں کیا ہوگیا ہے کہ ان سے یہ بات بھی نہیں سمجھی جاتی ؟ پھر فرماتا ہے کہ صرف اس وجہ سے کہ ہم نے تمہیں نصیحت کی، تمہاری خیر خواہی کی، تمہیں بھلی راہ سمجھائی۔ تمہیں اللہ کی توحید کی طرف رہنمائی کی تمہیں اخلاص و عبادت کے طریقے سکھائے تم ہمیں منحوس سمجھنے لگے ؟ اور ہمیں اس طرح ڈرانے دھمکانے لگے ؟ اور خوفزدہ کرنے لگے ؟ اور مقابلہ پر اتر آئے ؟ حقیقت یہ ہے کہ تم فضول خرچ لوگ ہو۔ حدود الہیہ سے تجاوز کر جاتے ہو۔ ہمیں دیکھو کہ ہم تمہاری بھلائی چاہیں۔ تمہیں دیکھو کہ تم ہم سے برائی سمجھو۔ بتاؤ تو بھلا یہ کوئی انصاف کی بات ہے ؟ افسوس تم انصاف کے دائرے سے نکل گئے۔