يٰۤـاَيُّهَا النَّبِىُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۤءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ۗ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
اے نبیؐ، اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے
English Sahih:
O Prophet, tell your wives and your daughters and the women of the believers to bring down over themselves [part] of their outer garments. That is more suitable that they will be known and not be abused. And ever is Allah Forgiving and Merciful.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
اے نبیؐ، اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اے نبی! اپنی بیبیوں اور صاحبزادیو ں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادو کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں یہ اس سے نزدیک تر ہے کہ ان کی پہچان ہو تو ستائی نہ جائیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے،
احمد علی Ahmed Ali
اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے مونہوں پر نقاب ڈالا کریں یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ پہچانی جائیں پھر نہ ستائی جائیں اور الله بخشنے والا نہایت رحم والا ہے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
اے نبی! اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر چادریں لٹکایا کریں۔ (۱) اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر نہ ستائی جائیں گی (۲) اور اللہ تعالٰی بخشنے والا مہربان ہے۔
۵۹۔۱جلابیب، جلباب کی جمع ہے جو ایسی بڑی چادر کو کہتے ہیں جس سے پورا بدن ڈھک جائے اپنے اوپر چادر لٹکانے سے مراد اپنے چہرے پر اس طرح گھونگٹ نکالنا ہے کہ جس سے چہرے کا بیشتر حصہ بھی چھپ جائے اور نظریں جھکا کر چلنے سے اسے راستہ بھی نظر آتا جائے پاک وہند یا دیگر اسلامی ممالک میں برقعے کی جو مختلف صورتیں ہیں عہد رسالت میں یہ برقعے عام نہیں تھے پھر بعد میں معاشرت میں وہ سادگی نہیں رہی جو عہد رسالت اور صحابہ وتابعین کے دور میں تھی عورتیں نہایت سادہ لباس پہنتی تھیں بناؤ سنگھار اور زیب وزینت کے اظہار کا کوئی جذبہ ان کے اندر نہیں ہوتا تھا اس لیے ایک بڑی چادر سے بھی پردے کے تقاضے پورے ہوجاتے تھے لیکن بعد میں یہ سادگی نہیں رہی اس کی جگہ تجمل اور زینت نے لے لی اور عورتوں کے اندر زرق برق لباس اور زیورات کی نمائش عام ہوگئی جس کی وجہ سے چادر سے پردہ کرنا مشکل ہوگیا اور اس کی جگہ مختلف انداز کے برقعے عام ہوگئے گو اس سے بعض دفعہ عورت کو بالخصوص سخت گرمی میں کچھ دقت بھی محسوس ہوتی ہے لیکن یہ ذرا سی تکلیف شریعت کے تقاضوں کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہں رکھتی تاہم جو عورت برقعے کے بجائے پردے کے لیے بڑی چادر استعمال کرتی ہے اور پورے بدن کو ڈھانکتی اور چہرے پر صحیح معنوں میں گھونگٹ نکالتی ہے وہ یقینا پردے کے حکم کو بجالاتی ہے کیونکہ برقعہ ایسی لازمی شئی نہیں ہے جسے شریعت نے پردے کے لیے لازمی قرار دیا ہو لیکن آج کل عورتوں نے چادر کو بےپردگی اختیار کرنے کا ذریعہ بنالیا ہے پہلے وہ برقعے کی جگہ چادر اوڑھنا شروع کرتی ہیں پھر چادر بھی غائب ہوجاتی ہے صرف دوپٹہ رہ جاتا ہے اور بعض عورتوں کے لیے اس کا لینا بھی گراں ہوتا ہے۔ صورت حال کو دیکھتے ہوئے کہنا پڑتا ہے کہ اب برقع کا استعمال ہی صحیح ہے کیونکہ جب سے برقعے کی جگہ چادر نے لے لی ہے بےپردگی عام ہوگئ ہے بلکہ عورتیں نیم برہنگی پر بھی فخر کرنے لگی ہیں انا للہ وانا الیہ راجعون بہرحال اس آیت میں نبی کی بیویوں، بیٹیوں اور عام مومن عورتوں کو گھر سے باہر نکلتے وقت پردے کا حکم دیا گیا جس سے واضح ہے کہ پردے کا حکم علماء کا ایجاد کردہ نہیں ہے جیسا کہ آج کل بعض لوگ باور کراتے ہیں یا اس کو قرار واقعی اہمیت نہیں دیتے بلکہ یہ اللہ کا حکم ہے جو قرآن کریم کی نص سے ثابت ہے۔ اس سے اعراض، انکار اور بےپردگی پر اصرار کفر تک پہنچا سکتا ہے دوسری بات اس سے یہ معلوم ہوئی کہ نبی کی ایک بیٹی نہیں تھی جیسا کہ رافضیوں کا عقیدہ ہے بلکہ آپ کی ایک سے زائد بیٹیاں تھیں جیسا کہ نص قرآنی سے واضح ہے اور یہ چار تھیں جیسا کہ تاریخ و سیرت اور احادیث کی کتابوں سے ثابت ہے۔
٥٩۔۲ یہ پردے کی حکمت اور اس کے فائدے کا بیان ہے کہ اس سے ایک شریف زادی اور باحیا عورت اور بےشرم اور بدکار عورت کے درمیان پہچان ہوگی۔ پردے سے معلوم ہوگا کہ یہ خاندانی عورت ہے جس سے چھیڑ خانی کی جرات کسی کو نہیں ہوگی۔ اس کے برعکس بےپردہ عورت اوباشوں کی نگاہوں کا مرکز اور ان کی ابو الہوسی کا نشانہ بنے گی
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
اے پیغمبر اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ (باہر نکلا کریں تو) اپنے (مونہوں) پر چادر لٹکا (کر گھونگھٹ نکال) لیا کریں۔ یہ امر ان کے لئے موجب شناخت (وامتیاز) ہوگا تو کوئی ان کو ایذا نہ دے گا۔ اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
اے نبی! اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتیں سے کہہ دو کہ وه اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں، اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر نہ ستائی جائیں گی، اور اللہ تعالیٰ بخشنے واﻻ مہربان ہے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
اے نبی(ص)! آپ اپنی بیویوں، بیٹیوں اور (عام) اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ (باہر نکلتے وقت) اپنے اوپر چادر (بطور گھونگھٹ) لٹکا لیا کریں یہ طریقہ قریب تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں اور ستائی نہ جائیں اور اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اے پیغمبر آپ اپنی بیویوں, بیٹیوں, اور مومنین کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی چادر کو اپنے اوپر لٹکائے رہا کریں کہ یہ طریقہ ان کی شناخت یا شرافت سے قریب تر ہے اور اس طرح ان کو اذیت نہ دی جائے گی اور خدا بہت بخشنے والا اور مہربان ہے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دیں کہ (باہر نکلتے وقت) اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں، یہ اس بات کے قریب تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں (کہ یہ پاک دامن آزاد عورتیں ہیں) پھر انہیں (آوارہ باندیاں سمجھ کر غلطی سے) ایذاء نہ دی جائے، اور اللہ بڑا بخشنے والا بڑا رحم فرمانے والا ہے،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
تمام دنیا کی عورتوں سے بہتر و افضل کون ؟
اللہ تعالیٰ اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تسلیما کو فرماتا ہے کہ آپ مومن عورتوں سے فرما دیں بالخصوص اپنی بیویوں اور صاحبزادیوں سے کیونکہ وہ تمام دنیا کی عورتوں سے بہتر و افضل ہیں کہ وہ اپنی چادریں قدریں لٹکالیا کریں تاکہ جاہلیت کی عورتوں سے ممتاز ہوجائیں اسی طرح لونڈیوں سے بھی آزاد عورتوں کی پہچان ہوجائے۔ جلباب اس چادر کو کہتے ہیں جو عورتیں اپنی دوپٹیا کے اوپر ڈالتی ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ مسلمان عورتوں کو حکم دیتا ہے کہ جب وہ اپنے کسی کام کاج کیلئے باہر نکلیں تو جو چادر وہ اوڑھتی ہیں اسے سر پر سے جھکا کر منہ ڈھک لیا کریں، صرف ایک آنکھ کھلی رکھیں۔ امام محمد بن سیرین (رح) کے سوال پر حضرت عبیدہ سلمانی (رح) نے اپنا چہرہ اور سر ڈھانک کر اور بائیں آنکھ کھلی رکھ کر بتادیا کہ یہ مطلب اس آیت کا ہے۔ حضرت عکرمہ (رح) کا قول ہے کہ اپنی چادر سے اپنا گلا تک ڈھانپ لے۔ حضرت ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں اس آیت کے اترنے کے بعد انصار کی عورتیں جب نکلتی تھیں تو اس طرح لکی چھپی چلتی تھیں گویا ان کے سروں پر پرند ہیں سیاہ چادریں اپنے اوپر ڈال لیا کرتی تھیں۔ حضرت زہری سے سوال ہوا کہ کیا لونڈیاں بھی چادر اوڑھیں ؟ خواہ خاوندوں والیاں ہوں یا بےخاوند کی ہوں ؟ فرمایا دوپٹیا تو ضرور اوڑھیں اگر وہ خاوندوں والیاں ہوں اور چادر نہ اوڑھیں تاکہ ان میں اور آزاد عورتوں میں فرق رہے حضرت سفیان ثوری سے منقول ہے کہ ذمی کافروں کی عورتوں کی زینت کا دیکھنا صرف خوف زنا کی وجہ سے ممنوع ہے نہ کہ ان کی حرمت و عزت کی وجہ سے کیونکہ آیت میں مومنوں کی عورتوں کا ذکر ہے۔ چادر کا لٹکانا چونکہ علامت ہے آزاد پاک دامن عورتوں کی اس لئے یہ چادر کے لٹکانے سے پہچان لی جائیں گی کہ یہ نہ واہی عورتیں ہیں نہ لونڈیاں ہیں۔ سدی کا قول ہے کہ فاسق لوگ اندھیری راتوں میں راستے سے گزرنے والی عورتوں پر آوازے کستے تھے اس لئے یہ نشان ہوگیا کہ گھر گر ہست عورتوں اور لونڈیوں بانڈیوں وغیرہ میں تمیز ہوجائے اور ان پاک دامن عورتوں پر کوئی لب نہ ہلاسکے۔ پھر فرمایا کہ جاہلیت کے زمانے میں جو بےپردگی کی رسم تھی جب تم اللہ کے اس حکم کے عامل بن جاؤ گے تو اللہ تعالیٰ تمام اگلی خطاؤں سے درگزر فرمالے گا اور تم پر مہر و کرم کرے گا، پھر فرماتا ہے کہ اگر منافق لوگ اور بدکار اور جھوٹی افواہیں دشمنوں کی چڑھائی وغیرہ کی اڑانے والے اب بھی باز نہ آئے اور حق کے طرفدار نہ ہوئے تو ہم اے نبی تجھے ان پر غالب اور مسلط کردیں گے۔ پھر تو وہ مدینے میں ٹھہر ہی نہیں سکیں گے۔ بہت جلد تباہ کردیے جائیں گے اور جو کچھ دن ان کے مدینے کی اقامت سے گزریں گے وہ بھی لعنت و پھٹکار میں ذلت اور مار میں گزریں گے۔ ہر طرف سے دھتکارے جائیں گے، راندہ درگاہ ہوجائیں گے، جہاں جائیں گے گرفتار کئے جائیں گے اور بری طرح قتل کئے جائیں گے۔ ایسے کفار و منافقین پر جبکہ وہ اپنی سرکشی سے باز نہ آئیں مسلمانوں کو غلبہ دینا ہماری قدیمی سنت ہے جس میں نہ کبھی تغیر و تبدل ہوا نہ اب ہو۔