مَا جَعَلَ اللّٰهُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَيْنِ فِىْ جَوْفِهٖ ۚ وَمَا جَعَلَ اَزْوَاجَكُمُ الّٰۤـئِْ تُظٰهِرُوْنَ مِنْهُنَّ اُمَّهٰتِكُمْ ۚ وَمَا جَعَلَ اَدْعِيَاۤءَكُمْ اَبْنَاۤءَكُمْ ۗ ذٰ لِكُمْ قَوْلُـكُمْ بِاَ فْوَاهِكُمْ ۗ وَاللّٰهُ يَقُوْلُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِى السَّبِيْلَ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
اللہ نے کسی شخص کے دھڑ میں دو دِل نہیں رکھے ہیں، نہ اس نے تم لوگوں کی اُن بیویوں کو جن سے تم ظہار کرتے ہو تمہاری ماں بنا دیا ہے، اور نہ اس نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا بنایا ہے یہ تو وہ باتیں ہیں جو تم لوگ اپنے منہ سے نکال دیتے ہو، مگر اللہ وہ بات کہتا ہے جو مبنی بر حقیقت ہے، اور وہی صحیح طریقے کی طرف رہنمائی کرتا ہے
English Sahih:
Allah has not made for a man two hearts in his interior. And He has not made your wives whom you declare unlawful your mothers. And He has not made your claimed [i.e., adopted] sons your [true] sons. That is [merely] your saying by your mouths, but Allah says the truth, and He guides to the [right] way.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
اللہ نے کسی شخص کے دھڑ میں دو دِل نہیں رکھے ہیں، نہ اس نے تم لوگوں کی اُن بیویوں کو جن سے تم ظہار کرتے ہو تمہاری ماں بنا دیا ہے، اور نہ اس نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا بنایا ہے یہ تو وہ باتیں ہیں جو تم لوگ اپنے منہ سے نکال دیتے ہو، مگر اللہ وہ بات کہتا ہے جو مبنی بر حقیقت ہے، اور وہی صحیح طریقے کی طرف رہنمائی کرتا ہے
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اللہ نے کسی آدمی کے اندر دو دل نہ رکھے اور تمہاری ان عورتوں کو جنہیں تم کے برابر کہہ دو تمہاری ماں نہ بنایا اور نہ تمہارے لے پالکوں کو تمہارا بیٹا بنایا یہ تمہارے اپنے منہ کا کہنا ہے اور اللہ حق فرماتا ہے اور وہی راہ دکھاتا ہے
احمد علی Ahmed Ali
الله نے کسی شخص کے سینہ میں دو دل نہیں بنائے اور نہ الله نے تمہاری ان بیویوں کوجن سے تم اظہار کرتے ہو تمہاری ماں بنایا ہے اور نہ تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا بیٹا بنایا ہے یہ تمہارے منہ کی بات ہے اور الله سچ فرماتا ہے اور وہی سیدھا راستہ بتاتا ہے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
کسی آدمی کے سینے میں اللہ تعالٰی نے دو دل نہیں رکھے اور اپنی جن بیویوں کو تم ماں کہہ بیٹھے ہو انہیں اللہ نے تمہاری (سچ مچ کی) مائیں نہیں (۲) بنایا، اور نہ تمہارے لے پالک لڑکوں کو (واقعی) تمہارے بیٹے بنایا (۳) یہ تو تمہارے اپنے منہ کی باتیں ہیں (٤) اللہ تعالٰی حق بات فرماتا ہے (۵) اور وہ سیدھی راہ سمجھاتا ہے۔
٤۔١ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک منافق یہ دعوی کرتا تھا کہ اس کے دو دل ہیں۔ ایک دل مسلمانوں کے ساتھ ہے اور دوسرا دل کفر اور کافروں کے ساتھ ہے۔ یہ آیت اس کی تردید میں نازل ہوئی۔ مطلب یہ ہے کہ مشرکین مکہ میں سے ایک شخص جمیل بن معمر فہر تھا، جو بڑا ہوشیار مکار اور نہایت تیز طرار تھا، اس کا دعوی تھا کہ میرے تو دو دل ہیں جن سے میں سوچتا سمجھتا ہوں۔ جب کہ محمد کا ایک ہی دل ہے۔ یہ آیت اس کے رد میں نازل ہوئی۔ (ایسر التفاسیر) بعض مفسرین کہتے ہیں کہ آگے جو دو مسئلے بیان کیے جا رہے ہیں، یہ ان کی تمہید ہے یعنی جس طرح ایک شخص کے دو دل نہیں ہو سکتے اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے ظہار کرلے یعنی یہ کہہ دے کہ تیری پشت میرے لیے ایسے ہی ہے جیسے میری ماں کی پشت تو اس طرح کہنے سے اس کی بیوی، اس کی ماں نہیں بن جائے گی۔ یوں اس کی دو مائیں نہیں ہو سکتیں۔ اسی طرح کوئی شخص کسی کو اپنا بیٹا لے پالک بیٹا بنا لے تو وہ اس کا حقیقی بیٹا نہیں بن جائے گا بلکہ وہ بیٹا اپنے باپ کا ہی رہے گا اس کے دو باپ نہیں ہو سکتے۔
٤۔۲ یہ مسئلہ ظہار کہلاتا ہےِ اس کی تفصیل سورہ مجادلۃ میں آئے گی۔
٤۔۳ اس کی تفصیل اسی سورت میں آگے آئے گی۔
٤۔٤ یعنی کسی کو ماں کہہ دینے سے وہ ماں نہیں بن جائے گی، نہ بیٹا کہنے سے بیٹا بن جائے گا، یعنی ان پر بنوت کے شرعی احکام جاری نہیں ہونگے۔
٤۔۵ اس لئے اس کا اتباع کرو اور ظہار والی عورت کو ماں اور لے پالک کو بیٹا مت کہو، خیال رہے کہ کسی کو پیار اور محبت میں بیٹا کہنا اور بات ہے اور لے پالک کو حقیقی بیٹا تصور کر کے بیٹا کہنا اور بات ہے۔ پہلی بات جائز ہے، یہاں مقصود دوسری بات کی ممانعت ہے۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
خدا نے کسی آدمی کے پہلو میں دو دل نہیں بنائے۔ اور نہ تمہاری عورتوں کو جن کو تم ماں کہہ بیٹھتے ہو تمہاری ماں بنایا اور نہ تمہارے لے پالکوں کو تمہارے بیٹے بنایا۔ یہ سب تمہارے منہ کی باتیں ہیں۔ اور خدا تو سچی بات فرماتا ہے اور وہی سیدھا رستہ دکھاتا ہے
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
کسی آدمی کے سینے میں اللہ تعالیٰ نے دو دل نہیں رکھے، اور اپنی جن بیویوں کو تم ماں کہہ بیٹھتے ہو انہیں اللہ نے تمہاری (سچ مچ کی) مائیں نہیں بنایا، اور نہ تمہارے لے پالک لڑکوں کو (واقعی) تمہارے بیٹے بنایا ہے، یہ تو تمہارے اپنے منھ کی باتیں ہیں، اللہ تعالیٰ حق بات فرماتا ہے اور وه (سیدھی) راه سجھاتا ہے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
اور اللہ نے کسی مرد کے سینہ میں دو دل نہیں بنائے اور نہ ہی تمہاری ان بیویوں کو تمہاری مائیں بنایا ہے جن سے تم ظہار کرتے ہو اور نہ ہی اس نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا (حقیقی) بیٹا بنایا ہے اور وہی (سیدھے) راستے کی ہدایت کرتا ہے۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اللہ نے کسی مرد کے سینے میں دو دل نہیں قرار دیئے ہیں اور تمہاری وہ بیویاں جن سے تم ا ظہار کرتے ہو انہیں تمہاری واقعی ماں نہیں قرار دیا ہے اور نہ تمہاری منہ بولی اولاد کواولادقرار دیا ہے یہ سب تمہاری زبانی باتیں ہیں اور اللہ تو صرف حق کی بات کہتا ہے اور سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتا ہے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
اللہ نے کسی آدمی کے لئے اس کے پہلو میں دو دل نہیں بنائے، اور اس نے تمہاری بیویوں کو جنہیں تم ظِہار کرتے ہوئے ماں کہہ دیتے ہو تمہاری مائیں نہیں بنایا، اور نہ تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارے (حقیقی) بیٹے بنایا، یہ سب تمہارے منہ کی اپنی باتیں ہیں، اور اللہ حق بات فرماتا ہے، اور وہی (سیدھا) راستہ دکھاتا ہے،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
سچ بدل نہیں سکتا لے پالک بیٹا نہیں بن سکتا
مقصود کو بیان کرنے سے پہلے بطور مقدمے اور ثبوت کے مثلا ایک وہ بات بیان فرمائی جسے سب محسوس کرتے ہیں اور پھر اس کی طرف سے ذہن ہٹاکر اپنے مقصود کی طرف لے گئے۔ بیان فرمایا کہ یہ تو ظاہر ہے کہ کسی انسان کے دل دو نہیں ہوتے۔ اسی طرح تم سمجھ لو کہ اپنی جس بیوی کو تم ماں کہہ دو تو وہ واقعی ماں نہیں ہوجاتی۔ ٹھیک اسی طرح دوسرے کی اولاد کو اپنا بیٹا بنالینے سے وہ سچ مچ بیٹا ہی نہیں ہوجاتا۔ اپنی بیوی سے اگر کسی نے بحالت غضب وغصہ کہہ دیا کہ تو مجھ پر ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ تو اس کہنے سے وہ سچ مچ ماں نہیں بن جاتیں مائیں تو وہ ہیں جن کے بطن سے یہ پیدا ہوئے ہیں۔ ان دونوں باتوں کے بیان کے بعد اصل مقصود کو بیان فرمایا کہ تمہارے لے پالک لڑکے بھی درحقیقت تمہارے لڑکے نہیں۔ یہ آیت حضرت زید بن حارث (رض) کے بارے میں اتری ہے جو حضور کے آزاد کردہ تھے انہیں حضور نے نبوت سے پہلے اپنا متبنی بنارکھا تھا۔ انہیں زید بن محمد کہا جاتا تھا۔ اس آیت سے اس نسبت اور اس الحاق کا توڑ دینا منظور ہے۔ جیسے کہ اسی سورت کے اثنا میں ہے آیت ( مَا كَانَ مُحَـمَّـدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ ۭ وَكَان اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًا 40 ) 33 ۔ الأحزاب ;40) تم میں سے کسی مرد کے باپ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہیں ہے بلکہ وہ اللہ کے رسول اور نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا علم ہے۔ یہاں فرمایا یہ تو صرف تمہاری ایک زبانی بات ہے جو تم کسی کے لڑکے کو کسی کا لڑکا کہو اس سے حقیقت بدل نہیں سکتی۔ واقعی میں اس کا باپ وہ ہے جس کی پیٹھ سے یہ نکلا۔ یہ ناممکن ہے کہ ایک لڑکے کے دو باپ ہوں جیسے یہ ناممکن ہے کہ ایک سینے میں دو دل ہوں۔ اللہ تعالیٰ حق فرمانے والا اور سیدھی راہ دکھانے والا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ آیت ایک قریشی کے بارے میں اتری ہے جس نے مشہور کر رکھا تھا کہ اس کے دو دل ہیں اور دونوں عقل وفہم سے پر ہیں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی تردید کردی۔ ابن عباس (رض) کا بیان ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں تھے آپ کو کچھ خطرہ گذرا اس پر جو منافق نماز میں شامل تھے وہ کہنے لگے دیکھو اس کے دو دل ہیں ایک تمہارے ساتھ ایک ان کے ساتھ۔ اس پر یہ آیت اتری کہ اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں بنائے۔ زہری فرماتے ہیں یہ تو صرف بطور مثال کے فرمایا گیا ہے یعنی جس طرح کسی شخص کے دو دل نہیں ہوتے اسی طرح کسی بیٹے کے دو باپ نہیں ہوسکتے۔ اسی کے مطابق ہم نے بھی اس آیت کی تفسیر کی ہے۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔ پہلے تو رخصت تھی کہ لے پالک لڑکے کو پالنے والے کی طرف نسبت کرکے اس کا بیٹا کہہ کر پکارا جائے لیکن اب اسلام نے اس کو منسوخ کردیا ہے اور فرمادیا ہے کہ ان کے جو اپنے حقیقی باپ ہیں ان ہی کی طرف منسوب کرکے پکارو۔ عدل نیکی انصاف اور سچائی یہی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں اس آیت کے اترنے سے پہلے ہم حضرت زید کو زید بن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہا کرتے تھے لیکن اس کے نازل ہونے کے بعد ہم نے یہ کہنا چھوڑ دیا۔ بلکہ پہلے تو ایسے لے پالک کے وہ تمام حقوق ہوتے تھے جو سگی اور صلبی اولاد کے ہوتے ہیں۔ چناچہ اس آیت کے اترنے کے بعد حضرت سہلہ بنت سہل (رض) حاضر خدمت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہو کر عرض کرتی ہیں کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے سالم کو منہ بولا بیٹا بنا رکھا تھا اب قرآن نے ان کے بارے میں فیصلہ کردیا۔ میں اس سے اب تک پردہ نہیں کرتی وہ آجاتے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ میرے خاوند حضرت حذیفہ ان کے اس طرح آنے سے کچھ بیزار ہیں۔ آپ نے فرمایا پھر کیا ہے جاؤ سالم کو اپنا دودھ پلا اس پر حرام ہوجاؤگی۔ الغرض یہ حکم منسوخ ہوگیا ہے اب صاف لفظوں میں ایسے لڑکوں کی بیویوں کی بھی مداخلت انہیں لڑکا بنانے والے کے لئے بیان فرمادی۔ اور جب حضرت زید (رض) نے اپنی بیوی صاحبہ حضرت زینب بنت جحش کو طلاق دے دی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود اپنا نکاح ان سے کرلیا اور مسلمان اس ایک مشکل سے بھی چھوٹ گئے فالحمد للہ اسی کا لحاظ رکھتے ہوئے۔ جہاں حرام عورتوں کو ذکر کیا وہاں فرمایا آیت (وَحَلَاۗىِٕلُ اَبْنَاۗىِٕكُمُ الَّذِيْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْ 23ۙ ) 4 ۔ النسآء ;23) یعنی تمہاری اپنی صلب سے جو لڑکے ہوں ان کی بیویاں تم پر حرام ہیں۔ ہاں رضاعی لڑکا نسبی اور صلبی لڑکے کے حکم میں ہے۔ جیسے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ رضاعت سے وہ تمام رشتے حرام ہوجاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی خیال رہے کہ پیار سے کسی کو بیٹا کہہ دینا یہ اور چیز ہے یہ ممنوع نہیں مسند احمد وغیرہ میں ہے۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں ہم سب خاندان عبدالمطلب کے چھوٹے بچوں کو مزدلفہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رات کو ہی جمرات کی طرف رخصت کردیا اور ہماری رانیں تھپکتے ہوئے حضور نے فرمایا بیٹو سورج نکلنے سے پہلے جمرات پر کنکریاں نہ مارنا۔ یہ واقعہ سنہ\01\00ہجری ماہ ذی الحجہ کا ہے اور اس کی دلالت ظاہر ہے۔ حضرت زید بن حارثہ جن کے بارے میں یہ حکم اترا یہ سنہ\0\08ہجری میں جنگ موتہ میں شہید ہوئے۔ صحیح مسلم شریف میں مروی ہے کہ حضرت انس (رض) کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا بیٹا کہہ کر بلایا۔ اسے بیان فرما کر کہ لے پالک لڑکوں کو ان کے باپ کی طرف منسوب کرکے پکارا کرو پالنے والوں کی طرف نہیں۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر تمہیں انکے باپوں کا علم نہ ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی اور اسلامی دوست ہیں۔ حضور جب عمرۃ القضا والے سال مکہ شریف سے واپس لوٹے تو حضرت (رض) کی صاحبزادی چچاچچا کہتی ہوئی آپ کے پیچھے دوڑیں۔ حضرت علی (رض) نے انہیں لے کر حضرت فاطمہ زہرا (رض) کو دے دیا اور فرمایا یہ تمہاری چچازاد بہن ہیں انہیں اچھی طرح رکھو۔ حضرت زید اور حضرت جعفر فرمانے لگے اس بچی کے حقدار ہم ہیں ہم انہیں پالیں گے۔ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں نہیں یہ میرے ہاں رہیں گی حضرت علی (رض) نے تو یہ دلیل دی کہ میرے چچا کی لڑکی ہیں۔ حضرت زید (رض) فرماتے ہیں میرے بھائی کی لڑکی ہے۔ جعفر بن ابی طالب (رض) کہنے لگے میرے چچا کی لڑکی ہیں۔ اور ان کی چچی میرے گھر میں ہیں یعنی حضرت اسماء بنت عمیس (رض) ۔ آخر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فیصلہ کیا کہ صاحبزادی تو اپنی خالہ کے پاس رہیں کیونکہ خالہ ماں کے قائم مقام ہے۔ حضرت علی (رض) سے فرمایا تو میرا ہے اور میں تیرا ہوں۔ حضرت جعفر (رض) سے فرمایا تو صورت سیرت میں میرے مشابہ ہے حضرت زید (رض) سے فرمایا تو میرا بھائی ہے اور ہمارا مولیٰ ہے اس حدیث میں بہت سے احکام ہیں۔ سب سے بہتر تو یہ ہے کہ حضور نے حکم حق سنا کر اور دعویداروں کو بھی ناراض نہیں ہونے دیا۔ اور آپ نے اسی آیت پر عمل کرتے ہوئے حضرت زید (رض) سے فرمایا تم ہمارے بھائی اور ہمارے دوست ہو۔ حضرت ابو بکرہ (رض) نے فرمایا اسی آیت کے ماتحت میں تمہارا بھائی ہوں۔ ابی فرماتے ہیں واللہ اگر یہ بھی معلوم ہوتا کہ ان کے والد کوئی ایسے ویسے ہی تھے تو بھی یہ ان کی طرف منسوب ہوتے۔ حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر اپنی نسبت اپنے باپ کی طرف سے دوسرے کی طرف کرے اس نے کفر کیا۔ اس سے سخت وعید پائی جاتی ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ صحیح نسب سے اپنے آپ کو ہٹانا بہت بڑا کبیرہ گناہ ہے۔ پھر فرماتا ہے جب تم نے اپنے طور پر جتنی طاقت تم میں ہے تحقیق کرکے کسی کو کسی کی طرف نسبت کیا اور فی الحقیقت وہ نسبت غلط ہے تو اس خطا پر تمہاری پکڑ نہیں۔ چناچہ خود پروردگار نے ہمیں ایسی دعا تعلیم دی کہ ہم اس کی جناب میں ہیں آیت (رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِيْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا\028\06 ) 2 ۔ البقرة ;286) اے اللہ ہماری بھول چوک اور غلطی پر ہمیں نہ پکڑ۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ جب مسلمانوں نے یہ دعا پڑھی جناب باری عز اسمہ نے فرمایا میں نے یہ دعاقبول فرمائی۔ صحیح بخاری شریف میں ہے جب حاکم اپنی کوشش میں کامیاب ہوجائے اپنے اجتہاد میں صحت کو پہنچ جائے تو اسے دوہرا اجر ملتا ہے اور اگر خطا ہوجائے تو اسے ایک اجر ملتا ہے۔ اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کو ان کی خطائیں بھول چوک اور جو کام ان سے زبردستی کرائے جائیں ان سے درگذر فرمالیا ہے۔ یہاں بھی یہ فرما کر ارشاد فرمایا کہ ہاں جو کام تم قصد قلب سے عمدا کرو وہ بیشک قابل گرفت ہیں۔ قسموں کے بارے میں بھی یہی حکم ہے اوپر جو حدیث بیان ہوئی کہ نسب بدلنے والا کفر کا مرتکب ہے وہاں بھی یہ لفظ ہیں کہ باوجود جاننے کے۔ آیت قرآن جو اب تلاوتا منسوخ ہے اس میں تھا آیت (فان کفرابکم ان ترغبوا عن ابائکم) یعنی تمہارا اپنے باپ کی طرف نسبت ہٹانا کفر ہے۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق کے ساتھ بھیجا آپ کے ساتھ کتاب نازل فرمائی اس میں رجم کی بھی آیت تھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود بھی رجم کیا ( یعنی شادی شدہ زانیوں کو سنگسار کیا) اور ہم نے بھی آپ کے بعد رجم کیا۔ ہم نے قرآن میں یہ آیت بھی پڑھی ہے کہ اپنے باپوں سے اپنا سلسلہ نسب نہ ہٹاؤ یہ کفر ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے مجھے تم میری تعریفوں میں اس طرح بڑھا چڑھا نہ دینا جیسے عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) کے ساتھ ہوا۔ میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں تو تم مجھے اللہ کا بندہ اور رسول اللہ کہنا۔ ایک روایت میں صرف ابن مریم ہے۔ اور حدیث میں ہے تین خصلتیں لوگوں میں ہیں جو کفر ہیں۔ نسب میں طعنہ زنی، میت پر نوحہ، ستاروں سے باراں طلبی۔