اَللّٰهُ الَّذِىْ يُرْسِلُ الرِّيٰحَ فَتُثِيْرُ سَحَابًا فَيَبْسُطُهٗ فِى السَّمَاۤءِ كَيْفَ يَشَاۤءُ وَيَجْعَلُهٗ كِسَفًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلٰلِهٖۚ فَاِذَاۤ اَصَابَ بِهٖ مَنْ يَّشَاۤءُ مِنْ عِبَادِهٖۤ اِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَۚ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ بادل اٹھاتی ہیں، پھر وہ اِن بادلوں کو آسمان میں پھیلا دیتا ہے جس طرح چاہتا ہے اور انہیں ٹکڑیوں میں تقسیم کرتا ہے، پھر تُو دیکھتا ہے کہ بارش کے قطرے بادل سے ٹپکے چلے آتے ہیں یہ بارش جب وہ اپنے بندوں میں سے جن پر چاہتا ہے برساتا ہے
English Sahih:
It is Allah who sends the winds, and they stir the clouds and spread them in the sky however He wills, and He makes them fragments so you see the rain emerge from within them. And when He causes it to fall upon whom He wills of His servants, immediately they rejoice
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ بادل اٹھاتی ہیں، پھر وہ اِن بادلوں کو آسمان میں پھیلا دیتا ہے جس طرح چاہتا ہے اور انہیں ٹکڑیوں میں تقسیم کرتا ہے، پھر تُو دیکھتا ہے کہ بارش کے قطرے بادل سے ٹپکے چلے آتے ہیں یہ بارش جب وہ اپنے بندوں میں سے جن پر چاہتا ہے برساتا ہے
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اللہ ہے کہ بھیجتا ہے ہوائیں کہ ابھارتی ہیں بادل پھر اسے پھیلادیتا ہے آسمان میں جیسا چاہے اور اسے پارہ پارہ کرتا ہے تو تُو دیکھے کہ اس کے یبچ میں مینھ نکل رہا ہے پھر جب اسے پہنچاتا ہے اپنے بندوں میں جس کی طرف چاہے جبھی وہ خوشیاں مناتے ہیں،
احمد علی Ahmed Ali
الله وہ ہے جو ہوائیں چلاتا ہے پھر وہ بادل کو اٹھاتی ہیں پھر اسے آسمان میں جس طرح چاہے پھیلا دیتا ہےاور اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے پھر تو مینہ کو دیکھے گا کہ اس کے اندر سے نکلتا ہے پھر جب اسے اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے پہنچاتا ہے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں
أحسن البيان Ahsanul Bayan
اللہ تعالٰی ہوائیں چلاتا ہے وہ ابر کو اٹھاتی ہیں (١) پھر اللہ تعالٰی اپنی منشا کے مطابق اسے آسمان میں پھیلا دیتا ہے (٢) اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے (٣) پھر آپ دیکھتے ہیں اس کے اندر سے قطرے نکلتے ہیں (٤) اور جنہیں اللہ چاہتا ہے ان بندوں پر وہ پانی برساتا ہے تو وہ خوش خوش ہو جاتے ہیں۔
٤٨۔١ یعنی بادل جہاں بھی ہوتے ہیں وہاں سے ہوائیں ان کو اٹھا کر لے جاتی ہیں۔
٤٨۔٢ کبھی چلا کر کبھی ٹھہرا کر، کبھی تہ بہ تہ کرکے، کبھی دور دراز تک۔ یہ آسمانوں پر بادلوں کی مختلف کیفیتیں ہوتی ہیں۔
٤٨۔٣ یعنی ان کو آسمان پر پھیلانے کے بعد کبھی ان کو مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کر دیتا ہے۔
٤٨۔٤ یعنی ان بادلوں سے اللہ اگر چاہتا ہے تو بارش ہو جاتی ہے جس سے بارش کے ضرورت مند خوش ہو جاتے ہیں
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
خدا ہی تو ہے جو ہواؤں کو چلاتا ہے تو وہ بادل کو اُبھارتی ہیں۔ پھر خدا اس کو جس طرح چاہتا ہے آسمان میں پھیلا دیتا اور تہ بتہ کر دیتا ہے پھر تم دیکھتے ہو کہ اس کے بیچ میں سے مینھہ نکلنے لگتا ہے پھر جب وہ اپنے بندوں میں سے جن پر چاہتا ہے اُسے برسا دیتا ہے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
اللہ تعالیٰ ہوائیں چلاتا ہے وه ابر کو اٹھاتی ہیں پھر اللہ تعالیٰ اپنی منشا کے مطابق اسے آسمان میں پھیلا دیتا ہے اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے پھر آپ دیکھتے ہیں کہ اس کےاندر سے قطرے نکلتے ہیں، اور جنہیں اللہ چاہتا ہے ان بندوں پر پانی برساتا ہے تو وه خوش خوش ہو جاتے ہیں
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
اللہ ہی وہ ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے۔ تو وہ بادل کو اٹھاتی ہیں۔ پھر اللہ جس طرح چاہتا ہے اسے آسمان پر پھیلا دیتا ہے اور پھر اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے۔ پھر تم دیکھتے ہو کہ اس کے درمیان سے بارش نکلنے لگتی ہے۔ پھر وہ اپنے بندوں سے جسے چاہتا ہے پہنچاتا ہے۔ تو بس وہ خوش ہو جاتے ہیں۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اللرُ ہی وہ ہے جو ہواؤں کو چلاتا ہے تو وہ بادلوں کو اڑاتی ہیں پھر وہ ان بادلوں کو جس طرح چاہتا ہے آسمان میں پھیلادیتا ہے اور اسے ٹکڑے کردیتا ہے اور اس کے درمیان سے پانی برساتا ہے پھر یہ پانی ان بندوں تک پہنچ جاتا ہے جن تک وہ پہنچانا چاہتا ہے تو وہ خوش ہوجاتے ہیں
طاہر القادری Tahir ul Qadri
اﷲ ہی ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے تو وہ بادل کو ابھارتی ہیں پھر وہ اس (بادل) کو فضائے آسمانی میں جس طرح چاہتا ہے پھیلا دیتا ہے پھر اسے (متفرق) ٹکڑے (کر کے تہ بہ تہ) کر دیتا ہے، پھر تم دیکھتے ہو کہ بارش اس کے درمیان سے نکلتی ہے، پھر جب اس (بارش) کو اپنے بندوں میں سے جنہیں چاہتا ہے پہنچا دیتا ہے تو وہ فوراً خوش ہو جاتے ہیں،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
نا امیدی کے اندھیروں میں امید کے اجالے رحمت وزحمت کی ہوائیں
اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ وہ ہوائیں بھیجتا ہے جو بادلوں کو اٹھاتی ہیں یا تو سمندر پر سے یا جس طرح اور جہاں سے اللہ کا حکم ہو۔ پھر رب العالمین ابر کو آسمان پر پھیلا دیتا ہے اسے بڑھا دیتا ہے تھوڑے کو زیادہ کردیتا ہے تم نے اکثر دیکھا ہوگا کہ بالشت دوبالشت کا ابر اٹھا پھر جو وہ پھیلا تو آسمان کے کنارے ڈھانپ لئے۔ اور کبھی یہ بھی دیکھا ہوگا کہ سمندروں سے پانی کے بھرے ابر اٹھتے ہیں۔ اسی مضمون کو آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ يُرْسِلُ الرِّيٰحَ بُشْرًۢا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهٖ 57) 7 ۔ الاعراف ;57) میں بیان فرمایا ہے پھر اسے ٹکڑے ٹکڑے اور تہہ بتہہ کردیتا ہے۔ وہ پانی سے سیاہ ہوجاتے ہیں۔ زمین کے قریب ہوجاتے ہیں۔ پھر بارش ان بادلوں کے درمیان سے برسنے لگتی ہے جہاں برسی وہیں کے لوگوں کی باچھیں کھل گئیں۔ پھر فرماتا ہے یہی لوگ بارش سے ناامید ہوچکے تھے اور پوری ناامیدی کے وقت بلکہ ناامیدی کے بعد ان پر بارشیں برسیں اور جل تھل ہوگئے۔ دو دفعہ من قبل کا لفظ لانا تاکید کے لئے ہے۔ ہ کی ضمیر کا مرجع انزال ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ تاسیسی دلالت ہو۔ یعنی بارش ہونے سے پہلے یہ اس کے محتاج تھے اور وہ حاجت پوری ہو اس سے پہلے یہ اس کے محتاج تھے اور وہ حاجت پوری ہو اس سے پہلے وقت کے ختم ہوجانے کے قریب بارش نہ ہونے کی وجہ سے یہ مایوس ہوچکے تھے۔ پھر اس ناامیدی کے بعد دفعۃ ابر اٹھتا ہے اور برس جاتا ہے اور ریل پیل کردیتا ہے۔ اور ان کی خشک زمین تر ہوجاتی ہے قحط سالی ترسالی سے بدل جاتی ہے۔ یا تو زمین صاف چٹیل میدان تھی یا ہر طرف ہریاول دکھائی دینے لگتی ہے۔ دیکھ لو کہ پروردگار عالم بارش سے کس طرح مردہ زمین کو زندہ کردیتا ہے یاد رکھو جس رب کی یہ قدرت تم دیکھ رہے وہ ایک دن مردوں کو ان قبروں سے بھی نکالنے والا ہے حالانکہ ان کے جسم گل سڑگئے ہونگے۔ سمجھ لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ پھر فرماتا ہے اگر ہم باد تند چلائیں اگر آندھیاں آجائیں اور ان کی لہلاتی ہوئی کھیتیاں پژمردہ ہوجائیں تو وہ پھر سے کفر کرنے لگ جاتے ہیں چناچہ سورة واقعہ میں بھی یہی بیان ہوا ہے۔ آیت ( اَفَرَءَيْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَ 63ۭ ) 56 ۔ الواقعة ;63) سے ( بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ 67) 56 ۔ الواقعة ;67) تک حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں ہوائیں آٹھ قسم کی ہیں چار رحمت کی چار زحمت کی۔ ناشرات مبشرات مرسلات اور ذاریات تو رحمت کی ہیں۔ اور عقیم صرصر عاصف اور قاصف عذاب کی۔ ان میں پہلی دو خشکیوں کی ہیں اور آخری دو تری کی۔ حضور فرماتے ہیں ہوائیں دوسری سے مسخر ہیں یعنی دوسری زمین سے۔ جب اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کی ہلاکت کا ارادہ کیا تو ہواؤں کے داروغہ کو یہ حکم دیا اس نے دریافت کیا کہ جناب باری کیا ہواؤں کے خزانے میں اتنا سوراخ کردوں جتنا بیل کا نتھا ہوتا ہے ؟ تو فرمان اللہ ہوا کہ نہیں نہیں اگر ایسا ہوا تو کل زمین اور زمین کی پوری چیزیں الٹ پلٹ ہوجائیں گی۔ اتنا نہیں بلکہ اتنا روزن کر جتنا انگوٹھی میں نگینہ ہوتا ہے۔ اب صرف اتنے سوراخ سے وہ ہوا چلی جو جہاں پہنچی وہاں بھس اڑادیا۔ جس چیز پر سے گذری اسے بےنشان کردیا۔ یہ حدیث غریب ہے اور اس کا مرفوع ہونا مکروہ ہے زیادہ ظاہر یہی ہے کہ یہ خود حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) کا قول ہے۔