قُلْ يٰۤـاَهْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَاۤءٍۢ بَيْنَـنَا وَبَيْنَكُمْ اَ لَّا نَـعْبُدَ اِلَّا اللّٰهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهٖ شَيْـــًٔا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِۗ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْهَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
کہو، "اے اہل کتاب! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں، اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنا لے" اس دعوت کو قبول کرنے سے اگر وہ منہ موڑیں تو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو، ہم تو مسلم (صرف خدا کی بندگی و اطاعت کرنے والے) ہیں
English Sahih:
Say, "O People of the Scripture, come to a word that is equitable between us and you – that we will not worship except Allah and not associate anything with Him and not take one another as lords instead of Allah." But if they turn away, then say, "Bear witness that we are Muslims [submitting to Him]."
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
کہو، "اے اہل کتاب! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں، اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنا لے" اس دعوت کو قبول کرنے سے اگر وہ منہ موڑیں تو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو، ہم تو مسلم (صرف خدا کی بندگی و اطاعت کرنے والے) ہیں
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
تم فرماؤ، اے کتابیو! ایسے کلمہ کی طرف آؤ جو ہم میں تم میں یکساں ہے یہ کہ عبادت نہ کریں مگر خدا کی اور اس کا شریک کسی کو نہ کریں اور ہم میں کوئی ایک دوسرے کو رب نہ بنالے اللہ کے سوا پھر اگر وہ نہ مانیں تو کہہ دو تم گواہ رہو کہ ہم مسلمان ہیں،
احمد علی Ahmed Ali
کہہ اے اہلِ کتاب! ایک بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ سوائے الله کے اور کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کا کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں اور سوائے الله کے کوئی کسی کو رب نہ بنائے پس اگر وہ پھر جائیں تو کہہ دو گواہ رہو کہ ہم تو فرمانبردار ہونے والے ہیں
أحسن البيان Ahsanul Bayan
آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب! ایسی انصاف والی بات کی طرف آؤ جو ہم میں تم میں برابر ہے کہ ہم اللہ تعالٰی کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں (١) نہ اللہ تعالٰی کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو ہی رب بنائیں (٢) پس اگر وہ منہ پھیر لیں تو تم کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلمان ہیں (٣)
٦٤۔١ کسی بت نہ صلیب کو نہ آگ اور نہ کسی چیز کو بلکہ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں جیسا کہ تمام انبیاء کی دعوت رہی ہے۔
٦٤۔٢ یہ ایک تو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تم نے حضرت مسیح اور حضرت عزیر علیہ السلام کی ربوبیت (رب ہونے) کا جو عقیدہ کھڑا کر رکھا ہے یہ غلط ہے وہ رب نہیں ہیں انسان ہیں دوسرا اس بات کی طرف اشارہ ہے تم نے اپنے احبار و رہبان کو حلال یا حرام کرنے کا جو اختیار دے رکھا ہے یہ بھی ان کو رب بنانا ہے حلال اور حرام کا اختیار صرف اللہ ہی کو ہے (ابن کثیر و فتح القدیر)
٦٤۔٣ صحیح بخاری میں ہے کہ قرآن کریم کے اس حکم کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرقل شاہ روم کو مکتوب تحریر فرمایا اور اس میں اسے اس آیت کے حوالے سے قبول اسلام کی دعوت دی اسے کہا تو مسلمان ہو جائے گا تو تجھے دوہرا اجر ملے گا ورنہ ساری رعایا کا گناہ تجھ پر ہوگا اسلام قبول کرلے سلامتی میں رہے گا کیونکہ رعایا کا عدم قبول اسلام کا سبب تو ہی ہوگا۔ اس آیت مذکورہ میں تین نکات ١۔ صرف اللہ کی عبادت کرنا۔ ٢ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا۔ ٣ اور کسی کو شریعت سازی کا خدائی مقام نہ دینا۔ لہذا اس امت کے شیرازہ کو جمع کرنے کے لئے بھی ان تینوں نکات اور اس کلمہ سواء کو بدرجہ اولیٰ اساس و بنیاد بنانا چاہیے۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
کہہ دو کہ اے اہل کتاب جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں (تسلیم کی گئی) ہے اس کی طرف آؤ وہ یہ کہ خدا کے سوا ہم کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو خدا کے سوا اپنا کار ساز نہ سمجھے اگر یہ لوگ (اس بات کو) نہ مانیں تو (ان سے) کہہ دو کہ تم گواہ رہو کہ ہم (خدا کے) فرماں بردار ہیں
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب! ایسی انصاف والی بات کی طرف آو جو ہم میں تم میں برابر ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں، نہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو ہی رب بنائیں۔ پس اگر وه منھ پھیر لیں تو تم کہہ دو کہ گواه رہو ہم تو مسلمان ہیں
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول) کہیے اے اہل کتاب! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک اور یکساں ہے (اور وہ یہ کہ) ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔ اور کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں، اور ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا اپنا رب (مالک و مختار) نہ بنائے۔ اور اگر یہ لوگ اس (دعوت) سے منہ موڑیں تو (اے مسلمانو) تم کہہ دو کہ گواہ رہنا ہم مسلمان (خدا کے فرمانبردار و اطاعت گزار ہیں)۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اے پیغمبر آپ کہہ دیں کہ اہلِ کتاب آؤ ایک منصفانہ کلمہ پر اتفاق کرلیں کہ خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں آپس میں ایک دوسرے کو خدائی کا درجہ نہ دیں اور اس کے بعد بھی یہ لوگ منہ موڑیں تو کہہ دیجئے کہ تم لوگ بھی گواہ رہنا کہ ہم لوگ حقیقی مسلمان اور اطاعت گزار ہیں
طاہر القادری Tahir ul Qadri
آپ فرما دیں: اے اہلِ کتاب! تم اس بات کی طرف آجاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے، (وہ یہ) کہ ہم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور ہم اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور ہم میں سے کوئی ایک دوسرے کو اﷲ کے سوا رب نہیں بنائے گا، پھر اگر وہ روگردانی کریں تو کہہ دو کہ گواہ ہو جاؤ کہ ہم تو اﷲ کے تابع فرمان (مسلمان) ہیں،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
یہودیوں اور نصرانیوں سے خطاب
یہودیوں نصرانیوں اور انہی جیسے لوگوں سے یہاں خطاب ہو رہا ہے، کلمہ کا اطلاق مفید جملے پر ہوتا ہے، جیسے یہاں کلمہ کہہ کر پھر سوآء الخ کے ساتھ اس کی تعریف یوں کی گئی ہے۔ سواء کے معنی عدل و انصاف جیسے ہم کہیں ہم تم برابر ہیں، پھر اس کی تفسیر کی خاص بات یہ ہے کہ ہم ایک اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کریں اس کے ساتھ کسی بت کو نہ پوجیں صلیب، تصویر، اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور نہ آگ کو نہ اور کسی چیز کو بلکہ تنہا اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کریں، یہی عبادت تمام انبیاء کرام کی تھی، جیسے فرمان ہے آیت (وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ ) 21 ۔ الانبیآء ;25) یعنی تجھ سے پہلے جس جس رسول کو ہم نے بھیجا سب کی طرف یہی وحی کہ میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کیا کرو اور جگہ ارشاد ہے آیت (وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ) 16 ۔ النحل ;36) یعنی ہر امت میں رسول بھیج کر ہم نے یہ اعلان کروایا کہ صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا سب سے بچو۔ پھر فرماتا ہے کہ آپس میں بھی ہم اللہ جل جلالہ کو چھوڑ کر ایک دوسرے کو رب بنائیں، ابن جریج فرماتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں ایک دوسرے کی اطاعت نہ کریں۔ عکرمہ فرماتے ہیں کسی کو سوائے اللہ تعالیٰ کے سجدہ نہ کریں، پھر اگر یہ لوگ اس حق اور عدل دعوت کو بھی قبول نہ کریں تو انہیں تم اپنے مسلمان ہونے کا گواہ بنا لو، ہم نے بخاری کی شرح میں اس واقعہ کا مفصل ذکر کردیا ہے جس میں ہے کہ ابو سفیان جبکہ دربار قیصر میں بلوائے گئے اور شاہ قیصر روم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نسب کا حال پوچھا تو انہیں کافر اور دشمن رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہونے کے باوجود آپ کی خاندانی شرافت کا اقرار کرنا پڑا اور اسی طرح ہر سوال کا صاف اور سچا جواب دینا پڑا یہ واقعہ صلح حدیبیہ کے بعد کا اور فتح مکہ سے پہلے کا ہے اسی باعث قیصر کے اس سوال کے جواب میں کہ کیا وہ (یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدعہدی کرتے ہیں ؟ ابو سفیان نے کہا نہیں کرتے لیکن اب ایک معاہدہ ہمارا ان سے ہوا ہے نہیں معلوم اس میں وہ کیا کریں ؟ یہاں صرف یہ مقصد ہے کہ ان تمام باتوں کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نامہ مبارک پیش کیا جاتا ہے جس میں بسم اللہ کے بعد یہ لکھا ہوتا ہے کہ یہ خط محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے ہے جو اللہ کے رسول ہیں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہرقل کی طرف جو روم کا شاہ ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلام ہو اسے جو ہدایت کا تابعدار ہو اس کے بعد اسلام قبول کر سلامت رہے گا، اسلام قبول کر اللہ تعالیٰ تجھے دوہرا اجر دے گا اور اگر تو نے منہ موڑا تو تمام رئیسوں کے گناہوں کا بوجھ تجھ پر پڑے گا پھر یہی آیت لکھی تھی، امام محمد بن اسحاق وغیرہ نے لکھا ہے کہ اس سورت یعنی سورة آل عمران کو شروع سے لے کر " اننی " سے کچھ اوپر تک آیتیں وفد نجران کے بارے میں نازل ہوئی ہیں، امام زہری فرماتے ہیں سب سے پہلے جزیہ انہی لوگوں نے ادا کیا ہے اور اس بات میں بھی مطلقاً اختلاف نہیں ہے کہ آیت جزیہ فتح مکہ کے بعد اتری ہے پس یہ اعتراض ہوتا ہے کہ جب یہ آیت فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی ہے تو پھر فتح سے پہلے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے خط میں ہرقل کو یہ آیت کیسے لکھی ؟ اس کے جواب کئی ہوسکتے ہیں ایک تو یہ کہ ممکن ہے یہ آیت دو مرتبہ اتری ہو اول حدیبیہ سے پہلے اور فتح مکہ کے بعد، دوسرا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے شروع سورت سے لے کر اس آیت تک وفد نجران کے بارے میں اتری ہو یا یہ آیت اس سے پہلے اتر چکی ہو اس صورت میں ابن اسحاق کا یہ فرمانا کہ اسی کے اوپر کی کچھ آیتیں اسی وفد کے بارے میں اتری ہیں یہ محفوظ نہ ہو کیونکہ ابو سفیان والا واقعہ سراسر اس کے خلاف ہے، تیسرا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے وفد نجران حدیبیہ سے پہلے آیا ہو اور انہوں نے جو کچھ دینا منظور کیا ہو یہ صرف مباہلہ سے بچنے کے لئے بطور مصالحت کے ہو نہ کہ جزیہ دیا ہو اور یہ اتفاق کی بات ہو کہ آیت جزیہ اس واقعہ کے بعد اتری جس سے اس کا اتفاقاً الحاق ہوگیا۔ جیسے کہ حضرت عبداللہ بن حجش (رض) نے بدر سے پہلے غزوے کے مال غنیمت کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا اور پانچواں حصہ باقی رکھ کر دوسرے حصے لشکر میں تقسیم کردیئے، پھر اس کے بعد مال غنیمت کی تقسیم کی آیتیں بھی اسی کے مطابق اتریں اور یہی حکم ہوا۔ چوتھا جواب یہ ہے کہ احتمال ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے خط میں جو ہرقل کو بھیجا اس میں یہ بات اسی طرح بطور خود لکھی ہو پھر آنحضرت کے الفاظ ہی میں وحی نازل ہوئی ہو جیسے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پردے کے حکم کے بارے میں اسی طرح آیت اتری، اور بدوی قیدیوں کے بارے میں انہی کے ہم خیال فرمان باری نازل ہوا اسی طرح منافقوں کا جنازہ پڑھنے کی بابت بھی انہی کی بات قائم رکھی گئی، چناچہ مقام ابراہیم کے مصلے بنانے سے متعلق بھی اسی طرح وحی نازل ہوئی اور آیت (عَسٰى رَبُّهٗٓ اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ يُّبْدِلَهٗٓ اَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنْكُنَّ مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰۗىِٕبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰۗىِٕحٰتٍ ثَيِّبٰتٍ وَّاَبْكَارًا) 66 ۔ التحریم ;5) بھی انہی کے خیال سے متعلق آیت اتری، پس یہ آیت بھی اسی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق ہی اتری ہو، یہ بہت ممکن ہے۔