Skip to main content

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تُطِيْعُوا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا يَرُدُّوْكُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْ فَتَـنْقَلِبُوْا خٰسِرِيْنَ

O you
يَٰٓأَيُّهَا
اے
who
ٱلَّذِينَ
وہ لوگو
believe!
ءَامَنُوٓا۟
جو ایمان لائے ہو
If
إِن
اگر
you obey
تُطِيعُوا۟
تم اطاعت کرو
those who
ٱلَّذِينَ
ان لوگوں کی
disbelieve
كَفَرُوا۟
جنہوں نے کفر کیا
they will turn you back
يَرُدُّوكُمْ
وہ پھیر دیں گے تم کو
on
عَلَىٰٓ
اوپر
your heels
أَعْقَٰبِكُمْ
تمہاری ایڑیوں کے
then you will turn back
فَتَنقَلِبُوا۟
تو لوٹ جاؤ گے تم۔ پلٹ جاؤ گے تم
(as) losers
خَٰسِرِينَ
خسارہ پانے والے ہوکر

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم اُن لوگوں کے اشاروں پر چلو گے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے تو وہ تم کو الٹا پھیر لے جائیں گے اور تم نامراد ہو جاؤ گے

English Sahih:

O you who have believed, if you obey those who disbelieve, they will turn you back on your heels, and you will [then] become losers.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم اُن لوگوں کے اشاروں پر چلو گے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے تو وہ تم کو الٹا پھیر لے جائیں گے اور تم نامراد ہو جاؤ گے

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اے ایمان والو! اگر تم کافروں کے کہے پر چلے تو وہ تمہیں الٹے پاؤں لوٹادیں گے پھر ٹوٹا کھا کے پلٹ جاؤ گے

احمد علی Ahmed Ali

اے ایمان والو اگر تم کافروں کا کہا مانو گے تو وہ تمہیں الٹے پاؤں پھیر دیں گے پھر تم نقصان میں جا پڑو گے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

اے ایمان والو! اگر تم کافروں کی باتیں مانو گے تو وہ تمہیں تمہاری ایڑیوں کے پلٹا دیں گے (یعنی تمہیں مرتد بنا دیں گے) پھر تم نامراد ہو جاؤ گے۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

مومنو! اگر تم کافروں کا کہا مان لو گے تو وہ تم کو الٹے پاؤں پھیر کر (مرتد کر) دیں گے پھر تم بڑے خسارے میں پڑ جاؤ گے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

اے ایمان والو! اگر تم کافروں کی باتیں مانو گے تو وه تمہیں تمہاری ایڑیوں کے بل پلٹا دیں گے، (یعنی تمہیں مرتد بنا دیں گے) پھر تم نامراد ہو جاؤ گے

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

اے ایمان والو! اگر تم نے ان لوگوں کی اطاعت کی جنہوں نے کفر اختیار کیا تو وہ تم کو الٹے پاؤں (کفر کی طرف) پھیر کر لے جائیں گے اور تم بڑا خسارہ اٹھا کر واپس ہوگے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

ایمان والو اگر تم کفر اختیار کرنے والوں کی اطاعت کرلو گے تو یہ تمہیں اُلٹے پاؤںپلٹا لے جائیں گے اور پھر تم ہی اُلٹے خسارہ والوں میں ہوجاؤ گے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اے ایمان والو! اگر تم نے کافروں کا کہا مانا تو وہ تمہیں الٹے پاؤں (کفر کی جانب) پھیر دیں گے پھر تم نقصان اٹھاتے ہوئے پلٹو گے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

کافر اور منافقوں کے ارادے اور غزوہ احد کا پھر اندوہناک تذکرہ
اللہ تعالیٰ اپنے ایماندار بندوں کو کافروں اور منافقوں کی باتوں کے ماننے سے روک رہا ہے اور بتارہا ہے کہ اگر ان کی مانی تو دنیا اور آخرت کی ذلت تم پر آئے گی انکی چاہت تو یہی ہے کہ تمہیں دین اسلام سے ہٹا دیں پھر فرماتا ہے مجھ ہی کو اپنا والی اور مددگار جانو مجھی سے دوستی کرو مجھی پر بھروسہ کرو مجھی سے مدد چاہو پھر فرمایا کہ ان شریروں کے دلوں میں ان کے کفر کے سبب ڈر خوف ڈال دوں گا، بخاری مسلم میں حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے پانچ باتیں دی گئیں ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں میری مدد مہینہ بھر کی راہ تک رعب سے کی گئی ہے میرے لئے زمین مسجد اور اس کی مٹی وضو کی پاک چیز بنائی گئی، میرے لئے غنیمت کے مال حلال کئے گئے اور مجھے شفاعت دی گئی اور ہر نبی اپنی اپنی قوم کی طرف سے مخصوص بھیجا جاتا تھا اور میری بعثت میری نبوت تمام دنیا کیلئے عام ہوئی، مسند احمد میں ہے آپ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں پر اور بعض روایتوں میں ہے تمام امتوں پر مجھے چار فضیلتیں عطا فرمائی ہیں، مجھے تمام دنیا کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا، میرے اور میری امت کیلئے تمام زمین مسجد اور پاک بنائی گئی، میرے امتی کو جہاں نماز کا وقت آجائے وہیں اس کی مسجد اور اس کا وضو ہے، میرا دشمن مجھ سے مہینہ بھر کی راہ پر ہو وہیں سے اللہ تعالیٰ اس کا دل رعب سے پُر کردیتا ہے اور وہ کانپنے لگتا ہے اور میرے لئے غنیمت کے مال حلال کئے گئے اور روایت میں ہے کہ میں مدد کیا گیا ہوں میرے رعب سے ہر دشمن پر، مسند کی ایک اور حدیث میں ہے مجھے پانچ چیزیں دی گئیں میں ہر سرخ وسفید کی طرف بھیجا گیا میرے لئے تمام زمین وضو اور مسجد بنائی گی۔ میرے لئے غنیمتوں کے مال حلال کئے گئے جو میرے پہلے کسی کے حلال نہ تھے اور میری مدد مہینہ بھر کی راہ تک رعب سے کی گئی اور مجھے شفاعت دی گئی تمام انبیاء نے شفاعت مانگ لی لیکن میں نے اپنی شفاعت کو اپنی امت کے لوگوں کیلئے جنہوں نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو بچار کھی ہے، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ابو سفیان کے دل میں رعب ڈال دیا اور وہ لڑائی سے لوٹ گیا پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا اور تمہاری مدد کی اس سے بھی یہ استدلال ہوسکتا ہے کہ یہ وعدہ احد کے دن کا تھا تین ہزار دشمن کا لشکر تھا تاہم مقابلہ پر آتے ہی ان کے قدم اکھڑ گئے اور مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی لیکن پھر تیر اندازوں کی نافرمانی کی وجہ سے اور بعض حضرات کی پست ہمتی کی بناء پر وہ وعدہ جو مشروط تھا رک گیا پس فرماتا ہے کہ تم انہیں اپنے ہاتھوں سے کاٹتے تھے۔ شروع دن میں ہی اللہ نے تمہیں ان پر غالب کردیا لیکن تم نے پھر بزدلی دکھائی اور نبی کی نافرمانی کی ان کی بتائی ہوئی جگہ سے ہٹ گئے اور آپس میں اختلاف کرنے لگے حالانکہ اللہ عزوجل نے تمہیں تمہاری پسند کی چیز فتح دکھا دی تھی یعنی مسلمان صاف طور پر غالب آگئے تھے مال غنیمت آنکھوں کے سامنے موجود تھا کفار پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے تھے تم میں سے بعض نے دنیا طلبی کی اور کفار کی ہزیمت کو دیکھ کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کا خیال نہ کر کے مال غنیمت کی طرف لپکے گو بعض اور نیک آخرت طلب بھی تھے لیکن اس نافرمانی وغیرہ کی بنا پر کفار کی پھر بن آئی اور ایک مرتبہ تمہاری پوری آزمائش ہوگئی غالب ہو کر مغلوب ہوگئے فتح کے بعد شکست ہوگئی لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ نے تمہارے اس جرم کو معاف فرما دیا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ بظاہر تم ان سے تعداد میں اور اسباب میں کم تھے خطا کا معاف ہونا بھی عفاعنکم میں داخل ہے اور یہ بھی مطلب ہے کہ کچھ یونہی سی گوشمالی کر کے کچھ بزرگوں کی شہادت کے بعد اس نے اپنی آزمائش کو اٹھا لیا اور باقی والوں کو معاف فرما دیا، اللہ تعالیٰ باایمان لوگوں پر فضل و کرم لطف و رحم ہی کرتا ہے، حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد جیسی احد میں ہوئی ہے کہیں نہیں ہوئی اسی کے بارے میں ارشاد باری ہے کہ اللہ نے تم سے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا لیکن پھر تمہارے کرتوتوں سے معاملہ برعکس ہوگیا، بعض لوگوں نے دنیا طلبی کر کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کی یعنی بعض تیر اندوزوں نے جنہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہاڑ کے درے پر کھڑا کیا تھا اور فرما دیا تھا کہ تم یہاں سے دشمنوں کی نگہبانی کرو وہ تمہاری پیٹھ کی طرف سے نہ آجائیں، اگر تم ہار دیکھو بھی اپنی جگہ سے نہ ہٹنا اور اگر تم ہر طرح غالب آگئے تو بھی تم غنیمت جمع کرنے کیلئے بھی اپنی جگہ کو نہ چھوڑنا، جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غالب آگئے تو تیر اندوزوں نے حکم عدولی کی اور وہ اپنی جگہ کو چھوڑ کر مسلمانوں میں آملے اور مال غنیمت جمع کرنا شروع کردیا صفوں کا کوئی خیال نہ رہا درے کو خالی پا کر مشرکوں نے بھاگنا بند کیا اور غور و فکر کر کے اس جگہ حملہ کردیا، چند مسلمانوں کی پیٹھ کے پیچھے سے ان کی بیخبر ی میں اس زور کا حملہ کیا کہ مسلمانوں کے قدم نہ جم سکے اور شروع دن کی فتح اب شکست سے بدل گئی اور یہ مشہور ہوگیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی شہید ہوگئے اور لڑائی کے رنگ نے مسلمانوں کو اس بات کا یقین بھی دلا دیا، تھوڑی دیر بعد جبکہ مسلمانوں کی نظریں چہرہ مبارک پر پڑیں تو وہ اپنی سب کوفت اور ساری مصیبت بھول گئے اور خوشی کے مارے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لپکے آپ ادھر آرہے تھے اور فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا سخت غضب نازل ہو ان لوگوں پر جنہوں نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرے کو خون آلودہ کردیا، انہیں کوئی حق نہ تھا کہ اس طرح ہم پر غالب رہ جائیں، تھوڑی دیر میں ہم نے سنا کہ ابو سفیان پہاڑ کے نیچے کھڑا ہوا کہہ رہا تھا اعل ہبل اعل ھبل ہبل بت کا بول بالا ہو ابوبکر کہاں ہے ؟ عمر کہاں ہے ؟ حضرت عمر نے پوچھا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے جواب دوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اجازت دی تو حضرت عمر فاروق نے اس کے جواب میں فرمایا اللہ اعلی واجل اللہ اعلی واجل اللہ بہت بلند ہے اور جلال و عزت والا ہے اللہ بہت بلند اور جلال و عزت والا ہے، وہ پوچھنے لگا بتاؤ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہاں ہیں ؟ ابوبکر کہاں ہیں ؟ عمر کہاں ہیں ؟ آپ نے فرمایا یہ ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور یہ ہیں حضرت ابوبکر اور یہ ہوں میں عمر فاروق ابو سفیان کہنے لگا یہ بدر کا بدلہ ہے یونہی دھوپ چھاؤں الٹتی پلٹتی رہتی ہے، لڑائی کی مثال کنویں کے ڈول کی سی ہے، حضرت عمر نے فرمایا برابری کا معاملہ ہرگز نہیں تمہارے مقتول تو جہنم میں گئے اور ہمارے شہید جنت میں پہنچے، ابو سفیان کہنے لگا اگر یونہی ہو تو یقینا ہم نقصان اور گھاٹے میں رہے، سنو تمہارے مقتولین میں بعض ناک کان کٹے لوگ بھی تم پاؤ گے گویہ ہمارے سرداروں کی رائے سے نہیں ہوا لیکن ہمیں کچھ برا بھی نہیں معلوم ہوا، یہ حدیث غریب ہے اور یہ قصہ بھی عجیب ہے، یہ ابن عباس کی مرسلات سے ہے اور وہ یا ان کے والد جنگ احد میں موجود نہ تھے، مستدرک حاکم میں بھی یہ روایت موجود ہے ابن ابی حاتم اور بیہقی فی دلائل النبوۃ میں بھی یہ مروی ہے اور صحیح احادیث میں اس کے بعض حصوں کے شواہد بھی ہیں کہ احد والے دن عورتیں مسلمانوں کے پیچھے تھیں جو زخمیوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں تو پوری طرح یقین تھا کہ آج کے دن ہم میں کوئی ایک بھی طالب دنیا نہیں بلکہ اس وقت اگر مجھے اس بات پر قسم کھلوائی جاتی تو کھا لیتا لیکن قرآن میں یہ آیت اتری (منکم من یرید الدنیا) یعنی تم میں سے بعض طالب دنیا بھی ہیں، جب صحابہ سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کے خلاف آپ کی نافرمانی سرزد ہوئی تو انکے قدم اکھڑ گئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ صرف سات انصاری اور دو مہاجر باقی رہ گئے جب مشرکین نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گھیر لیا تو آپ فرمانے لگے اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جو انہیں ہٹائے تو ایک انصار اٹھ کھڑے ہوئے اور اسجم غفیر کے مقابل تن تنہا داد شجاعت دینے لگے یہاں تک کہ شہید ہوگئے پھر کفار نے حملہ کیا آپ نے یہی فرمایا ایک انصاری تیار ہوگئے اور اس بےجگری سے لڑے کہ انہیں آگے نہ بڑھنے دیا لیکن بالآخر یہ بھی شہید ہوگئے یہاں تک کہ ساتوں صحابہ اللہ کے ہاں پہنچ گئے اللہ ان سے خوش ہو، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مہاجرین سے فرمایا افسوس ہم نے اپنے ساتھیوں سے منصفانہ معاملہ نہ کیا، اب ابو سفیان نے ہانک لگائی کہ اعل ہبل آپ نے فرمایا کہو اللہ اعلی واجل ابو سفیان نے کہا (لنا العزی ولا عزی لکم) ہمارا عزی بت ہے تمہاری کوئی عزی نہیں، آپ نے فرمایا کہو اللہ مولانا والکافرون لا مولی لھم اللہ ہمارا مولی ہے اور کافروں کا کوئی مولی نہیں، ابو سفیان کہنے لگا آج کے دن بدر کے دن کا بدلہ ہے کوئی دن ہمارا اور کوئی دن تمہارا، یہ تو ہاتھوں ہاتھ کا سودا ہے، ایک کے بدلے ایک ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہرگز برابری نہیں ہمارے شہداء زندہ ہیں وہاں رزق دے جاتے ہیں اور تمہارے مقتول جہنم میں عذاب کئے جا رہے ہیں پھر ابو سفیان بولا تمہارے مقتول میں تم دیکھو گے کہ بعض کے کان ناک وغیرہ کاٹ لئے گئے ہیں لیکن میں نے نہ یہ کہا نہ اسے روکا نہ اسے میں نے پسند کیا نہ مجھے یہ بھلا معلوم ہوا نہ برا، اب جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ حضرت حمزہ کا پیٹ چاک کردیا گیا تھا اور ہندہ نے انکا کلیجہ لے کر چبایا تھا لیکن نگل نہ سکی تو اگل دیا،حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ناممکن تھا کہ اس کے پیٹ میں حمزہ کا ذرا سا گوشت بھی چلا جائے اللہ تعالیٰ حمزہ کے کسی عضو بدن کو جہنم میں لے جانا نہیں چاہتا چناچہ حمزہ کے جنازے کو اپنے سامنے رکھ کر نماز جنازہ ادا کی پھر ایک انصاری کا جنازہ لایا گیا وہ حضرت حمزہ کے پہلو میں رکھا گیا اور آپ نے پھر نماز جنازہ پڑھی انصاری کا جنازہ اٹھا لیا گیا لیکن حضرت حمزہ کا جنازہ وہیں رہا اسی طرح ستر شخص لائے گئے اور حضرت حمزہ کی ستر دفعہ جنازے کی نماز پڑھی گئی (مسند) صحیح بخاری شریف میں حضرت براء سے مروی ہے کہ احد والے دن مشرکوں سے ہماری مڈبھیڑ ہوئی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیر اندازوں کی ایک جماعت کو الگ جما دیا اور انکا سردار حضرت عبداللہ بن جیبر کو بنایا اور فرما دیا کہ اگر تم ہمیں ان پر غالب آیا ہوا دیکھو تو بھی یہاں سے نہ ہٹنا اور وہ ہم پر غالب آجائیں تو بھی تم اپنی جگہ نہ چھوڑنا، لڑائی شروع ہوتے ہی اللہ کے فضل سے مشرکوں کے قدم پیچھے ہٹنے لگے یہاں تک کہ عورتیں بھی تہبند اونچا کر کر کے پہاڑوں میں ادھر دوڑنے لگیں، اب تیر انداز گروہ غنیمت غنیمت کہتا ہوا نیچے اتر آیا، ان کے امیر نے انہیں ہرچند سمجھایا لیکن کسی نے ان کی نہ سنی، بس اب مشرکین مسلمانوں کی پیٹھ کی طرف سے آن پڑے اور ستر بزرگ شہید ہوگئے ابو سفیان ایک ٹیلے پر چڑھ کر کہنے لگا کیا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حیات ہیں ؟ کیا ابوبکر موجود ہیں ؟ کیا عمر زندہ ہیں ؟ لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان سے صحابہ خوش رہے تو وہ خوشی کے مارے اچھل پڑا اور کہنے لگا یہ سب ہماری تلواروں کے گھاٹ اتر گئے اگر زندہ ہوتے تو ضرور جواب دیتے ایک حضرت عمر کو تاب ضبط نہ رہی فرمانے لگے، اے اللہ کے دشمن تو جھوٹا ہے بحمد اللہ ہم سب موجود ہیں اور تیری تباہی اور بربادی کرنے والے زندہ ہیں، پھر وہ باتیں ہوئیں جو اوپر بیان ہوچکی ہیں، صحیح بخاری شریف میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ جنگ احد میں مشرکوں کو ہزیمت ہوئی اور ابلیس نے آواز لگائی اے اللہ کے بندو ! اپنے پیچھے کی خبر لو اگلی جماعتیں پچھلی جماعتوں پر ٹوٹ پڑیں، حضرت حذیفہ نے دیکھا کہ مسلمانوں کی تلواریں ان کے والد حضرت یمان (رض) پر برس رہی ہیں ہرچند کہتے رہے کہ اے اللہ کے بندو ! یہ میرے باپ یمان ہیں مگر کون سنتا تھا وہ یونہی شہید ہوگئے لیکن حضرت حذیفہ نے کچھ نہ کہا بلکہ فرمایا اللہ تمہیں معاف کرے، حضرت حذیفہ کی یہ بھلائی ان کے آخری دم تک ان میں رہی، سیرت ابن اسحاق میں ہے حضرت زبیر بن عوام فرماتے ہیں میں نے خود دیکھا کہ مشرک مسلمانوں کے اول حملہ میں ہی بھاگ کھڑے ہوئے یہاں تک کہ ان کی عورتیں ہندہ وغیرہ تہمد اٹھائے تیز تیز دوڑ رہی تھیں لیکن اس کے بعد جب تیر اندازوں نے مرکز چھوڑا اور کفار نے سمٹ کر پیچھے کی طرف سے ہم پر حملہ کردیا ادھر کسی نے آواز لگائی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شہید ہوگئے پھر معاملہ برعکس ہوگیا ورنہ ہم مشرکین کے علم برداروں تک پہنچ چکے تھے اور جھنڈا اس کے ہاتھ سے گرپڑا تھا لیکن عمرہ بن علقمہ حارثیہ عورت نے اسے تھام لیا اور قریش کا مجمع پھر یہاں جمع ہوگیا، حضرت انس بن مالک چچا حضرت انس بن نضر (رض) یہ رنگ دیکھ حضرت عمر حضرت طلحہ وغیرہ کے پاس آتے ہی اور فرماتے ہیں تم نے کیوں ہمتیں چھوڑ دیں ؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو شہید ہوگئے۔ حضرت انس نے فرمایا پھر تم جی کر کیا کرو گے ؟ یہ کہا اور مشرکین میں گھسے پھر لڑتے رہے یہاں تک کہ اللہ رب العزت سے جا ملے (رض) ، یہ بدر والے دن جہاد میں نہیں پہنچ سکے تھے تو عہد کیا تھا کہ آئندہ اگر کوئی موقعہ آیا تو میں دکھا دوں گا چناچہ اس جنگ میں وہ موجود تھے جب مسلمانوں میں کھلبلی مچی تو انہوں نے کہا الہ میں مسلمانوں کے اس کام سے معذور ہوں اور مشرکوں کے اس کام سے بری ہوں پھر اپنی تلوار لے کر آگے بڑھ گئے راہ میں حضرت سعد بن معاذ سے ملے اور کہنے لگے کہاں جا رہے ہو ؟ مجھے تو جنت کی خوشبو کی لپٹیں احد پہاڑ سے چلی آرہی ہیں چناچہ مشرکوں میں گھس گئے اور بڑی بےجگری سے لڑے یہاں تک کہ شہادت حاصل کی اسی سے زیادہ تیرو تلوار کے زخم بدن پر آئے تھے پہچانے نہ جاتے تھے انگلی کو دیکھ کر پہچانے گئے (رض) ، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ایک حاجی نے بیت اللہ شریف میں ایک مجلس دیکھ کر پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ لوگوں نے کہا قریشی ہیں پوچھا ان کے شیخ کون ہیں ؟ جواب ملا حضرت عبداللہ بن عمر (رض) ہیں، اب وہ آیا اور کہنے لگا میں کچھ دریافت کرنا چاہتا ہوں حضرت عبداللہ نے فرمایا پوچھو اس نے کہا آپ کو اس بیت اللہ کی حرمت کی قسم کیا آپ کو علم ہے کہ (حضرت) عثمان بن عفان احد والے دن بھاگ گئے تھے ؟ آپ نے جواب دیا ہاں۔ کہا کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ بدر والے دن بھی حاضر نہیں ہوئے تھے ؟ فرمایا ہاں، کہا کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ بیعت الرضوان میں بھی شریک نہیں ہوئے تھے ؟ فرمایا یہ بھی ٹھیک ہے، اب اس نے (خوش ہوکر) تکبیر کہی، حضرت عبداللہ نے فرمایا ادھر آ، اب میں تجھے پورے واقعات سناؤں، احد کے دن کا بھاگنا تو اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا، بدر کے دن کی غیر حاضری کے باعث یہ ہوا کہ آپ کے گھر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صاحبزادی تھیں اور وہ اس وقت سخت بیمار تھیں تو خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا تھا کہ تم نہ آؤ مدینہ میں ہی رہو تمہیں اللہ تعالیٰ اس جنگ میں حاضر ہونے کا اجر دے گا اور غنیمت میں بھی تمہارا حصہ ہے، بیعت الرضوان کا واقعہ یہ ہے کہ انہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ والوں کے پاس اپنا پیغام دے کر حضرت عثمان کو بھیجا تھا اس لئے کہ مکہ میں جو عزت انہیں حاصل تھی کسی اور کو اتنی نہ تھی انکے تشریف لے جانے کے بعد یہ بیعت لی گئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا داہنا ہاتھ کھڑا کر کے کہا یہ عثمان کا ہاتھ ہے پھر اپنے دوسرے ہاتھ پر رکھا (گویا بیعت کی) پھر اس شخص سے کہا اب جاؤ اور اسے ساتھ لے جاؤ پھر فرمایا آیت (او تصعدون) الخ یعنی تم اپنے دشمن سے بھاگ کر پہاڑ چڑھ رہے تھے اور مارے خوف و دہشت کے دوسری جانب توجہ بھی نہیں کرتے تھے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی تم نے وہیں چھوڑ دیا تھا وہ تمہیں آوازیں دے رہے تھے اور سمجھا رہے تھے کہ بھاگو نہیں لوٹ آؤ، حضرت سدی فرماتے ہیں مشرکین کے اس خفیہ اور پر زور اور اچانک حملہ سے مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے کچھ تو مدینہ کی طرف لوٹ آئے کچھ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے اللہ کے نبی آوازیں دیتے رہے کہ اللہ کے بندوں میری طرف آؤ اللہ کے بندو میری طرف آؤ، اس واقعہ کا بیان اس آیت میں ہے، عبداللہ بن زحری شاعر نے اس واقعہ کو نظم میں بھی ادا کیا ہے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت صرف بارہ آدمیوں کے ساتھ رہ گئے تھے مسند احمد کی ایک طویل حدیث میں بھی ان تمام واقعات کا ذکر ہے، دلائل النبوۃ میں ہے کہ جب ہزیمت ہوئی تب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ صرف گیارہ شخص رہ گئے اور ایک حضرت طلحہ بن عبید اللہ تھے، آپ پہاڑ پر چڑھنے لگے لیکن مشرکین نے آگھیرا آپ نے اپنے ساتھیوں یک طرف متوجہ ہو کر فرمایا کوئی ہے جو ان سے مقابلہ کرے، حضرت طلحہ نے اس آواز پر فوراً لبیک کہا اور تیار ہوگئے لیکن آپ نے فرمایا تم ابھی ٹھہر جاؤ اب ایک انصاری تیار ہوئے اور وہ ان سے لڑنے لگے یہاں تک کہ شہید ہوئے اسی طرح سب کے سب ایک ایک کر کے شہید ہوگئے اور اب صرف حضرت طلحہ رہ گئے گویہ بزرگ ہر مرتبہ تیار ہوجاتے تھے لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں روک لیا کرتے تھے آخر یہ مقابلہ پر آئے اور اس طرح جم کر لڑے کہ ان سب کی لڑائی ایک طرف اور یہ ایک طرف اس لڑائی میں ان کی انگلیاں کٹ گئیں تو زبان سے حس نکل گیا آپ نے فرمایا اگر تم بسم اللہ کہہ دیتے یا اللہ کا نام لیتے تو تمہیں فرشتے اٹھا لیتے اور آسمان کی بلندی کی طرف لے چڑھتے اور لوگ دیکھتے رہتے اب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے صحابہ کے مجمع میں پہنچ چکے تھیں۔ صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت قیس بن حازم فرماتے ہیں میں نے دیکھا حضرت طلحہ کا وہ ہاتھ جسے انہوں نے ڈھال بنایا تھا شل ہوگیا تھا، حضعرت سعد بن ابی وقاص فرماتے ہیں میرے پاس حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ترکش سے احد والے دن تمام تیر پھیلا دئیے اور فرمایا تجھ پر میرے ماں باپ فدا ہوں لے مشرکین کو مار آپ اٹھا اٹھا کردیتے جاتے تھے اور میں تاک تاک کر مشرکین کو مارتا جاتا تھا اس دن میں نے دو شخصوں کو دیکھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دائیں بائیں تھے اور سخت ترین جنگ کر رہے تھے میں نے نہ تو اس سے پہلے کبھی انہیں دیکھا تھا نہ اس کے بعد یہ دونوں حضرت جبرائیل اور حضرت میکائیل (علیہما السلام) تھے ایک اور روایت میں ہے کہ جو بزرگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بھگدڑ کے بعد تھے اور ایک ایک ہو کر شہید ہوئے تھے انہیں آپ فرماتے جاتے تھے کہ کوئی ہے جو انہیں رو کے اور جنت میں جائے میرا رفیق ہے، ابی بن خلف نے مکہ میں قسم کھائی تھی کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کروں گا، جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا وہ تو نہیں بلکہ میں انشاء اللہ اسے قتل کروں گا احد والے دن یہ خبیث سرتاپا لوہے میں غرق زرہ بکتر لگائے ہوئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بڑھا اور یہ کہتا آتا تھا کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بچ گئے تو میں اپنے تئیں ہلاک کر ڈالوں گا ادھر سے حضرت مصعب بن عمیر اس ناہنجار کی طرف بڑھے لیکن آپ شہید ہوگئے اب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی طرف بڑھے اس کا سارا جسم لوہے میں چھپا ہوا تھا صرف ذرا سی پیشانی نظر آرہی تھی آپ نے اپنا نیزہ تاک کر وہیں لگایا جو ٹھیک نشانے پر بیٹھا اور یہ تیورا کر گھوڑے پر سے گرا گو اس زخم سے خون بھی نہ نکلا تھا لیکن اس کی یہ حالت تھی کہ بلبلا رہا تھا لوگوں نے اسے اٹھا لیا لشکر میں لے گئے اور تشفی دینے لگے کہ ایسا کوئی کاری زخم نہیں لگا کیوں اس قدر نامردی کرتا ہے آخر ان کے طعنوں سے مجبور ہو کر اس نے کہا میں نے سنا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے میں ابی کو قتل کروں گا سچ مانو اب میں کبھی نہیں بچ سکتا تم اس پر نہ جاؤ کہ مجھے ذرا سی خراش ہی آئی ہے اللہ کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر کل اہل ذی المجاز کو اتنا زخم اس ہاتھ سے لگ جاتا تو سب ہلاک ہوجاتے پس یونہی تڑپتے تڑپتے اور بلکتے بلکتے اس جہنمی کی ہلاکت ہوئی اور مر کر جہنم رسید ہوا، مغازی محمد بن اسحاق میں ہے کہ جب یہ شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ہوا تو صحابہ نے اس کے مقابلہ کی خواہش کی لیکن آپ نے انہیں روک دیا اور فرمایا اسے آنے دو جب وہ قریب آگیا تو آپ نے حضرت حارث بن صمہ سے نیزہ لے کر اس پر حملہ کیا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں نیزہ دیکھتے ہی وہ کانپ اٹھا ہم نے اسی وقت سمجھ لیا کہ اس کی خیر نہیں آپ نے اس کی گردن پر وار کیا اور وہ لڑکھڑا کر گھوڑے پر سے گرا، حضرت ابن عمر کا دہشت ناک شعلے اٹھتے ہوئے دیکھے اور دیکھا کہ ایک شخص کو زنجیروں میں جکڑے ہوئے اس آگ میں گھسیٹا جا رہا ہے اور وہ پیاس پیاس کر رہا ہے اور دوسرا شخص کہتا ہے اسے پانی نہ دینا یہ پیغمبر کے ہاتھ کا مارا ہوا ہے یہ ابی بن خلف ہے، بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں ہے آپ اپنے سامنے کے چار دانتوں کی طرف جنہیں مشرکین نے احد والے دن شہید کیا تھا اشارہ کر کے فرما رہے تھے اللہ کا سخت تر غضب ان لوگوں پر ہے جنہوں نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ یہ کیا اور اس پر بھی اللہ تعالیٰ کا غضب ہے جسے اللہ کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی راہ میں قتل کرے اور روایت میں یہ لفظ ہیں کہ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ زخمی کیا، عتبہ بن ابی وقاص کے ہاتھ سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ زخم لگا تھا سامنے کے چار دانٹ ٹوٹ گئے تھے، رخسار پر زخم آیا تھا اور ہونٹ پر بھی، حضرت سعد بن ابی وقاص فرمایا کرتے تھے مجھے جس قدر اس شخص کی حرص تھی کسی اور کے قتل کی نہ تھی۔ یہ شخص بڑا بد خلق تھا اور ساری قوم سے اس کی دشمنی تھی اس کی برائی میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان کافی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زخمی ہونے والے پر اللہ سخت غضبناک ہے، عبدالرزاق میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کیلئے بد دعا کی کہ اے اللہ سال بھر میں یہ ہلاک ہوجائے اور کفر پر اس کی موت ہو چناچہ یہی ہوا اور یہ بدبخت کافر مرا اور جہنم واصل ہوا۔ ایک مہاجر کا بیان ہے کہ چاروں طرف سے احد والے دن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تیروں کی بارش ہو رہی تھی لیکن اللہ کی قدرت سے وہ سب پھیر دیئے جاتے تھے، عبداللہ بن شہاب زہری نے اس دن قسم کھا کر کہا کہ مجھے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دکھا دو وہ آج میرے ہاتھ سے بچ نہیں سکتا اگر وہ نجات پا گیا تو میری نجات نہیں اب وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے لپکا اور بالکل آپ کے پاس آگیا اس وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کوئی نہ تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نظر ہی نہ آئے جب وہ نامراد پلٹا تو صفوان نے اسے طعنہ زنی کی اس نے کہا اللہ تعالیٰ کی طرف سے محفوظ ہیں ہمارے ہاتھ نہیں لگنے کے سنو ! ہم چار شخصوں نے ان کے قتل کا پختہ مشورہ کیا تھا اور آپس میں عہدو پیمان کئے تھے ہم نے ہرچند چاہا لیکن کامیابی نہ ہوئی واقدی کہتے ہیں لیکن ثابت شدہ بات یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیشانی کو زخمی کرنے والا ابن قمیہ اور ہونٹ اور دانتوں پر صدمہ پہچانے والا عتبہ بن ابی وقاص تھا۔ ام المومنین حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ میرے والد حضرت ابوبکر جب احد کا ذکر فرماتے تو صاف کہتے کہ اس دن کی تمام تر فضلیت کا سہرا حضرت طلحہ کے سر ہے میں جب لوٹ کر آیا تو میں نے دیکھا کہ ایک شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حمایت میں جان ٹکائے لڑ رہا ہے میں نے کہا اللہ کرے یہ طلحہ ہو اب جو قریب آ کر دیکھا تو طلحہ ہی تھے (رض) میں نے کہا الحمد اللہ میری ہی قوم کا ایک شخص ہے میرے اور مشرکوں کے درمیان ایک شخص تھا جو مشرکین میں کھڑا ہوا تھا لیکن اسکے بےپناہ حملے مشرکوں کی ہمت توڑ رہے تھے غور سے دیکھا تو وہ حضرت عبیدہ بن جراح تھے، اب جو میں نے بغور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف دیکھا تو آپ کے سامنے کے دانت ٹوٹ گئے ہیں چہرہ زخمی ہو رہا ہے اور پیشانی میں زرہ کی دو کڑیاں کھب گئی ہیں میں آپ کی طرف لپکا لیکن آپ نے فرمایا ابو طلحہ کی خبر لو میں نے چاہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرے میں سے وہ دونوں کڑیاں نکالوں لیکن حضرت ابو عبیدہ نے مجھے قسم دے کر روک دیا اور خود قریب آئے اور ہاتھ سے نکالنے میں زیادہ تکلیف محسوس کر کے دانتوں سے پکڑ کر ایک کو نکال لیا لیکن اس میں ان کا دانت بھی ٹوٹ گیا میں نے اب پھر چاہا کہ دوسری میں نکال لوں لیکن حضرت ابو عبیدہ نے پھر قسم دی تو میں رک رہا انہوں نے پھر دوسری کڑی نکالی اب کی مرتبہ بھی ان کے دانت ٹوٹے اس سے فارغ ہو کر ہم حضرت طلحہ کی طرف متوجہ ہوئے ہم نے دیکھا کہ ستر سے زیادہ زخم انہیں لگ چکے ہیں انگلیاں کٹ گئی ہیں ہم نے پھر ان کی بھی خبر لی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زخم کا خون حضرت ابو سعید خدری نے چوسا تاکہ خون تھم جائے پھر ان سے کہا گیا کہ کلی کر ڈالو لیکن انہوں نے کہا اللہ کی قسم میں کلی نہ کروں گا پھر میدان جنگ میں چلے گئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر کوئی شخص جنتی شخص کو دیکھنا چاہتا ہو تو انہیں دیکھ لے چناچہ یہ اسی میدان میں شہید ہوئے، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ زخمی ہوا سامنے کے دانت ٹوٹے سر کا خود ٹوٹا، حضرت فاطمہ خون دھوتی تھیں اور حضرت علی ڈھال میں پانی لالا کر ڈالتے جاتے تھے جب دیکھا کہ خون کسی طرح تھمتا ہی نہیں تو حضرت فاطمہ نے بوریا جلا کر اس کا راکھ زخم پر رکھ دی جس سے خون بند ہوا۔ پھر فرماتا ہے، تمہیں غم پر غم پہنچا (بِغَمِّ ) کا بامعنی میں علیٰ کے ہے جیسے آیت (فی جذوع النخل) میں فی معنی میں علیٰ کے ہے، ایک غم تو شکست کا تھا جبکہ یہ مشہور ہوگیا کہ (اللہ نہ کرے) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان پر بن آئی، دوسرا غم مشرکوں کو پہاڑ کے اوپر غالب آکر چڑھ جانے کا جبکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے تھے یہ بلندی کے لائق نہ تھے، حضرت عبدالرحمن بن عوف فرماتے ہیں ایک غم شکست کا دوسرا غم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کی خبر کا اور یہ غم پہلے غم سے زیادہ تھا، اسی طرح یہ بھی ہے کہ ایک غم تو غنیمت کا ہاتھ میں آکر نکل جانے کا تھا دوسرا شکست ہونے کا اسی طرح ایک اپنے بھائیوں کے قتل کا غم دوسرا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسبت ایسی منحوس خبر کا غم۔ پھر فرماتا ہے جو غنیمت اور فتح مندی تمہارے ہاتھ سے گئی اور جو زخم و شہادت ملی اس پر غم نہ کھاؤ اللہ سبحانہ و تعالیٰ جو بلندی اور جلال والا ہے وہ تمہارے اعمال سے خبردار ہے۔