Skip to main content

وَمَا هٰذِهِ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَاۤ اِلَّا لَهْوٌ وَّلَعِبٌۗ وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَهِىَ الْحَـيَوَانُۘ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ

And not
وَمَا
اور نہیں
(is) this
هَٰذِهِ
یہ
life
ٱلْحَيَوٰةُ
زندگی
(of) the world
ٱلدُّنْيَآ
دنیا کی
but
إِلَّا
مگر
amusement
لَهْوٌ
دل کا بہلاوا
and play
وَلَعِبٌۚ
اور کھیل
And indeed
وَإِنَّ
اور بیشک
the Home
ٱلدَّارَ
گھر
(of) the Hereafter -
ٱلْءَاخِرَةَ
آخرت کا
surely it
لَهِىَ
البتہ وہی ہے
(is) the life
ٱلْحَيَوَانُۚ
زندگی۔ زندہ رہنے کی جگہ
if only
لَوْ
کاش ہوتے
they
كَانُوا۟
وہ
know
يَعْلَمُونَ
علم رکھتے

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

اور یہ دنیا کی زندگی کچھ نہیں ہے مگر ایک کھیل اور دل کا بہلاوا اصل زندگی کا گھر تو دار آخرت ہے، کاش یہ لوگ جانتے

English Sahih:

And this worldly life is not but diversion and amusement. And indeed, the home of the Hereafter – that is the [eternal] life, if only they knew.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

اور یہ دنیا کی زندگی کچھ نہیں ہے مگر ایک کھیل اور دل کا بہلاوا اصل زندگی کا گھر تو دار آخرت ہے، کاش یہ لوگ جانتے

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اور یہ دنیا کی زندگی تو نہیں مگر کھیل کود اور بیشک آخرت کا گھر ضرور وہی سچی زندگی ہے کیا اچھا تھا اگر جانتے

احمد علی Ahmed Ali

اور یہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل اور تماشا ہے اور اصل زندگی عالم آخرت کی ہے کاش وہ سمجھتے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

اور دنیا کی یہ زندگانی تو محض کھیل تماشا ہے (۱) البتہ آخرت کے گھر کی زندگی حقیقی زندگی ہے (۲) کاش! یہ جانتے ہوتے (۳)

٦٤۔١ یعنی جس دنیا نے انہیں آخرت سے اندھا اور اس کے لیے توشہ جمع کرنے سے غافل رکھا ہے وہ ایک کھیل سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی، کافر دنیا کے کاروبار میں مشغول رہتا ہے، اس کے لیے شب وروز محنت کرتا ہے لیکن جب مرتا ہے تو خالی ہاتھ ہوتا ہے۔ جس طرح بچے سارا دن مٹی کے گھروندوں سے کھیلتے ہیں پھر خالی ہاتھ گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ سوائے تھکاوٹ کے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوتا
۔٦٤۔۲اس لئے ایسے عمل صالح کرنے چاہئیں جن سے آخرت کا یہ گھر سنور جائے۔
٦٤۔۳ کیونکہ اگر وہ یہ بات جان لیتے تو آخرت سے بےپرواہ ہو کر دنیا میں مگن نہ ہوتے۔ اس لئے ان کا علاج علم ہے، علم شریعت۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

اور یہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل اور تماشہ ہے اور (ہمیشہ کی) زندگی (کا مقام) تو آخرت کا گھر ہے۔ کاش یہ (لوگ) سمجھتے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

اور دنیا کی یہ زندگانی تو محض کھیل تماشا ہے البتہ آخرت کے گھر کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے، کاش! یہ جانتے ہوتے

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

اور یہ دنیاوی زندگی تو محض کھیل تماشہ ہے اور حقیقی زندگی تو آخرت والی ہے۔ کاش لوگوں کو اس (حقیقت) کا علم ہوتا۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

اور یہ زندگانی دنیا ایک کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں ہے اور آخرت کا گھر ہمیشہ کی زندگی کا مرکز ہے اگر یہ لوگ کچھ جانتے اور سمجھتے ہوں

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اور (اے لوگو!) یہ دنیا کی زندگی کھیل اور تماشے کے سوا کچھ نہیں ہے، اور حقیقت میں آخرت کا گھر ہی (صحیح) زندگی ہے۔ کاش! وہ لوگ (یہ راز) جانتے ہوتے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

جب عکرمہ طوفان میں گھر گئے
دنیا کی حقارت وذلت اس کے زوال وفنا کا ذکر ہو رہا ہے کہ اسے کوئی دوام نہیں اس کا کوئی ثبات نہیں یہ تو صرف لہو ولعب ہے۔ البتہ دار آخرت کی زندگی دوام وبقا کی زندگی ہے وہ زوال وفنا سے قلت وذلت سے دور ہے۔ اگر انہیں علم ہوتا تو اس بقا والی چیز پر اس فانی چیز کو ترجیح نہ دیتے۔ پھر فرمایا کہ مشرکین بےکسی اور بےبسی کے وقت تو اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک لہ کو ہی پکارنے لگتے ہیں۔ پھر مصیبت کے ہٹ جانے اور مشکل کے ٹل جانے کے بعد اس کے ساتھ دوسروں کا نام کیوں لیتے ہیں ؟ جیسے اور جگہ ارشاد ہے آیت ( وَاِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِيَّاهُ ۚ فَلَمَّا نَجّٰىكُمْ اِلَى الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْ ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ كَفُوْرًا 67؀) 17 ۔ الإسراء ;67) یعنی جب سمندر میں مشکل میں پھنستے ہیں اس وقت اللہ کے سوا سب کو بھول جاتے ہیں اور جب وہاں سے نجات پاکر خشکی میں آجاتے ہیں تو فورا ہی منہ پھیر لیتے ہیں۔ سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ فتح کیا تو عکرمہ ابن ابی جہل یہاں سے بھاگ نکلا اور حبشہ جانے کے ارادے سے کشتی میں بیٹھ گیا اتفاقا سخت طوفان آیا اور کشتی ادھر ادھر ہونے لگی۔ جتنے مشرکین کشتی میں تھے سب کہنے لگے یہ موقعہ صرف اللہ کو پکارنے کا ہے اٹھو اور خلوص کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرو اس وقت نجات اسی کے ہاتھ ہے۔ یہ سنتے ہی عکرمہ نے کہا سنو اللہ کی قسم اگر سمندر کی اس بلا سے سوائے اللہ کے کوئی نجات نہیں دے سکتا تو خشکی کی مصیبتوں کا ٹالنے والا بھی وہی ہے۔ اللہ میں تجھ سے عہد کرتا ہوں کہ اگر میں یہاں سے بچ گیا تو سیدھا جاکر حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں ہاتھ رکھ دونگا اور آپ کا کلمہ پڑھ لونگا۔ مجھے یقین ہے کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری خطاؤں سے درگذر فرمالیں گے اور مجھ پر رحم وکرم فرمائیں گے چناچہ یہی ہوا بھی آیت (لیکفروا) اور (لیتمتعوا) میں لام جو ہے اسے لام عافیت کہتے ہیں اس لئے کہ انکا قصد دراصل یہ نہیں ہوتا اور فی الواقع ان کی طرف نظریں ڈالنے سے بات بھی یہی ہے۔ ہاں اللہ تعالیٰ کی نسبت سے تو یہ لام تعلیل ہے۔ اس کی پوری تقریر ہم آیت ( فَالْتَقَطَهٗٓ اٰلُ فِرْعَوْنَ لِيَكُوْنَ لَهُمْ عَدُوًّا وَّحَزَنًا ۭ اِنَّ فِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ وَجُنُوْدَهُمَا كَانُوْا خٰطِـــــِٕيْنَ ۝) 28 ۔ القصص ;8) میں کرچکے ہیں۔