اُتْلُ مَاۤ اُوْحِىَ اِلَيْكَ مِنَ الْكِتٰبِ وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ ۗ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۤءِ وَالْمُنْكَرِۗ وَلَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ ۗ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
(اے نبیؐ) تلاوت کرو اس کتاب کی جو تمہاری طرف وحی کے ذریعہ سے بھیجی گئی ہے اور نماز قائم کرو، یقیناً نماز فحش اور بُرے کاموں سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر اس سے بھی زیادہ بڑی چیز ہے اللہ جانتا ہے جو کچھ تم لوگ کرتے ہو
English Sahih:
Recite, [O Muhammad], what has been revealed to you of the Book and establish prayer. Indeed, prayer prohibits immorality and wrongdoing, and the remembrance of Allah is greater. And Allah knows that which you do.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
(اے نبیؐ) تلاوت کرو اس کتاب کی جو تمہاری طرف وحی کے ذریعہ سے بھیجی گئی ہے اور نماز قائم کرو، یقیناً نماز فحش اور بُرے کاموں سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر اس سے بھی زیادہ بڑی چیز ہے اللہ جانتا ہے جو کچھ تم لوگ کرتے ہو
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اے محبوب! پڑھو جو کتاب تمہاری طرف وحی کی گئی اور نماز قائم فرماؤ، بیشک نماز منع کرتی ہے بے حیائی اور بری بات سے اور بیشک اللہ کا ذکر سب سے بڑا اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو،
احمد علی Ahmed Ali
جو کتاب تیری طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھا کرو اور نماز کے پابند رہو بے شک نماز بے حیائی اوربری بات سے روکتی ہے اور الله کی یاد بہت بڑی چیز ہے اور الله جانتا ہے جو تم کرتے ہو
أحسن البيان Ahsanul Bayan
جو کتاب آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھئے (١) اور نماز قائم کریں (٢) یقیناً نماز بےحیائی اور برائی سے روکتی ہے (۳) بیشک اللہ کا ذکر بڑی چیز ہے جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اللہ خبردار ہے (٤)
٤٥۔١ قرآن کریم کی تلاوت متعدد مقاصد کے لئے مطلوب ہے۔ محض اجر و ثواب کے لئے، اس کے معنی و مطلب پر تدبر و تفکر کے لئے، تعلیم و تدریس کے لئے، اور وعظ و نصیحت کے لئے، اس حکم تلاوت میں ساری صورتیں شامل ہیں۔
٤٥۔٢ کیونکہ نماز سے (بشرطیکہ نماز ہو) انسان کا تعلق اللہ تعالٰی کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے، جس سے انسان کو اللہ تعالٰی کی مدد حاصل ہوتی ہے جو زندگی کے ہر موڑ پر اس کے عزم و ثبات کا باعث، اور ہدایت کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے اس لیے قرآن کریم میں کہا گیا ہے کہ اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو۔ نماز اور صبر کوئی مرئی چیز نہیں ہے نہیں کہ انسان انکا سہارا پکڑ کر ان سے مدد حاصل کرلے۔ یہ تو غیر مرئی چیز ہے مطلب یہ ہے کہ ان کے ذریعے سے انسان کا اپنے رب کے ساتھ جو خصوصی ربط و تعلق پیدا ہوتا ہے وہ قدم قدم پر اس کی دستگیری اور رہنمائی کرتا ہے اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کی تنہائی میں تہجد کی نماز بھی پڑھنے کی تاکید کی گئی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے جو عظیم کام سونپا گیا تھا، اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی مدد کی بہت زیادہ ضرورت تھی اور یہی وجہ ہے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی جب کوئی اہم مرحلہ درپیش ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کا اہتمام فرماتے۔
٤٥۔٣ یعنی بےحیائی اور برائی سے روکنے کا سبب اور ذریعہ بنتی ہے جس طرح دواؤں کی مختلف تاثیرات ہیں اور کہا جاتا ہے کہ فلاں دوا فلاں بیماری کو روکتی ہے اور واقعتا ایسا ہوتا ہے لیکن کب؟ جب دو باتوں کا التزام کیا جائے ایک دوائی کو پابندی کے ساتھ اس طریقے اور شرائط کے ساتھ استعمال کیا جائے جو حکیم اور ڈاکٹر بتلائے۔ دوسرا پرہیز یعنی ایسی چیزوں سے اجتناب کیا جائے جو اس دوائی کے اثرات کو زائل کرنے والی ہوں۔ اسی طرح نماز کے اندر بھی یقینا اللہ نے ایسی روحانی تاثیر رکھی ہے کہ یہ انسان کو بےحیائی اور برائی سے روکتی ہے لیکن اسی وقت جب نماز کو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ان آداب وشرائط کے ساتھ پڑھا جائے جو اس کی صحت و قبولیت کے ضروری ہیں۔ مثلا اس کے لیے پہلی چیز اخلاص ہے، ثانیا طہارت قلب یعنی نماز میں اللہ کے سوا کسی اور کی طرف التفات نہ ہو۔ ثالثا باجماعت اوقات مقررہ پر اس کا اہتمام۔ رابعا ارکان صلاۃ قرأت رکوع قومہ سجدہ وغیرہ میں اعتدال و اطمینان خامسا خشوع وخضوع اور رقت کی کیفیت۔ سادسا مواظبت یعنی پابندی کے ساتھ اس کا التزام سابعا رزق حلال کا اہتمام۔ ہماری نمازیں ان آداب وشرائط سے عاری ہیں۔ اس لیے ان کے وہ اثرات بھی ہماری زندگی میں ظاہر نہیں ہو رہے ہیں جو قرآن کریم میں بتلائے گئے ہیں۔ بعض نے اس کے معنی امر کے کیے ہیں۔ یعنی نماز پڑھنے والے کو چاہیے کہ بےحیائی کے کاموں سے اور برائی سے رک جائے۔
٤٥۔٤ یعنی بےحیائی اور برائی سے روکنے میں اللہ کا ذکر، اقامت صلٰوۃ سے زیادہ مؤثر۔ اس لئے کہ آدمی جب تک نماز میں ہوتا ہے، برائی سے رکا رہتا ہے۔ لیکن بعد میں اس کی تاثیر کمزور ہو جاتی ہے، اس کے برعکس ہر وقت اللہ کا ذکر اس کے لئے ہر وقت برائی میں مانع رہتا ہے۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
(اے محمدﷺ! یہ) کتاب جو تمہاری طرف وحی کی گئی ہے اس کو پڑھا کرو اور نماز کے پابند رہو۔ کچھ شک نہیں کہ نماز بےحیائی اور بری باتوں سے روکتی ہے۔ اور خدا کا ذکر بڑا (اچھا کام) ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اُسے جانتا ہے
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
جو کتاب آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھئے اور نماز قائم کریں، یقیناً نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے، بیشک اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے، تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے اللہ خبردار ہے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول(ص)) آپ اس (کتاب) کی تلاوت کریں جو آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اور نماز قائم کریں۔ بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے جانتا ہے.
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
آپ جس کتاب کی آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھ کر سنائیں اور نماز قائم کریں کہ نماز ہر برائی اور بدکاری سے روکنے والی ہے اور اللہ کا ذکر بہت بڑی شے ہے اور اللہ تمہارے کاروبار سے خوب باخبر ہے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
(اے حبیبِ مکرّم!) آپ وہ کتاب پڑھ کر سنائیے جو آپ کی طرف (بذریعہ) وحی بھیجی گئی ہے، اور نماز قائم کیجئے، بیشک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے، اور واقعی اﷲ کا ذکر سب سے بڑا ہے، اور اﷲ ان (کاموں) کو جانتا ہے جو تم کرتے ہو،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
اخلاص خوف اور اللہ کا ذکر
اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور ایمان داروں کو حکم دے رہا ہے کہ وہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہیں اور اسے اوروں کو بھی سنائیں اور نمازوں کی نگہبانی کریں اور پابندی سے پڑھتے رہا کریں۔ نماز انسان کو ناشائستہ کاموں اور نالائق حرکتوں سے باز رکھتی ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ جس نمازی کی نماز نے اسے گناہوں سے اور سیاہ کاریوں سے باز نہ رکھا وہ اللہ سے بہت دور ہوجاتا ہے ابن ابی حاتم میں ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی گئی تو آپ نے فرمایا جسے اس کی نماز بےجا اور فحش کاموں سے نہ روکے تو سمجھ لو کہ اس کی نماز اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہوئی۔ اور روایت میں ہے کہ وہ اللہ سے دور ہی ہوتاچلا جائے گا۔ ایک موقوف روایت میں حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ جو نمازی بھلے کاموں میں مشغول اور برے کاموں سے بچنے والا نہ ہو سمجھ لو کہ اس کی نماز اسے اللہ سے اور دور کرتی جارہی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جو نماز کی بات نہ مانے اس کی نماز نہیں، نماز بےحیائی سے اور بد فعلیوں سے روکتی ہے اس کی اطاعت یہ ہے کہ ان بےہودہ کاموں سے نمازی رک جائے۔ حضرت شعیب سے جب ان کی قوم نے کہا کہ شعیب کیا تمہیں تمہاری نماز حکم کرتی ہے تو حضرت سفیان نے اس کی تفسیر میں فرمایا کہ ہاں اللہ کی قسم نماز حکم بھی کرتی ہے اور منع بھی کرتی ہے۔ حضرت عبداللہ سے کسی نے کہا فلاں شخص بڑی لمبی نماز پڑھتا ہے آپ نے فرمایا نماز اسے نفع دیتی ہے جو اس کا کہا مانے۔ میری تحقیق میں اوپر جو مرفوع روایت بیان ہوئی ہے اس کا بھی موقوف ہونا ہی زیادہ صحیح ہے۔ واللہ اعلم۔ بزار میں ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فلاں شخص نماز پڑھتا ہے لیکن چوری نہیں چھوڑتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عنقریب اس کی نماز اس کی یہ برائی چھڑادے گی۔ چونکہ نماز ذکر اللہ کا نام ہے اسی لیے اس کے بعد ہی فرمایا اللہ کی یاد بڑی چیز ہے اللہ تعالیٰ تمہاری تمام باتوں سے اور تمہارے کل کاموں سے باخبر ہے۔ حضرت ابو العالیہ فرماتے ہیں نماز تین چیزیں ہیں اگر یہ نہ ہوں تو نماز نماز نہیں اخلاص وخلوص خوف اللہ اور ذکر اللہ۔ اخلاص سے تو انسان نیک ہوجاتا ہے اور خوف اللہ سے انسان گناہوں کو چھوڑ دیتا ہے اور ذکر اللہ یعنی قرآن اسے بھلائی و برائی بتادیتا ہے وہ حکم بھی کرتا ہے اور منع بھی کرتا ہے۔ ابن عون انصاری فرماتے ہیں جب تو نماز میں ہو تو نیکی میں ہے اور نماز تجھے فحش اور منکر سے بچائے ہوئے ہے۔ اور اس میں جو کچھ تو ذکر اللہ کرہا ہے وہ تیرے لئے بڑے ہی فائدے کی چیز ہے۔ حماد کا قول ہے کہ کم سے کم حالت نماز میں تو برائیوں سے بچا رہے گا۔ ایک راوی سے ابن عباس کا یہ قول مروی ہے کہ جو بندہ یاد اللہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اسے یاد کرتا ہے۔ اس نے کہا ہمارے ہاں جو صاحب ہیں وہ تو کہتے ہیں کہ مطلب اس کا یہ ہے کہ جب تم اللہ کا ذکر کروگے تو وہ تمہاری یاد کرے گا اور یہ بہت بڑی چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے آیت ( فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوْا لِيْ وَلَا تَكْفُرُوْنِ\015\02ۧ) 2 ۔ البقرة ;152) کہ تم میری یاد کرو میں تمہاری یاد کرونگا۔ اسے سن کر آپ نے فرمایا اس نے سچ کہا یعنی دونوں مطلب درست ہیں۔ یہ بھی اور وہ بھی اور خود حضرت ابن عباس سے یہ بھی تفسیر مروی ہے۔ حضرت عبداللہ بن ربیعہ سے ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عباس نے دریافت فرمایا کہ اس جملے کا مطلب جانتے ہو ؟ انہوں نے کہا ہاں اس سے مراد نماز میں سبحان للہ، الحمدللہ، اللہ اکبر وغیرہ کہنا ہے۔ آپ نے فرمایا تو نے عجیب بات کہی یہ یوں نہیں ہے بلکہ مقصود یہ ہے کہ حکم کے اور منع کے وقت اللہ کا تمہیں یاد کرنا تمہارے ذکر اللہ سے بہت بڑا اور بہت اہم ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت ابو درداء حضرت سلمان فارسی وغیرہ سے بھی یہی مروی ہے۔ اور اسی کو امام ابن جریر پسند فرماتے ہیں۔