Skip to main content

اِنَّ الَّذِىْ فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لَرَاۤدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ ۗ قُلْ رَّبِّىْۤ اَعْلَمُ مَنْ جَاۤءَ بِالْهُدٰى وَمَنْ هُوَ فِىْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ

Indeed
إِنَّ
بیشک
He Who
ٱلَّذِى
وہ ذات
ordained
فَرَضَ
جس نے مقرر کیا
upon you
عَلَيْكَ
آپ پر
the Quran
ٱلْقُرْءَانَ
قرآن کو
(will) surely take you back
لَرَآدُّكَ
البتہ پھیر لے جانے والا ہے آپ کو
to
إِلَىٰ
تک
a place of return
مَعَادٍۚ
لوٹنے کی جگہ (تک)
Say
قُل
کہہ دیجئے
"My Lord
رَّبِّىٓ
میرا رب
(is) most knowing
أَعْلَمُ
خوب جانتا ہے
(of him) who
مَن
جو
comes
جَآءَ
لایا
with the guidance
بِٱلْهُدَىٰ
ہدایت کو
and who -
وَمَنْ
اور جو کوئی ہو
he
هُوَ
وہ
(is) in
فِى
میں
an error
ضَلَٰلٍ
گمراہی (میں)
manifest"
مُّبِينٍ
کھلی

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

اے نبیؐ، یقین جانو کہ جس نے یہ قرآن تم پر فرض کیا ہے وہ تمہیں ایک بہترین انجام کو پہنچانے والا ہے اِن لوگوں سے کہہ دو کہ "میرا رب خُوب جانتا ہے کہ ہدایت لے کر کون آیا ہے اور کھُلی گمراہی میں کون مُبتلا ہے"

English Sahih:

Indeed, [O Muhammad], He who imposed upon you the Quran will take you back to a place of return. Say, "My Lord is most knowing of who brings guidance and who is in clear error."

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

اے نبیؐ، یقین جانو کہ جس نے یہ قرآن تم پر فرض کیا ہے وہ تمہیں ایک بہترین انجام کو پہنچانے والا ہے اِن لوگوں سے کہہ دو کہ "میرا رب خُوب جانتا ہے کہ ہدایت لے کر کون آیا ہے اور کھُلی گمراہی میں کون مُبتلا ہے"

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

بیشک جس نے تم پر قرآن فرض کیا وہ تمہیں پھیر لے جائے گا جہاں پھرنا چاہتے ہو تم فرماؤ، میرا رب خوب جانتا ہے اسے جو ہدایت لایا اور جو کھلی گمراہی میں ہے

احمد علی Ahmed Ali

جس نے تم پر قرآن فرض کیا وہ تمہیں لوٹنے کی جگہ پھیر لائے گا کہہ دو میرا رب خوب جانتا ہے کہ ہدایت کون لے کر آیا ہے اور کون صریح گمراہی میں پڑا ہواہے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

جس اللہ نے آپ پر قرآن نازل فرمایا ہے (١) وہ آپ کو دوبارہ پہلی جگہ لانے والا ہے (۲) کہہ دیجئے کہ میرا رب اسے بخوبی جانتا ہے جو ہدایت لایا اور اس سے بھی کھلی گمراہی میں ہے۔ (۳)

٨٥۔١ یا اس کی تلاوت اور اس کی تبلیغ و دعوت آپ پر فرض کی ہے۔
۸۵۔۲ یعنی آپ کے مولد مکہ، جہاں سے آپ نکلنے پر مجبور کر دیئے گئے تھے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری میں اس کی یہی تفسیر نقل ہوئی ہے۔ چنانچہ ہجرت کے آٹھ سال بعد اللہ کا یہ وعدہ پورا ہوگیا اور آپ ۸ ہجری میں فاتحانہ طور پر مکے میں دوبارہ تشریف لے گئے۔ بعض نے معاد سے مراد قیامت لی ہے۔ یعنی قیامت والے دن آپ کو اپنی طرف لوٹائے گا اور تبلیغ رسالت کے بارے میں پوچھے گا۔
۸۵۔۳ یہ مشرکین کے اس جواب میں ہے جو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے آبائی اور روایتی مذہب سی انحراف کی بنا پر گمراہ سمجھتے تھے۔ فرمایا، میرا رب خوب جانتا ہے کہ گمراہ میں ہوں، جو اللہ کی طرف سے ہدایت لے کر آیا ہوں یا تم ہو، جو اللہ کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت کو قبول نہیں کر رہے ہو؟

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

(اے پیغمبر) جس (خدا) نے تم پر قرآن (کے احکام) کو فرض کیا ہے وہ تمہیں بازگشت کی جگہ لوٹا دے گا۔ کہہ دو کہ میرا پروردگار اس شخص کو بھی خوب جانتا ہے جو ہدایت لےکر آیا اور (اس کو بھی) جو صریح گمراہی میں ہے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

جس اللہ نے آپ پر قرآن نازل فرمایا ہے وه آپ کو دوباره پہلی جگہ ﻻنے واﻻ ہے، کہہ دیجئے! کہ میرا رب اسے بھی بخوبی جانتا ہے جو ہدایت ﻻیا ہے اور اسے بھی جو کھلی گمراہی میں ہے

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

(اے رسول(ص)) جس (خدا) نے آپ پرقرآن (کا پہنچانا) فرض کیا ہے وہ آپ کو واپسی کی منزل (مکہ) تک پھر پہنچا کر رہے گا۔ آپ کہئے! میرا پروردگار بہتر جانتا ہے کہ ہدایت لے کر کون آیا ہے اور کھلی ہوئی گمراہی میں کون ہے؟

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

بیشک جس نے آپ پر قرآن کا فریضہ عائد کیا ہے وہ آپ کو آپ کی منزل تک ضرور واپس پہنچائے گا .آپ کہہ دیجئے کہ میرا پروردگار بہتر جانتا ہے کہ کون ہدایت لے کر آیا ہے اور کون کھلی ہوئی گمراہی میں ہے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

بیشک جس (رب) نے آپ پر قرآن (کی تبلیغ و اقامت کو) فرض کیا ہے یقیناً وہ آپ کو (آپ کی چاہت کے مطابق) لوٹنے کی جگہ (مکہ یا آخرت) کی طرف (فتح و کامیابی کے ساتھ) واپس لے جانے والا ہے۔ فرما دیجئے: میرا رب اسے خوب جانتا ہے جو ہدایت لے کر آیا اور اسے (بھی) جو صریح گمراہی میں ہے۔٭، ٭ (یہ آیت مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرماتے ہوئے حجفہ کے مقام پر نازل ہوئی اور یہ وعدہ فتح مکہ کے دن پورا ہو گیا۔)

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

جو کروگے سو بھروگے
اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو حکم فرماتا ہے کہ رسالت کی تبلیغ کرتے رہیں لوگوں کو کلام اللہ سناتے رہیں اللہ تعالیٰ آپ کو قیامت کی طرف واپس لے جانے والا ہے اور وہاں نبوت کی بابت پرستش ہوگی۔ جیسے فرمان ہے۔ آیت ( فَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الَّذِيْنَ اُرْسِلَ اِلَيْهِمْ وَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الْمُرْسَلِيْنَ ۝ ۙ ) 7 ۔ الاعراف ;6) یعنی امتوں سے اور رسولوں سے سب سے ہم دریافت فرمائیں گے۔ اور آیت میں ہے رسولوں کو جمع کرکے اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب دیا گیا ؟ اور آیت میں ہے نبیوں کو اور گواہوں کو لایا جائے گا۔ معاد سے مراد جنت بھی ہوسکتی ہے موت بھی ہوسکتی ہے۔ دوبارہ کی زندگی بھی ہوسکتی ہے کہ دوبارہ پیدا ہوں اور داخل جنت ہوں۔ صحیح بخاری میں ہے اس سے مراد مکہ ہے۔ مجاہد سے مروی ہے کہ اس سے مراد مکہ ہے جو آپ کی جائے پیدائش تھی۔ ضحاک فرماتے ہیں جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ سے نکلے ابھی جحفہ ہی میں تھے جو آپ کے دل میں مکہ کا شوق پیدا ہوا پس یہ آیت اتری اور آپ سے وعدہ ہوا کہ آپ واپس مکہ پہنچائے جائیں گے۔ اس سے یہ بھی نکلتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہو حالانکہ پوری سورت مکی ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد اس سے بیت المقدس ہے شاید اس کہنے والے کی غرض اس سے بھی قیامت ہے۔ اس لیے کہ بیت المقدس ہی محشر زمین ہے۔ ان تمام اقوال میں جمع کی صورت یہ ہے کہ ابن عباس نے کبھی تو آپ کے مکہ کی طرف لوٹنے سے اس کی تفسیر کی ہے جو فتح مکہ سے پوری ہوئی۔ اور یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر کے پورا ہونے کی ایک زبردست علامت تھی جیسے کہ آپ نے سورة اذاجاء کی تفسیر میں فرمایا ہے۔ جس کی حضرت عمر (رض) نے بھی موافقت کی تھی۔ اور فرمایا تھا کہ تو جو جانتا ہے وہی میں بھی جانتا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ انہی سے اس آیت کی تفسیر میں جہاں مکہ مروی ہے وہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال بھی مروی ہے اور کبھی قیامت سے تفسیر کی کیونکہ موت کے بعد قیامت ہے اور کبھی جنت سے تفسیر کی جو آپ کا ٹھکانا ہے اور آپ کی تبلیغ رسالت کا بدل ہے کہ آپ نے جن وانس کو اللہ کے دین کی دعوت دی اور آپ تمام مخلوق سے زیادہ کلام زیادہ فصیح اور زیادیہ افضل تھے۔ پھر فرمایا کہ اپنے مخالفین سے اور جھٹلانے والوں سے کہہ دو کہ ہم میں سے ہدایت والوں کو اور گمراہی والوں کو اللہ خوب جانتا ہے۔ تم دیکھ لوگے کہ کس کا انجام بہتر ہوتا ہے ؟ اور دنیا اور آخرت میں بہتری اور بھلائی کس کے حصے میں آتی ہے ؟ پھر اپنی ایک اور زبردست نعمت بیان فرماتا ہے کہ وحی اترنے سے پہلے کبھی آپ کو یہ خیال بھی نہ گزرا تھا کہ آپ پر کتاب نازل ہوگی۔ یہ تو تجھ پر اور تمام مخلوق پر رب کی رحمت ہوئی کہ اس نے تجھ پر اپنی پاک اور افضل کتاب نازل فرمائی۔ اب تمہیں ہرگز کافروں کا مددگار نہ ہونا چاہئے بلکہ ان سے الگ رہنا چاہئے۔ ان سے بیزاری ظاہر کردینی چاہیے اور ان سے مخالفت کا اعلان کردینا چاہیے۔ پھر فرمایا کہ اللہ کی اتری ہوئی آیتوں سے یہ لوگ کہیں تجھے روک نہ دیں یعنی جو تیرے دین کی مخالفت کرتے ہیں اور لوگوں کو تیری تابعداری سے روکتے ہیں۔ تو اس سے اثر پذیر نہ ہونا اپنے کام پر لگے رہنا اللہ تیرے کلمے کو بلند کرنے والا ہے تیرے دین کی تائید کرنے والا ہے تیری رسالت کو غالب کرنے والا ہے۔ تمام دینوں پر تیرے دین کو اونچا کرنے والا ہے۔ تو اپنے رب کی عبادت کی طرف لوگوں کو بلاتا رہ جو اکیلا اور لاشریک ہے تجھے نہیں چاہیے کہ مشرکوں کا ساتھ دے۔ اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکار۔ عبادت کے لائق وہی ہے الوہیت کے قابل اسی کی عظیم الشان ذات ہے وہی دائم اور باقی ہے حی وقیوم ہے تمام مخلوق مرجائے گی اور وہ موت سے دور ہے۔ جیسے فرمایا آیت ( كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَّيَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ 27۝ۚ ) 55 ۔ الرحمن ;27) جو بھی یہاں پر ہے فانی ہے۔ تیرے رب کا چہرہ ہی باقی رہ جائے گا جو جلالت و کرامت والا ہے۔ وجہ سے مراد ذات ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں سب سے زیادہ سچا کلمہ لبید شاعر کا ہے جو اس نے کہا ہے شعر (الا کل شئی ماخلا اللہ باطل) یاد رکھو کہ اللہ کے سوا سب کچھ باطل ہے۔ مجاہد وثور سے مروی ہے کہ ہر چیز باطل ہے مگر وہ کام جو اللہ کی رضا جوئی کے لئے کئے جائیں ان کا ثواب رہ جاتا ہے۔ شاعروں کے شعروں میں بھی وجہ کا لفظ اس مطلب کے لئے استعمال کیا گیا ہے ملاحظہ ہو۔
شعر (استغفر اللہ ذنبا لست محصیہ
رب العباد الیہ الوجہ والعمل)
میں اللہ سے جو تمام بندوں کا رب ہے جس کی طرف توجہ اور قصد ہے اور جس کے لئے عمل ہیں اپنے ان تمام گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں جنہیں میں شمار بھی نہیں کرسکتا۔ یہ قول پہلے قول کے خلاف نہیں۔ یہ بھی اپنی جگہ صحیح ہے کہ انسان کے تمام اعمال اکارت ہیں صرف ان ہی نیکیوں کے بدلے کا مستحق ہے جو محض اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لئے کی ہوں۔ اور پہلے قول کا مطلب بھی بالکل صحیح ہے کہ سب جاندار فانی اور زائل ہیں صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پاک ہے جو فنا اور زوال سے بالاتر ہے۔ وہی اول وآخر ہے ہر چیز سے پہلے تھا اور ہر چیز کے بعد رہے گا۔ مروی ہے کہ جب حضرت ابن عباس (رض) اپنے دل کو مضبوط کرنا چاہتے تھے تو جنگل میں کسی کھنڈر کے دروازے پر کھڑے ہوجاتے اور دردناک آواز سے کہتے کہ اس کے بانی کہاں ہے ؟ پھر خود جواب میں یہی پڑھتے۔ حکم وملک اور ملکیت صرف اسی کی ہے مالک و متصرف وہی ہے۔ اس کے حکم احکام کو کوئی رد نہیں کرسکتا۔ روز جزا سب اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ وہ سب کو ان نیکیوں اور بدیوں کا بدلہ دے گا۔ نیک کو نیک بدلہ اور برے کو بری سزا۔ الحمد اللہ سورة قصص کی تفسیر ختم ہوئی۔