كَذٰلِكَ سَلَكْنٰهُ فِىْ قُلُوْبِ الْمُجْرِمِيْنَۗ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
اِسی طرح ہم نے اس (ذکر) کو مجرموں کے دلوں میں گزارا ہے
English Sahih:
Thus have We inserted it [i.e., disbelief] into the hearts of the criminals.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
اِسی طرح ہم نے اس (ذکر) کو مجرموں کے دلوں میں گزارا ہے
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
ہم نے یونہی جھٹلانا پیرا دیا ہے مجرموں کے دلوں میں
احمد علی Ahmed Ali
اسی طرح ہم نے اس انکار کو گناہگاروں کے دل میں ڈال رکھا ہے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
اسی طرح ہم نے گنہگاروں کے دلوں میں اس انکار کو داخل کر دیا ہے (١)
٢٠٠۔١ یعنی سَلَکْنَاہُ میں ضمیر کا مرجع کفر و تکذیب اور جحود و عناد ہے۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
اسی طرح ہم نے انکار کو گنہگاروں کے دلوں میں داخل کردیا
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
اسی طرح ہم نے گناہگاروں کے دلوں میں اس انکار کو داخل کر دیا ہے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
اسی طرح ہم نے اس (انکار) کو مجرموں کے دلوں میں داخل کر دیا ہے۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اس طرح ہم نے اس انکار کو مجرمین کے دلوں تک جانے کا رستہ دے دیا ہے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
اس طرح ہم نے اس (کے انکار) کو مجرموں کے دلوں میں پختگی سے داخل کر دیا ہے،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
کفر و انکار
تکذیب وکفر انکار وعدم تسلیم کو ان مجرموں کے دل میں بٹھا دیا ہے۔ یہ جب تک عذاب اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں ایمان نہیں لائیں گے۔ اس وقت اگر ایمان لائے بھی تو محض بےسود ہوگا ان پر لعنت برس چکی ہوگی۔ برائی مل چکی ہوگی۔ نہ پچھتانا کام آئے نہ معذرت نفع دے۔ عذاب اللہ آئیں گے اور اچانک ان کی بیخبر ی میں ہی آجائیں گے اس وقت ان کی تمنائیں اگر ذرا سی بھی مہلت پائیں تو نیک بن جائیں بےسود ہونگی۔ ایک انہی پر کیا موقوف ہے ہر ظالم، فاجر، فاسق، کافر بدکار عذاب کو دیکھتے ہی سیدھا ہوجاتا ہے، نادم ہوتا ہے توبہ تلافی کرتا ہے مگر سب لاحاصل۔ فرعون ہی کو دیکھئے حضرت موسیٰ نے اس کے لئے بد دعا کی جو قبول ہوئی عذاب کو دیکھ کر ڈوبتے ہوئے کہنے لگا کہ اب میں مسلمان ہوتا ہوں لیکن جواب ملا کہ یہ ایمان بےسود ہے۔ اسی طرح ایک اور آیت میں ہے کہ ہمارا عذاب دیکھ کر ایمان کا اقرار کیا۔ پھر ان کی ایک اور بدبختی بیان ہو رہی ہے کہ وہ اپنے نبیوں سے کہتے تھے اگر سچے ہو تو عذاب اللہ لاؤ۔ اگرچہ ہم انہیں مہلت دیں اور کچھ دنوں تک کچھ مدت تک انہیں عذاب سے بچائے رکھیں۔ پھر ان کے پاس ہمارا مقررہ عذاب آجائے۔ ان کا حال ان کی نعمتیں ان کی جاہ وحشمت غرض کوئی چیز انہیں ذرا سا بھی فائدہ نہیں دے سکتی۔ اس وقت تک یہی معلوم ہوگا کہ شاید ایک صبح یا ایک شام ہی دنیا میں رہے۔ جیسے ایک اور آیت میں ہے آیت (يَوَدُّ اَحَدُھُمْ لَوْ يُعَمَّرُ اَلْفَ سَـنَةٍ ۚ وَمَا ھُوَ بِمُزَحْزِحِهٖ مِنَ الْعَذَابِ اَنْ يُّعَمَّرَ ۭ وَاللّٰهُ بَصِيْرٌۢ بِمَا يَعْمَلُوْنَ 96) 2 ۔ البقرة ;96) ان میں سے ہر ایک کی چاہت ہے کہ وہ ہزار ہزار سال جئے لیکن اتنی عمر بھی اللہ کے عذاب ہٹا نہیں سکتی۔ یہی یہاں بھی فرمایا کہ اسباب ان کے کچھ کام نہ آئیں گے الٹا عذاب میں مبتلا ہوتے وقت ان کی تمام طاقتیں اور اسباب یونہی رکھے رکھے رہ جائیں گے۔ چناچہ صحیح حدیث میں ہے کہ کافر کو قیامت کے دن لایا جائے گا، پھر آگ میں ایک غوطہ دلاکر پوچھا جائے گا کہ تو نے کبھی راحت بھی اٹھائی ہے تو کہے گا کہ اللہ کی قسم میں نے کبھی کوئی راحت نہیں دیکھی اور ایک اس شخص کو لایا جائے گا جس نے پوری عمر واقعی کوئی راحت چکھی ہی نہ ہو۔ اسے جنت کی ہوا کھلاکر لایا جائے گا اور سوال ہوگا کہ کیا تو نے عمر بھر کبھی کوئی برائی دیکھی ہے ؟ تو وہ کہے گا اے اللہ تیری ذات پاک کی قسم میں نے کبھی کوئی زحمت نہیں اٹھائی۔ حضرت عمربن خطاب (رض) عموما یہ شعر پڑھا کرتے تھے کہ جب تو اپنی مراد کو پہنچ گیا تو گویا تو نے کبھی کسی تکلیف کا نام بھی نہیں سنا۔ اللہ عزوجل اس کے بعد اپنے عدل کی خبر دیتا ہے کہ کبھی اس نے حجت ختم ہونے سے پہلے کبھی کسی امت کو ختم نہیں کیا۔ رسولوں کو بھیجتا کتابیں اتارتا ہے خبریں دیتا ہے ہوشیار کرتا ہے پھر نہ ماننے والوں پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ پس فرمایا کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انبیائے کے بھیجنے سے پہلے ہی ہم نے کسی امت پر عذاب بھیج دئے ہوں۔ ڈرانے والے بھیج کر نصیحت کرکے عذر ہٹا کر پھر نہ مانے پر عذاب ہوتا ہے جیسے فرمایا تیرا رب کسی بستی کو ہلاک نہیں کرتاجب تک کہ ان کی بستیوں کی صدر بستی میں کسی رسول نہ بھیج دے جو انہیں ہماری آیتیں پڑھ کر سنائے۔