Skip to main content

وَاِنَّهٗ لَـتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَۗ

And indeed it
وَإِنَّهُۥ
اور بیشک وہ
surely is a Revelation
لَتَنزِيلُ
البتہ نازل کردہ ہے
(of the) Lord
رَبِّ
رب
(of) the worlds
ٱلْعَٰلَمِينَ
العالمین کی طرف سے

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

یہ رب العالمین کی نازل کردہ چیز ہے

English Sahih:

And indeed, it [i.e., the Quran] is the revelation of the Lord of the worlds.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

یہ رب العالمین کی نازل کردہ چیز ہے

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اور بیشک یہ قرآن رب العالمین کا اتارا ہوا ہے،

احمد علی Ahmed Ali

اور یہ قرآن رب العالمین کا اتارا ہوا ہے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

اور بیشک و شبہ یہ (قرآن) رب العالمین کا نازل فرمایا ہوا ہے۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

اور یہ قرآن (خدائے) پروردگار عالم کا اُتارا ہوا ہے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

اور بیشک و شبہ یہ (قرآن) رب العالمین کا نازل فرمایا ہوا ہے

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

اور بےشک یہ (قرآن) رب العالمین کا نازل کردہ ہے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

اور یہ قرآن رب العالمین کی طرف سے نازل ہونے والا ہے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اور بیشک یہ (قرآن) سارے جہانوں کے رب کا نازل کردہ ہے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

مبارک کتاب
سورت کی ابتدا میں قرآن کریم کا ذکر آیا تھا وہی ذکر پھر تفصیلاً بیان ہو رہا ہے کہ یہ مبارک کتاب قرآن کریم اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور نبی حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمائی ہے۔ روح الامین سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں جن کے واسطے سے یہ وحی سرور رسل (علیہ السلام) پر اتری ہے۔ جیسے فرمان ہے آیت ( قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰي قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَھُدًى وَّبُشْرٰى لِلْمُؤْمِنِيْنَ 97؀) 2 ۔ البقرة ;97) یعنی اس قرآن کو بحکم الٰہی حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے تیرے دل پر نازل فرمایا ہے۔ یہ قرآن اگلی تمام الہامی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے۔ یہ فرشتہ ہمارے ہاں ایسا مکرم ہے کہ اس کا دشمن ہمارا دشمن ہے حضرت مجاہد (رح) فرماتے ہیں جس سے روح الامین بولے اسے زمین نہیں کھاتی۔ اس بزرگ بامرتبہ فرشتے نے جو فرشتوں کا سردار ہے تیرے دل پر اس پاک اور بہتر کلام اللہ کو نازل فرمایا ہے جو ہر طرح کے میل کچیل سے کمی زیادتی سے نقصان اور کجی سے پاک ہے۔ تاکہ تو اللہ کے مخالفین کو گہنگاروں کو اللہ کی سزا سے بچاؤ کرنے کی رہبری کرسکے۔ اور تابع فرمان لوگوں کو اللہ کی مغفرت ورضوان کی خوشخبری پہنچاسکے۔ یہ کھلی فصیح عربی زبان میں ہے۔ تاکہ ہر شخص سمجھ سکے پڑھ سکے۔ کسی کا عذر باقی نہ رہے اور ہر ایک پر قرآن کریم اللہ کی حجت بن جائے ایک مرتبہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ (رض) کے سامنے نہایت فصاحت سے ابر کے اوصاف بیان کئے جسے سن کر صحابہ کہہ اٹھے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ تو کمال درجے کے فصیح وبلیغ زبان بولتے ہیں۔ آپ نے فرمایا بھلا میری زبان ایسی پاکیزہ کیوں نہ ہوگی، قرآن بھی تو میری زبان میں اترا ہے فرمان ہے آیت ( بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِيْنٍ\019\05ۭ ) 26 ۔ الشعراء ;195) امام سفیان ثوری (رح) فرماتے ہیں وحی عربی میں اتری ہے یہ اور بات ہے کہ ہر نبی نے اپنی قوم کے لئے ان کی زبان میں ترجمہ کردیا۔ قیامت کے دن سریانی زبان ہوگی ہاں جنتیوں کی زبان عربی ہوگی ( ابن ابی حاتم)