Skip to main content

اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ ۚ وَلَوْ شَاۤءَ لَجَـعَلَهٗ سَاكِنًا ۚ ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيْلًا ۙ

Do you not
أَلَمْ
کیا تم نے
see
تَرَ
دیکھا نہیں
[to]
إِلَىٰ
کی طرف
your Lord
رَبِّكَ
اپنے رب
how
كَيْفَ
کس طرح
He extends
مَدَّ
اس نے پھیلا دیا
the shadow?
ٱلظِّلَّ
سائے کو
And if
وَلَوْ
اور اگر
He willed
شَآءَ
وہ چاہتا
surely He (could) have made it
لَجَعَلَهُۥ
البتہ کردیتا اس کو
stationary
سَاكِنًا
ٹھہرا ہوا
Then
ثُمَّ
پھر
We made
جَعَلْنَا
بنایا ہم نے
the sun
ٱلشَّمْسَ
سورج کو
for it
عَلَيْهِ
اس پر
an indication
دَلِيلًا
نشانی ۔ رہبر

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارا رب کس طرح سایہ پھیلا دیتا ہے؟ اگر وہ چاہتا تو اسے دائمی سایہ بنا دیتا ہم نے سورج کو اُس پر دلیل بنایا

English Sahih:

Have you not considered your Lord – how He extends the shadow, and if He willed, He could have made it stationary? Then We made the sun for it an indication.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارا رب کس طرح سایہ پھیلا دیتا ہے؟ اگر وہ چاہتا تو اسے دائمی سایہ بنا دیتا ہم نے سورج کو اُس پر دلیل بنایا

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اے محبوب! کیا تم نے اپنے رب کو نہ دیکھا کہ کیسا پھیلا سایہ اور اگر چاہتا تو اسے ٹھہرایا ہوا کردیتا پھر ہم نے سورج کو اس پر دلیل کیا،

احمد علی Ahmed Ali

کیا تو نے اپنے رب کی طرف نہیں دیکھا کہ اس نے سایہ کو کیسے پھیلایا ہے اور اگر چاہتا تو اسے ٹھہرا رکھتا پھر ہم نے سورج کو اس کا سبب بنا دیا ہے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے سائے کو کس طرح پھیلا دیا ہے؟ (١) اگر چاہتا تو اسے ٹھہرا ہوا ہی کر دیتا (٢) پھر ہم نے آفتاب کو اس پر دلیل بنایا (٣)۔

٤٥۔١ یہاں سے پھر توحید کے دلائل کا آغاز ہو رہا ہے۔ دیکھو، اللہ تعالٰی نے کائنات میں کس طرح سایہ پھیلایا ہے، جو صبح صادق کے بعد سے سورج طلوع ہونے تک رہتا ہے۔ یعنی اس وقت دھوپ نہیں ہوتی، دھوپ کے ساتھ یہ سمٹتا سکڑنا شروع ہوتا جاتا ہے۔
٤٥۔٢ یعنی ہمیشہ سایہ ہی رہتا، سورج کی دھوپ سائے کو ختم ہی نہ کرتی۔
٤٥۔٣ یعنی دھوپ سے ہی سایہ کا پتہ چلتا ہے کہ ہرچیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے۔ اگر سورج نہ ہوتا، تو سائے سے بھی لوگ متعارف نہ ہوتے۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

بلکہ تم نے اپنے پروردگار (کی قدرت) کو نہیں دیکھا کہ وہ سائے کو کس طرح دراز کر (کے پھیلا) دیتا ہے۔ اور اگر وہ چاہتا تو اس کو (بےحرکت) ٹھیرا رکھتا پھر سورج کو اس کا رہنما بنا دیتا ہے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے سائے کو کس طرح پھیلا دیا ہے؟ اگر چاہتا تو اسے ٹھہرا ہوا ہی کر دیتا۔ پھر ہم نے آفتاب کو اس پر دلیل بنایا

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

کیا تم نے اپنے پروردگار کی (قدرت کی) طرف نہیں دیکھا کہ اس نے سایہ کو کیونکر پھیلایا ہے؟ اور اگر وہ چاہتا تو اسے (ایک جگہ) ٹھہرا ہوا بنا دیتا۔ پھر ہم نے سورج کو اس پر دلیل راہ بنایا۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے پروردگار نے کس طرح سایہ کو پھیلا دیا ہے اور وہ چاہتا تو ایک ہی جگہ ساکن بنا دیتا پھر ہم نے آفتاب کو اس کی دلیل بنادیا ہے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

کیا آپ نے اپنے رب (کی قدرت) کی طرف نگاہ نہیں ڈالی کہ وہ کس طرح (دوپہر تک) سایہ دراز کرتا ہے اور اگر وہ چاہتا تو اسے ضرور ساکن کر دیتا پھر ہم نے سورج کو اس (سایہ) پر دلیل بنایا ہے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

اگر وہ چاہے تو رات دن نہ بدلے
اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی قدرت پر دلیلیں بیان ہو رہی ہے کہ مختلف اور متضاد چیزوں کو وہ پیدا کر رہا ہے۔ سائے کو وہ بڑھاتا ہے کہتے ہیں کہ یہ وقت صادق سے لے کر سورج کے نکلنے تک کا ہے اگر وہ چاہتا تو اسے ایک ہی حالت پر رکھ دیتا۔ جیسے فرمان ہے کہ اگر وہ رات ہی رات رکھے تو کوئی دن نہیں کرسکتا اور اگر دن ہی دن رکھے تو کوئی رات نہیں لاسکتا۔ اگر سورج نہ نکلتا تو سائے کا حال ہی معلوم نہ ہوتا۔ ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے سائے کے پیچھے دھوپ دھوپ کے پیچھے سایہ بھی قدرت کا انتظام ہے۔ پھر سہج سہج ہم اسے یعنی سائے کو یا سورج کو اپنی طرف سمیٹ لیتے ہیں۔ ایک گھٹتا جاتا ہے تو دوسرا بڑھتا جاتا ہے اور یہ انقلاب سرعت سے عمل میں آتا ہے کوئی جگہ سایہ دار باقی نہیں رہتی صرف گھروں کے چھپڑوں کے اور درختوں کے نیچے سایہ رہ جاتا ہے اور ان کے بھی اوپر دھوپ کھلی ہوئی ہوتی ہے۔ آہستہ آہستہ تھوڑا تھوڑا کرکے ہم اسے اپنی طرف سمیٹ لیتے ہیں۔ اسی نے رات کو تمہارے لیے لباس بنایا ہے کہ وہ تمہارے وجود پر چھا جاتی ہے اور اسے ڈھانپ لیتی ہے جیسے فرمان ہے قسم ہے رات کی جب کہ ڈھانپ لے، اسی نے نیند کو سبب راحت وسکون بنایا کہ اس وقت حرکت موقوف ہوجاتی ہے۔ اور دن بھر کے کام کاج سے جو تھکن چڑھ گئی تھی وہ اس آرام سے اترجاتی ہے۔ بدن کو اور روح کو راحت حاصل ہوجاتی ہے۔ پھر دن کو اٹھ کھڑے ہوتے ہو پھیل جاتے ہو۔ اور روزی کی تلاش میں لگ جاتے ہو۔ جیسے فرمان ہے کہ اس نے اپنی رحمت سے رات دن مقرر کردیا ہے کہ تم سکون وآرام بھی حاصل کرلو اور اپنی روزیاں بھی تلاش کرو۔