وَمَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّلَا نَبِىٍّ اِلَّاۤ اِذَا تَمَنّٰۤى اَلْقَى الشَّيْطٰنُ فِىْۤ اُمْنِيَّتِهٖ ۚ فَيَنْسَخُ اللّٰهُ مَا يُلْقِى الشَّيْطٰنُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللّٰهُ اٰيٰتِهٖ ۗ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ ۙ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
اور اے محمدؐ، تم سے پہلے ہم نے نہ کوئی رسول ایسا بھیجا ہے نہ نبی (جس کے ساتھ یہ معاملہ نہ پیش آیا ہو کہ) جب اُس نے تمنّا کی، شیطان اس کی تمنّا میں خلل انداز ہو گیا اِس طرح جو کچھ بھی شیطان خلل اندازیاں کرتا ہے اللہ ان کو مٹا دیتا ہے اور اپنی آیات کو پختہ کر دیتا ہے، اللہ علیم ہے اور حکیم
English Sahih:
And We did not send before you any messenger or prophet except that when he spoke [or recited], Satan threw into it [some misunderstanding]. But Allah abolishes that which Satan throws in; then Allah makes precise His verses. And Allah is Knowing and Wise.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
اور اے محمدؐ، تم سے پہلے ہم نے نہ کوئی رسول ایسا بھیجا ہے نہ نبی (جس کے ساتھ یہ معاملہ نہ پیش آیا ہو کہ) جب اُس نے تمنّا کی، شیطان اس کی تمنّا میں خلل انداز ہو گیا اِس طرح جو کچھ بھی شیطان خلل اندازیاں کرتا ہے اللہ ان کو مٹا دیتا ہے اور اپنی آیات کو پختہ کر دیتا ہے، اللہ علیم ہے اور حکیم
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اور ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول یا نبی بھیجے سب پر کبھی یہ واقعہ گزرا ہے کہ جب انہوں نے پڑھا تو شیطان نے ان کے پڑھنے میں لوگوں پر کچھ اپنی طرف سے ملادیا تو مٹا دیتا ہے اللہ اس شیطان کے ڈالے ہوئے کو پھر اللہ اپنی آیتیں پکی کردیتا ہے اور اللہ علم و حکمت والا ہے،
احمد علی Ahmed Ali
اور ہم نے تجھ سے پہلے کوئی بھی ایسا رسول اور نبی نہیں بھیجا کہ جس نے جب کوئی تمنا کی ہو اور شیطان نے اس کی تمنا میں کچھ آمیزش نہ کی ہو پھر الله ّ شیطان کی آمیزش کو دور کرکے اپنی آیتوں کو محفوظ کردیتا ہے اور الله جاننے والا حکمت والا ہے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
ہم نے آپ سے پہلے جس رسول اور نبی کو بھیجا اس کے ساتھ یہ ہوا کہ جب وہ اپنے دل میں کوئی آرزو کرنے لگا شیطان نے اس کی آرزو میں کچھ ملا دیا، پس شیطان کی ملاوٹ کو اللہ تعالٰی دور کر دیتا ہے پھر اپنی باتیں پکی کر دیتا ہے (١) اللہ تعالٰی دانا اور باحکمت ہے۔
٥٢۔١تمنی کے ایک معنی ہیں آرزو کی یا دل میں خیال آیا ۔ دوسرے معنی ہیں پڑھایا تلاوت کی۔ اسی اعتبار سے امنیۃ کا ترجمہ آرزو، خیال یا تلاوت ہوگا پہلے معنی کے اعتبار سے مفہوم ہوگا اس کی آرزو میں شیطان نے رکاوٹیں ڈالیں تاکہ وہ پوری نہ ہوں۔ اور رسول و نبی کی آرزو یہی ہوتی ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ ایمان لے آئیں، شیطان رکاوٹیں ڈال کر لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ایمان سے دور رکھنا چاہتا ہے۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مفہوم ہوگا کہ جب بھی اللہ کا رسول یا نبی وحی شدہ کلام پڑھتا اور اس کی تلاوت کرتا ہے۔ تو شیطان اس کی قرأت و تلاوت میں اپنی باتیں ملانے کی کوشش کرتا ہے یا اس کی بابت لوگوں کے دلوں میں شبہے ڈالتا اور مین میخ نکالتا ہے۔ اللہ تعالٰی شیطان کی رکاوٹوں کو دور فرما کر یا تلاوت میں ملاوٹ کی کوشش ناکام فرما کر شیطان کے پیدا کردہ شکوک و شبہات کا ازالہ فرما کر اپنی بات کو یا اپنی آیات کو محکم (پکا) فرما دیتا ہے۔ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی جا رہی ہے کہ شیطان کی یہ کارستانیاں صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی نہیں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جو رسول اور نبی آئے، سب کے ساتھ یہی کچھ کرتا آیا ہے۔ تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرائیں نہیں شیطان کی ان شرارتوں اور سازشوں سے جس طرح ہم پچھلے انبیاء علیہم السلام کو بچاتے رہے ہیں یقینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی محفوظ رہیں گے اور شیطان کے علی الرغم اللہ تعالٰی اپنی بات کو پکا کرکے رہے گا۔ یہاں بعض مفسرین نے غرانیق علی کا قصہ بیان کیا ہے جو محققین کے نزدیک ثابت ہی نہیں ہے اس لیے اسے یہاں پیش کرنے کی ضرورت ہی سرے سے نہیں سمجھی کی گئی ہے۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
اور ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول اور نبی نہیں بھیجا مگر (اس کا یہ حال تھا کہ) جب وہ کوئی آرزو کرتا تھا تو شیطان اس کی آرزو میں (وسوسہ) ڈال دیتا تھا۔ تو جو (وسوسہ) شیطان ڈالتا ہے خدا اس کو دور کردیتا ہے۔ پھر خدا اپنی آیتوں کو مضبوط کردیتا ہے۔ اور خدا علم والا اور حکمت والا ہے
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
ہم نے آپ سے پہلے جس رسول اور نبی کو بھیجا اس کے ساتھ یہ ہوا کہ جب وه اپنے دل میں کوئی آرزو کرنے لگا شیطان نے اس کی آرزو میں کچھ ملا دیا، پس شیطان کی ملاوٹ کو اللہ تعالیٰ دور کر دیتا ہے پھر اپنی باتیں پکی کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ دانا اور باحکمت ہے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول اور کوئی نبی نہیںبھیجا مگر یہ کہ جب اس نے (اصلاح احوال کی) آرزو کی تو شیطان نے اس کی آرزو میں خلل اندازی کی۔ پس شیطان جو خلل اندازی کرتا ہے خدا اسے مٹا دیتا ہے اور اپنی نشانیوں کو زیادہ مضبوط کر دیتا ہے اور اللہ بڑا جاننے والا، بڑا حکمت والا ہے۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی ایسا رسول یا نبی نہیں بھیجا ہے کہ جب بھی اس نے کوئی نیک آرزو کی تو شیطان نے اس کی آرزو کی راہ میں رکاوٹ ڈال دی تو پھر خدا نے شیطان کی ڈالی ہوئی رکاوٹ کو مٹا دیا اور پھر اپنی آیات کو مستحکم بنادیا کہ وہ بہت زیادہ جاننے والا اور صاحبِ حکمت ہے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا اور نہ کوئی نبی مگر (سب کے ساتھ یہ واقعہ گزرا کہ) جب اس (رسول یا نبی) نے (لوگوں پر کلامِ الٰہی) پڑھا (تو) شیطان نے (لوگوں کے ذہنوں میں) اس (نبی کے) پڑھے ہوئے (یعنی تلاوت شدہ) کلام میں (اپنی طرف سے باطل شبہات اور فاسد خیالات کو) ملا دیا، سو شیطان جو (وسوسے سننے والوں کے ذہنوں میں) ڈالتا ہے اﷲ انہیں زائل فرما دیتا ہے پھر اللہ اپنی آیتوں کو (اہلِ ایمان کے دلوں میں) نہایت مضبوط کر دیتا ہے، اور اﷲ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
شیطان کا تصرف غلط ہے
یہاں پر اکثر مفسرین نے غرانیق کا قصہ نقل کیا ہے اور یہ بھی کہ اس واقعہ کی وجہ سے اکثر مہاجرین حبش یہ سمجھ کر کہ مشرکین مکہ اب مسلمان ہوگئے واپس مکہ آگئے۔ لیکن یہ روایت ہر سند سے مرسل ہے۔ کسی صحیح سند سے مسند مروی نہیں، واللہ اعلم۔ چناچہ ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ شریف میں سورة النجم کی تلاوت فرمائی جب یہ آیتیں آپ پڑھ رہے تھے آیت ( اَفَرَءَيْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰى 19ۙ ) 53 ۔ النجم ;19) تو شیطان نے آپ کی زبان مبارک پر یہ الفاظ ڈالے کہ (تلک الغرانیق العلی وان شفاعتہم ترتجعی) پس مشرکین خوش ہوگئے کہ آج تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے معبودوں کی تعریف کی جو اس سے پہلے آپ نے کبھی نہیں کی۔ چناچہ ادھر حضور نے سجدہ کیا ادھر وہ سب بھی سجدے میں گرپڑے اس پر یہ آیت اتری اسے ابن جریر (رح) نے بھی روایت کیا ہے یہ مرسل ہے۔ مسند بزار میں بھی اس کے ذکر کے بعد ہے کہ صرف اسی سند سے ہی یہ متصلا مروی ہے۔ صرف امیہ بن خالد ہی اسے وصل کرتے ہیں وہ مشہور ثقہ ہیں۔ یہ صرف طریق کلبی سے ہی مروی ہے۔ ابن ابی حاتم نے اسے دو سندوں سے لیا ہے لیکن دونوں مرسل ہیں، ابن جریر میں بھی مرسل ہے قتادہ (رح) کہتے ہیں مقام ابراہیم کے پاس نماز پڑھتے ہوئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اونگھ آگئی اور شیطان نے آپ کی زبان پر ڈالا عربی (وان شفاعتہا لترتجی وانہا لمع الغرانیق العلی) نکلوادیا۔ مشرکین نے ان لفظوں کو پکڑ لیا اور شیطان نے یہ بات پھیلا دی۔ اس پر یہ آیت اتری اور اسے ذلیل ہونا پڑا۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ سورة نجم نازل ہوئی اور مشرکین کہہ رہے تھے کہ اگر یہ شخص ہمارے معبودوں کا اچھے لفظوں میں ذکر کرے تو ہم اسے اور اس کے ساتھیوں کو چھوڑیں مگر اس کا تو یہ حال ہے کہ یہود و نصاری اور جو لوگ اس کے مخالف ہیں اس سب سے زیادہ گالیوں اور برائی سے ہمارے معبودوں کا ذکر کرتا ہے۔ اس وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور آپ کے اصحاب پر سخت مصائب توڑے جا رہے تھے۔ آپ کو ان کی ہدایت کی لالچ تھی جب سورة نجم کی تلاوت آپ نے شروع کی اور ولہ الانثی تک پڑھا تو شیطان نے بتوں کے ذکر کے وقت یہ کلمات ڈال دئیے عربی ( وانہن لہن الغرانیق العلی وان شفاعتہن لہی التی ترتجی) یہ شیطان کی مقفی عبارت تھی۔ ہر مشرک کے دل میں یہ کلمے بیٹھ گئے اور ایک ایک کو یاد ہوگئے یہاں تک کہ یہ مشہور ہوگیا کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة کے خاتمے پر سجدہ کیا تو سارے مسلمان اور مشرکین بھی سجدے میں گرپڑے، ہاں ولید بن مغیرہ چونکہ بہت ہی بوڑھا تھا اس لئے اس نے ایک مٹھی مٹی کی بھر کر اونچی لے جا کر اس کو اپنے ماتھے سے لگا لیا۔ اب ہر ایک کو تعجب معلوم ہونے لگا کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ دونوں فریق سجدے میں شامل تھے۔ مسلمانوں کو تعجب تھا کہ یہ لوگ ایمان تو لائے نہیں، یقین نہیں، پھر ہمارے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سجدے پر سجدہ انہوں کیسے کیا ؟ شیطان نے جو الفاظ مشرکوں کے کانوں میں پھونکے تھے وہ مسلمانوں نے سنے ہی نہ تھے ادھر ان کے دل خوش ہو رہے تھے کیونکہ شیطان نے اس طرح آواز میں آواز ملائی کہ مشرکین اس میں کوئی تمیز ہی نہ کرسکتے تھے۔ وہ تو سب کو اسی یقین پر پکا کرچکا تھا کہ خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی سورت کی ان دونوں آیتوں کو تلاوت فرمایا ہے۔ پس دراصل مشرکین کا سجدہ اپنے کو تھا۔ شیطان نے اس واقعہ کو اتنا پھیلا دیا کہ مہاجرین حبشہ کے کانوں میں بھی یہ بات پہنچی۔ عثمان بن مظعون (رض) اور ان کے ساتھیوں نے جب سنا کہ اہل مکہ مسلمان ہوگئے ہیں بلکہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز پڑھی اور ولید بن مغیرہ سجدہ نہ کرسکا تو اس نے مٹی کی ایک مٹھی اٹھا کر اس پر سرٹکالیا۔ مسلمان اب پورے امن اور اطمینان سے ہیں تو انہوں نے وہاں سے واپسی کی ٹھانی اور خوشی خوشی مکہ پہنچے۔ ان کے پہنچنے سے پہلے شیطان کے ان الفاظ کی قلعی کھل چکی تھی اللہ نے ان الفاظ کو ہٹا دیا تھا اور اپنا کلام محفوظ کردیا تھا یہاں مشرکین کی آتش عداوت اور بھڑک اٹھی تھی اور انہوں نے مسلمانوں پر نئے مصائب کے بادل برسانے شروع کردئے تھے یہ روایت بھی مرسل ہے۔ بیہقی کی کتاب دلائل النبوۃ میں بھی یہ روایت ہے امام محمد ابن اسحاق (رح) بھی اسے اپنی سیرت میں لائے ہیں لیکن یہ سندیں مرسلات اور منقطعات ہیں واللہ اعلم۔ امام بغوی (رح) نے اپنی تفسیر میں یہ سب کچھ حضرت ابن عباس (رض) وغیرہ کے کلام سے اسی طرح کی روایتیں وارد کی ہیں۔ پھر خود ہی ایک سوال وارد کیا ہے کہ جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بچاؤ کا ذمہ دار محافظ خود اللہ تعالیٰ ہے تو ایسی بات کیسے واقع ہوگئی۔ پھر بہت سے جواب دئے ہیں جن میں ایک لطیف جواب یہ بھی ہے کہ شیطان نے یہ الفاظ لوگوں کے کانوں میں ڈالے اور انہیں وہم ڈالا کہ یہ الفاظ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منہ سے نکلے ہیں حقیقت میں ایسا نہ تھا یہ صرف شیطانی حرکت تھی نہ کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز۔ واللہ اعلم۔ اور بھی اسی قسم کے بہت سے جواب متکلمین نے دئے ہیں۔ قاضی عیاض (رح) نے بھی شفا میں اسے چھیڑا ہے اور ان کے جواب کا ماحصل یہ ہے کہ اللہ کا اپنا فرمان اس بات کا ثبوت ہے کہ شیطان کا تصرف نبی اکرم پر ناممکن ہے۔ مگر جب کہ وہ آرزو کرتا ہے الخ، اس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی فرمائی گئی ہے کہ آپ اس پر پریشان خاطر نہ ہوں اگلے نبیوں رسولوں پر بھی ایسے اتفاقات آئے۔ بخاری میں ابن عباس (رض) سے ہے کہ اس کی آرزو میں جب نبی بات کرتا ہے تو شیطان اس کی بات میں بول شامل کردیتا ہے پس شیطان کے ڈالے ہوئے کو باطل کرکے پھر اللہ تعالیٰ اپنی آیات کو محکم کرتا ہے مجاہد کہتے ہیں تمنی کا معنی قال کے ہیں امنیتہ کے معنی قرأت ہ کے ہیں الا امانی کا مطلب یہ ہے کہ پڑھتے ہیں لکھتے نہیں۔ بغوی (رح) اور اکثر مفسیرین کہتے ہیں تمنی کے معنی تلا کے ہیں یعنی جب کتاب اللہ پڑھتا ہے تو شیطان اس کی تلاوت میں کچھ ڈال دیتا ہے چناچہ حضرت عثمان (رض) کی مدح میں شاعر نے کہا ہے۔
شعر ( تمنی کتاب اللہ اول لیلتہ واخرہا لاقی حمام المقادر) ۔
یہاں بھی لفظ تمنی پڑھنے کے معنی میں ہے۔ ابن جریر (رح) کہتے ہیں یہ قول بہت قریب کی تاویل والا ہے۔ نسخ کے حقیقی معنی لغتا ازلہ اور رفع کے معنی ہٹانے اور مٹادینے کے ہیں یعنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ شیطان کے القا کو باطل کردیتا ہے۔ جبرائیل (علیہ السلام) بحکم الٰہی شیطان کی زیادتی کو مٹا دیتے ہیں اور اللہ کی آیتیں مضبوط رہ جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام کاموں کا جاننے والا ہے۔ کوئی مخفی بات بھی کوئی راز بھی اس پر پوشیدہ نہیں، وہ حکیم ہے اس کا کام حکمت سے خالی نہیں۔ یہ اس لئے کہ جن کے دلوں میں شک، شرک، کفر اور نفاق ہے، ان کے لئے یہ فتنہ بن جائے۔ چناچہ مشرکین نے اسے اللہ کی طرف سے مان لیا حالانکہ وہ الفاظ شیطانی تھے۔ لہذا بیمار دل والوں سے مراد منافق ہیں اور سخت دل والوں سے مراد مشرک ہیں۔ یہ بھی قول ہے کہ مراد یہود ہیں۔ ظالم حق سے بہت دور نکل گئے ہیں۔ وہ سیدھے راستے سے گم ہوگئے ہیں اور جنہیں صحیح علم دیا گیا ہے جس سے وہ حق وباطل میں تمیز کرلیتے ہیں انہیں اس بات کے بالکل حق ہونے کا اور منجانب اللہ ہونے کا صحیح یقین ہوجائے اور وہ کامل الایمان بن جائیں اور سمجھ لیں کہ بیشک یہ اللہ کا کلام ہے جبھی تو اس قدر اس کی حفاظت دیانت اور نگہداشت ہے۔ کہ کسی جانب سے کسی طریق سے اس میں باطل کی آمیزش نہیں ہوسکتی۔ حکیم وحمید اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے پس انکے دل تصدیق سے پر ہوجاتے ہیں، جھک کر رغبت سے متوجہ ہوجاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ایمان داروں کی رہبری دنیا میں حق اور ہدایت کی طرف کرتا ہے صراط مستقیم سجھا دیتا ہے اور آخرت میں عذابوں سے بچا کر بلند درجوں میں پہنچاتا ہے اور نعمتیں نصیب فرماتا ہے۔