فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَيْهِۗ اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
اس وقت آدمؑ نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ کر توبہ کی، جس کو اس کے رب نے قبول کر لیا، کیونکہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے
English Sahih:
Then Adam received from his Lord [some] words, and He accepted his repentance. Indeed, it is He who is the Accepting of Repentance, the Merciful.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
اس وقت آدمؑ نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ کر توبہ کی، جس کو اس کے رب نے قبول کر لیا، کیونکہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بیشک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔
احمد علی Ahmed Ali
پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات حاصل کیے پھر اس کی توبہ قبول فرمائی بے شک وہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
(حضرت) آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے چند باتیں سیکھ لیں (١) اور اللہ تعالٰی نے ان کی توبہ قبول فرمائی، بیشک وہ ہی توبہ قبول کرنے والا ہے۔
٣٧۔١ حضرت آدم علیہ السلام جب پشیمانی میں ڈوبے دنیا میں تشریف لائے تو توبہ و استغفار میں مصروف ہوگئے۔ اس موقع پر بھی اللہ تعالٰی نے رہنمائی و دست گیری فرمائی اور وہ کلمات معافی سکھا دیئے جو الاعراف میں بیان کئے گئے ہیں (رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا ۫وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ) 7۔ الاعراف;23) بعض حضرات یہاں ایک موضوع روایت کا سہارا لیئے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت آدم نے عرش الہی پر لَا اِلٰہ اِلَا اللّٰہ مَحَمَد رَّسُوْلُ اللّٰہ لکھا ہوا دیکھا اور محمد رسول اللہ کے وسیلے سے دعا مانگی تو اللہ تعالٰی نے انہیں معاف کر دیا۔ یہ روایت بے سند ہے اور قرآن کے بھی معارض ہے ۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے طریقے کے بھی خلاف ہے ۔ تمام انبیاء علیھم السلام نے ہمیشہ براہ راست اللہ سے دعائیں کی ہیں کسی نبی ،ولی ، بزرگ کا واسطہ اور وسیلہ نہیں پکڑا اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام انبیاء کا طریقہ دعایہی رہا ہے کہ بغیر کسی واسطے اور وسیلے کے اللہ کی بارگاہ میں دعا کی جائے۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
پھر آدم نے اپنے پروردگار سے کچھ کلمات سیکھے (اور معافی مانگی) تو اس نے ان کا قصور معاف کر دیا بے شک وہ معاف کرنے والا (اور) صاحبِ رحم ہے
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
(حضرت) آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب سے چند باتیں سیکھ لیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی، بےشک وہی توبہ قبول کرنے واﻻ اور رحم کرنے واﻻ ہے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
اس کے بعد آدم نے اپنے پروردگار سے کچھ دعا کے کلمات (حاصل کئے) تو اس نے ان کی توبہ قبول کی کیونکہ وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور بڑا رحم کرنے والا ہے۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پھر آدم علیھ السّلام نے پروردگار سے کلمات کی تعلیم حاصل کی اور ان کی برکت سے خدا نے ان کی توبہ قبول کرلی کہ وہ توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
پھر آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب سے (عاجزی اور معافی کے) چند کلمات سیکھ لئے پس اللہ نے ان کی توبہ قبول فرما لی، بیشک وہی بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ معافی نامہ کا متن
جو کلمات حضرت آدم نے سیکھے تھے ان کا بیان خود قرآن میں موجود ہے۔ آیت (قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا ۫وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ) 7 ۔ الاعراف ;23) یعنی ان دونوں نے کہا اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اگر تو ہمیں نہ بخشے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو یقینا ہم نقصان والے ہوجائیں گے۔ اکثر بزرگوں کا یہی قول ہے۔ ابن عباس سے احکام حج سیکھنا بھی مروی ہے۔ عبید بن عمیر کہتے ہیں وہ کلمات یہ تھے کہ انہوں نے کہا الٰہی جو خطا میں نے کی کیا اسے میرے پیدا کرنے سے پہلے میری تقدیر میں لکھ دیا گیا تھا ؟ یا میں نے خود اس کی ایجاد کی ؟ جواب ملا کہ ایجاد نہیں بلکہ پہلے ہی لکھ دیا گیا اسے سن کر آپ نے کہا پھر اے اللہ مجھے بخشش اور معافی مل جائے۔ ابن عباس سے یہ بھی روایت ہے کہ حضرت آدم نے کہا الٰہی کیا تو نے مجھے اپنے ہاتھ سے پیدا نہیں کیا ؟ اور مجھ میں اپنی روح نہیں پھونکی ؟ میرے چھینکنے پر یرحمک اللہ نہیں کہا ؟ کیا تیری رحمت غضب پر سبقت نہیں کرگئی ؟ کیا میری پیدائش سے پہلے یہ خطا میری تقدیر میں نہیں لکھی تھی ؟ جواب ملا کہ ہاں۔ یہ سب میں نے کیا ہے تو کہا پھر یا اللہ میری توبہ قبول کر کے مجھے پھر جنت مل سکتی ہے یا نہیں ؟ جواب ملا کہ ہاں۔ یہ کلمات یعنی چند باتیں تھیں جو آپ نے اللہ سے سیکھ لیں۔ ابن ابی حاتم ایک ایک مرفوع روایت میں ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) نے کہا الٰہی اگر میں توبہ کروں اور رجوع کروں تو کیا جنت میں پھر بھی جاسکتا ہوں ؟ جواب ملا کہ ہاں۔ اللہ سے کلمات کی تلقین حاصل کرنے کے یہی معنی ہیں۔ لیکن یہ حدیث غریب ہونے کے علاوہ منقطع بھی ہے۔ بعض بزرگوں سے مروی ہے کہ کلمات کی تفسیر ربنا ظلمنا اور ان سب باتوں پر مشتمل ہے حضرت مجاہد سے مروی ہے کہ وہ کلمات یہ ہیں دعا (اللھم لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فاغفرلی انک خیر الغافرین اللھم لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فارحمنی انک خیرالراحمین اللھم لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فتب علی انک انت التواب الرحیم) قرآن کریم میں اور جگہ ہے کیا لوگ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے ؟ اور جگہ ہے جو شخص کوئی برا کام کر گزرے یا اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے پھر توبہ استغفار کرے تو وہ دیکھ لے گا کہ اللہ اس کی توبہ قبول کرلے گا اور اسے اپنے رحم و کرم میں لے لے گا۔ اور جگہ ہے آیت (وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّهٗ يَتُوْبُ اِلَى اللّٰهِ مَتَابًا) 25 ۔ الفرقان ;71) ان سب آیتوں میں ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے، اسی طرح یہاں بھی یہی فرمان ہے کہ وہ اللہ توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول کرنے والا اور بہت بڑے رحم و کرم والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس عام لطف و کرم، اس کے اس فضل و رحم کو دیکھو کہ وہ اپنے گنہگار بندوں کو بھی اپنے در سے محروم نہیں کرتا۔ سچ ہے اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، نہ اس سے زیادہ کوئی مہرو کرم والا نہ اس سے زیادہ کوئی خطا بخشنے والا اور رحم و بخشش عطا فرمانے والا۔