Skip to main content

وَاِنْ كُنْتُمْ عَلٰى سَفَرٍ وَّلَمْ تَجِدُوْا كَاتِبًا فَرِهٰنٌ مَّقْبُوْضَةٌ ۗ فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِى اؤْتُمِنَ اَمَانَـتَهٗ وَلْيَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗۗ وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۗ وَمَنْ يَّكْتُمْهَا فَاِنَّهٗۤ اٰثِمٌ قَلْبُهٗۗ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ

And if
وَإِن
اور اگر
you are
كُنتُمْ
ہو تم
on
عَلَىٰ
پر
a journey
سَفَرٍ
سفر
and not
وَلَمْ
اورنہ
you find
تَجِدُوا۟
تم پاؤ
a scribe
كَاتِبًا
لکھنے والا
then pledge
فَرِهَٰنٌ
تو رھن رکھا ہے
in hand
مَّقْبُوضَةٌۖ
قبضہ کی ہوئی کا
Then if
فَإِنْ
پھر اگر
entrusts
أَمِنَ
اعتبار کرے
one of you
بَعْضُكُم
تم میں سے بعض
(to) another
بَعْضًا
بعض کا
then let discharge
فَلْيُؤَدِّ
پس چاہیے کہ ادا کرے
the one who
ٱلَّذِى
وہ شخص جو
is entrusted
ٱؤْتُمِنَ
امین بنایا گیا
his trust
أَمَٰنَتَهُۥ
اس کی امانت کو
And let him fear
وَلْيَتَّقِ
اورچاہے کہ وہ ڈرے
Allah
ٱللَّهَ
اللہ سے
his Lord
رَبَّهُۥۗ
جو رب ہے اس کا
And (do) not
وَلَا
اور نہ
conceal
تَكْتُمُوا۟
تم چھپاؤ
the evidence
ٱلشَّهَٰدَةَۚ
گواہی کو
And whoever
وَمَن
اور جو کوئی
conceals it
يَكْتُمْهَا
چھپائے گا اس کو
then indeed he
فَإِنَّهُۥٓ
تو بیشک وہ
(is) sinful -
ءَاثِمٌ
گناہ گار ہے
his heart
قَلْبُهُۥۗ
دل اس کا
And Allah
وَٱللَّهُ
اور اللہ
of what
بِمَا
ساتھ اس کے جو
you do
تَعْمَلُونَ
تم عمل کرتے ہو
(is) All-Knower
عَلِيمٌ
جاننے والا ہے

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

اگر تم سفر کی حالت میں ہو اور دستاویز لکھنے کے لیے کوئی کاتب نہ ملے، تو رہن بالقبض پر معاملہ کرو اگر تم میں سے کوئی شخص دوسرے پر بھروسہ کر کے اس کے ساتھ کوئی معاملہ کرے، تو جس پر بھروسہ کیا گیا ہے، اسے چاہیے کہ امانت ادا کرے اور اللہ، اپنے رب سے ڈرے اور شہادت ہرگز نہ چھپاؤ جو شہادت چھپاتا ہے، اس کا دل گناہ میں آلودہ ہے اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ہے

English Sahih:

And if you are on a journey and cannot find a scribe, then a security deposit [should be] taken. And if one of you entrusts another, then let him who is entrusted discharge his trust [faithfully] and let him fear Allah, his Lord. And do not conceal testimony, for whoever conceals it – his heart is indeed sinful, and Allah is Knowing of what you do.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

اگر تم سفر کی حالت میں ہو اور دستاویز لکھنے کے لیے کوئی کاتب نہ ملے، تو رہن بالقبض پر معاملہ کرو اگر تم میں سے کوئی شخص دوسرے پر بھروسہ کر کے اس کے ساتھ کوئی معاملہ کرے، تو جس پر بھروسہ کیا گیا ہے، اسے چاہیے کہ امانت ادا کرے اور اللہ، اپنے رب سے ڈرے اور شہادت ہرگز نہ چھپاؤ جو شہادت چھپاتا ہے، اس کا دل گناہ میں آلودہ ہے اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ہے

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے والا نہ پاؤ تو گِرو (رہن) ہو قبضہ میں دیا ہوا اور اگر تم ایک کو دوسرے پر اطمینان ہو تو وہ جسے اس نے امین سمجھا تھا اپنی امانت ادا کردے اور اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے اور گواہی نہ چھپاؤ اور جو گواہی چھپائے گا تو اندر سے اسکا دل گنہگار ہے اور اللہ تمہارے کاموں کو جانتا ہے،

احمد علی Ahmed Ali

اور اگر تم سفر میں ہو اور کوئی لکھنے والا نہ پاؤ تو گروی پر قبضہ کیا جائے اور اگر ایک تم میں سے دوسرے پر اعتبار کرے تو چاہیئے کہ کہ وہ شخص امانت ادا کردے جس پر اعتبار کیا گیا اور اپنے الله سے ڈرے جو اس کا رب ہے اور گواہی کو نہ چھپاؤ اور جو شخص اسے چھپائے گا تو بے شک اس کا دل گناہگار ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو الله خوب جانتا ہے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے والا نہ پاؤ تو رہن قبضہ میں رکھ لیا کرو (١) ہاں آپس میں ایک دوسرے سے مطمئن ہو تو جسے امانت دی گئی ہے وہ اسے ادا کر دے اور اللہ تعالٰی سے ڈرتا رہے جو اس کا رب ہے۔ (٢) اور گواہی کو نہ چھپاؤ اور جو اسے چھپالے وہ گناہ گار دل والا ہے (٣) اور جو کچھ تم کرتے ہو اسے اللہ تعالٰی خوب جانتا ہے،

٢٨٣۔١ اگر سفر میں قرض کا معاملہ کرنے کی ضرورت پیش آئے وہاں لکھنے والا یا کاغذ پنسل نہ ملے تو اس کی متبادل صورت بتلائی جارہی ہے کہ قرض لینے والا کوئی چیز قرض دینے والے کے پاس گروی رکھ دے اس سے گروی کی مشروعیت اور اس کا جواز ثابت ہوتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی زرہ ایک یہودی کے پاس گروی رکھی تھی اگر گروی رکھی ہوئی چیز ایسی ہے جس سے نفع موصول ہوتا ہے تو اس نفع کا حقدار مالک ہوگا اور گروی رکھی ہوئی چیز پر کچھ خرچ ہوتا ہے تو اس سے وہ اپنا خرچ وصول کر سکتا ہے باقی نفع مالک کو ادا کرنا ضروری ہے۔
٢٨٣۔٢ یعنی اگر ایک دوسرے پر اعتماد ہو تو بغیر گروی رکھے بھی ادھار کا معاملہ کر سکتے ہو امانت سے مراد یہاں قرض ہے اللہ سے ڈرتے ہوئے اسے صحیح طریقے سے ادا کرے۔
٢٨٣۔٣ گواہی کا چھپانا کبیرہ گناہ ہے اس لئے اس پر سخت (وعید) سزا یہاں قرآن اور احادیث میں بیان کی گئی ہے اسی لئے گواہی دینے کی فضیلت بھی بڑی ہے صحیح مسلم کی حدیث ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ سب سے بہتر گواہ ہے جو گواہی طلب کرنے سے قبل ہی از خود گواہی کے لئے پیش ہو جائے۔ الا اخبرکم بخیر الشھداء؟ الذی یاتی بشھادتہ قبل ان یسئالھا (صحیح مسلم کتاب الاقضیۃ، باب بیان خیر الشھود) ایک دوسری روایت میں بدترین گواہ کی نشان دہی بھی فرما دی گئی ہے۔ "الا اخبرکم بشر الشھداء؟ الذین عشھون قبل ان یستشھدوا"(صحیح بخاری، کتاب الرقاق۔ مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ)"کیا میں تمہیں وہ گواہ نہ بتلاؤں جو بدترین گواہ ہے؟ یہ وہ لوگ ہیں جو گواہی طلب کرنے سے قبل ہی گواہی دیتے ہیں"مطلب ہے یعنی جھوٹی گواہی دے کر گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوتے ہں۔ نیز آیت میں دل کا خاص ذکر کیا گیا ہے اس لیے کہ کتمان دل کا فعل ہے علاوہ ازیں دل تمام اعضا کا سردار ہے اور یہ ایسا مضغہ گوشت ہے کہ اگر یہ صحیح رہے تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر اس میں فساد آجائے تو سارا جسم فساد کا شکار ہو جاتا ہے۔ "الا وان فی الجسد مضغۃ اذا صلحت صلح الجسد کلہ، واذا فسدت فسد الجسد کلہ، الا! وھی القلب" (صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب فضل من استبرأالدینہ)۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

اور اگر تم سفر پر ہواور (دستاویز) لکھنے والا مل نہ سکے تو (کوئی چیز) رہن یا قبضہ رکھ کر (قرض لے لو) اور اگر کوئی کسی کو امین سمجھے (یعنی رہن کے بغیر قرض دیدے) تو امانتدار کو چاہیئے کہ صاحب امانت کی امانت ادا کردے اور خدا سے جو اس کا پروردگار ہے ڈرے۔اور (دیکھنا) شہادت کو مت چھپانا۔ جو اس کو چھپائے گا وہ دل کا گنہگار ہوگا۔ اور خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے واﻻ نہ پاؤ تو رہن قبضہ میں رکھ لیا کرو، ہاں اگر آپس میں ایک دوسرے سے مطمئن ہو تو جسے امانت دی گئی ہے وه اسے ادا کردے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے جو اس کا رب ہے۔ اور گواہی کو نہ چھپاؤ اور جو اسے چھپالے وه گنہگار دل واﻻ ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اسے اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

اور اگر تم سفر میں ہو اور تمہیں کاتب نہ ملے تو رہن باقبضہ رکھ لو۔ اور اگر تم میں سے ایک کو دوسرے پر اعتبار ہو۔ تو جس پر اعتبار کیا گیا ہے۔ اسے چاہیے کہ اپنی امانت واپس کر دے اور اپنے پروردگار (کی مخالفت) سے ڈرے۔ اور گواہی کو نہ چھپاؤ۔ اور جو اسے چھپائے گا اس کا دل گنہگار ہوگا۔ اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس کو خوب جانتا ہے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

اور اگر تم سفر میں ہو اور کوئی کاتب نہیں مل رہا ہے تو کوئی رہن رکھ دو اور ایک کو دوسرے پر اعتبار ہو تو جس پراعتبار ہے اس کو چاہئے کہ امانت کو واپس کردے اورخدا سے ڈرتا رہے---- اور خبردار گواہی کو حُھپانا نہیں کہ جو ایسا کرے گا اس کا دل گنہگار ہوگا اور اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اور اگر تم سفر پر ہو اور کوئی لکھنے والا نہ پاؤ تو باقبضہ رہن رکھ لیا کرو، پھر اگر تم میں سے ایک کو دوسرے پر اعتماد ہو تو جس کی دیانت پر اعتماد کیا گیا اسے چاہئے کہ اپنی امانت ادا کر دے اور وہ اﷲ سے ڈرتا رہے جو اس کا پالنے والا ہے، اور تم گواہی کو چُھپایا نہ کرو، اور جو شخص گواہی چُھپاتا ہے تو یقینا اس کا دل گنہگار ہے، اور اﷲ تمہارے اعمال کو خوب جاننے والا ہے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

مسئلہ رہن، تحریر اور گواہی
یعنی بحالت سفر اگر ادھار کا لین دین ہو اور کوئی لکھنے والا نہ ملے یا ملے مگر قلم و دوات یا کاغذ نہ ہو تو رہن رکھ لیا کرو اور جس چیز کو رہن رکھنا ہو اسے حقدار کے قبضے میں دے دو ۔ مقبوضہ کے لفظ سے استدلال کیا گیا ہے کہ رہن جب تک قبضہ میں نہ آجائے لازم نہیں ہوتا، جیسا کہ امام شافعی اور جمہور کا مذہب ہے اور دوسری جماعت نے استدلال کیا ہے کہ رہن کا مرتہن کے ہاتھ میں مقبوض ہونا ضروری ہے۔ امام احمد اور ایک دوسری جماعت میں یہی منقول ہے، ایک اور جماعت کا قول ہے کہ رہن صرف میں ہی مشروع ہے، جیسے حضرت مجاہد وغیرہ لیکن صحیح بخاری صحیح مسلم شافعی میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس وقت فوت ہوئے اس وقت آپ کی زرہ مدینے کے ایک یہودی ابو الشحم کے پاس تیس وسق جو کے بدلے گروی تھی جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے گھر والوں کے کھانے کیلئے لئے تھے۔ ان مسائل کے بسط و تفصیل کی جگہ تفسیر نہیں بلکہ احکام کی بڑی بڑی کتابیں وللہ الحمد والمنتہ و بہ المستعان اس سے بعد کے جملے (آیت فان امن) سے حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ اس کے پہلے کا حکم منسوخ ہوگیا ہے، شعبی فرماتے ہیں جب نہ دینے کا خوف ہو تو نہ لکھنے اور نہ گواہ رکھنے کی کوئی حرج نہیں۔ جسے امانت دی جائے اسے خود اللہ رکھنا چاہئے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں ادا کرنے کی ذمہ داری اس ہاتھ پر ہے جس نے کچھ لیا۔ ارشاد ہے شہادت کو نہ چھپاؤ نہ اس میں خیانت کرو نہ اس کے اظہار کرنے سے رکو، ابن عباس وغیرہ فرماتے ہیں جھوٹی شہادت دینی یا شہادت کو چھپانا گناہ کبیرہ ہے، یہاں بھی فرمایا اس کا چھپانے والا خطا کار دل والا ہے جیسے اور جگہ ہے آیت (وَلَا نَكْتُمُ شَهَادَةَ ۙاللّٰهِ اِنَّآ اِذًا لَّمِنَ الْاٰثِمِيْنَ ) 5 ۔ المائدہ ;106) یعنی ہم اللہ کی شہادت کو نہیں چھپاتے، اگر ہم ایسا کریں گے تو یقینا ہم گنہگاروں میں سے ہیں، اور جگہ فرمایا ایمان والو عدل و انصاف کے ساتھ اللہ کے حکم کی تعمیل یعنی گواہیوں پر ثابت قدم رہو، گو اس کی برائی خود تمہیں پہنچے یا تمہارے ماں باپ کو یا رشتے کنبے والوں کو اگر وہ مالدار ہو تو اور فقیر ہو تو اللہ تعالیٰ ان دونوں سے اولیٰ ہے، خواہشوں کے پیچھے پڑ کر عدل سے نہ ہٹو اور اگر تم زبان دباؤ گے یا پہلو تہی کرو گے تو سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ بھی تمہارے اعمال سے خبردار ہے، اسی طرح یہاں بھی فرمایا کہ گواہی کو نہ چھپاؤ اس کا چھپانے والا گنہگار دل والا ہے اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو خوب جانتا ہے۔