يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَا بَقِىَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، خدا سے ڈرو اور جو کچھ تمہارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے، اسے چھوڑ دو، اگر واقعی تم ایمان لائے ہو
English Sahih:
O you who have believed, fear Allah and give up what remains [due to you] of interest, if you should be believers.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، خدا سے ڈرو اور جو کچھ تمہارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے، اسے چھوڑ دو، اگر واقعی تم ایمان لائے ہو
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور چھوڑ دو جو باقی رہ گیا ہے سود اگر مسلمان ہو
احمد علی Ahmed Ali
اے ایمان والو! الله سے ڈرو اور جو کچھ باقی سود رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو
أحسن البيان Ahsanul Bayan
اے ایمان والو اللہ تعالٰی سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
مومنو! خدا سے ڈرو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو جتنا سود باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو، اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
اے ایمان والو! خدا (کی نافرمانی) سے ڈرو۔ اور جو کچھ سود (لوگوں کے ذمے) باقی رہ گیا ہے۔ اسے چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ایمان والو اللہ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم صاحبان هایمان ہو
طاہر القادری Tahir ul Qadri
اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرو اور جو کچھ بھی سود میں سے باقی رہ گیا ہے چھوڑ دو اگر تم (صدقِ دل سے) ایمان رکھتے ہو،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
سود خور قابل گردن زنی ہیں اور قرض کے مسائل
ان آیات میں اللہ تعالیٰ ایماندار بندوں کو تقوے کا حکم دے رہا ہے اور ایسے کاموں سے روک رہا ہے جن سے وہ ناراض ہو اور لوگ اس کی قربت سے محروم ہوجائیں تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا لحاظ کرو اور اپنے تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور تمہارا سود جن مسلمانوں پر باقی ہے خبردار اس سے اب نہ لو جبکہ وہ حرام ہوگیا، یہ آیت قبیلہ ثقیف بن عمرو بن عمیر اور بنو مخزوم کے قبیلے بنو مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جاہلیت کے زمانہ میں ان کا سودی کاروبار تھا، اسلام کے بعد بنو عمرہ نے بنو مغیرہ سے اپنا سود طلب کیا اور انہوں نے کہا کہ اب ہم اسے اسلام لانے کے بعد ادا نہ کریں گے آخر جھگڑا بڑھا حضرت عتاب بن اسید جو مکہ شریف کے نائب تھے انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ لکھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ لکھوا کر بھیج دی اور انہیں قابل وصول سود لینا حرام قرا دیا چناچہ وہ تائب ہوئے اور اپنا سود بالکل چھوڑ دیا، اس آیت میں ہے ان لوگوں پر جو سود کی حرمت کا علم ہونے کے باوجود بھی اس پر جمے رہیں، زبردست وعید ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں سودخور سے قیامت کے دن کہا جائے گا، لے اپنے ہتھیار لے لے اور اللہ سے لڑنے کیلئے آمادہ ہوجا، آپ فرماتے ہیں امام وقت پر فرض ہے کہ سودخور لوگ جو اسے نہ چھوڑیں ان سے توبہ کرائے اور اگر نہ کریں تو ان کی گردن مار دے، حسن اور ابن سیرین کا فرمان بھی یہی ہے، حضرت قتادہ فرماتے ہیں دیکھو اللہ نے انہیں ہلاکت کی دھمکی دی انہیں ذلیل کئے جانے کے قابل ٹھہرایا، خبردار سود سے اور سودی لین دین سے بچتے رہو حلال چیزوں اور حلال خریدو فروخت بہت کچھ ہے، فاقے گزرتے ہوں تاہم اللہ کی معصیت سے رکو، وہ روایت بھی یاد ہوگی جو پہلے گزر چکی کہ حضرت عائشہ نے ایک ایسے معاملہ کی نسبت جس میں سود تھا، حضرت زید بن ارقم کے بارے میں فرمایا تھا کہ ان کا جہاد بھی برباد ہوگیا اس لئے کہ جہاد اللہ کے دشمنوں سے مقابلہ کرنے کا نام ہے اور سود خوری خود اللہ سے مقابلہ کرنا ہے لیکن اس کی اسناد کمزور ہے، پھر ارشاد ہوتا ہے اگر توبہ کرلو تو اصل مال جو کسی پر فرض ہے بیشک لے لو۔ نہ تم تول میں زیادہ لے کر اس پر ظلم کرو نہ کم دے کر یا نہ دے کر وہ تم پر ظلم کرے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع کے خطبے میں فرمایا جاہلیت کا تمام سود میں برباد کرتا ہوں۔ اصلی رقم لے لو، سود لے کر نہ کسی پر ظلم کرو نہ کوئی تمہارا مال مار کر تم پر زیادتی کرے، حضرت عباس بن عبدالمطلب کا تمام سود میں ختم کرتا ہوں۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اگر تنگی والا شخص اور اس کے پاس تمہارے قرض کی ادائیگی کے قابل مال نہ ہو تو اسے مہلت دو کہ کچھ اور مدت کے بعد ادا کردے یہ نہ کرو کہ سود در سود لگائے چلے جاؤ کہ مدت گزر گئی، اب اتنا اتنا سود لیں گے، بلکہ بہتر تو یہ بات ہے کہ ایسے غرباء کو اپنا قرض معاف کردو، طبرانی کی حدیث میں ہے کہ جو شخص قیامت کے دن اللہ کے عرش کا سایہ چاہتا ہے وہ یا تو ایسے تنگی والے شخص کو مہلت دے یا معاف کردے، مسند احمد کی حدیث میں ہے جو شخص مفلس آدمی پر اپنا قرض وصول کرنے میں نرمی کرے اور اسے ڈھیل دے اس کو جتنے دن وہ قرض کی رقم ادا نہ کرسکے اتنے دنوں تک ہر دن اتنی رقم خیرات کرنے کا ثواب ملتا ہے، اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا ہر دن اس سے دگنی رقم کے صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا، یہ سن کر حضرت بریدہ نے فرمایا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلے تو آپ نے ہر دن اس کے مثل ثواب ملنے کا فرمایا تھا آج دو مثل فرماتے ہیں، فرمایا ہاں جب تک معیاد ختم نہیں ہوئی مثل کا ثواب اور معیاد گزرنے کے بعد دو مثل کا، حضرت ابو قتادہ کا قرض ایک شخص کے ذمہ تھا وہ تقاضا کرنے کو آتے لیکن یہ چھپ رہتے اور نہ ملتے، ایک دن آئے گھر سے ایک بچہ نکلا، آپ نے اس سے پوچھا اس نے کہا ہاں گھر میں موجود ہیں کھانا کھا رہے ہیں، اب حضرت ابو قتادہ نے اونچی آواز سے انہیں پکارا اور فرمایا مجھے معلوم ہوگیا کہ تم گھر میں موجود ہو، آؤ باہر آؤ، جواب دو ۔ وہ بیچارے باہر نہیں نکلے آپ نے کہا کیوں چھپ رہے ہو ؟ کہا حضرت بات یہ ہے کہ میں مفلس ہوں اس وقت میرے پاس رقم نہیں بوجہ شرمندگی کے آپ سے نہیں ملتا، آپ نے کہا قسم کھاؤ، اس نے قسم کھالی، آپ روئے اور فرمانے لگے میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے جو شخص نادار قرضدار کو ڈھیل دے یا اپنا قرضہ معاف کردے وہ قیامت کے دن اللہ کے عرش کے سائے تلے ہوگا (صحیح مسلم) ابو لیلیٰ نے ایک حدیث روایت کی ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں قیامت کے دن ایک بندہ اللہ کے سامنے لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اس سے سوال کرے گا کہ بتا میرے لئے تو نے کیا نیکی ہے ؟ وہ کہے گا اے اللہ ایک ذرے کے برابر بھی کوئی ایسی نیکی مجھ سے نہیں ہوئی جو آج میں اس کی جزا طلب کرسکوں، اللہ اس سے پھر پوچھے گا وہ پھر یہی جواب دے گا پھر پوچھے گا پھر یہی کہے گا، پروردگار ایک چھوٹی سی بات البتہ یاد پڑتی ہے کہ تو نے اپنے فضل سے کچھ مال بھی مجھے دے رکھا تھا میں تجارت پیشہ شخص تھا، لوگ ادھار سدھار لے جاتے تھے، میں اگر دیکھتا کہ یہ غریب شخص ہے اور وعدہ پر قرض نہ ادا کرسکا تو میں اسے اور کچھ مدت کی مہلت دے دیتا، عیال داروں پر سختی نہ کرتا، زیادہ تنگی والا اگر کسی کو پاتا تو معاف بھی کردیتا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا پھر میں تجھ پر آسانی کیوں نہ کروں، میں تو سب سے زیادہ آسانی کرنے والا ہوں، جا میں نے تجھے بخشا جنت میں داخل ہوجا، مستدرک حاکم میں ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے غازی کی مدد کرے یا قرض دار بےمال کی اعانت کرے یا غلام جس نے لکھ کردیا ہو کہ اتنی رقم دے دوں تو آزاد ہوں، اس کی مدد کرے اللہ تعالیٰ اسے اس دن سایہ دے گا جس دن اس کے سائے کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہوگا۔ مسند احمد میں ہے جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کی دعائیں قبول کی جائیں اور اس کی تکلیف و مصیبت دور ہوجائے اسے چاہئے کہ تنگی والوں پر کشادگی کرے، عباد بن ولید فرماتے ہیں کہ میں اور میرے والد طلب علم میں نکلے اور ہم نے کہا کہ انصاریوں سے حدیثیں پڑھیں، سب سے پہلے ہماری ملاقات حضرت ابو الیسر سے ہوئی، ان کے ساتھ ان کے غلام تھے جن کے ہاتھ میں ایک دفتر تھا اور غلام وآقا کا ایک ہی لباس تھا، میرے باپ نے کہا چچا آپ تو اس وقت غصہ میں نظر آتے ہیں، فرمایا ہاں سنو فلاں شخص پر میرا کچھ قرض تھا، مدت ختم ہوچکی تھی، میں قرض مانگنے گیا، سلام کیا اور پوچھا کہ کیا وہ مکان پر ہیں، گھر میں سے جواب ملا کہ نہیں، اتفاقاً ایک چھوٹا بچہ باہر آیا میں نے اس سے پوچھا تمہارے والد کہاں ہیں ؟ اس نے کہا آپ کی آواز سن کر چارپائی تلے جا چھپے ہیں، میں نے پھر آواز دی اور کہا تمہارا اندر ہونا مجھے معلوم ہوگیا ہے اب چھپو نہیں باہر آؤ جواب دو ، وہ آئے میں نے کہا کیوں چھپ رہے ہو، کہا محض اس لئے کہ میرے پاس روپیہ تو اس وقت ہے نہیں، آپ سے ملوں گا تو کوئی جھوٹا عذر حیلہ بیان کروں گا یا غلط وعدہ کروں گا، اس لئے سامنے ہونے سے جھجھکتا تھا، آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابی ہیں، آپ سے جھوٹ کیا کہوں ؟ میں نے کہا سچ کہتے ہو، اللہ کی قسم تمہارے پاس روپیہ نہیں، اس نے کہا ہاں سچ کہتا ہوں اللہ کی قسم کچھ نہیں، تین مرتبہ میں نے قسم کھلائی اور انہوں نے کھائی، میں نے اپنے دفتر میں سے ان کا نام کاٹ دیا اور رقم جمع کرلی اور کہہ دیا کہ جاؤ میں نے تمہارے نام سے یہ رقم کاٹ دی ہے، اب اگر تمہیں مل جائے تو دے دینا ورنہ معاف۔ سنو میری دونوں آنکھوں نے دیکھا اور میرے ان دونوں کانوں نے سنا اور میرے اس دل نے اسے خوب یاد رکھا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص کسی سختی والے کو ڈھیل دے یا معاف کردے، اللہ تعالیٰ اسے اپنے سایہ میں جگہ دے گا، مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسجد آتے ہوئے زمین کی طرف اشارہ کرکے فرمایا جو شخص کسی نادار پر آسانی کردے یا اسے معاف کردے اللہ تعالیٰ اسے جہنم کی گرمی سے بچا لے گا، سنو جنت کے کام مشقت والے ہیں اور خواہش کیخلاف ہیں، اور جہنم کے کام آسانی والے اور خواہش نفس کے مطابق ہیں، نیک بخت وہ لوگ ہیں جو فتنوں سے بچ جائیں، وہ انسان جو غصے کا گھونٹ پی لے اس کو اللہ تعالیٰ ایمان سے نوازتا ہے، طبرانی میں ہے جو شخص کسی مفلس شخص پر رحم کرکے اپنے قرض کی وصولی میں اس پر سختی نہ کرے اللہ بھی اس کے گناہوں پر اس کو نہیں پکڑتا یہاں تک کہ وہ توبہ کرے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو نصیحت کرتا ہے، انہیں دنیا کے زوال، مال کے فنا، آخرت کا آنا، اللہ کی طرف لوٹنا، اللہ کو اپنے اعمال کا حساب دینا اور ان تمام اعمال پر جزا و سزا کا ملنا یاد دلاتا ہے اور اپنے عذابوں سے ڈراتا ہے، یہ بھی مروی ہے کہ قرآن کریم کی سب سے آخری آیت یہی ہے، اس آیت کے نازل ہونے کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف نو راتوں تک زندہ رہے اور ربیع الاول کی دوسری تاریخ کو پیر کے دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال ہوگیا۔ ابن عباس سے ایک روایت میں اس کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی اکتیس دن کی بھی مروی ہے، ابن جریح فرماتے ہیں کہ سلف کا قول ہے کہ اس کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نو رات زندہ رہے ہفتہ کے دن سے ابتدا ہوئی اور پیر والے دن انتقال ہوا۔ الغرض قرآن کریم میں سب سے آخر یہی آیت نازل ہوئی ہے۔