اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ وَهُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِۖ فَقَالَ لَهُمُ اللّٰهُ مُوْتُوْاۗ ثُمَّ اَحْيَاھُمْۗ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلٰـكِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْکُرُوْنَ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
تم نے اُن لوگوں کے حال پر بھی کچھ غور کیا، جو موت کے ڈر سے اپنے گھر بار چھوڑ کر نکلے تھے اور ہزاروں کی تعداد میں تھے؟ اللہ نے اُن سے فرمایا; مر جاؤ پھر اُس نے اُن کو دوبارہ زندگی بخشی حقیقت یہ ہے کہ اللہ انسان پر بڑا فضل فرمانے والا ہے مگر اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے
English Sahih:
Have you not considered those who left their homes in many thousands, fearing death? Allah said to them, "Die"; then He restored them to life. And Allah is the possessor of bounty for the people, but most of the people do not show gratitude.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
تم نے اُن لوگوں کے حال پر بھی کچھ غور کیا، جو موت کے ڈر سے اپنے گھر بار چھوڑ کر نکلے تھے اور ہزاروں کی تعداد میں تھے؟ اللہ نے اُن سے فرمایا: مر جاؤ پھر اُس نے اُن کو دوبارہ زندگی بخشی حقیقت یہ ہے کہ اللہ انسان پر بڑا فضل فرمانے والا ہے مگر اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اے محبوب کیا تم نے نہ دیکھا تھا انہیں جو اپنے گھروں سے نکلے اور وہ ہزاروں تھے موت کے ڈر سے، تو اللہ نے ان سے فرمایا مرجاؤ پھر انہیں زندہ فرمادیا، بیشک اللہ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے مگر اکثر لوگ ناشکرے ہیں
احمد علی Ahmed Ali
کیا تم نے ان لوگو ں کو نہیں دیکھا جو موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکلے حالانکہ وہ ہزاروں تھے پھر الله نےان کو فرمایا کہ مرجاؤ پھر انہیں زندہ کر دیا بے شک الله لوگوں پر فضل کرنے والا ہے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
کیا تم نے انہیں نہیں دیکھا جو ہزاروں کی تعداد میں تھے اور موت کے ڈر کے مارے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے تھے، اللہ تعالٰی نے انہیں فرمایا مر جاؤ، پھر انہیں زندہ کر دیا (١) بیشک اللہ تعالٰی لوگوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے، لیکن اکثر لوگ ناشکرے ہیں۔
٢٤٣۔١ یہ واقعہ سابقہ کسی امت کا ہے جس کی تفصیل کسی حدیث میں بیان نہیں کی گئی تفسیری روایات اسے بنی اسرائیل کے زمانے کا واقعہ اور اس پغمبر کا نام جس کی دعا سے انہیں اللہ تعالٰی نے دوبارہ زندہ کیا یہ جہاد میں قتل کے ڈر سے یا وبائی بیماری طاعون کے خوف سے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے تھے تاکہ موت کے منہ میں جانے سے بچ جائیں اللہ تعالٰی نے انہیں مار کر ایک تو یہ بتلا دیا کہ اللہ کی تقدیر سے تم بچ کر نہیں جا سکتے دوسرا یہ کہ انسانوں کی آخری جائے پناہ اللہ تعالٰی ہی کی ذات ہے تیسرا یہ کہ اللہ تعالٰی دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے اور وہ تمام انسانوں کو اسی طرح زندہ فرمائے گا جس طرح اللہ نے ان کو مار کر زندہ کر دیا۔ اگلی آیت میں مسلمانوں کو جہاد کا حکم دیا جا رہا ہے اس سے پہلے اس واقعہ کے بیان میں یہی حکمت ہے کہ جہاد سے جی مت چراؤ موت وحیات تو اللہ کے قبضے میں ہے اور اس موت کا وقت بھی متعین ہے جسے جہاد سے گریز وفرار کر کے تم ٹال نہیں سکتے۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو (شمار میں) ہزاروں ہی تھے اور موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکل بھاگے تھے۔ تو خدا نے ان کو حکم دیا کہ مرجاؤ۔ پھر ان کو زندہ بھی کردیا۔ کچھ شک نہیں کہ خدا لوگوں پر مہربانی رکھتا ہے۔ لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
کیا تم نے انہیں نہیں دیکھا جو ہزاروں کی تعداد میں تھے اور موت کے ڈر کے مارے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں فرمایا مرجاؤ، پھر انہیں زنده کردیا بے شک اللہ تعالیٰ لوگوں پر بڑا فضل واﻻ ہے، لیکن اکثر لوگ ناشکرے ہیں
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو موت کے ڈر سے ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھروں سے نکل پڑے۔ خدا نے ان سے کہا: مر جاؤ (پس وہ سب کے سب مر گئے) پھر انہیں زندہ کیا۔ بے شک خدا لوگوں پر بڑا لطف و کرم کرنے والا ہے۔ لیکن اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو ہزاروں کی تعداد میںاپنے گھروں سے نکل پڑے موت کے خوف سے اور خدا نے انہیںموت کا حکم دے دیا اور پھر زندہ کردیا کہ خدا لوگوں پر بہت فضل کرنے والا ہے لیکن اکثر لوگ شکریہ نہیں ادا کرتے ہیں
طاہر القادری Tahir ul Qadri
(اے حبیب!) کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکل گئے حالانکہ وہ ہزاروں (کی تعداد میں) تھے، تو اﷲ نے انہیں حکم دیا: مر جاؤ (سو وہ مرگئے)، پھر انہیں زندہ فرما دیا، بیشک اﷲ لوگوں پر فضل فرمانے والا ہے مگر اکثر لوگ (اس کا) شکر ادا نہیں کرتے،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
موت اور زندگی ;
ابن عباس فرماتے ہیں یہ لوگ چار ہزار تھے اور روایت میں ہے کہ آٹھ ہزار تھے، بعض تو ہزار کہتے ہیں، بعض چالیس ہزار بتاتے ہیں، بعض تیس ہزار سے کچھ اوپر بتاتے ہیں، یہ لوگ ذرو روان نامی بستی کے تھے جو واسط کی طرف ہے، بعض کہتے ہیں اس بستی کا نام اذرعات تھا، یہ لوگ طاعون کے مارے اپنے شہر کو چھوڑ کر بھاگے تھے، ایک بستی میں جب پہنچے وہیں اللہ کے حکم سے سب مرگئے، اتفاق سے ایک نبی اللہ کا وہاں سے گزرا، ان کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے انہیں پھر دوبارہ زندہ کردیا، بعض لوگ کہتے ہیں ایک چٹیل صاف ہوادار کھلے پر فضا میدان میں ٹھہرے تھے اور دو فرشتوں کی چیخ سے ہلاک کئے گئے تھے جب ایک لمبی مدت گزر چکی ان کی ہڈیوں کا بھی چونا ہوگیا، اسی جگہ بستی بس گئی تب خرقیل نامی ایک نبی وہاں سے نکلے انہوں نے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی اور حکم دیا کہ تم کہو کہ اے بوسیدہ ہڈیو ! اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم سب جمع ہوجاؤ، چناچہ ہر ہر جسم کی ہڈیوں کا ڈھانچہ کھڑا ہوگیا پھر اللہ کا حکم ہوا ندا کرو کہ اے ہڈیو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم گوشت پوست رگیں پٹھے بھی جوڑ لو، چناچہ اس نبی کے دیکھتے ہوئے یہ بھی ہوگیا، پھر آواز آئی کہ اے روحو اللہ تعالیٰ کا تمہیں حکم ہو رہا ہے کہ ہر روح اپنے اپنے قدیم جسم میں آجائے چناچہ یہ سب جس طرح ایک ساتھ مرے تھے اسی طرح ایک ساتھ جی اٹھے اور بےساختہ انکی زبان سے نکلا ( سبحانک لا الہ الا انت) اے اللہ تو پاک ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں، یہ دلیل ہے قیامت کے دن اسی جسم کے ساتھ دوبارہ جی اٹھنے کی۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا لوگوں پر بڑا بھاری فضل و کرم ہے کہ وہ زبردست ٹھوس نشانیاں اپنی قدرت قاہرہ کی دکھا رہا ہے لیکن باوجود اس کے بھی اکثر لوگ ناقدرے اور بےشکرے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی جگہ بچاؤ اور پناہ نہیں یہ لوگ وبا سے بھاگے تھے اور زندگی کے حریص تھے تو اس کے خلاف عذاب آیا اور فوراً ہلاک ہوگئے، مسند احمد کی اس حدیث میں ہے کہ جب حضرت عمر بن خطاب شام کی طرف چلے اور سرنح میں پہنچے تو ابو عبیدہ بن جراح وغیرہ سرداران لشکر ملے اور خبر دی کہ شام میں آج کل وبا ہے چناچہ اس میں اختلاف ہوا کہ اب وہاں جائیں یا نہ جائیں، بالآخر عبدالرحمن بن عوف جب آئے اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ جب وبا کسی جگہ آئے اور تم وہاں ہو تو وہاں سے اس کے ڈر سے مت بھاگو، اور جب تم کسی جگہ وبا کی خبر سن لو تو وہاں مت جاؤ۔ حضرت عمر فاروق نے یہ سن کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی پھر وہاں سے واپس چلے گئے (بخاری مسلم) ایک اور روایت میں ہے کہ یہ اللہ کا عذاب ہے جو اگلی امتوں پر ڈالا گیا تھا۔