نِسَاۤؤُكُمْ حَرْثٌ لَّـكُمْۖ فَأْتُوْا حَرْثَكُمْ اَنّٰى شِئْتُمْ ۖ وَقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْۗ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعْلَمُوْۤا اَنَّکُمْ مُّلٰقُوْهُ ۗ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں تمہیں اختیار ہے، جس طرح چاہو، اپنی کھیتی میں جاؤ، مگر اپنے مستقبل کی فکر کرو اور اللہ کی ناراضی سے بچو خوب جان لو کہ تمہیں ایک دن اُس سے ملنا ہے اور اے نبیؐ! جو تمہاری ہدایات کو مان لیں انہیں فلاح و سعادت کا مثردہ سنا دو
English Sahih:
Your wives are a place of cultivation [i.e., sowing of seed] for you, so come to your place of cultivation however you wish and put forth [righteousness] for yourselves. And fear Allah and know that you will meet Him. And give good tidings to the believers.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں تمہیں اختیار ہے، جس طرح چاہو، اپنی کھیتی میں جاؤ، مگر اپنے مستقبل کی فکر کرو اور اللہ کی ناراضی سے بچو خوب جان لو کہ تمہیں ایک دن اُس سے ملنا ہے اور اے نبیؐ! جو تمہاری ہدایات کو مان لیں انہیں فلاح و سعادت کا مثردہ سنا دو
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
تمہاری عورتیں تمہارے لئے کھیتیاں ہیں، تو آؤ اپنی کھیتیوں میں جس طرح چاہو اور اپنے بھلے کا کام پہلے کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ تمہیں اس سے ملنا ہے اور اے محبوب بشارت دو ایمان والوں کو،
احمد علی Ahmed Ali
تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں پس تم اپنی کھیتیوں میں جیسے چاہو آؤ اور اپنے لیے آئندہ کی بھی تیاری کرو اور الله سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ تم ضرور اسے ملو گے اور ایمان والوں کو خوشخبری سنا دو
أحسن البيان Ahsanul Bayan
تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں، اپنی کھیتوں میں جس طرح چاہو (١) آؤ اور اپنے لئے (نیک اعمال) آگے بھیجو اور اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہا کرو اور جان رکھو کہ تم اس سے ملنے والے ہو اور ایمان والوں کو خوشخبری دیجئے۔
٢٢٣۔١ یہودیوں کا خیال تھا کہ اگر عورت کو پیٹ کے بل لٹا کر مباشرت کی جائے تو بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے۔ اس کی تردید میں کہا جا رہا ہے کہ مباشرت آگے سے کرو (چت لٹا کر) یا پیچھے سے (پیٹ کے بل) یا کروٹ پر، جس طرح چاہو، جائز ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ ہر صورت میں عورت کی فرج ہی استعمال ہو۔ بعض لوگ اس سے یہ دلیل کرتے ہیں (جس طرح چاہو) میں تو دبر بھی آجاتی ہے، لہذا دبر کا استعمال بھی جائز ہے۔ لیکن یہ بالکل غلط ہے۔ جب قرآن نے عورت کو کھیتی قرار دیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف کھیتی کے استعمال کے لئے کہا جا رہا ہے کہ اپنی کھیتیوں میں جس طرح چاہو آؤ اور یہ کھیتی صرف فرج ہے نہ کہ دبر۔ بہرحال یہ غیر فطری فعل ہے۔ ایسے شخص کو جو اپنی عورت کی دبر استعمال کرتا ہے ملعون قرار دیا گیا ہے (بحوالہ ابن کثیر و فتح القدیر)
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
تمہاری عورتیں تمہارای کھیتی ہیں تو اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو جاؤ۔ اور اپنے لئے (نیک عمل) آگے بھیجو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ (ایک دن) تمہیں اس کے روبرو حاضر ہونا ہے اور (اے پیغمبر) ایمان والوں کو بشارت سنا دو
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں، اپنی کھیتیوں میں جس طرح چاہو آؤ اور اپنے لئے (نیک اعمال) آگے بھیجو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور جان رکھو کہ تم اس سے ملنے والے ہو اور ایمان والوں کو خوش خبری سنا دیجیئے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
تمہاری عورتیں کھیتی ہیں۔ (اس لئے) اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو آؤ۔ اور اپنے لئے (خدا کی بارگاہ میں) پیشگی (اعمال) بھیج دو۔ اور اللہ اور ایمان والوں کو خوشخبری (مبارکباد) دے دو۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں لہٰذا اپنی کھیتی میں جہاں چاہو داخل ہوجاؤ اور اپنے واسطے پیشگی اعمال خدا کی بارگاہ میں بھیج دو اور اس سے ڈرتے رہو---- یہ سمجھو کہ تمہیں اس سے ملاقات کرنا ہے اورصاحبانِ ایمان کو بشارت دے دو
طاہر القادری Tahir ul Qadri
تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں پس تم اپنی کھیتیوں میں جیسے چاہو آؤ، اور اپنے لئے آئندہ کا کچھ سامان کرلو، اور اﷲ کا تقوٰی اختیار کرو اور جان لو کہ تم اس کے حضور پیش ہونے والے ہو، اور (اے حبیب!) آپ اہلِ ایمان کو خوشخبری سنادیں (کہ اﷲ کے حضور ان کی پیشی بہتر رہے گی)،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
پھر فرمایا کہ تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں یعنی اولاد ہونے کی جگہ تم اپنی کھیتی میں جیسے بھی چاہو آؤ یعنی جگہ تو وہی ایک ہو، طریقہ خواہ کوئی بھی ہو، سامنے کر کے یا اس کے خلاف۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ یہود کہتے تھے کہ جب عورت سے مجامعت سامنے رخ کر کے نہ کی جائے اور حمل ٹھہر جائے تو بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے۔ ان کی تردید میں یہ جملہ نازل ہوا کہ مرد کو اختیار ہے، ابن ابی حاتم میں ہے کہ یہودیوں نے یہی بات مسلمانوں سے بھی کہی تھی، ابن جریح فرماتے ہیں کہ آیت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اختیار دیا کہ خواہ سامنے سے آئے خواہ پیچھے سے لیکن ایک ہی رہے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک شخص نے پوچھا کہ ہم اپنی عورتوں کے پاس کیسے آئیں اور کیا چھوڑیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ تیری کھیتی ہے جس طرح چاہو آؤ، ہاں اس کے منہ پر نہ مار، زیادہ برا نہ کہہ، اس سے روٹھ کر الگ نہ ہوجا، ایک ہی گھر میں رہ (احمد و سنن) ابن ابی حاکم میں ہے کہ حمیر کے قبیلہ کے ایک آدمی نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سوال کیا کہ مجھے اپنی بیویوں سے زیادہ محبت ہے تو اس کے بارے میں احکام مجھے بتائے، اس پر یہ حکم نازل ہوا۔ مسند احمد میں ہے کہ چند انصاریوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سوال کیا تھا، طحاوی کی کتاب مشکل الحدیث میں ہے ایک شخص نے اپنی بیوی سے الٹا کر کے مباشرت کی تھی، لوگوں نے اسے برا بھلا کہا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ابن جریر میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن سابط حضرت حفصہ بن عبدالرحمن بن ابی بکر کے پاس آئے اور کہا میں ایک مسئلہ پوچھنا چاہتا ہوں لیکن شرم آتی ہے، فرمایا بھتیجے تم نہ شرماؤ اور جو پوچھنا ہو پوچھ لو، کہا فرمائیے عورتوں کے پیچھے کی طرف سے جماع کرنا جائز ہے ؟ فرمایا سنو مجھ سے حضرت ام سلمہ نے فرمایا ہے کہ انصار عورتوں کو الٹا لٹایا کرتے تھے اور یہود کہتے تھے کہ اس طرح سے بچہ بھینگا ہوتا ہے، جب مہاجر مدینہ شریف آئے اور یہاں کی عورتوں سے ان کا نکاح ہوا اور انہوں نے بھی یہی کرنا چاہا تو ایک عورت نے اپنے خاوند کی بات نہ مانی اور کہا جب تک میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں یہ واقعہ بیان نہ کرلوں تیری بات نہ مانوں گی چناچہ وہ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئی، ام سلمہ نے بٹھایا اور کہا ابھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آجائیں گے، جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے تو انصاریہ عورت شرمندگی کی وجہ سے نہ پوچھ سکی اور واپس چلی گئی لیکن ام المومنین نے آپ سے پوچھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انصاریہ عورت کو بلا لو، پھر یہ آیت پڑھ کر سنائی اور فرمایا جگہ ایک ہی ہو، مسند احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ عمر بن خطاب نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں تو ہلاک ہوگیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کیا بات ہے ؟ کہا، میں نے رات کو اپنی سواری الٹی کردی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ جواب نہ دیا۔ اسی وقت یہ آیت نازل ہوئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سامنے سے آ، پیچھے سے آ، اختیار ہے لیکن حیض کی حالت میں نہ آ اور پاخانہ کی جگہ نہ آ۔ انصار والا واقعہ قدرے تفصیل کے ساتھ بھی مروی ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر کو اللہ بخشے، انہیں کچھ وہم سا ہوگیا۔ بات یہ ہے کہ انصاریوں کی جماعت پہلے بت پرست تھی اور یہودی اہل کتاب تھے۔ بت پرست لوگ ان کی فضیلت اور علمیت کے قائل تھے اور اکثر افعال میں ان کی بات مانا کرتے تھے۔ یہودی ایک ہی طرح پر اپنی بیویوں سے ملتے تھے۔ یہی عادت ان انصار کی بھی تھی۔ ان کے برخلاف مکہ والے کسی خاص طریقے کے پابند نہ تھے، وہ جس طرح جی چاہتا ملتے۔ اسلام کے بعد مکہ والے مہاجر بن کر مدینہ میں انصار کے ہاں جب اترے تو ایک مکی مجاہد مرد نے ایک مدنی انصاریہ عورت سے نکاح کیا اور اپنے من بھاتے طریقے برتنے چاہے، عورت نے انکار کردیا اور صاف کہہ دیا کہ اسی ایک مقررہ طریقہ کے علاوہ اجازت نہیں دیتی۔ بات بڑھتے بڑھتے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچی اور یہ فرمان نازل ہوا۔ پس سامنے سے پیچھے کی طرف سے اور جس طرح چاہے اختیار ہے ہاں جگہ ایک ہی ہو۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں میں نے حضرت ابن عباس سے قرآن شریف سیکھا اول سے آخر تک انہیں سنایا، ایک آیت کی تفسیر اور مطلب پوچھا۔ اس آیت پر پہنچ کر جب میں نے اس کا مطلب پوچھا تو انہوں نے یہی بیان کیا (جو اوپر گزرا) ابن عمر کا وہم یہ تھا کہ بعض روایتوں میں ہے کہ آپ قرآن پڑھتے ہوئے کسی سے بولتے چالتے نہ تھے لیکن ایک دن تلاوت کرتے ہوئے جب اس آیت تک پہنچے تو اپنے شاگرد حضرت نافع سے فرمایا جانتے ہو یہ آیت کس بارے میں نازل ہوئی ؟ انہوں نے کہا نہیں، فرمایا یہ عورتوں کی دوسری جگہ کی وطی کے بارے میں اتری ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا ایک شخص نے اپنی بیوی سے پیچھے سے کیا تھا جس پر اس آیت میں رخصت نازل ہوئی لیکن ایک تو اس میں محدثین نے کچھ علت بھی بیان کی ہے، دوسرے اس کے معنی بھی یہی ہوسکتے ہیں کہ پیچھے کی طرف سے آگے کی جگہ میں کیا اور اوپر کی جو روایتیں ہیں وہ بھی سنداً صحیح نہیں بلکہ انہیں حضرت نافع سے مروی ہے کہ ان سے کہا گیا کہ کیا آپ یہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر نے وطی دبر کو جائز کیا ہے ؟ تو فرمایا لوگ جھوٹ کہتے ہیں۔ پھر وہی انصاریہ عورت اور مہاجر والا واقعہ بیان کیا اور فرمایا حضرت عبداللہ تو اس آیت کا یہ مطلب ارشاد فرماتے تھے، اس روایت کی اسناد بھی بالکل صحیح ہے اور اس کے خلاف سند صحیح نہیں، معنی مطلب بھی اور ہوسکتا ہے اور خود حضرت ابن عمر سے اس کے خلاف بھی مروی ہے۔ وہ روایتیں عنقریب بیان ہوں گی انشاء اللہ جن میں ہے کہ حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ نہ یہ مباح ہے نہ حلال بلکہ حرام ہے، تو یہ قول یعنی جواز کا بعض کا بعض فقہاء مدینہ وغیرہ کی طرف بھی منسوب ہے اور بعض لوگوں نے تو اسے امام کی طرف بھی منسوب کیا ہے لیکن اکثر لوگ اس کا انکار کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ امام صاحب کا قول ہرگز یہ نہیں، صحیح حدیثیں بکثرت اس فعل کی حرمت پر وارد ہیں۔ ایک روایت میں ہے لوگو ! شرم و حیا کرو اللہ تعالیٰ حق بات فرمانے سے شرم نہیں کرتا۔ عورت کے پاخانہ کی جگہ وطی نہ کرو۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے اس حرکت سے لوگوں کو منع فرمایا (مسند احمد) اور روایت میں ہے کہ جو شخص کسی عورت یا مرد کے ساتھ یہ کام کرے اس کی طرف اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نہیں دیکھے گا (ترمذی) حضرت ابن عباس سے ایک شخص یہ مسئلہ پوچھتا ہے تو آپ فرماتے ہیں کہ کیا تو کفر کرنے کی بابت سوال کرتا ہے ؟ ایک شخص نے آپ سے آکر کہا کہ میں نے آیت (انی شئتم) کا یہ مطلب سمجھا اور میں نے اس پر عمل کیا تو آپ ناراض ہوئے اور اسے برا بھلا کہا اور فرمایا کہ مطلب یہ ہے کہ خواہ کھڑے ہو کر، خواہ بیٹھ کر چت خواہ پٹ لیکن جگہ وہی ایک ہو، ایک اور مرفوع حدیث میں ہے کہ جو شخص اپنی بیوی سے پاخانہ کی جگہ وطی کرے وہ چھوٹا لوطی ہے (مسند احمد) ابو دردار فرماتے ہیں کہ یہ کفار کا کام ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کا یہ فرمان بھی منقول ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے واللہ اعلم۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں سات قسم کے لوگ ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان سے فرمائے گا کہ جہنمیوں کے ساتھ جہنم میں چلے جاؤ۔ ایک تو اغلام بازی کرنے والا خواہ وہ اوپر والا ہو خواہ نیچے والا ہو، اور اپنے ہاتھ سے مشت زنی کرنے والا، اور چوپائے جانور سے یہ کام کرنے والا اور عورت کی دبر میں وطی کرنے والا اور عورت اور اس کی بیٹی دونوں سے نکاح کرنے والا اور اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرنے والا اور ہمسایہ کو ستانے والا، یہاں تک کہ وہ اس پر لعنت کرے، لیکن اس کی سند میں ابن لہیعہ اور ان کے استاد دونوں ضعیف ہیں، مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ جو شخص اپنی بیوی سے دوسرے راستے وطی کرے اسے کو اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا (مسند) مسند احمد اور سنن میں مروی ہے کہ جو شخص حائضہ عورت سے جماع کرے یا غیر جگہ کرے یا کاہن کے پاس جائے اور اسے سچا سمجھے، اس نے اس چیز کے ساتھ کفر کیا جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوپر اتری ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ امام بخاری اس حدیث کو ضعیف بتاتے ہیں، ترمذی میں روایت ہے کہ ابو سلمہ بھی دبر کی وطی کو حرام بتاتے تھے، حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں لوگوں کا اپنی بیوی سے یہ کام کرنا کفر ہے (نسائی) ایک مرفوع حدیث میں اس معنی کی مروی ہے لیکن زیادہ صحیح اس کا موقوف ہونا ہی ہے، اور روایت میں ہے کہ یہ جگہ حرام ہے۔ حضرت ابن مسعود بھی یہی فرماتے ہیں، حضرت علی سے جب یہ بات پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا بڑا کمینہ وہ شخص ہے، دیکھو قرآن میں ہے کہ لوطیوں سے کہا گیا تم وہ بدکاری کرتے ہو جس کی طرف کسی نے تم سے پہلے توجہ نہیں کی، پس صحیح احادیث اور صحابہ کرام سے بہت سی روایتوں اور سندوں سے اس فعل کی حرمت مروی ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر بھی اسے حرام کہتے ہیں۔ چناچہ دارمی میں ہے کہ آپ سے ایک مرتبہ یہ سال ہوا تو آپ نے فرمایا کیا مسلمان بھی ایسا کرسکتا ہے ؟ اس کی اسناد صحیح ہے اور حکم بھی حرمت کا صاف ہے، پس غیر صحیح اور مختلف معنی والی روایتوں میں پڑ کر اتنے جلیل القدر صحابی کی طرف ایک ایسا گندا مسئلہ منسوب کرنا ٹھیک نہیں۔ گو کہ روایتیں اس قسم کی بھی ملتی ہیں، امام مالک سو ان کی طرف بھی اس مسئلہ کی نسبت صحیح نہیں بلکہ معمر بن عیسیٰ فرماتے ہیں کہ امام صاحب اسے حرام جانتے تھے، اسرائیل بن روح نے آپ سے ایک مرتبہ یہی سوال کیا تو آپ نے فرمایا تم بےسمجھ ہو، بوائی کھیت میں ہی ہوتی ہے، خبردار شرم گاہ کے سوا اور جگہ سے بچو۔ سائل نے کہا حضرت لوگ تو کہتے ہیں کہ آپ اس فعل کو جائز کہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا جھوٹے ہیں مجھ پر تہمت باندھتے ہیں۔ امام مالک سے اس کی حرمت ثابت ہے۔ امام ابو حنیفہ، شافعی، احمد اور ان کے تمام شاگردوں اور ساتھی، سعید بن مسیب، ابو سلمہ، عکرمہ، عطاء، سعید بن جبیر، عروہ بن زبیر، مجاہد، حسن وغیرہ سلف صالحین سب کے سب اسے حرام کہتے ہیں اور اس بارے میں سخت تشدد کرتے ہیں بلکہ بعض تو اسے کفر کہتے ہیں، جمہور علماء کرام کا بھی اس کی حرمت پر اجماع ہے، گو بعض لوگوں نے فقہاء مدینہ بلکہ امام مالک سے بھی اس کی حلت نقل کی ہے لیکن یہ صحیح نہیں۔ عبدالرحمن بن قاسم کا قول ہے کہ کسی دیندار شخص کو میں نے تو اس کی حرمت میں شک کرنے والا نہیں پایا، پھر آیت (نساء کم حرث لکم) پڑھ کر فرمایا خود یہ لفظ حرث ہی اس کی حرمت ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے کیونکہ وہ دوسری جگہ کھیتی کی جگہ نہیں، کھیتی میں جانے کے طریقہ کا اختیار ہے نہ کہ جگہ بدلنے کا۔ گو امام مالک سے اس کے مباح ہونے کی روایتیں بھی منقول ہیں لیکن ان کی اسنادوں میں سخت ضعف ہے۔ واللہ اعلم۔ ٹھیک اس طرح امام شافعی سے بھی ایک روایت لوگوں نے گھڑ لی ہے حالانکہ انہوں نے اپنی چھ کتابوں میں کھلے لفظوں اسے حرام لکھا ہے۔ پھر اللہ فرماتا ہے اپنے لئے کچھ آگے بھی بھیجو یعنی ممنوعات سے بچو نیکیاں کرو تاکہ ثواب آگے جائے، اللہ سے ڈرو اس سے ملنا ہے وہ حساب کتاب لے گا، ایماندر ہر حال میں خوشیاں منائیں، ابن عباس فرماتے ہیں یہ بھی مطلب ہے کہ جب جماع کا ارادہ کرے۔ یہ دعا ( بسم اللہ اللھم جنبنا الشیطان و جنب الشیطان مارزقنا) پڑھے یعنی اے اللہ تو ہمیں اور ہماری اولاد کو شیطان سے بچا لے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اگر اس جماع سے نطفہ قرار پکڑ گیا تو اس بچے کو شیطان ہرگز کوئی ضرر نہ پہنچا سکے گا۔