لَيْسَ عَلَيْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّکُمْۗ فَاِذَاۤ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْکُرُوا اللّٰهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَـرَامِۖ وَاذْکُرُوْهُ کَمَا هَدٰٮکُمْۚ وَاِنْ کُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الضَّاۤ لِّيْنَ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
اور اگر حج کے ساتھ ساتھ اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے جاؤ، تو اس میں کوئی مضائقہ نہں پھر جب عرفات سے چلو، تو مشعر حرام (مزدلفہ) کے پاس ٹھیر کر اللہ کو یاد کرو اور اُس طرح یاد کرو، جس کی ہدایت اس نے تمہیں دی ہے، ورنہ اس سے پہلے تم لوگ بھٹکے ہوئے تھے
English Sahih:
There is no blame upon you for seeking bounty from your Lord [during Hajj]. But when you depart from Arafat, remember Allah at al-Mash’ar al-Haram. And remember Him, as He has guided you, for indeed, you were before that among those astray.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
اور اگر حج کے ساتھ ساتھ اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے جاؤ، تو اس میں کوئی مضائقہ نہں پھر جب عرفات سے چلو، تو مشعر حرام (مزدلفہ) کے پاس ٹھیر کر اللہ کو یاد کرو اور اُس طرح یاد کرو، جس کی ہدایت اس نے تمہیں دی ہے، ورنہ اس سے پہلے تم لوگ بھٹکے ہوئے تھے
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
تم پر کچھ گناہ نہیں کہ اپنے رب کا فضل تلاش کرو، تو جب عرفات سے پلٹو تو اللہ کی یاد کرو مشعر حرام کے پاس اور اس کا ذکر کرو جیسے اس نے تمہیں ہدایت فرمائی اور بیشک اس سے پہلے تم بہکے ہوئے تھے، ف۳۸۳)
احمد علی Ahmed Ali
تم پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ اپنے رب کا فضل تلاش کرو پھر جب تم عرفات سے پھرو تو مشعر الحرام کے پاس الله کو یاد کرو اور اس کی یاد اس طرح کرو کہ جس طرح اس نے تمیں بتائی ہے اور اس سے پہلے تو تم گمراہوں میں سے تھے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
تم پر اپنے رب کا فضل تلاش کرنے میں کوئی گناہ نہیں (١) جب تم عرفات سے لوٹو تو مسجد حرام کے پاس ذکر الٰہی کرو اور اس کا ذکر کرو جیسے کہ اس نے تمہیں ہدایت دی ہے، تم اس سے پہلے راہ بھولے ہوئے تھے۔
١٩٨۔١ فضل سے مراد تجارت اور کاروبار ہے یعنی سفر حج میں تجارت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
۲۔ ۱۹۸ذی الحجہ کو زوال آفتاب سے غروب شمس تک میدان عرفات میں وقوف حج کا سب سے اہم رکن ہے جس کی بابت حدیث میں کہا گیا ہے (الحج عرفۃ) (عرفات میں وقوف ہی حج ہے) یہاں مغرب کی نماز نہیں پڑھنی ہے بلکہ مزدلفہ پہنچ کر مغرب کی تین رکعات اور عشاء کی دو رکعات (قصر) جمع کر کے ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ پڑھی جائے گی مزدلفہ ہی کو مشعر حرام کہا گیا ہے کیونکہ یہ حرم کے اندر ہے یہاں ذکر الہی کی تاکید ہے یہاں رات گذارنی ہے فجر کی نماز غلس (اندھیرے) میں یعنی اول وقت میں پڑھ کر طلوع آفتاب تک ذکر میں مشغول رہا جائے طلوع آفتاب کے بعد منی جایا جائے۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
اس کا تمہیں کچھ گناہ نہیں کہ (حج کے دنوں میں بذریعہ تجارت) اپنے پروردگار سے روزی طلب کرو اور جب عرفات سے واپس ہونے لگو تو مشعر حرام (یعنی مزدلفے) میں خدا کا ذکر کرو اور اس طرح ذکر کرو جس طرح اس نے تم کو سکھایا۔ اور اس سے پیشتر تم لوگ (ان طریقوں سے) محض ناواقف تھے
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
تم پر اپنے رب کا فضل تلاش کرنے میں کوئی گناه نہیں جب تم عرفات سے لوٹو تو مشعر حرام کے پاس ذکر الٰہی کرو اور اس کا ذکر کرو جیسے کہ اس نے تمہیں ہدایت دی، حاﻻنکہ تم اس سے پہلے راه بھولے ہوئے تھے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
اس میں تمہارے لئے کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ تم حج کے دوران اپنے پروردگار سے فضل (رزق) کے طلب گار رہو۔ ہاں تو جب عرفات سے روانہ ہو تو مشعر الحرام (مزدلفہ) کے پاس (اس کی حدود) میں اللہ کو یاد کرو اور یاد بھی اس طرح کرو جس طرح اس نے تمہیں ہدایت کی ہے اگرچہ اس سے پہلے تم گمراہوں میں سے تھے۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
تمہارے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ اپنے پروردگار کے فضل وکرم کو تلاش کرو پھر جب عرفات سے کوچ کرو تو مشعرالحرام کے پاس ذکر خداکرو اور اس طرح ذکر کرو جس طرح اس نے ہدایت دی ہے اگرچہ تم لوگ اس کے پہلے گمراہوں میں سے تھے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
اور تم پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں اگر تم (زمانۂ حج میں تجارت کے ذریعے) اپنے رب کا فضل (بھی) تلاش کرو، پھر جب تم عرفات سے واپس آؤ تو مشعرِ حرام (مُزدلفہ) کے پاس اﷲ کا ذکر کیا کرو اور اس کا ذکر اس طرح کرو جیسے اس نے تمہیں ہدایت فرمائی، اور بیشک اس سے پہلے تم بھٹکے ہوئے تھے،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
تجارت اور حج
صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے مروی ہے کہ جاہلیت کے زمانہ میں عکاظ، مجنہ اور ذوالمجاز نامی بازار تھے اسلام کے بعد صحابہ کرام (رض) ایام حج میں تجارت کو گناہ سمجھ کر ڈرے تو انہیں اجازت دی گئی کہ ایام حج میں تجارت کرنا گناہ نہیں، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ یہ مسئلہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا گیا جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ حج کے دنوں میں احرام سے پہلے یا احرام کے بعد حاجی کے لئے خریدو فروخت حلال ہے، ابن عباس کی قرأت میں آیت (من ربکم) کے بعد فی مواسم الحج کا لفظ بھی ہے، ابن زبیر سے بھی یہی مروی ہے دوسرے مفسرین نے بھی اس کی تفسیر اسی طرح کی ہے، حضرت ابن عمر (رض) سے پوچھا گیا کہ ایک شخص حج کو نکلتا ہے اور ساتھ ہی خوش الحانی کے ساتھ پڑھتا جاتا ہے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ آپ نے یہی آیت پڑھ کر سنائی (ابن جریر) مسند احمد کی روایت میں ہے کہ ابو امامہ تیمی نے حضرت ابن عمر سے پوچھا کہ ہم حج میں جانور کرایہ پر دیتے ہیں کیا ہمارا حج ہوجاتا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ تم بیت اللہ شریف کا طواف نہیں کرتے ؟ کیا تم عرفات میں نہیں ٹھہرتے ؟ کیا تم شیطانوں کو کنکریاں نہیں مارتے ؟ کیا تم سر نہیں منڈواتے ؟ اس نے کہا یہ سب کام تو ہم کرتے ہیں تو آپ نے فرمایا سنو ایک شخص نے یہی سوال نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا تھا اور اس کے جواب میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آیت (لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ ) 2 ۔ البقرۃ ;198) لے کر اترے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے بلا کر فرمایا کہ تم حاجی ہو تمہارا حج ہوگیا۔ مسند عبدالرزاق میں بھی یہ روایت ہے کہ اور تفسیر عبد بن حمید وغیرہ میں بھی، بعض روایتوں میں الفاظ کی کچھ کمی بیشی بھی ہے، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ کیا تم احرام نہیں باندھتے ؟ امیر المومنین حضرت عمر فاروق (رض) سے سوال ہوتا ہے کہ کیا آپ حضرات حج کے دنوں میں تجارت بھی کرتے تھے ؟ آپ نے فرمایا اور تجارت کا موسم ہی کونسا تھا ؟ عرفات کو منصرف (یعنی تصرف کر کے) پڑھا گیا ہے حالانکہ اس کے غیر منصرف ہونے کے دو سبب اس میں موجود ہیں یعنی اسم علم اور تانیث، اس لئے کہ دراصل یہ جمع ہے جیسے مسلمات اور مومنات ایک خاص جگہ کا نام مقرر کردیا گیا ہے اس لئے اصلیت کی رعایت کی گئی اور منصرف پڑھا گیا عرفہ وہ جگہ ہے جہاں کا ٹھہرنا حج کا بنیادی رکن ہے مسند احمد وغیرہ میں حدیث ہے کہ حج عرفات ہے تین مرتبہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہی فرمایا جو سورج نکلنے سے پہلے عرفات میں پہنچ گیا اس نے حج کو پا لیا، منی کے تین دنوں میں جلدی یا دیر کی جاسکتی ہے، پر کوئی گناہ نہیں، ٹھہرنے کا وقت عرفے کے دن سورج ڈھلنے کے بعد سے لے کر عید کی صبح صادق کے طلوع ہونے تک ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجۃ الوداع میں ظہر کی نماز کے بعد سورج غروب ہونے تک یہاں ٹھہرے رہے اور فرمایا تھا مجھ سے حج کے طریقے سیکھ لو، حضرت امام مالک (رح) ، امام ابوحنیفہ اور امام شافعی کا یہی مذہب ہے کہ دسویں کی فجر سے پہلے جو شخص عرفات میں پہنچ جائے، اس نے حج پا لیا، حضرت امام احمد، فرماتے ہیں کہ ٹھہرنے کا وقت عرفہ کے دن کے شروع سے ہے ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں مروی ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مزدلفہ میں نماز کے لئے نکلے تو ایک شخص حاضر خدمت ہوا اور اس نے پوچھا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں طی کی پہاڑیوں سے آرہا ہوں اپنی سواری کو میں نے تھکا دیا اور اپنے نفس پر بڑی مشقت اٹھائی واللہ ہر ہر پہاڑ پر ٹھہرتا آیا ہوں کیا میرا حج ہوگیا ؟ آپ نے فرمایا جو شخص ہمارے یہاں کی اس نماز میں پہنچ جائے اور ہمارے ساتھ چلتے وقت تک ٹھہرا رہے اور اس سے پہلے وہ عرفات میں بھی ٹھہر چکا ہو خواہ رات کو خواہ دن کو اس کا حج پورا ہوگیا اور وہ فریضہ سے فارغ ہوگیا۔ (مسند احمد وسنن) امام ترمذی اسے صحیح کہتے ہیں، امیر المومنین حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو بھیجا اور انہوں نے آپ کو حج کرایا جب عرفات میں پہنچے تو پوچھا کہ (عرفت) کیا تم نے پہچان لیا ؟ حضرت خلیل اللہ نے جواب دیا (عرفت) میں نے جان لیا کیونکہ اس سے پہلے یہاں آچکے تھے اس لئے اس جگہ کا نام ہی عرفہ ہوگیا، حضرت عطاء، حضرت ابن عباس، حضرت ابن عمر اور حضرت ابو مجلز سے بھی یہی مروی ہے واللہ اعلم۔ " مشعر الحرام " مشعر الاقصی " اور " الال " بھی ہے، اور اس پہاڑ کو بھی عرفات کہتے ہیں جس کے درمیان جبل الرحمۃ ہے، ابو طالب کے ایک مشہور قصیدے میں بھی ایک شعر ان معنوں کا ہے، اہل جاہلیت بھی عرفات میں ٹھہرتے تھے جب پہاڑ کی دھوپ چوٹیوں پر ایسی باقی رہ جاتی جیسے آدمی کے سر پر عمامہ ہوتا ہے تو وہ وہاں سے چل پڑتے لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہاں سے اس وقت چلے جب سورج بالکل غروب ہوگیا، پھر مزدلفہ میں پہنچ کر یہاں پڑاؤ کیا اور سویرے اندھیرے ہی اندھیرے بالکل اول وقت میں رات کے اندھیرے اور صبح کی روشنی کے ملے جلے وقت میں آپ نے یہیں نماز صبح ادا کی اور جب روشنی واضح ہوگئی تو صبح کی نماز کے آخری وقت میں آپ نے وہاں سے کوچ کیا حضرت مسور بن مخرمہ فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں عرفات میں خطبہ سنایا اور حسب عادت حمد و ثنا کے بعد اما بعد کہہ کر فرمایا کہ حج اکبر آج ہی کا دن ہے دیکھو مشرک اور بت پرست تو یہاں سے جب دھوپ پہاڑوں کی چوٹیوں پر اس طرح ہوتی تھی جس طرح لوگوں کے سروں پر عمامہ ہوتا ہے تو سورج غروب ہونے سے پیشتر ہی لوٹ جاتے تھے لیکن ہم سورج غروب ہونے کے بعد یہاں سے واپس ہوں گے وہ مشعر الحرام سے سورج نکلنے کے بعد چلتے تھے جبکہ اتنی وہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر دھوپ اس طرح نمایاں ہوجاتی جس طرح لوگوں کے سروں پر عمامے ہوتے ہیں لیکن ہم سورج نکلنے سے پہلے ہی چل دیں گے ہمارا طریقہ مشرکین کے طریقے کے خلاف ہے (ابن مردویہ ومستدرک حاکم) امام حاکم نے اسے شرط شیخین پر اور بالکل صحیح بتلایا ہے، اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ حضرت مسور (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے ان لوگوں کا قول ٹھیک نہیں جو فرماتے ہیں کہ حضرت مسور نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا ہے لیکن آپ سے کچھ سنا نہیں، حضرت معرور بن سوید کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عمر (رض) کو عرفات سے لوٹتے ہوئے دیکھا گویا اب تک بھی وہ منظر میرے سامنے ہے، آپ کے سر کے اگلے حصے پر بال نہ تھے اپنے اونٹ پر تھے اور فرما رہے تھے ہم واضح روشنی میں لوٹے صحیح مسلم کی حضرت جابر والی ایک مطول حدیث جس میں حجۃ الوداع کا پورا بیان ہے اس میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سورج کے غروب ہونے تک عرفات میں ٹھہرے جب سورج چھپ گیا اور قدرے زردی ظاہر ہونے لگی تو آپ نے اپنے پیچھے اپنی سواری پر حضرت اسامہ (رض) کو سوار کیا اور اونٹنی کی نکیل تان لی یہاں تک کہ اس کا سر پالان کے قریب پہنچ گیا اور دائیں ہاتھ سے لوگوں کو اشارہ فرماتے جاتے تھے کہ لوگو آہستہ آہستہ چلو نرمی اطمینان وسکون اور دلجمعی کے ساتھ چلو جب کوئی پہاڑی آئی تو نکیل قدرے ڈھیلی کرتے تاکہ جانور بہ آسانی اوپر چڑھ جائے، مزدلفہ میں آکر آپ نے مغرب اور عشاء کی نماز ادا کی اذان ایک ہی کہلوائی اور دونوں نمازوں کی تکبیریں الگ الگ کہلوائیں مغرب کے فرضوں اور عشا کے فرضوں کے درمیان سنت نوافل کچھ نہیں پڑھے پھر لیٹ گئے، صبح صادق کے طلوع ہونے کے بعد نماز فجر ادا کی جس میں اذان واقامت ہوئی پھر قصوی نامی اونٹنی پر سوار ہو کر مشعر الحرام میں آئے قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر دعا میں مشغول ہوگئے اور اللہ اکبر اور لا الہ الا اللہ اور اللہ کی توحید بیان کرنے لگے یہاں تک کہ خوب سویرا ہوگیا، سورج نکلنے سے پہلے ہی پہلے آپ یہاں سے روانہ ہوگئے، حضرت اسامہ (رض) سے سوال ہوتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب یہاں سے چلے تو کیسی چال چلتے تھے فرمایا اور درمیانہ دھیمی چال سواری چلا رہے تھے ہاں جب راستہ میں کشادگی دیکھتے تو ذرا تیز کرلیتے (بخاری ومسلم) پھر فرمایا عرفات سے لوٹتے ہوئے مشعرالحرام میں اللہ کا ذکر کرو یعنی یہاں دونون نمازیں جمع کرلیں، عمرو بن میمون (رح) عبداللہ بن عمر (رض) سے مشعرالحرام کے بارے میں دریافت فرماتے ہیں تو آپ خاموش رہتے ہیں جب قافلہ مزدلفہ میں جا کر اترتا ہے تو فرماتے ہیں سائل کہا ہے یہ مشعر الحرام، آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ مزدلفہ تمام کا تمام مشعر الحرام ہے، پہاڑ بھی اور اس کے آس پاس کی کل جگہ، آپ نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ قزح پر بھیڑ بھاڑ کر رہے ہیں تو فرمایا یہ لوگ کیوں بھیڑ بھاڑ کر رہے ہیں ؟ یہاں کی سب جگہ مشعر الحرام ہے، اور بھی بہت سے مفسرین نے یہی فرمایا ہے کہ دونوں پہاڑوں کے درمیان کی کل جگہ مشعر الحرام ہے، حضرت عطاء سے سوال ہوتا ہے کہ مزدلفہ کہاں ہے آپ فرماتے ہیں جب عرفات سے چلے اور میدان عرفات کے دونوں کنارے چھوڑے پھر مزدلفہ شروع ہوگیا وادی محسر تک جہاں چاہو ٹھہرو لیکن میں تو قزح سے ادھر ہی ٹھہرنا پسند کرتا ہوں تاکہ راستے سے یکسوئی ہوجائے، مشاعر کہتے ہیں ظاہری نشانوں کو مزدلفہ کو مشعر الحرام اس لئے کہتے ہیں کہ وہ حرم میں داخل ہے، سلف صالحین کی ایک جماعت کا اور بعض اصحاب شافعی کا مثلا قفال اور ابن خزیمہ کا خیال ہے کہ یہاں کا ٹھہرنا حج کا رکن ہے بغیر یہاں ٹھہرے حج صحیح نہیں ہوتا کیونکہ ایک حدیث حضرت عروہ بن مضرس سے اس معنی کی مروی ہے، بعض کہتے ہیں یہ ٹھہرنا واجب ہے حضرت امام شافعی (رح) کا ایک قول یہ بھی ہے اگر کوئی یہاں نہ ٹھہرا تو قربانی دینی پڑے گی، امام صاحب کا دوسرا قول یہ ہے کہ مستحب ہے اگر نہ بھی ٹہرا تو کچھ حرج نہیں، پس یہ تین قول ہوئے ہم یہاں اس بحث کو زیادہ طول دینا مناسب نہیں سمجھتے واللہ اعلم۔ (قرآن کریم کے ظاہری الفاظ پہلے قول کی زیادہ تائید کرتے ہیں واللہ اعلم۔ مترجم) ایک مرسل حدیث میں ہے کہ عرفات کا سارا میدان ٹھہرنے کی جگہ ہے، عرفات سے بھی اٹھو اور مزدلفہ کی کل حد بھی ٹھہرنے کی جگہ ہے ہاں وادی محسر نہیں، مسند احمد کی اس حدیث میں اس کے بعد ہے کہ مکہ شریف کی تمام گلیاں قربانی کی جگہ ہیں اور ایام تشریق سب کے سب قربانی کے دن ہیں، لیکن یہ حدیث بھی منقطع ہے اس لئے کہ سلیمان بن موسیٰ رشدق نے جبیر بن مطعم کو نہیں پایا لیکن اس کی اور سندیں بھی ہیں واللہ اعلم۔ پھر ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو جیسے کہ اس نے تمہیں ہدایت دی ہے کہ احکام حج وضاحت کے ساتھ بیان فرما دئیے اور خلیل اللہ کی اس سنت کو واضح کردیا۔ حالانکہ اس سے پہلے تم اس سے بیخبر تھے، یعنی اس ہدایت سے پہلے، اس قرآن سے پہلے، اس رسول سے پہلے، فی الواقع ان تینوں باتوں سے پہلے دنیا گمراہی میں تھی۔ فالحمدللہ۔