وَلِلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَاَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ ۗ اِنَّ اللّٰهَ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں جس طرف بھی تم رخ کرو گے، اسی طرف اللہ کا رخ ہے اللہ بڑی وسعت والا اور سب کچھ جاننے والا ہے
English Sahih:
And to Allah belongs the east and the west. So wherever you [might] turn, there is the Face of Allah. Indeed, Allah is all-Encompassing and Knowing.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں جس طرف بھی تم رخ کرو گے، اسی طرف اللہ کا رخ ہے اللہ بڑی وسعت والا اور سب کچھ جاننے والا ہے
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اور پورب و پچھم سب اللہ ہی کا ہے تو تم جدھر منہ کرو ادھر وجہ اللہ (خدا کی رحمت تمہاری طرف متوجہ) ہے بیشک اللہ وسعت والا علم والا ہے،
احمد علی Ahmed Ali
اورمشرق اور مغرب الله ہی کا ہے سو تم جدھر بھی رخ کرو ادھر ہی الله کا رخ ہے بے شک الله وسعت ولا جاننے والا ہے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
اور مشرق اور مغرب کا مالک اللہ ہی ہے۔ تم جدھر بھی منہ کرو ادھر ہی اللہ کا منہ ہے (١) اللہ تعالٰی کشادگی اور وسعت والا اور بڑے علم والا ہے۔
١١٥۔ ہجرت کے بعد جب مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے تو مسلمانوں کو اس کا رنج تھا، اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی جب بیت المقدس سے پھر خانہ کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم ہوا تو یہودیوں نے طرح طرح کی باتیں بنائیں، بعض کے نزدیک اس کے نزول کا سبب سفر میں سواری پر نفل نماز پڑھنے کی اجازت ہے کہ سواری کا منہ کدھر بھی ہو، نماز پڑھ سکتے ہو۔ کبھی چند اسباب جمع ہو جاتے ہیں اور ان سب کے حکم کے لئے ایک ہی آیت نازل ہو جاتی ہے۔ ایسی آیتوں کی شان نزول میں متعدد روایات مروی ہوتی ہیں، کسی روایت میں ایک سبب نزول کا بیان ہوتا ہے اور کسی میں دوسرے کا۔ یہ آیت بھی اسی قسم کی ہے۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
اور مشرق اور مغرب سب خدا ہی کا ہے۔ تو جدھر تم رخ کرو۔ ادھر خدا کی ذات ہے۔ بے شک خدا صاحبِ وسعت اور باخبر ہے
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
اور مشرق اور مغرب کا مالک اللہ ہی ہے۔ تم جدھر بھی منھ کرو ادھر ہی اللہ کا منھ ہے، اللہ تعالیٰ کشادگی اور وسعت واﻻ اور بڑے علم واﻻ ہے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
اور مشرق و مغرب (پورب و پچھم) سب اللہ کے ہی ہیں سو تم جدھر بھی رخ کرو ادھر ہی اللہ کی ذات موجود ہے یقینا اللہ بڑی وسعت والا، بڑا علم والا ہے۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اللہ کے لئے مشرق بھی ہے اور مغرب بھی لہٰذا تم جس جگہ بھی قبلہ کا رخ کرلو گے سمجھو وہیں خدا موجود ہے وہ صاحبِ وسعت بھی ہے اور صاحبِ علم بھی ہے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
اور مشرق و مغرب (سب) اللہ ہی کا ہے، پس تم جدھر بھی رخ کرو ادھر ہی اللہ کی توجہ ہے (یعنی ہر سمت ہی اللہ کی ذات جلوہ گر ہے)، بیشک اللہ بڑی وسعت والا سب کچھ جاننے والا ہے،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
کعبہ صرف علامت وحدت و سمت ہے اللہ کا جمال و جلال غیر محدود ہے
اس آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ان اصحاب کو تسلی دی جاری ہے جو مکہ سے نکالے گئے اور اپنی مسجد سے روکے گئے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ شریف میں نماز بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھتے تو کعبتہ اللہ بھی سامنے ہی ہوتا تھا جب مدینہ تشریف لائے تو سولہ سترہ ماہ تک تو ادھر ہی نماز پڑھتے رہے مگر پھر اللہ تعالیٰ نے کعبتہ اللہ کی طرف متوجہ ہونے کا حکم دیا امام ابو عبیدہ قاسم بن سلام نے اپنی کتاب ناسخ منسوخ میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ قرآن میں سب سے پہلا منسوخ حکم یہی قبلہ کا حکم ہے للہ المشرق والی آیت نازل ہوئی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھنے لگے پھر آیت (وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ) 2 ۔ البقرۃ ;149) نازل ہوئی اور آپ نے بیت اللہ کی طرف متوجہ ہو کر نماز ادا کرنی شروع کی، مدینہ میں جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے لگے تو یہود بہت خوش ہوئے لیکن جب یہ حکم چند ماہ کے بعد منسوخ ہوا اور آپ کو اپنی چاہت، دعا اور انتظار کے مطابق کعبتہ اللہ کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا تو ان یہودیوں نے طعنے دینے شروع کردیئے کہ اب اس قبلہ سے کیوں ہٹ گئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ مشرق و مغرب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے پھر یہ اعتراض کیا ؟ جدھر اس کا حکم ہو پھرجانا چاہئے حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ مشرق مغرب میں جہاں کہیں بھی ہو منہ کعبہ کی طرف کرو، بعض بزرگوں کا بیان ہے کہ یہ آیت کعبہ کی طرف متوجہ ہونے کے حکم سے پہلے اتری ہے اور مطلب یہ ہے کہ مشرق مغرب جدھر چاہو منہ پھیرو سب جہتیں اللہ کی ہیں اور سب طرف اللہ موجود ہے اس سے کوئی جگہ خالی نہیں جیسے فرمایا آیت (وَلَآ اَدْنٰى مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْثَرَ اِلَّا هُوَ مَعَهُمْ اَيْنَ مَا كَانُوْا) 58 ۔ المجادلہ ;7) تھوڑے بہت جو بھی ہوں اللہ ان کے ساتھ ہے پھر یہ حکم منسوخ ہو کر کعبتہ اللہ کی طرف متوجہ ہونا فرض ہوا۔ اس قول میں جو یہ لفظ ہیں کہ اللہ سے کوئی جگہ خالی نہیں اگر اس سے مراد علم اللہ ہو تو صحیح ہے کوئی مکان اللہ کے علم سے خالی نہیں اور اگر ذات باری مراد ہو تو ٹھیک نہیں اللہ تعالیٰ کی پاک ذات اس سے بہت بلند وبالا ہے کہ وہ اپنی مخلوق میں سے کسی چیز میں محصور ہو ایک مطلب آیت کا یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ یہ آیت سفر اور رہ روی اور خوف کے وقت کے لئے ہے کہ ان وقتوں میں نفل نماز کو جس طرف منہ ہو ادا کرلیا کرو۔ حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ ان کی اونٹنی کا منہ جس طرح ہوتا تھا نماز پڑھ لیتے تھے اور فرماتے تھے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا طریقہ یہی تھا اور اس آیت کا مطلب بھی یہی ہے آیت کا ذکر کئے بغیر یہ حدیث مسلم ترمذی نسائی ابن ابی حاتم ابن مردویہ وغیرہ میں مروی ہے اور اصل اس کی صحیح بخاری صحیح مسلم میں بھی موجود ہے صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ابن عمر سے جب نماز خوف کے بارے میں پوچھا جاتا تو نماز خوف کو بیان فرماتے اور کہتے کہ جب اس سے بھی زیادہ خوف ہو تو پیدل اور سوار کھڑے پڑھ لیا کرو منہ خواہ قبلہ کی جانب ہو خواہ نہ ہو حضرت نافع کا بیان ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر میرے خیال سے اسے مرفوع بیان کرتے تھے۔ امام شافعی کا مشہور فرمان اور امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ سفر خواہ پر امن ہو خواہ خوف ڈر اور لڑائی کا ہو سواری پر نفل ادا کرلینے جائز ہیں امام مالک اور آپ کی جماعت اس کے خلاف ہے۔ امام ابو یوسف اور ابو عسید اصطخری بغیر سفر کے بھی اسے جائز کہتے ہیں حضرت انس سے بھی یہ روایت ہے امام ابو جعفر طبری بھی اسے پسند فرماتے ہیں یہاں تک کہ وہ تو پیدل چلنے والے کو بھی رخصت دیتے ہیں بعض اور مفسرین کے نزدیک یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہیں قبلہ معلوم نہ ہوسکا اور انہوں نے قیاس سے مختلف جہتوں کی طرف نماز پڑھی جس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ان کی وہ نماز ادا شدہ بتائی گئی حضرت ربیعہ فرماتے ہیں ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک سفر میں تھے ایک منزل پر اترے رات اندھیری تھی لوگوں نے پتھر لے لے کر بطور نشان کے قبلہ رخ رکھ کر نماز پڑھنی شروع کردی صبح اٹھ کر روشنی میں دیکھا تو نماز قبلہ کی طرف ادا نہیں ہوئی تھی، ہم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ذکر کیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی، یہ حدیث ترمذی شریف میں ہے امام صاحب نے اسے حسن کہا ہے اس کے دو راوی ضعیف ہیں ایک اور روایت میں ہے کہ اس وقت گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا تھا اور ہم نے نماز پڑھ کر اپنے اپنے سامنے خط کھینچ دیئے تھے تاکہ صبح روشنی میں معلوم ہوجائے کہ نماز قبلہ کی طرف ادا ہوئی یا نہیں ؟ صبح معلوم ہوا کہ قبلہ جاننے میں ہم نے غلطی کی لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں وہ نماز لوٹانے کا حکم نہیں دیا اور یہ آیت نازل ہوئی اس روایت کے بھی دو راوی ضعیف ہیں یہ روایت دار قطنی وغیرہ میں موجود ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ ان کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ تھے یہ بھی سنداً ضعیف ہے ایسی نماز کے لوٹانے کے بارے میں علماء کے دو قول میں سے ٹھیک قول یہی ہے کہ دوہرائی نہ جائے اور اسی قول کی تائید کرنے والی یہ حدیثیں ہیں جو اوپر بیان ہوئیں۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اس کے نازل ہونے کا باعث نجاشی ہے جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی موت کی خبر دی اور کہا ان کے جنازہ کی غائبانہ نماز پڑھو تو بعض نے کہا کہ وہ تو مسلمان نہ تھا نصرانی تھا اس پر آیت نازل ہوئی کہ آیت (وَاِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ ۚ وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكُوْنُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا) 4 ۔ النسآء ;159) یعنی بعض اہل کتاب اللہ تعالیٰ پر اور اس چیز پر جو اے مسلمانو تمہاری طرف نازل ہوئی اور اس چیز پر جو ان پر نازل کی گئی ایمان لاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہتے ہیں صحابہ نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ قبلہ کی طرف تو نماز نہیں پڑھتا تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی لیکن یہ روایت غریب ہے واللہ اعلم۔ اس کے معنی یہ بھی کئے گئے ہیں کہ وہ بیت المقدس کی طرف اس لئے نمازیں پڑھتے رہے کہ انہیں اس کے منسوخ ہوجانے کا علم نہیں ہوا تھا، قرطبی فرماتے ہیں ان کے جنازے کی نماز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پڑھی اور یہ دلیل ہے کہ جنازے کی نماز غائبانہ ادا کرنی چاہئے اور اس کے نہ ماننے والے اس حکم کو مخصوص جانتے ہیں اور اس کی تین تاویلیں کرتے ہیں ایک تو یہ کہ آپ نے اس کے جنازے کو دیکھ لیا زمین آپ کے لئے سمیٹ لی گئی تھی، دوسری یہ کہ چونکہ وہاں ان کے پاس ان کے جنازہ کی نماز پڑھنے والا اور کوئی نہ تھا اس لئے آپ نے یہاں غائبانہ ادا کی ابن عربی اسی جواب کو پسند کرتے ہیں قرطبی کہتے ہیں کہ یہ ناممکن ہے کہ ایک بادشاہ مسلمان ہو اور اس کی قوم کا کوئی شخص اس کے پاس مسلمان نہ ہو، ابن عربی اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ شاید ان کے نزدیک جنازے کی نماز ان کی شریعت میں نہ ہو، یہ جواب بہت اچھا ہے، تیسری یہ کہ نماز آپ نے اس لئے ادا کی کہ دوسرے لوگوں کی رغبت کا سبب ہو اور اس جیسے دوسرے بادشاہ بھی دین اسلام کی طرف مائل ہوں (لیکن یہ تینوں تاویلیں ظاہر کے خلاف ہونے کے علاوہ صرف احتمالات کی بنا پر ہیں اور انہیں مان لینے کے بعد بھی مسئلہ وہیں رہتا ہے کیا جنازہ غائبانہ پڑھنا چاہئے کیونکہ گو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس جنازے کا مشاہدہ کرلیا لیکن صحابہ کی نماز تو غائبانہ ہی رہی۔ اگر ہم دوسرا جواب مان لیں تو بھی جنازہ تو غائبانہ نہ ہی ہوا جو لوگ سرے سے نماز جنازہ غائبانہ کے قائل ہی نہیں وہ تو اس صورت میں بھی قائل نہیں ہیں اور یہ بات تو دل کو لگتی ہی نہیں کہ ان کے نزدیک نماز جنازہ شروع نہ ہو شریعت ان کی بھی اسلام ہی تھی نہ کہ کوئی اور تیسرا جواب بھی کچھ ایسا ہی ہے اور بر تقدیر تسلیم اب بھی وہ وجہ باقی ہے کہ جنازہ غائبانہ ادا کیا کریں تاکہ دوسرے لوگوں کی رغبت اسلام کا باعث ہو واللہ اعلم۔ مترجم) ابن مردویہ میں حدیث ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اہل مدینہ اہل شام اہل عراق کا قبلہ مشرق و مغرب کے درمیان ہے یہ روایت ترمذی میں بھی دوسرے الفاظ سے مروی ہے اور اس کے ایک راوی ابو معشر کے حافظہ پر بعض اہل علم نے کلام کیا ہے امام ترمذی نے اسے ایک اور سند سے بھی وارد کیا ہے اور اسے حسن صحیح کہا ہے حضرت عمر بن خطاب علی ابن ابو طالب حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے بھی یہ مروی ہے حضرت ابن عمر فرماتے ہیں جب تو مغرب کو اپنی دائیں جانب اور مشرق کو بائیں جانب کرلے تو تیرے سامنے کی جہت قبلہ ہوجائے گا حضرت عمر سے بھی اوپر کی طرح حدیث مروی ہے کہ مشرق و مغرب کے درمیان قبلہ ہے ملاحظہ ہو دار قطنی بیہقی وغیرہ امام ابن جریر فرماتے ہیں یہ مطلب بھی اس آیت کا ہوسکتا ہے کہ تم مجھ سے دعائیں مانگنے میں اپنا منہ جس طرف بھی کرو میرا منہ بھی اسی طرف پاؤ گے اور میں تمہاری دعاؤں کو قبول فرماؤں گا، حضرت مجاہد سے مروی ہے کہ جب یہ آیت (ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ) 40 ۔ غافر ;60) مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا اتری تو لوگوں نے کہا کس طرف رخ کر کے دعا کریں اس کے جواب میں آیت (فَاَيْنَـمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ ) 2 ۔ البقرۃ ;115) نازل ہوئی پھر فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام وسعتوں پر غالب، گنجائش والا اور علم والا ہے جس کی کفایت سخاوت اور فضل و کرم نے تمام مخلوق کا احاطہ کر کھا ہے وہ سب چیزوں کو جانتا بھی ہے کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی اس کے علم سے باہر نہیں بلکہ وہ تمام چیزوں کا عالم ہے۔