فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا ۙ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
پھر ان کے بعد وہ ناخلف لوگ ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو ضائع کیا اور خواہشاتِ نفس کی پیروی کی، پس قریب ہے کہ وہ گمراہی کے انجام سے دوچار ہوں
English Sahih:
But there came after them successors [i.e., later generations] who neglected prayer and pursued desires; so they are going to meet evil –
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
پھر ان کے بعد وہ ناخلف لوگ ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو ضائع کیا اور خواہشاتِ نفس کی پیروی کی، پس قریب ہے کہ وہ گمراہی کے انجام سے دوچار ہوں
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
تو ان کے بعد ان کی جگہ وہ ناخلف آئے جنہوں نے نمازیں گنوائیں اور اپنی خواہشوں کے پیچھے ہوئے تو عنقریب وہ دوزخ میں غی کا جنگل پائیں گے
احمد علی Ahmed Ali
پھر ان کی جگہ ایسے ناخلف آئے جنہو ں نے نماز ضائع کی اور خواہشوں کے پیچھے پڑ گئے پھر عنقریب گمراہی کی سزا پائیں گے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
پھر ان کے بعد ایسے اطاعت نہ کرنے والے پیدا ہوئے کہ انہوں نے نماز ضائع کر دی اور نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑ گئے، سو ان کا نقصان ان کے آگے آئے گا (١)
٥٩۔١ انعام یافتہ بندگان الٰہی کا تذکرہ کرنے کے بعد ان لوگوں کا ذکر کیا جا رہا ہے، جو ان کے برعکس اللہ کے احکام سے غفلت واعراض کرنے والے ہیں۔ نماز ضائع کرنے سے مراد یا تو بالکل نماز کا ترک ہے جو کفر ہے یا ان کے اوقات کو ضائع کرنا ہے یعنی وقت پر نماز نہ پڑھنا، جب جی چاہا، نماز پڑھ لی، یا بلا عذر اکٹھی کر کے پڑھنا کبھی دو، کبھی چار، کبھی ایک اور کبھی پانچوں نمازیں۔ یہ بھی تمام صورتیں نماز ضائع کرنے کی ہیں جس کا مرتکب سخت گناہ گار اور آیت میں بیان کردہ وعید کا سزاوار ہو سکتا ہے۔ غیا کے معنی ہلاکت، انجام بد کے ہیں یا جہنم کی ایک وادی کا نام ہے۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
پھر ان کے بعد چند ناخلف ان کے جانشیں ہوئے جنہوں نے نماز کو (چھوڑ دیا گویا اسے) کھو دیا۔ اور خواہشات نفسانی کے پیچھے لگ گئے۔ سو عنقریب ان کو گمراہی (کی سزا) ملے گی
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
پھر ان کے بعد ایسے ناخلف پیدا ہوئے کہ انہوں نے نماز ضائع کردی اور نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑ گئے، سو ان کا نقصان ان کے آگے آئے گا
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
پھر ان کے بعد کچھ وہ ناخلف ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نمازوں کو ضائع کیا اور خواہشات کی پیروی کی پس وہ عنقریب گمراہی (کے انجام) سے دوچار ہوں گے۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پھر ان کے بعد ان کی جگہ پر وہ لوگ آئے جنہوں نے نماز کو برباد کردیا اور خواہشات کا اتباع کرلیا پس یہ عنقریب اپنی گمراہی سے جاملیں گے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
پھر ان کے بعد وہ ناخلف جانشین ہوئے جنہوں نے نمازیں ضائع کردیں اور خواہشاتِ (نفسانی) کے پیرو ہوگئے تو عنقریب وہ آخرت کے عذاب (دوزخ کی وادئ غی) سے دوچار ہوں گے،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
حدود الہٰی کے محافظ۔
نیک لوگوں کا خصوصا انبیاء کرام (علیہم السلام) کا ذکر کیا جو حدود الہٰی کے محافظ، نیک اعمال کے نمونے بدیوں سے بچتے ہیں۔ اب برے لوگوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ ان کے بعد کے زمانے والے ایسے ہوئے کہ وہ نمازوں تک سے بےپرواہ بن گئے اور جب نماز جیسے فریضے کی اہمیت کو بھلا بیٹھے تو ظاہر ہے کہ اور واہیات کی وہ کیا پرواہ کریں گے ؟ کیونکہ نماز تو دین کی بنیاد ہے اور تمام اعمال سے افضل وبہتر ہے۔ یہ لوگ نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑگئے دنیا کی زندگی پر اطمینان سے ریجھ کئے انہیں قیامت کے دن سخت خسارہ ہوگا بڑے گھاٹے میں رہیں گے۔ نماز کے ضائع کرنے سے مراد یا تو اسے بالکل ہی چھوڑنا بیٹھنا ہے۔ اسی لئے امام احمد (رح) اور بہت سے سلف خلف کا مذہب ہے کہ نماز کا تارک کافر ہے۔ یہی ایک قول حضرت امام شافعی (رح) کا بھی ہے کیونکہ حدیث میں ہے کہ بندے اور شرک کے درمیان نماز کا چھوڑنا ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ ہم میں اور ان میں فرق نماز کا ہے جس نے نماز چھوڑ دی وہ کافر ہوگیا۔ اس مسئلہ کو تقصیل سے بیان کرنے کا یہ مقام نہیں۔ یا نماز کے ترک سے مراد نماز کے وقتوں کی صحیح طور پر پابندی کا نہ کرنا ہے کیونکہ ترک نماز تو کفر ہے۔ حضرت ابن مسعود (رض) سے دریافت کیا گیا کہ قرآن کریم میں نماز کا ذکر بہت زیادہ ہے، کہیں نمازوں میں سستی کرنے والوں کے عذاب کا بیان ہے، کہیں نماز کی مداوت کا فرمان ہے، کہیں محافظت کا۔ آپ نے فرمایا ان سے مراد وقتوں میں سستی نہ کرنا اور وقتوں کی پابندی کرنا ہے۔ لوگوں نے کہا ہم تو سمجھتے تھے کہ اس سے مراد نمازوں کا چھوڑ دینا اور نہ چھوڑنا ہے۔ آپ نے فرمایا یہ تو کفر ہے۔ حضرت مسروق (رح) فرماتے ہیں پانچوں نمازوں کی حفاظت کرنے والا غافلوں میں نہیں لکھا جاتا، ان کا ضائع کرنا اپنے آپ کو ہلاک کرنا ہے اور ان کا ضائع کرنا ان کے وقتوں کی پابندی نہ کرنا ہے۔ خلیفۃ المسلمین امیرالمومنین حضرت عمر بن عبد العزیز (رح) نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا کہ اس سے مراد سرے سے نماز چھوڑ دینا نہیں بلکہ نماز کے وقت کو ضائع کردینا ہے۔ حضرت مجاہد (رح) فرماتے ہیں یہ بدترین لوگ قریب بہ قیامت آئیں گے جب کہ اس امت کے صالح لوگ باقی نہ رہے ہوں گے اس وقت یہ لوگ جانوروں کی طرح کودتے پھاندتے پھریں گے۔ عطابن ابو رباح (رح) یہی فرماتے ہیں کہ یہ لوگ آخری زمانے میں ہوں گے۔ حضرت مجاہد (رح) فرماتے ہیں یہ اس امت کے لوگ ہوں گے جو چوپایوں اور گدھوں کی مانند راستوں میں اچھل کود کریں گے اور اللہ تعالیٰ سے جو آسمان میں ہے بالکل نہ ڈریں گے اور نہ لوگوں سے شرمائیں گے ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ ناخلف لوگ ساٹھ سال کے بعد ہوں گے جو نمازوں کو ضائع کردیں گے اور شہوت رانیوں میں لگ جائیں گے اور قیامت کے دن خمیازہ بھگتیں گے۔ پھر ان کے بعد وہ نالائق لوگ آئیں گے جو قرآن کی تلاوت تو کریں گے لیکن ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا۔ یاد رکھو قاری تین قسم کے ہوتے ہیں مومن منافق اور فاجر۔ راوی حدیث حضرت ولید سے جب ان کے شاگرد نے اس کی تفصیل پوچھی تو آپ نے فرمایا ایماندار تو اس کی تصدیق کریں گے۔ نفاق والے اس پر عقیدہ نہ رکھیں گے اور فاجر اس سے اپنی شکم پری کرے گا۔ ابن ابی حاتم کی ایک غریب حدیث میں ہے کہ حضرت مائی عائشہ (رض) اصحاب صفہ کے لیے جب کچھ خیرات بھجواتیں تو کہہ دیتیں کہ بربری مرد و عورت کو نہ دینا کیونکہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ یہی وہ ناخلف ہیں جن کا ذکر اس آیت میں ہے۔ محمد بن کعب قرظی کا فرمان ہے کہ مراد اس سے مغرب کے بادشاہ ہیں جو بدترین بادشاہ ہیں۔ حضرت کعب بن احبار (رح) فرماتے ہیں اللہ کی قسم میں منافقوں کے وصف قرآن کریم میں پاتا ہوں۔ یہ نشے پینے والے، نمازیں چھوڑنے والے، شطرنج چوسر وغیرہ کھیلنے والے، عشا کی نمازوں کے وقت سو جانے والے، کھانے پینے میں مبالغہ اور تکلف کرکے پیٹو بن کر کھانے والے، جماعتوں کو چھوڑنے والے۔ حضرت حسن بصری (رح) فرماتے ہیں مسجدیں ان لوگوں سے خالی نظر آتی ہیں اور بیٹھکیں بارونق بنی ہوئی ہیں۔ ابو شہب عطا رومی (رح) فرماتے ہیں حضرت داؤد (علیہ السلام) پر وحی آئی کہ اپنے ساتھیوں کو ہوشیار کر دے کہ وہ اپنی نفسانی خواہشوں سے باز رہیں جن کے دل خواہشوں کے پھیر میں رہتے ہیں، میں ان کی عقلوں پر پردہ ڈال دیتا ہوں جب کوئی بندہ شہوت میں اندھا ہوجاتا ہے تو سب سے ہلکی سزا میں اسے یہ دیتا ہوں کہ اپنی اطاعت سے اسے محروم کردیتا ہوں۔ مسند احمد میں ہے مجھے اپنی امت میں دو چیزوں کا بہت ہی خوف ہے ایک تو یہ کہ لوگ جھوٹ کے اور بناؤ کے اور شہوت کے پیچھے پڑجائیں گے اور نمازوں کو چھوڑ بیٹھیں گے، دوسرے یہ کہ منافق لوگ دنیا دکھاوے کو قرآن کے عامل بن کر سچے مومنوں سے لڑیں جھگڑیں گے۔ غیا کے معنی خسران اور نقصان اور برائی کے ہیں۔ ابن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ غی جہنم کی ایک وادی کا نام ہے جو بہت گہری ہے اور نہایت سخت عذابوں والی۔ اس میں خون پیپ بھرا ہوا ہے۔ ابن جریر میں ہے لقمان بن عامر فرماتے ہیں میں حضرت ابو امامہ صدی بن عجلان باہلی (رض) کے پاس گیا اور ان سے التماس کی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہوئی حدیث مجھے سنائیں۔ آپ نے فرمایا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ اگر دس اوقیہ کے وزن کا کوئی پتھر جہنم کے کنارے سے جہنم میں پھنکا جائے تو وہ پچاس سال تک تو جہنم کی تہ میں نہیں پہنچ سکتا۔ پھر وہ غی اور اثام میں پہنچے گا۔ غی اور اثام جہنم کے نیچے کے دو کنویں ہیں جہاں دوزخیوں کا لہو پیپ جمع ہوتا ہے۔ غی کا ذکر آیت ( فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا 59ۙ ) 19 ۔ مریم ;59) میں ہے اور اثام کا ذکر آیت (وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا 68ۙ ) 25 ۔ الفرقان ;68) میں ہے اس حدیث کو فرمان رسول سے روایت کرنا منکر ہے اور یہ حدیث کی رو سے بھی غریب ہے۔ پھر فرماتا ہے ہاں جو ان کاموں سے توبہ کرلے یعنی نمازوں کی سستی اور خواہش نفسانی کی پیروی چھوڑ دے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ کو قبول فرمالے گیا اس کی عاقبت سنوار دے گا اسے جہنم سے بچا کر جنت میں پہنچائے گا، توبہ اپنے سے پہلے کے تمام گناہوں کو معاف کرا دیتی ہے۔ اور حدیث میں ہے کہ توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے بےگناہ۔ یہ لوگ جو نیکیاں کریں ان کے اجر انہیں ملیں گے کسی ایک نیکی کا ثواب کم نہ ہوگا۔ توبہ سے پہلے کے گناہوں پر کوئی پکڑ نہ ہوگی۔ یہ ہے کرم اس کریم کا اور یہ ہے حلم اس حلیم کا کہ توبہ کے بعد اس گناہ کو بالکل مٹا دیتا ہے ناپید کردیتا ہے۔ سورة فرقان میں گناہوں کا ذکر فرما کر ان کی سزاؤں کا بیان کر کے پھر استثنا کیا اور فرمایا کہ اللہ غفور ورحیم ہے۔